تین غلط فیصلےجون 67 عرب اسرائیل جنگ

جنگ نے اسرائیلی فوج کی تمام کمزوریوں پر پردہ ڈال کر اسرائیلی فوج کے ناقابلِ شکست ہونے کی مِتھ کو جنم دیا

gfhlb169@gmail.com

جون 1967 کی عرب اسرائیل جنگ نے آنے والے وقتوں کے لیے اسرائیلی فوجی قوت کی ایسی دھاک بٹھا دی کہ آیندہ عربوں پر جنگ کا سوچ کر ہی کپکپی طاری ہونے لگی۔اس جنگ نے اسرائیلی فوج کی تمام کمزوریوں پر پردہ ڈال کر اسرائیلی فوج کے ناقابلِ شکست ہونے کی مِتھMythکو جنم دیا۔

عرب ملکوں کی افواج نے اپنے آپ کو جنگ کے لیے بالکل تیار نہیں کیا۔ ان کے سینئر فوجی افسران اپنی شاندار وردیوں میں ملبوس،سینوں پر بے شمار تمغے سجائے، بڑے بڑے بیانات دیتے رہے لیکن جن مشقوں کے کرنے کی ضرورت تھی ادھر دھیان نہیں دیا گیا۔

اس کے مقابلے میں اسرائیلی افواج نے اپنی ہر حرکت move کو پہلے سے پلان کیا اور اس کی کئی مرتبہ ریہرسل کی۔اس جنگ میں مصر،اردن اور شام کی افواج ملبے کا ڈھیر ثابت ہوئیں۔اس تاریخی شکست اور ناکامی کی وجہ جہاں جنگ کی تیاری کے بغیر جنگی زبان اور اقدامات تھے وہیں ان عرب ملکوں کے رہنماؤں کی جانب سے چند بہت برے فیصلے تھے جو ان افواج کو لے ڈوبے۔

اسرائیل نے صرف 6دنوں میں ایک ایسی جنگ جیت لی جس میں اس کے مدِ مقابل ممالک کی افواج لڑی ہی نہیں۔ اپریل 1967میں اسرائیل اور شام کے درمیان سرحدی جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اسرائیل نے پہلے ہی ہلے میں شامی فضائیہ کے آٹھ جہاز مار گرائے۔

اسرائیل کا صرف ایک جہاز گرایا گیا اور وہ بھی ایک پاکستانی پائلٹ نے شکار کیا۔اسرائیل نے اپنی بری فوج کو شامی سرحدوں کی جانب پیش قدمی کرائی تو مئی 1967میں مصر نے صحرائے سینا میں اپنی بری فوج کو اسرائیلی سرحدوں کی جانب بڑھایاتاکہ شام کے اوپر دباؤ کم ہو جائے۔

اسرائیل اس دوران اردن کے شاہ حسین کو کہہ رہا تھا کہ آپ اس جھگڑے سے دور رہیں تو ہم اردن سے کوئی جھگڑا نہیں کریں گے۔جب مئی 1967میں مصر نے صحرائے سینا میں اپنی افواج کو حرکت دی تو اسرائیل کو ایک اچھا بہانہ ہاتھ آ گیا۔اس نے زبردست تیاری کے ساتھ حملے کی پلاننگ شروع کر دی۔پہلی جون کو اسرائیل میں یونٹی گورنمنٹ بنی جس نے 4جون کو حملے کی منظوری دے دی۔

5جون 1967 کی صبح سات بجکر 30منٹ پر 200اسرائیلی بمبار اور کچھ لڑاکا طیاروں نے اڑان بھری اور مصر کی 15ایئر بیسوں پر حملہ کر دیا۔مصری اس وقت تک اس بحث میں پڑے تھے کہ مصری فضائیہ حملے میں پہل کرے یا نہ کرے۔ان کا خیال تھا کہ اسرائیلی حملہ سینا کی جانب سے ہو گا۔اسرائیلی طیارے فضا میں بلند ہونے کے بعد پہلے بحیرہ روم کی جانب گئے اور مغرب کی طرف سے مصریوں پر حملہ آور ہوئے۔

مصر کے راڈار اس جنگ کی کیفیت میں بھی ایکٹو نہیں تھے۔مصر کی ایئر بیسوں پر اکثر لڑاکا اور بمبار طیارے کھلے آسمان کے نیچے بغیر کیمو فلاج ایسے کھڑے تھے گویا کہ کسی نمائش میں حصہ لے رہے ہوں۔ اسرائیلی پائلٹوں نے بآسانی چن چن کر شکار کیا اور 338 طیارے کھڑے کھڑے تباہ کر دیے۔


