ہوشربا مہنگائی عوام کو ریلیف دیا جائے

حکومت نے قومی آمدنی بھی بڑھانی ہے اور معیشت کو بھی ٹھیک کرنا ہے

حکومت نے قومی آمدنی بھی بڑھانی ہے اور معیشت کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔ فوٹو:فائل

قومی بجٹ پیش کیا جاچکا ہے، لیکن بحرانی صورتحال کے پیش نظر حکومت کو اپنی ملکی معاشی ترجیحات کو قومی ضروریات کے مطابق نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا۔

اب حکومت نے قومی آمدنی بھی بڑھانی ہے اور معیشت کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہورہا ہے کیونکہ پی ڈی ایم حکومت خلوص نیت اور تندہی سے کام کر رہی ہے۔ مہنگائی کو کم کرنا حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے اگر بجٹ خسارہ کم ہوجائے تو عوام کو براہ راست ریلیف ملتا ہے کیونکہ اس سے مہنگائی کم ہوتی ہے اور نئے ٹیکسز نہیں لگانے پڑتے۔

روس سے خام تیل کی درآمد کے بعد پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے امکانات روشن ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ایل این جی کی درآمد سے شعبہ توانائی میں جاری بحران پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔

دوسری جانب عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 20 کروڑ ڈالر مالی معاونت کی منظوری دے دی ہے، یہ رقم سیلاب متاثرین کی بحالی و تعمیرنو کے لیے منظور کی گئی ہے، جب کہ یوٹیلیٹی اسٹورزکارپوریشن نے گھی کی فی کلو قیمت میں 60روپے جب کہ کوکنگ آئل کی قیمتوں میں 37 روپے سے 59 روپے تک فی لیٹر تک کمی کی ہے۔ سونے کی قیمت میں 2500 روپے فی تولہ کی کمی، چاندی بھی100روپے فی تولہ سستی ہوگئی۔

گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح میں 38 فیصد تک کا ریکارڈ اضافہ ہوا، حکومت نے آیندہ برس کے لیے مہنگائی کی شرح سے متعلق جو پیشگوئی کی ہے وہ 21 سے 22 فیصد ہے، اگرچہ یہ 38 فیصد سے تو کم ہے مگر مہنگائی کی یہ شرح عوام کے لیے پھر بھی مشکل ہی رہے گی۔

اس وقت مہنگائی کو کم کرنا حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے بجٹ خسارہ کم ہوجائے تو عوام کو براہ راست ریلیف ملتا ہے کیونکہ اس سے مہنگائی کم ہوتی ہے اور نئے ٹیکسز نہیں لگانے پڑتے۔ ہوشربا مہنگائی کے ہاتھوں متوسط طبقہ غریب ہو چکا ہے، تنخواہ دار اور پنشن یافتہ طبقہ بھی غریبوں میں شامل ہو چکا ہے۔ غریب مکمل طور پر پس چکے ہیں۔

ایک تجویز یہ ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں نمایاں کمی کردی جائے کیونکہ اس وقت پاکستان کے پاس وسائل کی دستیابی کا مسئلہ درپیش ہے جب کہ ترقیاتی بجٹ کا بیشتر حصہ ارکان پارلیمنٹ کے ہاتھوں خرچ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں کرپشن کا بازار گرم رہا ہے۔ آج پاکستان ایک پائی کی کرپشن کا بھی متحمل نہیںہو سکتا۔

ویسے بھی ارکان پارلیمنٹ کی ٹرم پوری ہونے والی ہے، اس لیے اس معاملے کو اگلی منتخب حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔ آٹا جو کبھی غریب کی پہنچ میں ہوتا تھا اور وہ کم از کم اُس سے اپنا پیٹ بھر لیتا تھا، اب وہ بھی اُس کے لیے سونا بن گیا ہے۔

یہ سونا اُسے ہر روز خریدنا پڑتا ہے کہ پیٹ کا ایندھن تو بھرنا ہے۔ حکومت نے مفت آٹے کے جو تھیلے دیے تھے وہ کب کے ختم ہو چکے ہیں اب تو اُس آٹے کی قیمت بھی مہنگا آٹا خرید کر عوام ادا کر رہے ہیں۔

آیندہ تین سال کے دوران ہم نے 25 ارب ڈالر سالانہ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جب کہ ہماری متوقع سالانہ آمدنی 50/60 ارب ڈالر اور اخراجات 80 ارب ڈالر ہیں یہ خسارہ پورا کرنے کی بھی کوئی سبیل نہیں ہے۔ معاملات کو بہتر کرنے کے لیے اخراجات کم کرنے کے علاوہ کوئی اور دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔

ایک ایسا خرچہ ہے جو کم کیا جا سکتا ہے اور وہ لازماً کم کرنا ہمارے قومی مفاد میں ہوگا اور وہ ہے کار سرکار کے اخراجات میں کمی، لازمی کمی کے ذریعے ہم اخراجات میں کمی لا سکتے ہیں۔ مرکز ہو یا صوبائی حکومتیں اپنے اپنے اخراجات میں کمی کی پالیسی اختیار کر کے معاملات میں بہتری کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔


