کراچی کے مسائل اور با اختیار میئر
روایتی طور پر میئر کے الیکشن بلدیاتی عمارت میں منعقد نہ ہونے کی وجہ بظاہر بپر جوائے کے ممکنہ طوفان کو بتایا گیا،اور اس جگہ کا انتخاب اپنی آسانی کے پیش نظر کیا گیا،بلدیاتی عمارت کے بجائے آرٹس کونسل میں الیکشن کرانے کا براہ راست اعتراض چونکہ جماعت اسلامی کی اپوزیشن کا بنتا تھا جو ہنوز ریکارڈ پر نہیں لایا گیا۔
اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے میئر کے انتخاب اور مرتضی وہاب کی جیت کو جماعت اسلامی نے مسترد کر دیا اور اعلان کیا ہے کہ 30 اراکین کی غیر حاضری جان بوجھ کر کی گئی اور جماعت اسلامی کی اتحادی پارٹی، پی ٹی آ ئی کے ممبران کو اغوا کیا گیا یا لالچ دے کر ان کے ضمیر خریدے گئے،لہذا جماعت کی قیادت کا استدلال ہے کہ اس پورے غیر جمہوری عمل پر شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں لہذا اس کے نتائج ناقابل قبول ہیں،جہاں جماعت اسلامی نتائج نہ ماننے کا واویلا کر رہی ہے ،وہیں سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان الزامات کا اطمینان بخش جواب دے۔
بلدیاتی تاریخ میں کراچی کے پہلے پارسی میئر جمشید نوسروانجی کے ترقیاتی منصوبے،پانی و سیوریج کے تاریخی نظام کے علاوہ کشادہ سڑکیں آج تک کراچی کی شاندار تاریخ کا نقشہ پیش کرتی ہوئی ملیں گی،حالانکہ نوسروانجی برٹش نظام کے ہاتھ بندھے نظام میں کام کیا کرتے تھے،مگر انھوں نے تمام وسائل شہر کی ترقی و آرائش پر لگائے،آج بھی کوئی دوسرا چڑیا گھر،آرام باغ،پولو گراؤنڈ،فریئر ہال،تھیو فیوسیکل ہال،ریڈیو پاکستان اور اعلی تعمیراتی برنس روڈ،ڈینسو ہال اور ٹاور کے ان شاہراہ میں اضافہ نہ ہو سکا جو ساٹھ برس پہلے تعمیر کیے گئے تھے۔
کوئی میئر پاکستان چوک کے کنکریٹ روڈ اور ڈی جے کالج و این ای ڈی اولڈ کیمپس نہ دے سکا جو نوسروانجی کراچی کو بلا امتیاز دے گئے،بلکہ شہر کی ترقی اور تاریخی عمارات کی بربادی اور بے توقیری کودیکھنا ہو تو پلازہ کے بعد اعلی تعمیرات کی بربادی دیکھی جا سکتی ہے گو بلدیاتی تاریخ میں بے تحاشا فنڈز لینے والے چار سے پانچ میئر رہ چکے ہیں مگر نو سروانجی کے قائم کردہ ناپ تول کے نظام،مارکیٹس کی روزانہ صفائی، وینڈروں کی رجسٹریشن،طبی سہولیات کی بلدیاتی فراہمی کو بہتر کرنے کے بجائے پہلے سے قائم کردہ سارے نظام کی بربادی پر جماعتیں اور میئر اتراتے پھرتے ہیں مگر آج تک 79 کے بعد کسی بھی دور میں نہ کوئی ٹاؤن پلاننگ ہوئی،نہ پانی کی فراہمی کا نظام لایا گیا اور نہ ہی تجاوزات اس شہر میں قائم کرنے سے کوئی روک سکا،آج بھی ندی نالوں کے بہاؤ پر ناجائز تعمیرات قائم ہیں مگر مجال کہ کسی میئر نے سوائے دعوے کے کوئی عملی قدم اٹھایا ہو۔
کراچی کا میئر بننے اور اس عرصے میں اختیارات لینے کا دعوی تو سب کرتے رہے مگر میئر شپ کے بعد شہر کی ترقی نہ ہونے کے برابر نظر آئی،اس کی سب سے بڑی وجہ بلدیاتی اداروں میں جہاں سیاسی حکومتوں کا دخل ہے وہیں شہر کے 70فیصد رقبہ میئر کراچی کے اختیارات میں نہ ہونا بھی ہے،جس پر سنجیدہ ہونے اور قانونی اقدامات اٹھانے کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
تاریخی طور پر نسل کا یہ جاننا ضروری ہے کہ کراچی کے بلدیاتی نظام کا ڈھانچہ کیسا تھا اور اس میں مزید کیسے بہتری لائی جاسکتی ہے،تاریخی طور پر برطانوی راج میں جب کراچی کو بمبئی حکومت نے شہر کا درجہ دیا تو 1846 میں کنزروینسی بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اس کے بعد 1851 میں میونسپل کمیشن بنا اور 1925 میں میونسپل بورڈ کا درجہ دے کر کراچی کے بلدیاتی نظام کو چلانے کے لیے 1933 میں میونسپل کارپوریشن بنایا۔