مصر کی 80فیصد فضائیہ ناکارہ ہو گئی۔مصر کی بری فوج اس دوران صحرائے سینا میں بہتر کارکردگی دکھا رہی تھی۔انھوں نے کامیابی سے اسرائیلی ابتدائی زمینی حملہ پسپا کر دیا تھا۔ مصری افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل عبدالحکیم عامر نے جنگ سے دو دن پہلے بیان دیاکہ اسرائیل کو دو دنوں میں نیست و نابود کر دیا جائے گا۔فیلڈ مارشل عامر فوج کی ساری اعلیٰ کمان کے ہمراہ ایک مسافر طیارے میں صحرائے سینا میں اگلے مورچوں کا دورہ کرنے گئے۔

ابھی وہ فضا ہی میں تھے کہ اسرائیلی فضائیہ کے طیاروں نے انھیں گھیر لیا۔عامر اور کمانڈروںنے جب اپنے جہاز کو اسرائیلی فضائیہ سے گھرا دیکھا تو ان پر خوف طاری ہو گیا لیکن اسرائیلی فضائیہ کے پائلٹوں کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس مسافر طیارے میں کون سوار ہے۔اس پر انھوں نے طیارے کو جانے دیا۔

عامر معجزانہ طور پر واپس قاہرہ پہنچ گئے۔اترتے ہی شدید خوف میں مبتلا عامر نے اس جنگ کا سب سے تباہ کن حکم دیا کہ تمام مصری افواج صحرائے سینا کو فوراً خالی کر کے نہر سویز کے مغربی کنارے آ جائیں۔فیلڈ مارشل عامر نے یہ تباہ کن فیصلہ تو کر دیا لیکن اس بھیانک فیصلے سے مصری محاذ بالکل کولیپسCollapsکر گیا۔نہر سویز کا مشرقی کنارہ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا۔

قاہرہ ریڈیو اسرائیل کے حملے کی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹ رہا تھا اور ساتھ ہی یہ گمراہ کن خبر نشر کر رہا تھا کہ مصری افواج کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ جب گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے مصر کی نام نہاد کامیابی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تو اردن نے سمجھا کہ اب جب کہ اسرائیل مار کھا رہا ہے،کیوں نہ اردن بھی اس عرب کامیابی میں حصہ دار بن جائے۔

اسی شام کو اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے نمائندے کے ذریعے اردن کو اپیل کی کہ وہ جنگ میں نہ کودے لیکن اردن نے اسرائیل کی نہ سنی اور جنگ میں کود پڑا۔یہ عربوں کا دوسرا برا فیصلہ تھا۔اسرائیل مصری محاذ سے تقریباً فارغ ہو چکا تھا۔ اسرائیلی فضائیہ نے اگلے دن چند ہی گھنٹوں میں اردنی فضائیہ کا صفایا کر دیا۔

ادھر اردن کو جب یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ مصر نے سارا صحرائے سینا خالی کر دیا ہے تو اردن نے ویسٹ بینک اور مشرقی یروشلم میں لڑنے والے اپنے دونوں بریگیڈوں کو دریائے اردن کے مشرقی کنارے تک پیچھے ہٹنے کا حکم دے دیا اس طرح ویسٹ بینک اور مشرقی یروشلم جہاں القدس الشریف ہے اسرائیل کے حوالے کر دیا۔6روزہ جنگ کے پہلے تین روز میں مصر اور اردن کا محاذ اسرائیل کے ہاتھ رہا۔یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں صرف اسرائیلی فضائیہ نے پانسہ پلٹ دیا۔عرب افواج لڑ ہی نہ سکیں۔

جنگ کے چوتھے روز اسرائیل نے شام کے فرنٹ پر توجہ دی۔ اسرائیلی فضائیہ یہاں بھی چھائی ہوئی تھی۔ اقوامِ متحدہ جنگ بندی کی اپیل کر رہا تھا۔شام کے موجودہ صدر بشار الاسد کے والد حافظ الاسد شام کے وزیرِ دفاع تھے۔

انھوں نے جب دیکھا کہ مصر اور اردن نے گھٹنے ٹیک دئے ہیں اور اب اسرائیل شام کی طرف بڑھ رہا ہے تو انھوں نے اپنے کمانڈروں سے مشورہ کیے بغیر اور ان کو اعتماد میں لیے بغیر دمشق ریڈیو سے جنگ بندی کا یکطرفہ اعلان کر دیا۔دمشق ریڈیو پر اس اعلان سے شامی افواج کے حوصلے پست ہو گئے۔اسرائیلی افواج ان پر حملہ کر رہی تھیں اور انھیں جواب دینے کا حکم نہیں تھا۔

اس طرح اسرائیل نے جنگی نقطہ نظر سے بہت اہم علاقے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔سارا صحرائے سینا، غزہ کی پٹی، ویسٹ بینک ،گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے قبضے میں چلی گئیں۔القدس الشریف تاریخ میں 2600سال بعد یہودی تسلط میں چلاگیا۔
Load Next Story