فضائل ومسائل قربانی
’’جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘ (ابن ماجہ)
'' قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے۔'' (ترمذی)
''جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔'' (ابن ماجہ)
جو لوگ قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود اپنی قربانی واجب نہیں کرتے، ان کے لیے لمحۂ فکر ہے، اوّل یہی نقصان کیا کم تھا کہ قربانی نہ کرنے سے اتنے بڑے ثواب سے محروم ہوگئے، مزید یہ کہ وہ گناہ گار اور جہنم کے حق دار بھی ہیں۔
فتاویٰ امجدیہ میں ہے: '' اگر کسی پر قربانی واجب ہے اور اس وقت اس کے پاس روپے نہیں ہیں تو قرض لے کر یا کوئی چیز فروخت کرکے قربانی کرے۔''
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''انسان بقرہ عید کے دن کوئی ایسی نیکی نہیں کرتا جو اﷲ عزوجل کو خون بہانے سے زیادہ پیاری ہو، یہ قربانی قیامت میں اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے لہٰذا خوش دلی سے قربانی کرو۔'' (ترمذی)
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: '' قربانی اپنے کرنے والے کے نیکیوں کے پلڑے میں رکھی جائے گی جس سے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا۔''
علامہ علی قاریؒ فرماتے ہیں: ''پھر اس کے لیے سواری بنے گی جس کے ذریعے یہ شخص بہ آسانی پل صراط سے گزرے گا اور اس (جانور) کا ہر عضو مالک (قربانی پیش کرنے والے) کے ہر عضو (کے لیے جہنم سے آزادی) کا فدیہ بنے گا۔''
ہر بالغ، مقیم مسلمان مرد و عورت، مالک نصاب پر قربانی واجب ہے۔ مالک نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی یا اتنی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیت کا حاجت اصلیہ کے علاوہ سامان ہو اور اس پر اﷲ عزوجل یا بندوں کا اتنا قرض نہ ہو جسے ادا کردہ ذکر کردہ نصاب باقی نہ رہے۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ حاجت اصلیہ (ضروریاتِ زندگی) سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی عموماً انسان کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر گزر اوقات میں شدید تنگی و دشواری ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر، پہننے کے کپڑے، سواری، علم دین سے متعلق کتابیں اور پیشے سے متعلق اوزار وغیرہ۔ اگر ''حاجت اصلیہ'' کی تعریف پیش نظر رکھی جائے تو بہ خوبی معلوم ہوگا کہ ہمارے گھروں میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں کہ جو حاجت اصلیہ میں داخل نہیں چناں چہ اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر پہنچ گئی تو قربانی واجب ہوگئی۔
''مال اور دیگر شرائط قربانی کے ایام (یعنی 10ذوالحجہ کی صبح صادق سے لے کر 12 ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب تک) میں پائے جائیں جبھی قربانی واجب ہوگی، اس کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی ''بہارِ شریعت'' میں فرماتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ دسویں ہی کو قربانی کر ڈالے، اس کے لیے گنجائش ہے کہ پورے وقت میں جب چاہے کرے۔
لہٰذا اگر ابتدائے وقت میں (10ذوالحجہ کی صبح) اس کا اہل نہ تھا، وجوب کے شرائط نہیں پائے جاتے تھے اور آخر وقت میں (یعنی 12 ذوالحجہ کو غروبِ آفتاب سے پہلے) اہل ہوگیا یعنی وجوب کے شرائط پائے گئے تو اس پر قربانی واجب ہوگئی اور اگر ابتدائے وقت میں واجب تھی اور ابھی (قربانی) نہیں کی اور آخر وقت میں شرائط جاتے رہے تو (قربانی) واجب نہ رہی۔'' (عالمگیری)
بعض لوگ پورے گھر کی طرف سے صرف ایک بکرا قربان کرتے ہیں حالاں کہ بعض اوقات گھر کے کئی افراد صاحب ِ نصاب ہوتے ہیں اور اس بناء پر ان سب پر قربانی واجب ہوتی ہے ان سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کی جائے۔ ایک بکرا جو سب کی طرف سے کیا گیا کسی کا بھی واجب ادا نہ ہوا کہ بکرے میں ایک سے زیادہ حصے نہیں ہوسکتے، کسی ایک طے شدہ فرد ہی کی طرف سے بکرا قربان ہوسکتا ہے۔
