مثبت معاشی اشارے

موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں مالی معاملات کو خوش اسلوبی سے ہینڈل کیا ہے

موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں مالی معاملات کو خوش اسلوبی سے ہینڈل کیا ہے۔ فوٹو:فائل

وزیراعظم شہباز شریف نے اگلے روز مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ ممکنہ معاہدے کے حوالے سے بھی اظہار خیال کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر کے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ہم آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرنے کے لیے الٹے سیدھے ہوگئے، ہر مشکل برداشت کی لیکن سینگ ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں، ابھی معاملات چل رہے ہیں، امید ہے کہ ہم اس سے نکل جائیں گے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ بجٹ میں شدید مالی مشکلات کے باوجود عام آدمی کو ریلیف دینے کی کوشش کی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 اور 35 فیصد جب کہ پنشن میں ساڑھے 17فیصد اضافہ کیا۔

ادھر ایک اخباری خبر میں وفاقی وزارت خزانہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے پرعزم ہے، ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے۔

وزارت خزانہ کا یہ نیا بیان وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے اگلے روز کے اس بیان سے ہٹ کر ہے جس میں انھوں نے کہا تھاکہ ہم ٹیکس استثنیٰ پر آئی ایم ایف کی ہدایت قبول نہیں کریں گے، خبر میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے جمعہ کی صبح اجلا س بلایا اور وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ بجٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف کے اعتراضات دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

خبر کے مطابق پتہ چلا ہے کہ اجلاس کے بعد حکومت نے نویں جائزہ کے ازسرنو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا، جس سے 1.2ارب ڈالر کی قسط ملنے کا امکان ہے، ایک دن قبل پاکستان حکام اور آئی ایم ایف کے ایک دوسرے کے بارے میں بیانات سے لگ رہا تھا کہ شاید آئی ایم ایف پروگرام اختتام کو پہنچ گیا ہے۔

وفاقی وزیرخزانہ نے ہفتے کے شروع میں آئی ایم ایف مشن کی چیف سے ملاقات کی تھی جو بغیر نتیجہ ختم ہو گئی تھی، خبر میں وزارت خزانہ کے ایک سینئر افسر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ہمارے مفاد میں یہی بہتر ہے کہ نویں جائزہ کو مکمل کریں اور 1.2ارب ڈالر کی قسط حاصل کریں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پوری اکنامک ٹیم اس بات پر متفق ہے۔

آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے مختلف قسم کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ ان خبروں میں بعض اوقات اشتباہ کا پہلو بھی پایا جاتا ہے تاہم حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان معاملات بند گلی میں نہیں ہیں بلکہ مثبت انداز میں چل رہے ہیں۔

وزیراعظم نے آئی ایم ایف پروگرام بچانے کے لیے کئی بار مداخلت کی، ایک دو روز پہلے بھی انھوں نے آئی ایم ایف کے ایم ڈی سے ٹیلیفون پر بات کی اور انھیں نواں جائزہ مکمل کرنے کی درخواست کی، ادھر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعہ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں کہا کہ ہم نے نواں جائزہ مکمل کرنے کی پوری کوشش کی تاہم نئے بجٹ پر وزیراعظم اور ایم ڈی آئی ایم ایف میں سمجھوتہ نہ ہو سکا۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جمعہ کویہاں جاری بیان کے مطابق وزارت خزانہ نے پاکستان میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ریزیڈنٹ نمایندہ کے بیان کاجائزہ لیاہے، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے پرعزم ہے اوراس حوالہ سے ہماری بات چیت بھی جاری ہے چونکہ پریس میں بعض ایشوز اٹھائے گئے ہیں اس لیے ہماراخیال ہے کہ ان امور بارے اپنی پوزیشن کی وضاحت مناسب ہوگی۔


پریس میں جاری بیان میں مخصوص امورکے بارے میں وضاحت سے پہلے بات چیت کے سیاق وسباق کو دیکھنا ضروری ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ 9 واں جائزہ فروری 2023میں ہوا، حکومت پاکستان نے برق رفتاری سے تمام تکنیکی امورمکمل کرلیے تھے، واحد معاملہ بیرونی فنانسنگ سے متعلق تھا اور ہماراخیال ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اورآئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرکے درمیان 27 مئی کوہونے والی ٹیلی فونک بات چیت میں یہ مسئلہ بھی احسن طریقے سے حل ہو گیا تھا، اگرچہ نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ کبھی بھی 9 ویں جائزہ کا حصہ نہیں رہا تاہم آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے وزیراعظم کے کمٹمنٹ کے مطابق وزارت خزنہ نے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ بجٹ کے اعدادوشمار بھی شیئرکیے جب کہ بجٹ کے دوران بھی ہمارا آئی ایم ایف مشن کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا۔

وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ریزیڈنٹ نمایندہ ایستھر پیریز کی جانب سے جہاں تک ٹیکس کی بنیاد سے متعلق معاملہ ہے تو ایف بی آر نے جاری مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں 11لاکھ 61 ہزار نئے ٹیکس گزاروں کوشامل کیا ہے، ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافہ کی شرح 26.38 فیصدبنتی ہے، یہ ایک جاری مشق ہے اوریہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

بیان کے مطابق بجٹ میں جن شعبہ جات کے لیے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے وہ معیشت کے حقیقی شعبہ جات ہیں جونمو کے انجن کی حیثیت رکھتے ہیں، یہ شہریوں کوروزگار دلانے کا ایک پائیدارراستہ ہے، اس چھوٹ کا حجم بہت کم ہے۔ جہاں تک ایمنسٹی کاتعلق ہے تو واحدتبدیلی آئی ٹی آرڈی ننس کے متعلقہ پرویژنز کے تحت قدر کو ڈالرائز کرنا ہے،یہ سہولت آئی ٹی آرڈی ننس کے سیکشن 111 چار کے تحت پہلے سے موجودہے۔ ایک کروڑ روپے کی کیپ 2016 میں متعارف کرائی گئی تھی۔ اس کیپ کوایک لاکھ ڈالرکے مساوی روپوںکے زریعہ حل کیا گیاہے۔

بیان میں کہاگیاہے کہ پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے پرعزم ہے اور9 ویں جائزہ کو مکمل کرنے میں گہری دلچسپی لے رہاہے، اتحادی حکومت نے پہلے ہی سیاسی قیمت پر کئی مشکل فیصلے کیے ہیں، معاملہ کے خوش اسلوبی سے حل کے لیے ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے۔

پاکستان کے لیے ایک اچھی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ عوامی جمہوریہ چین نے ری فنانسنگ کی مد میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر دے دیئے ہیں۔ اخباری خبر میں اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی ترسیل کے بارے میں سافٹ کوڈ موصول ہو ا تھا اور اب مرکزی بینک کے اکاؤنٹ میں چین سے ایک ارب ڈالر کی رقم منتقل ہو گئی ہے جس کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ہیں۔

ترجمان اسٹیٹ بینک نے بھی تصدیق کردی ہے اور ان کا کہنا ہے چین سے موصول ایک ارب ڈالر کمرشل قرضہ ہے،رقم موصول ہونے کے حوالے سے کنفرم ہو گیا، رقم اکاؤنٹ میں آگئی ہے ۔ واضح رہے کہ چین سے پاکستان نے ری فنانسنگ کے لیے واجب الادا قرضہ رواں ہفتے قبل ازوقت ہی ادا کردیا تھا اس قرضے کی پیشگی ادائیگی کے بعد چین نے پاکستان کو ری فنانسنگ کی ہے۔

چین کے اس اقدام سے پاکستان کی معیشت کو سہارا ملا ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات آگے بڑھنے کی سبیل بھی پیدا ہوئی ہے۔ عوامی ریلیف کے حوالے سے ایک پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ایل پی جی کی قیمت 350 روپے سے کم ہوکر210روپے فی کلو گرام ہوگئی ہے۔ اوگرا کے فیصلے کے مطابق اب لوکل اور امپورٹڈ ایل پی جی ایک ہی قیمت پر فروخت ہوگی۔

پاکستان کی معیشت کو لاحق خطرات خاصے کم ہو گئے ہیں۔ چھ سات ماہ پہلے تک پاکستان کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا کہ معیشت زمین بوس ہو چکی ہے اور ملک دیوالیہ ہونے والا ہے۔ پہلے یہی لگتا تھا کہ مالی مسائل مزید گھمبیر ہو جائیں گے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدہ طے نہیں پا رہا تھا تاہم اب چین کے کردار کی وجہ سے امید پیدا ہوئی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پا جائیں گے۔

ملک میں سیاسی افراتفری کا ماحول بھی کسی حد تک نرم ہوا ہے۔ ملک میں اگر سیاسی انتشار اور افراتفری کا خاتمہ ہو جائے تو بھی داخلی سطح پر کاروباری سرگرمیاں بہتر ہو جائیں گی اور مقامی صنعتیں بھی کام کرنا شروع کر دیںگی جس کی وجہ سے نجی شعبے میں روزگار پیدا ہو گا۔

موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں مالی معاملات کو خوش اسلوبی سے ہینڈل کیا ہے۔ گو ابھی مشکلات ختم نہیں ہوئیں تاہم یہ کہاجا سکتا ہے کہ معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزیدبہتر ہو جائیں گے اور پاکستان استحکام کی منزل کی جانب رواں دواں ہو کر اقوام عالم کے ساتھ معاملات طے کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔
Load Next Story