ویسے بھی یہ بات طے ہے کہ ہمارے سرکاری محکمے، ہماری وزارتیں ہیں، ان کے شاہانہ اخراجات ہیں جو قرض پر چلنے اور پلنے والی قوم کی سرکار کو ہرگز ہرگز زیب نہیں دیتے ہیں انھیں ختم کر کے انھیں حقیقت پسندانہ بنا کر ہم بہتری کی طرف سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔ ہم ایک طویل عرصے سے جس طرز زندگی بلکہ جس طرز فکر و عمل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں وہ قابل عمل نہیں رہا ہے۔

ہمیں اپنا اندازِ بود و باش دستیاب وسائل کے مطابق ترتیب دینا ہوگا یہ اربوں ڈالر کے تیل کی درآمد، لگژری گاڑیوں کی درآمد، کتوں، بلیوں کی خوراک کی درآمد پر زرمبادلہ کے اخراجات کرنے کی عادات ترک کرنا ہوں گی۔حکومت ٹیکسوں کے حصول میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے میں بھی ناکام رہی ہے۔

ایک سروے کے مطابق وطن عزیز پاکستان کی آبادی22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جس میں سے صرف 18 لاکھ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ملکی اشرافیہ کے شاہانہ اخراجات میں ابھی تک کمی نہیں ہوئی ہے۔ یہی اشرافیہ ٹیکس دینے سے بھی گریزاں ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی کے لیے اب جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔

دوسری صنعتوں کی طرح پولٹری انڈسٹری بھی انتہائی مشکلات میں گھر چکی ہے۔ فیڈز کی عدم دستیابی سے مرغی کے گوشت اور انڈوں کی قیمتوں میں بھی انتہائی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

خام مال کی عدم دستیابی سے بڑی صنعتوں کے بند ہونے کا خطرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ توانائی اور زرمبادلہ کی قلت نے معاشی صورت حال کو انتہائی خطرناک بنا دیا ہے۔ ڈالر کی عدم دستیابی سے تاجروں کا مال بندرگاہ پر پھنسا ہوا ہے۔ بے روزگاری میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے اور ملازمتوں کے مواقع کم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

خام مال منگوانے کے لیے ڈالر کی قلت نے کاروباری سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ ڈالر کی اسمگلنگ روک دی جائے تو اس سے بھی ملک معاشی بہتری کی جانب بڑھے گا۔ڈالر کی اسمگلنگ اور ہنڈی کے ناجائز کاروبار نے بھی ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

تعلیم و علاج معالجے کے علاوہ اسٹیٹ بینک کی پیشگی اجازت کے بغیر بینکوں میں اس قسم کی جمع کرائی ہوئی رقوم کو ملک سے باہر منتقل کرنے کی اجازت نہ دی جائے، اگر پچھلی تقریباً دو دہائیوں میں یہ پابندی لگا دی جاتی تو عملاً بیرونی قرضے صرف پیداواری مقاصد کے لیے حاصل کیے جاتے، مثلاً بڑے بڑے ڈیمز کی تعمیر، قدرت کے عطا کردہ تیل و گیس اور دوسرے مادی وسائل سے استفادہ کرنے، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے وغیرہ اس کے علاوہ پاکستان سے ناجائز طریقوں سے کما کر غیر قانونی طریقوں مثلاً ہنڈی/ حوالہ کے ذریعے ملک سے باہر منتقل کی ہوئی تقریباً 175ارب ڈالر کی رقوم اب بھی ملک سے باہر موجود ہے لیکن تمام تر دعوؤں کے باوجود کوئی بھی حکومت ان کو واپس لانے کا عزم نہیں رکھتی۔ حکومت بڑے بڑے گھروں اور گاڑیوں پر ٹیکس وصول کرے۔

پاکستان میں چار کروڑ روپے کی گاڑی خریدنے والا کوئی ٹیکس نہیں دیتا، امریکا میں اب یہ قانون ہے کہ گاڑی کی مالیت کے برابر سالانہ ٹیکس ادا کرنا لازم ہے۔ پاکستان میں مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں پہلے ہی بجلی اور گیس کی قلت اور پھر پٹرول کی قلت نے تو گورننس اور خاص کر اکنامک گورننس کی ناکامی کو اوپن کرایا حالانکہ حکومتی سطح اور خاص کر وزیراعظم کی سطح پر گورننس کے حالات بہتر بنانے کے لیے ہر روز سوچ بچار ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود بہت سارے اقتصادی اور سماجی مسائل محض اس وجہ سے حل نہیں ہو پا ر ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان کئی ایشوز کو حل کرنے کے حوالے سے وہ ہم آہنگی نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔

یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ قومی سلامتی کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے وفاق ، صوبے اور زندگی کا ہر شعبہ ایک ہی سوچ رکھتا ہے یہ چیز وقت اور حالات کا بھی تقاضا ہے، ورنہ دہشت گردی کے خلاف جنگ طویل ہونے کی صورت میں ہماری اقتصادی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں جس کا ہمارا ملک مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔موجودہ معاشی حالات میں عوام کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت اور حکومتی اداروں کو اپنے روزمرہ اخراجات میں کمی کر کے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف دینا ہو گا۔

انھیں ریلیف کے نام پر تکلیف دینا سرا سر زیادتی ہے۔ جمہوریت دراصل جواب دہی (Accountability) کا دوسرا نام ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے حکومتیں عوام کے سامنے جواب دہ ہوں پھر ہی ایک حقیقی خودمختار اور آزاد معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔
Load Next Story