ریڈیو پاکستان عروج سے زوال تک

کسی عالیشان سے عالیشان عمارت کو منہدم یا مسمار کردینا کوئی مشکل کام نہیں


Shakeel Farooqi June 16, 2023
[email protected]

کسی عالیشان سے عالیشان عمارت کو منہدم یا مسمار کردینا کوئی مشکل کام نہیں۔ مثال کے طور پر دنیا کے ساتویں عجوبہ تاج محل کو لے لیجیے جو بے تحاشہ اخراجات اور برسوں کی محنت و مشقت کے بعد تعمیر ہوا تھا لیکن خدانخواستہ اگر کوئی اسے ڈھانا چاہے تو دورِ حاضر کے حربوں اور آلات کے ذریعہ اِسے چند منٹ بلکہ سیکنڈوں میں زمیں بوس کیا جاسکتا ہے۔

کسی شاعر نے کہا ہے:

بستی بسنا کھیل نہیں ہے

بستے بستے بستی ہے

یہی بات اداروں کی تعمیر و تباہی پر صادق آتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بعض تاریخی عمارتیں لاپرواہی اور عدم توجہی کی وجہ سے شکست و ریخت کا شکار ہورہی ہیں، اگرچہ آثارِ قدیمہ کا باقاعدہ ایک محکمہ اِن عمارتوں کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے موجود اور مصروف ہے پھر بھی کچھ نہ کچھ نقص کوششِ بسیار کے باوجود رہ جاتا ہے۔

اب آئیے اداروں کی طرف جن میں ریڈیو پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ وہ منفرد ادارہ ہے جس کا کسی سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ وطنِ عزیز پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے اعلان کا اعزاز اِسی ادارے کو حاصل ہے، جب 14 اور 15 اگست کے درمیانی وقت یعنی نصف شب جناب مصطفٰی علی ہمدانی نے یہ تاریخی اعلان کرنے کا شرف حاصل کیا تھا۔

ریڈیو پاکستان کی سربراہی کا سہرا بابائے نشریات محترم زیڈ اے بخاری کے سَر ہے جنہوں نے 1947 میں کراچی کے ایک غیر آباد علاقہ گِزری میں ٹینٹ لگا کر نشریات کا آغاز کیا تھا کیونکہ اُس وقت پاکستان کے قیام کو زیادہ عرصہ نہیں گُزرا تھا اور ہر طرف بے سروسامانی کا عالم تھا۔

پھر اِسے اُس کے بعد بندر روڈ پر جو اب ایم اے جناح روڈ کہلاتی ہے مویشیوں کے علاج کے شفا خانہ سے متصل مسجد کے میناروں سے مشابہ عمارت میں عارضی طور پر منتقل کردیا گیا جہاں یہ برسوں تک موجود رہا کیونکہ کوئی کُشادہ عمارت موجود نہیں تھی اِس لیے اِس کے عملہ کو کھپریل کی چھتوں والی بیرکوں میں منتقل کردیا گیا۔

پھر بہت برسوں بعد ریڈیو پاکستان کراچی کے بھاگ جاگے اور اِس کے لیے ایک بلند عمارت تعمیر کی گئی۔ زیڈ اے بخاری کے دور میں یہ ادارہ ایک منفرد نشریاتی ادارہ تھا جس میں اہلِ علم و دانش کے علاوہ کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کے داخلہ کی بھی کوئی گنجائش نہ تھی۔

صرف بڑے بڑے پڑھے لکھے اور پختہ کار صدا کاروں کے لیے اِس میں گنجائش موجود تھی۔ جس کا ش، ق درست نہ ہو اُس کا مائیکرو فون تک جانا ممنوع تھا۔ریڈیو پاکستان کا یہ معیار بخاری صاحب کی رحلت کے کافی عرصہ بعد تک قائم رہا اور رشید احمد، قاضی احمد سعید اور سید سلیم گیلانی جیسے مایہ ناز براڈکاسٹر اِس کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی وزارتِ عظمٰی کے دور میں ریڈیو پاکستان کی اہمیت اور قدر و منزلت کو مدِنظر رکھتے ہوئے پارلیمنٹ کے ایک تاریخ ساز ایکٹ کے ذریعے باقاعدہ ایک خود مختار قانونی کارپوریشن میں تبدیل کردیا گیا جس کا نام ہے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (پی۔بی۔سی)۔ یہ اور بات ہے کہ لوگ اِسے ریڈیو پاکستان کے نام سے جانتے ہیں۔

اِس ایکٹ کا مطالعہ کرنے سے بہت سی باتیں اور نکات معلوم ہوں گے اور واضح ہوجائے گا کہ یہ ایک قطعی خود مختار اور خودکار ادارہ ہے جس کا باقاعدہ ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز ہے جو اپنے تمام معاملات خود طے کرے گا۔

وطنِ عزیز میں کیونکہ اثر و رسوخ اور سفارش کلچر عام ہے اس لیے یہاں سب کچھ ممکن ہے اور قواعد و ضوابط دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون کا چلن ہے۔ گُربہ کُشتَن روزِ اوّل کہ اصول پر عمل نہ کرنے کا یہ انجام ہوا کہ باگ ڈور پی۔بی۔سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ہاتھوں سے نکل گئی اور اب حالت یہ ہے کہ اب پچھتاوے کیا ہوَت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔

نتیجہ یہ ہے کہ پی۔ بی۔سی کے ملازمین اور پینشنرز کو تین ماہ کی تنخواہ اور پینشن نہیں مل سکی جس کی وجہ سے وہ اور اُن کے اہلِ خانہ انتہا سے زیادہ پریشان ہیں۔ اب اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ بیچارے اور بے بس کیا کریں؟ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟

ہم انسان دوست سینیٹر عرفان صدیقی کے ممنون اور شُکر گزار ہیں کہ اُنہوں نے انتہائی جرأت مندی اور حق پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمان کے ایوانِ بالا میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (پی۔ بی۔ سی) کے حاضر ملازمین اور پینشنرز کی داد رسی کرتے ہوئے صدائے حق بلند کی ہے۔ ہماری محترم صدیقی صاحب سے استدعا ہے کہ وہ اِس معاملہ کو یہیں تک چھوڑ کر مطمئن نہ ہوجائیں بلکہ اُس وقت تک فالو اَپ جاری رکھنے کی زحمت گوارہ فرمائیں جب تک یہ مسئلہ بالآخر ہمیشہ کے لیے حل نہ ہوجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں