فراڈ کیس ٹرسٹ انویسٹمنٹ بینک کے صدر آصف کمال و دیگر ملزمان پر آج فرد جرم عائد ہوگی
ملزمان نے 2010میں نجکاری کمیشن کی سرمایہ کاری پر ڈیفالٹ کرکے قومی خزانے کو 50 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا۔
اسلام آباد بینکنگ کورٹ نے 50کروڑ کے فراڈ سرمایہ کاری کیس میں فرد جرم عائد کرنے کیلیے ٹرسٹ انوسٹمنٹ بینک لمیٹڈ کے صدرآصف کمال اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو آج طلب کرلیا ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو بتایا کہ آج سی ای او، ٹی آئی بی ایل زبیر اور چیف فنانشل آفیسر عمران حمید پر فرد جرم عائد کی جائیگی جبکہ ٹی آئی بی ایل کے چیئرمین ہمایوں نبی جان پہلے ہی ملک سے فرار ہوچکے ہیں اور عدالت انھیں مفرور قرار دے چکی ہے۔ ایف آئی اے کے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے جمع کردہ چالان کے مطابق ملزمان نے 2010 میں نجکاری کمیشن کی سرمایہ کاری پر ڈیفالٹ کرکے قومی خزانے کو 50 کروڑ کا نقصان پہنچایا۔ مزید کہا گیا ہے کہ ملزمان نے مزید سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے نجکاری کمیشن کے حکام کے ساتھ بھی چالاکی کی۔
لیگل ڈیپارٹمنٹ کے مایوس کن ردعمل کے بعد ایف آئی اے نے تحقیقات اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کو سونپی اور اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ نے کیس کی دوبارہ سے مکمل تحقیقات کیں اور طاقتور ملزمان کو بے نقاب کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت حاصل کیے۔ نجکاری کمیشن نے ٹی آئی بی ایل میں غیرقانونی سرمایہ کاری کی کیونکہ قوانین کے مطابق کمیشن صرف ٹرپل اے ریٹنگ رکھنے والے شیڈولڈ بینک میں ہی سرمایہ کاری کرسکتا ہے جبکہ ٹی آئی بی ایل شیڈولڈ بینک ہے اور نہ ہی ٹرپل اے ریٹنگ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے اس وقت کے وزیر نجکاری سینیٹر وقار احمد خان، سیکریٹری شہاب انورخواجہ اور ڈائریکٹر کوثرزیدی کے کردار کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ نجکاری کمیشن نے سینیٹر وقار خان، سیکریٹری شہاب انور خواجہ اور ٹی آئی بی ایل کی انتظامیہ کو ملزمان کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
ٹی آئی بی ایل کی اعلیٰ انتظامیہ پر فردجرم عائد ہونے سے سینیٹر وقارخان سمیت دوسرے ملزمان کا کردار بھی واضح ہوگا اور ٹی آئی بی ایل کو مزید اداروں سے لوٹ مار کرنے سے بھی روکا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ٹی آئی بی ایل نے نجکاری کمیشن کی طرح دیگر کئی سرکاری اداروں کے ساتھ بھی فراڈ کیا مگر اس کے اثررسوخ کے باعث کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ اس معاملہ میں سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کا کردار بھی مشکوک ہے۔
اس کے متعلقہ حکام نے ٹی آئی بی ایل کے فراڈ کو نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ مختلف فورمز پر اس کا دفاع بھی کیا۔ اسی وجہ سے دیگر ادارے بھی ٹی آئی بی ایل کا شکار بنے۔ ٹی آئی بی ایل سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈہے۔ اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ نے چالان میں ایس ای سی پی کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ چالان میں سینیٹر وقارخان کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور اعلیٰ افسران سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو بتایا کہ آج سی ای او، ٹی آئی بی ایل زبیر اور چیف فنانشل آفیسر عمران حمید پر فرد جرم عائد کی جائیگی جبکہ ٹی آئی بی ایل کے چیئرمین ہمایوں نبی جان پہلے ہی ملک سے فرار ہوچکے ہیں اور عدالت انھیں مفرور قرار دے چکی ہے۔ ایف آئی اے کے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے جمع کردہ چالان کے مطابق ملزمان نے 2010 میں نجکاری کمیشن کی سرمایہ کاری پر ڈیفالٹ کرکے قومی خزانے کو 50 کروڑ کا نقصان پہنچایا۔ مزید کہا گیا ہے کہ ملزمان نے مزید سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے نجکاری کمیشن کے حکام کے ساتھ بھی چالاکی کی۔
لیگل ڈیپارٹمنٹ کے مایوس کن ردعمل کے بعد ایف آئی اے نے تحقیقات اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کو سونپی اور اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ نے کیس کی دوبارہ سے مکمل تحقیقات کیں اور طاقتور ملزمان کو بے نقاب کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت حاصل کیے۔ نجکاری کمیشن نے ٹی آئی بی ایل میں غیرقانونی سرمایہ کاری کی کیونکہ قوانین کے مطابق کمیشن صرف ٹرپل اے ریٹنگ رکھنے والے شیڈولڈ بینک میں ہی سرمایہ کاری کرسکتا ہے جبکہ ٹی آئی بی ایل شیڈولڈ بینک ہے اور نہ ہی ٹرپل اے ریٹنگ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے اس وقت کے وزیر نجکاری سینیٹر وقار احمد خان، سیکریٹری شہاب انورخواجہ اور ڈائریکٹر کوثرزیدی کے کردار کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ نجکاری کمیشن نے سینیٹر وقار خان، سیکریٹری شہاب انور خواجہ اور ٹی آئی بی ایل کی انتظامیہ کو ملزمان کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
ٹی آئی بی ایل کی اعلیٰ انتظامیہ پر فردجرم عائد ہونے سے سینیٹر وقارخان سمیت دوسرے ملزمان کا کردار بھی واضح ہوگا اور ٹی آئی بی ایل کو مزید اداروں سے لوٹ مار کرنے سے بھی روکا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ٹی آئی بی ایل نے نجکاری کمیشن کی طرح دیگر کئی سرکاری اداروں کے ساتھ بھی فراڈ کیا مگر اس کے اثررسوخ کے باعث کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ اس معاملہ میں سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کا کردار بھی مشکوک ہے۔
اس کے متعلقہ حکام نے ٹی آئی بی ایل کے فراڈ کو نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ مختلف فورمز پر اس کا دفاع بھی کیا۔ اسی وجہ سے دیگر ادارے بھی ٹی آئی بی ایل کا شکار بنے۔ ٹی آئی بی ایل سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈہے۔ اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ نے چالان میں ایس ای سی پی کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ چالان میں سینیٹر وقارخان کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور اعلیٰ افسران سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