اسحاق ڈار پر تنقید کیوں
ایک ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسحاق ڈار نے پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کر دیا ہے
آج کل اسحاق ڈار پر بہت تنقید ہو رہی ہے۔ پاکستان آج جن معاشی مسائل کا شکار ہے ان کی ساری ذمے داری ان پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسحاق ڈار نے پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کر دیا ہے۔ مہنگائی کی تمام تر ذمے داری ان پر ہے۔
بیرونی قرضوں کے بھی واحد ذمے دار وہی ہیں۔ آئی ایم ایف سے قسط نہ ملنے کی بھی تمام تر ذمے داری انھی پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جو بھی غلط ہوا ہے، اس کے ذمے دار وہی ہیں۔
انھوں نے تباہ کر دیا ہے جیسے مضمون شائع ہو رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کا بیان کہ آئی ایم ایف کے سامنے لیٹنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی چاہیے اس کا اب مذاق بنایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار کو پاکستان کے حالات کا علم ہی نہیں تھا۔ وہ حقائق سے بے خبر تھے۔ اس لیے انھوں نے ایسے بیانات دیے۔
اسحاق ڈار کے خلاف یہ ماحول بنانے میں مفتاح اسماعیل نے بہت کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے ڈار صاحب سے پورا بدلہ لیا ہے۔ تاہم اس چپقلش میں مفتاح کی اپنی سیاست بھی ختم ہو گئی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے ڈار صاحب کی ساکھ کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح شبر زیدی اور دیگر معاشی ماہرین نے اسحاق ڈار کے ساتھ اپنے پرانے اسکور خوب برابر کیے ہیں۔ سب مل کر ڈار صاحب کو رگیدتے رہے ہیں۔
اور ان کے لیے اکیلے یہ لڑائی لڑنا مشکل ہو گئی۔ وہ کام کریں یا روزانہ ہونیوالے حملوں کا جواب دیں، وہ میڈیا کی اس لڑائی میں اپنے ناقدین کی برابری نہیں کر سکے۔ اس لیے آج یہ ماحول بن گیا ہے کہ ساری صورتحال کے ذمے دار اسحاق ڈار ہیں۔
آئی ایم ایف کے جس معاہدہ میں آج پاکستان پھنسا ہوا ہے وہ سابق وزیراعظم نے کیا تھا۔ لیکن وہ بھی اس معاہدہ پر عمل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ انھوں نے خود یہ معاہدہ دو دفعہ توڑا تھا۔ متعدد وزیر خزانہ تبدیل کیے۔
سابق وزیراعظم جاتے جاتے بھی معاہدہ توڑ کر گئے۔ اس لیے آئی ایم ایف سے تعلقات کوئی اسحاق ڈار نے خراب نہیں کیے۔ اس معاہدہ پر کوئی بھی من و عن عمل نہیں کر سکتا۔ اس معاہدہ پر عمل کرنے سے پاکستانی عوام کا گلا گھٹ جاتا ہے۔ آپ دیکھیں ابھی آئی ایم ایف کی کافی شرائط پوری کر دی گئی ہیں۔ لیکن پھر بھی آئی ایم ایف قسط نہیں دے رہا۔ یہ درست ہے کہ مفتاح اسماعیل نے ایک قسط حاصل کر لی تھی لیکن جن وعدوں پر یہ قسط حاصل کی گئی تھی ان کو مکمل پورا کرنے میں عوام کا کیا حال ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کے عوام ہیں دوسری طرف آئی ایم ایف کا معاہدہ ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ڈالر کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔
آئی ایم ایف نے سابق وزیراعظم کے دور میں ایسی قانون سازی بھی کروائی جس میں حکومت کا اسٹیٹ بینک پر کنٹرول ختم ہوگیا۔ یعنی پاکستان کا پاکستانی روپے پر کنٹرول ختم ہو گیا۔ ڈالر کی اڑان نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر ڈالر کو کنٹرول کیا جائے تو آئی ایم ایف ناراض ہوجاتا ہے۔ اور اگر ڈالر کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔ ایسے میں اسحاق ڈار کیا کریں۔ آئی ایم ایف کو منائیں تو عوام مرتے ہیں۔ عوام کو دیکھیں تو آئی ایم ایف ڈنڈا لے کر کھڑا ہو جاتا ہے۔
ایسے میں اسحاق ڈار نے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ کوشش کتنی کامیاب ہوئی ہے کتنی ناکام ہوئی اس پر تو بات ہو سکتی ہے۔ لیکن کیا یہ درست نہیں۔ پٹرول سستا کریں تو آئی ایم ایف ناراض۔ مہنگا کریں تو عوام ناراض۔ ایسے میں اسحاق ڈار کو برا بھلا کہنا کتنا آسان ہے۔ لیکن کوئی یہ بات نہیں کرتا کہ اتنا غلط معاہدہ جس نے کر کے پاکستان کو اس مشکل میں پھنسا دیا ہے۔