گائے (بھینس) اور اونٹ میں سات قربانیاں ہو سکتی ہیں۔ نابالغ کی طرف سے اگرچہ واجب نہیں مگر کر دینا بہتر ہے (اور اجازت بھی ضروری نہیں)۔ بالغ اولاد یا زوجہ کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو ان سے اجازت طلب کرے اگر ان سے اجازت لیے بغیر کر دی تو ان کی طرف سے واجب ادا نہیں ہو گا۔
(عالمگیری) اجازت دو طرح سے ہوتی ہے: صراحۃً : مثلاً ان میں سے کوئی واضح طور پر کہہ دے کہ میری طرف سے قربانی کردو۔ دولۃً: مثلاً یہ اپنی زوجہ یا اولاد کی طرف سے قربانی کرتا ہے اور انہیں اس کا علم ہے اور وہ راضی ہیں۔ (فتاویٰ اہل سنّت)
قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے، کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مثلاً بہ جائے قربانی کے بکرا یا اس کی قیمت صدقہ (خیرات) کر دی جائے یہ ناکافی ہے۔ (عالمگیری)
قربانی کے جانور کی عمر' اونٹ پانچ سال کا، گائے دو سال کی، بکرا (اس میں بکری، دنبہ، دنبی اور بھیر نر و مادہ دونوں شامل ہیں) ایک سال کا۔ اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں، زیادہ ہو تو جائز بل کہ افضل ہے۔
ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھے مہینے کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ یاد رکھیے! مطلقاً چھے ماہ کے دنبے کی قربانی جائز نہیں، اس کا اتنا فربہ (یعنی تگڑا) اور قدآور ہونا ضروری ہے کہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے۔
اگر چھے ماہ بل کہ سال میں ایک دن بھی کم عمر کا دنبے یا بھیڑ کا بچہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا نہیں لگتا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی، قربانی کا جانور بے عیب ہونا ضروری ہے۔ اگر تھوڑا سا عیب (مثلاً کان میں چیرا یا سوراخ ہو) تو قربانی مکروہ ہوگی اور زیادہ عیب ہو تو قربانی نہیں ہوگی۔
(بہارِ شریعت)
ایسا پاگل جانور جو چرتا نہ ہو، اتنا کم زور کہ ہڈیوں میں مغز نہ رہا، (اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دبلے پن کی وجہ سے کھڑا نہ ہو سکے) اندھا یا ایسا کانا جس کا کاناپن ظاہر ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو (یعنی جو بیماری کی وجہ سے چارہ نہ کھائے) ایسا لنگڑا جو خود اپنے پاؤں سے قربان گاہ تک نہ جا سکے۔
جس کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو، وحشی (یعنی جنگلی) جانور جیسے نیل گائے، جنگلی بکرا یا خنثی جانور (یعنی جس میں نر و مادہ دونوں کی علامتیں ہوں) یا جلالہ جو صرف غلیظ کھاتا ہو یا جس کا ایک پاؤں کاٹ لیا گیا ہو، کان، دم یا چکی ایک تہائی سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں، ناک کٹی ہوئی ہو، دانت نہ ہوں (یعنی جھڑ گئے ہوں)، تھن کٹے ہوئے ہوں یا خشک ہوں، ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔ بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا اور گائے، بھینس میں دو کا خشک ہونا ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے۔ (درمختار)
جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں، اس کی قربانی جائز ہے اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گئے، اگر جڑ سمیت ٹوٹے ہیں تو قربانی نہ ہوگی اور صرف اوپر سے ٹوٹے ہیں جڑ سلامت ہے تو ہو جائے گی۔
قربانی کرتے وقت جانور اچھلا کودا جس کی وجہ سے عیب پیدا ہوگیا یہ عیب مضر نہیں یعنی قربانی ہو جائے گی اور اگر اچھلنے کودنے سے عیب پیدا ہوگیا اور وہ چھوٹ کر بھاگ گیا اور فوراً پکڑ کر لایا گیا اور ذبح کر دیا گیا جب بھی قربانی ہو جائے گی۔
(بہار شریعت)
بہتر ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے جب کہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور اگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو ذبح کرنے کا حکم دے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی وہاں حاضر ہو۔ (عالمگیری) قربانی کی اور اس کے پیٹ میں سے زندہ بچہ نکلا تو اسے بھی ذبح کردے اور اسے (یعنی بچے کا گوشت) کھایا جا سکتا ہے اور مرا ہوا بچہ ہو تو اسے پھینک دے کہ مردار ہے۔ (قربانی ہو گئی اور اس مرے ہوئے بچے کی ماں کا گوشت کھا سکتے ہیں)۔ (بہ حوالہ: بہارِ شریعت)
''جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔'' (ابن ماجہ)
جو لوگ قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود اپنی قربانی واجب نہیں کرتے، ان کے لیے لمحۂ فکر ہے، اوّل یہی نقصان کیا کم تھا کہ قربانی نہ کرنے سے اتنے بڑے ثواب سے محروم ہوگئے، مزید یہ کہ وہ گناہ گار اور جہنم کے حق دار بھی ہیں۔
فتاویٰ امجدیہ میں ہے: '' اگر کسی پر قربانی واجب ہے اور اس وقت اس کے پاس روپے نہیں ہیں تو قرض لے کر یا کوئی چیز فروخت کرکے قربانی کرے۔''
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''انسان بقرہ عید کے دن کوئی ایسی نیکی نہیں کرتا جو اﷲ عزوجل کو خون بہانے سے زیادہ پیاری ہو، یہ قربانی قیامت میں اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے لہٰذا خوش دلی سے قربانی کرو۔'' (ترمذی)
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: '' قربانی اپنے کرنے والے کے نیکیوں کے پلڑے میں رکھی جائے گی جس سے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا۔''
علامہ علی قاریؒ فرماتے ہیں: ''پھر اس کے لیے سواری بنے گی جس کے ذریعے یہ شخص بہ آسانی پل صراط سے گزرے گا اور اس (جانور) کا ہر عضو مالک (قربانی پیش کرنے والے) کے ہر عضو (کے لیے جہنم سے آزادی) کا فدیہ بنے گا۔''
ہر بالغ، مقیم مسلمان مرد و عورت، مالک نصاب پر قربانی واجب ہے۔ مالک نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی یا اتنی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیت کا حاجت اصلیہ کے علاوہ سامان ہو اور اس پر اﷲ عزوجل یا بندوں کا اتنا قرض نہ ہو جسے ادا کردہ ذکر کردہ نصاب باقی نہ رہے۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ حاجت اصلیہ (ضروریاتِ زندگی) سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی عموماً انسان کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر گزر اوقات میں شدید تنگی و دشواری ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر، پہننے کے کپڑے، سواری، علم دین سے متعلق کتابیں اور پیشے سے متعلق اوزار وغیرہ۔ اگر ''حاجت اصلیہ'' کی تعریف پیش نظر رکھی جائے تو بہ خوبی معلوم ہوگا کہ ہمارے گھروں میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں کہ جو حاجت اصلیہ میں داخل نہیں چناں چہ اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر پہنچ گئی تو قربانی واجب ہوگئی۔
''مال اور دیگر شرائط قربانی کے ایام (یعنی 10ذوالحجہ کی صبح صادق سے لے کر 12 ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب تک) میں پائے جائیں جبھی قربانی واجب ہوگی، اس کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی ''بہارِ شریعت'' میں فرماتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ دسویں ہی کو قربانی کر ڈالے، اس کے لیے گنجائش ہے کہ پورے وقت میں جب چاہے کرے۔
لہٰذا اگر ابتدائے وقت میں (10ذوالحجہ کی صبح) اس کا اہل نہ تھا، وجوب کے شرائط نہیں پائے جاتے تھے اور آخر وقت میں (یعنی 12 ذوالحجہ کو غروبِ آفتاب سے پہلے) اہل ہوگیا یعنی وجوب کے شرائط پائے گئے تو اس پر قربانی واجب ہوگئی اور اگر ابتدائے وقت میں واجب تھی اور ابھی (قربانی) نہیں کی اور آخر وقت میں شرائط جاتے رہے تو (قربانی) واجب نہ رہی۔'' (عالمگیری)
بعض لوگ پورے گھر کی طرف سے صرف ایک بکرا قربان کرتے ہیں حالاں کہ بعض اوقات گھر کے کئی افراد صاحب ِ نصاب ہوتے ہیں اور اس بناء پر ان سب پر قربانی واجب ہوتی ہے ان سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کی جائے۔ ایک بکرا جو سب کی طرف سے کیا گیا کسی کا بھی واجب ادا نہ ہوا کہ بکرے میں ایک سے زیادہ حصے نہیں ہوسکتے، کسی ایک طے شدہ فرد ہی کی طرف سے بکرا قربان ہوسکتا ہے۔
گائے (بھینس) اور اونٹ میں سات قربانیاں ہو سکتی ہیں۔ نابالغ کی طرف سے اگرچہ واجب نہیں مگر کر دینا بہتر ہے (اور اجازت بھی ضروری نہیں)۔ بالغ اولاد یا زوجہ کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو ان سے اجازت طلب کرے اگر ان سے اجازت لیے بغیر کر دی تو ان کی طرف سے واجب ادا نہیں ہو گا۔
(عالمگیری) اجازت دو طرح سے ہوتی ہے: صراحۃً : مثلاً ان میں سے کوئی واضح طور پر کہہ دے کہ میری طرف سے قربانی کردو۔ دولۃً: مثلاً یہ اپنی زوجہ یا اولاد کی طرف سے قربانی کرتا ہے اور انہیں اس کا علم ہے اور وہ راضی ہیں۔ (فتاویٰ اہل سنّت)
قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے، کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مثلاً بہ جائے قربانی کے بکرا یا اس کی قیمت صدقہ (خیرات) کر دی جائے یہ ناکافی ہے۔ (عالمگیری)
قربانی کے جانور کی عمر' اونٹ پانچ سال کا، گائے دو سال کی، بکرا (اس میں بکری، دنبہ، دنبی اور بھیر نر و مادہ دونوں شامل ہیں) ایک سال کا۔ اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں، زیادہ ہو تو جائز بل کہ افضل ہے۔
ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھے مہینے کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ یاد رکھیے! مطلقاً چھے ماہ کے دنبے کی قربانی جائز نہیں، اس کا اتنا فربہ (یعنی تگڑا) اور قدآور ہونا ضروری ہے کہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے۔
اگر چھے ماہ بل کہ سال میں ایک دن بھی کم عمر کا دنبے یا بھیڑ کا بچہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا نہیں لگتا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی، قربانی کا جانور بے عیب ہونا ضروری ہے۔ اگر تھوڑا سا عیب (مثلاً کان میں چیرا یا سوراخ ہو) تو قربانی مکروہ ہوگی اور زیادہ عیب ہو تو قربانی نہیں ہوگی۔
(بہارِ شریعت)
ایسا پاگل جانور جو چرتا نہ ہو، اتنا کم زور کہ ہڈیوں میں مغز نہ رہا، (اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دبلے پن کی وجہ سے کھڑا نہ ہو سکے) اندھا یا ایسا کانا جس کا کاناپن ظاہر ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو (یعنی جو بیماری کی وجہ سے چارہ نہ کھائے) ایسا لنگڑا جو خود اپنے پاؤں سے قربان گاہ تک نہ جا سکے۔
جس کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو، وحشی (یعنی جنگلی) جانور جیسے نیل گائے، جنگلی بکرا یا خنثی جانور (یعنی جس میں نر و مادہ دونوں کی علامتیں ہوں) یا جلالہ جو صرف غلیظ کھاتا ہو یا جس کا ایک پاؤں کاٹ لیا گیا ہو، کان، دم یا چکی ایک تہائی سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں، ناک کٹی ہوئی ہو، دانت نہ ہوں (یعنی جھڑ گئے ہوں)، تھن کٹے ہوئے ہوں یا خشک ہوں، ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔ بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا اور گائے، بھینس میں دو کا خشک ہونا ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے۔ (درمختار)
جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں، اس کی قربانی جائز ہے اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گئے، اگر جڑ سمیت ٹوٹے ہیں تو قربانی نہ ہوگی اور صرف اوپر سے ٹوٹے ہیں جڑ سلامت ہے تو ہو جائے گی۔
قربانی کرتے وقت جانور اچھلا کودا جس کی وجہ سے عیب پیدا ہوگیا یہ عیب مضر نہیں یعنی قربانی ہو جائے گی اور اگر اچھلنے کودنے سے عیب پیدا ہوگیا اور وہ چھوٹ کر بھاگ گیا اور فوراً پکڑ کر لایا گیا اور ذبح کر دیا گیا جب بھی قربانی ہو جائے گی۔
(بہار شریعت)
بہتر ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے جب کہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور اگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو ذبح کرنے کا حکم دے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی وہاں حاضر ہو۔ (عالمگیری) قربانی کی اور اس کے پیٹ میں سے زندہ بچہ نکلا تو اسے بھی ذبح کردے اور اسے (یعنی بچے کا گوشت) کھایا جا سکتا ہے اور مرا ہوا بچہ ہو تو اسے پھینک دے کہ مردار ہے۔ (قربانی ہو گئی اور اس مرے ہوئے بچے کی ماں کا گوشت کھا سکتے ہیں)۔ (بہ حوالہ: بہارِ شریعت)