اسی دوران شہر کی اہمیت اور آبادی میں اضافے کے سبب بمبئی حکومت نے کراچی کو 1851 کی شرح آبادی کی بنیاد پر 1884 میں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا جب کہ پارسی میئر جمشید نوسروانجی 1920 میں کراچی کے پہلے میئر مقرر کیے گئے جن کی سربراہی میں 57 کونسلرز، جن میں 12 کونسلر برطانوی حکومت کے مقرر کردہ تھے، کے ذریعے شہر کا بلدیاتی نظام چلایا۔
جب کہ اس سے قبل برطانیہ نے اپنے راج کو مضبوط کرنے کے لیے کراچی کو فوجی دفاع کے طور پر چنا اور چارلس نیپیئر کی سربراہی میں 1843 میں کراچی کو برٹش فوج کا کنٹونمنٹ بنایا جب کہ بلدیات کے پورے نظام کو برطانوی راج نے اپنے اثر میں رکھا اور تقسیم ہند کے بعد ہمارے حصے میں آنے والے برٹش فوج کے افسران کو تاکید کی گئی کہ کراچی شہر کا انتظام و انصرام مکمل طور پر عوامی نمائندوں کو فوجی حکمت عملی کے طور پر ہرگز منتقل نہ کیا جائے۔
تاریخی طور پر بار بار اس ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام میں آمرانہ نظام داخل کیا گیا تاکہ برطانیہ کے نظام تسلط کو روایت اور میراث کے طور پر چلایا جائے۔ ملک میں پہلے فوجی مارشل لا کے خالق جنرل ایوب نے کراچی میں حکومتی اثر قائم رکنے کے لیے بنیادی جمہوریت کا خاکہ 1959 میں پیش کیا جس کے خالق ذوالفقار علی بھٹو بنے۔
جنرل ایوب کا یہ نظام بھی بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد 1972 میں دم توڑ گیا، مگر اس بلدیاتی نظام کو ملک میں بھٹو خود نافذ کرنے میں ناکام رہے،بعد کو بھٹو کی حکومت جنرل ضیا کے مارشل لا نے ختم کی اور سندھ لوکل گورنمنٹ نظام لایا گیا، جس کے تحت مارشل لا کے باوجود پیپلز پارٹی کے عبدالخالق اللہ والا اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئے۔
جنرل ضیا کے دور میں جماعت اسلامی کو کراچی کی میئر شپ ملی، 4 ووٹ پیپلز پارٹی کے مسترد ہوئے اور یوں جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی میئر منتخب ہوئے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 1988 کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتیں بھی بلدیاتی نظام کا حق عوام کے عام فرد تک نہ پہنچا سکیں۔ جنرل ضیا نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور کراچی کے جمہوری مزاج کو سمجھتے ہوئے نسلی بنیاد پر مہاجر قومی موومنٹ بنوائی اور 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے اپنی بنائی ہوئی جماعت ایم کیو ایم کو کراچی کی بلدیات کا نظام فاروق ستار کی قیادت میں حوالے کیا گیا۔
1999 میں ملک ایک مرتبہ پھر جنرل مشرف کی آمریت کا شکار ہوا اور عوام کو جمہوری آزادی اور جمہوری الیکشن دینے کے بجائے ایم کیو ایم کی مدد سے لوکل باڈی آرڈیننس بنوایا گیا اور کراچی میں بلدیاتی اختیارات میں وسیع پیمانے کی آزادی کا وعدہ کیا گیا، مگر جب کراچی میں بلدیاتی آزادی دینے کا وقت آیا تو جنرل مشرف کی اتحادی جماعت نے مکمل بلدیاتی اختیارات کا تقاضا کیا مگر چونکہ ایک قوت کراچی کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرنا چاہتی تھی سو ایم کیو ایم کو باقاعدہ کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے بائیکاٹ پر مجبور کیا گیا اور پھر جماعت اسلامی کے میئر نعمت اللہ کو لانے میں کامیاب ہوئی جو جنرل مشرف کے دیے گئے محدود اختیارات پر کام کرنے کے لیے راضی تھے۔
اس پورے تاریخی حقائق کی روشنی میں آج کے جدید تقاضے اور جمہوریت پسند سوچ کے لیے لازم ہے کہ حکومت کراچی کی عالمی حیثیت بحال کروانے کے ضمن میں پورے کراچی میں منصفانہ ترقیاتی فنڈز مہیا کرکے ایک ایسا شفاف نظام بلدیات میں رائج کرے کہ کراچی کی ترقی کا عمل مسلسل جاری رہے اور تجاوزات کی آڑ میں شہر کی صفائی ستھرائی کے نظام میں کوئی دشواری نہ آسکے،شہر کی ترقی اور شفاف نظام کے لیے باہمی مشاورت سے باعمل بلدیاتی قوانین کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