اگر وہ خود بھی اقتدار میں ہوتے تو وہ بھی اس معاہدہ کو توڑتے۔ اس لیے اسحاق ڈار کا کوئی قصور نہیں۔ جو بھی پاکستان کے عوام کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کرتا، اس کے ساتھ آئی ایم ایف یہی سلوک کرتا۔ شوکت ترین نے بھی اس معاہد ہ کو توڑا جب انھیں سابق وزیراعظم نے وزیر خزانہ بنایا۔
آئی ایم ایف اب پاکستان کو ایسے ڈکٹیشن دیتا ہے جیسے ہم اس کے غلام ہیں۔ سابق وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس میں پاکستان کی معاشی خود مختاری آئی ایم ایف کے حوالے کر دی گئی ہے۔ ہم معاشی طور پر اب کوئی بھی فیصلہ آئی ایم ایف سے پوچھے بغیر نہیں کر سکتے۔ ہمارا بجٹ ٹھیک یا غلط یہ فیصلہ بھی اب پاکستان کے عوام یا پارلیمان نہیں کرسکتی۔ یہ فیصلہ بھی آئی ایم ایف کرتا ہے۔
ہم نے کس کو ٹیکس لگانا ہے کس کو نہیں لگانا یہ فیصلہ بھی آئی ایم ایف کرتا ہے۔ کیا یہ معاہدہ ڈار صاحب نے کیا جو ہم سب انھیں مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ڈارصاحب کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اس کے خلاف مزاحمت کی کوشش کی۔ کوشش کامیاب ہوئی یا ناکام ۔ کتنی کامیاب ہوئی کتنی ناکام یہ بھی الگ بحث ہے۔ لیکن کوشش تو کی ہے۔ ہم اس پر بھی انھیں مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
ان کی مزاحمت کی کوشش کو ان کی سب سے بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ کیا ہم بحیثیت قوم یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈار صاحب نے آئی ایم ایف کے سامنے کھڑے ہو کر غلطی کی ہے۔ انھوں فوری لیٹنا چاہیے تھا۔
پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کا بھی بہت شور کیا گیا ہے اور کیا جا بھی رہا ہے۔ روز پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کی نئی نئی تاریخیں دی جاتی ہیں۔ ملک میں ڈیفالٹ کا ایک ماحول بنایا جا رہا ہے۔
میرا سوال ہے کہ ڈیفالٹ کی پیش گوئی کرنے والے پاکستان کے دوست ہیں؟ کیا ڈار دشمنی میں ڈیفالٹ کے لیے راہ ہموار کرنا کوئی محب وطن ہونا ہے؟ جب یہ مخصوص لوگ جو خود کو معاشی ماہر کہتے ہیں ڈیفالٹ کی تاریخیں دیتے ہیں تو عام سرمایہ کار کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ سوچتا اگر ڈیفالٹ ہو گیا تو میں کیا کروں گا۔
ملک میں ڈیفالٹ کی تار یخیں دینے اور ڈیفالٹ کی تسبیح پڑنے والے سب پاکستان سے دشمنی کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کردار ادا کیا جائے۔ اس معاشی بحران کو سنگین کرنے کا ماحول بنایا جاتا ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہو جائے۔ ملک کو سری لنکا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا یہ ڈار دشمنی ہے یا پاکستان دشمنی۔
پاکستان نے آٹھ ماہ آئی ایم ایف کے بغیر گزارے ہیں۔ تمام قرضوں کی قسطیں بر وقت ادا کی گئی ہیں۔روز ایک سوال کیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف نے پیسے نہ دیے تو پلان بی کیا ہے۔ دوستوں کو سمجھ نہیں آرہا کہ پلان بی تو چل رہا ہے۔ ورنہ آپ سب تو کہتے تھے کہ قسط ایک دن لیٹ ہوئی تو تباہی ہو جائے گی۔ آٹھ ماہ سے نہیں مل رہی تو ڈار نے چلا کر ہی دکھایا ہے۔ اسحاق ڈار کے مفتاح اسماعیل کی طرح ہاتھ پاؤں تو نہیں پھول گئے۔
وہ لیٹ تو نہیں گئے۔ انھوں نے آئی ایم ایف کے بغیر چلا کر دکھایا ہے۔ آگے بھی چلانے کی بات کر ہی رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کو منانے کی بھی کوشش ہو رہی ہے کہ کہیں درمیان میں کوئی راستہ نکل آئے نہ نکلے تو پھر بھی کام چل ہی رہا ہے۔ ہم اس پر ڈار صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کی بجائے روز انھیں تنقید کا نشانہ بنانے پر لگ جاتے ہیں۔ اسحاق ڈار ایک طرف قوم کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔
دوسری طرف ان ہی کو ملزم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ معیشت چلا ہی نہیں سکتا۔ ڈار صاحب ایک اکاؤنٹنٹ ہیں۔
اس لیے وہ ناکام ہوئے ہیں۔ مجھے بتائیں ہم رضا باقر کو لائے حفیظ شیخ کو لائے' باہر سے کس کو نہیں لائے ۔ ان سب نے پاکستان کو کیا دیا ہے۔ باہر سے لانے والا تجربہ بھی کوئی خاص کامیاب نہیں رہا۔ ڈار صاحب ایک ایسا کام کر رہے ہیں جس کے عوض انھیں کچھ مل نہیں رہا۔ وہ اپنوں کی نظر میں بھی ملزم ہیں، لیکن ان کے کام کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