گورنر رسول بخش تالپور تا کامران ٹیسوری
سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے جو معاہدے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کیے تھے ان پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟
میں اپنی عمر کے 77 سال کراچی میں گزار چکا ہوں اور اب 78 واں سال گزار رہا ہوں، مجھ سمیت کئی ہم وطنوں نے مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان، نواب آف کالا باغ او رعنا لیاقت علی کو بطور گورنر سندھ بھی دیکھا۔
فوجی ادوار میں فوجی جنرلز کو بھی گورنر سندھ بنتے ہوئے بھی دیکھا ، حکیم محمد سعید اور پھر ممنون حسین کو بھی گورنر بنتے دیکھا اور بعد میں عشرت العباد بھی 10 سال سے زائد عرصے تک گورنر سندھ رہے، لیکن میں نے رسول بخش تالپور کو پہلا عوامی گورنر 1972 تا 1973 دیکھا تھا اور گورنر ہاؤس کو عوام کے لیے کھلا ہوا پایا، حالانکہ بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی کافی عہد تک عوامی انداز اپنائے ہوئے تھیں، وہ ہماری دعوت پر سٹی ریلوے کالونی میں بھی عوام کے درمیان رہتے ہوئے عوام اور خاص کر ریلوے ملازمین سے استقبالیہ جلسے میں خطاب بھی کر رہی تھیں اور مسائل بھی سن رہی تھیں اسی طرح مرحوم رسول بخش تالپور بھی کافی حد تک ایک عوامی گورنر تھے اور اپنے گورنر ہاؤس کے دروازے عوام کے لیے کھول رکھے تھے اور عوام میں گھل مل جاتے تھے۔
رسول بخش تالپور بھی کافی حد تک حد درجہ عوامی گورنر تھے مگر آج کل جو گورنر سندھ ہیں کامران ٹیسوری تو انھوں نے تو پچھلے تمام گورنر صاحبان کا ریکارڈ ہی توڑ دیا ہے۔ پچھلے ہفتوں جب میں لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تنظیمی دورے کے سلسلے میں گیا ہوا تھا تو لاہور اور خاص کر اسلام آباد کے ہمارے ایک کامریڈ ساتھی جو پہلے کئی برس کراچی میں آباد رہے، کامریڈ علی ناصر نے دوران گفتگو کہا کہ'' سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری تو کراچی اور سندھ میں بڑا کام کر رہے ہیں، کبھی آپ ان سے ملے ہیں یا گورنر ہاؤس گئے ہیں۔''
میں نے کہا کہ ''ہاں، ایسے ہی سرسری سی ہماری ملاقات ایک مشاعرے کے دوران ہوئی تھی اور شاید گلے لگا کر تصویریں بھی بنائی گئی تھیںمیں نے مزیدکہا کہ کامران ٹیسوری مشاعرے بھی گورنر ہاؤس میں کراتا ہے۔ ادبی محفلیں بھی ہوتی ہیں۔ موسیقی بھی ہوتی ہے۔ عید میلادالنبی کے جلسے بھی ہوتے ہیں اور علما اور مشائخ سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں''
خیر یہ باتیں اور بھی لوگ کرتے رہتے ہیں میں دراصل کامران ٹیسوری کے بارے میں کچھ اور بھی باتیں کرنا چاہتا ہوں حالانکہ میرا حکمرانوں کے ساتھ سوائے ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے تو رابطہ رہا اور ہم دوست سب پیپلز پارٹی بنانے والوں میں شامل رہے اور ہمیشہ ووٹ پیپلز پارٹی کو دیتے رہے اور آج بھی ان شہیدوں کو یاد کرتے ہیں لیکن سندھ کے جتنے بھی گورنر آئے ماسوائے گورنر رسول بخش تالپور کے بعد سندھ کو یہ پہلا گورنر ملا ہے جو عوامی انداز میں کراچی سمیت سندھ بھر میں کام کر رہا ہے۔
ہم روز دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ کبھی کامران ٹیسوری مچھرکالونی کا دورہ کر رہا ہے اور کبھی رنچھوڑ لائن میں چائے پی رہا ہے، تو کبھی لیاری میں چکر لگا رہا ہے، کبھی خدا کی بستی اور کبھی سرجانی ٹاؤن تو کبھی صدر اور کئی ایک ایسے علاقے لانڈھی، کورنگی اور اورنگی ٹاؤن سمیت کبھی سندھ کے بزرگ صوفی شاعروں کے مزارات پر چادر چڑھا رہا ہے اور کبھی کلفٹن پر عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضری دے رہا ہے، کبھی گورنر ہاؤس کراچی میں قوالی کی محفل سجا رہا ہے کبھی بس میں سفر کر رہا ہے تو کبھی بہادر آباد میں گولہ گنڈا کھا رہا ہے کیا عوامی انداز ہے۔
سندھ کے گورنر رمضان شریف میں پورے مہینے افطار اور سحری کا بندوبست کر رہے ہیں تو عید پر مہندی اور چوڑیوں کا بندوبست کرکے خواتین اور بچوں کو خوش کر رہے ہیں تو کہیں راشن تقسیم کر رہے ہیں اور اب تو فرما رہے ہیں کہ کراچی کے غریب عوام کو ایک لاکھ راشن کی بوریاں تقسیم کروں گا لوگ عوام خواتین اور بچے روز گورنر ہاؤس کے گیٹ پر ملاقات کے لیے لائن لگا کر کھڑے ہوئے ہیں اور ابھی چند دن ہوئے کہ گورنر ہاؤس کے گیٹ پر ایک گھنٹہ لگا دیا گیا ہے اور اب خواتین اور غریب عوام گھنٹی بھی بجا دیتے ہیں اور اپنی فریاد یا شکایات بھی ان تک پہنچا دیتے ہیں۔
دراصل ہم سب ترقی پسند اور انسانی حقوق کے علم بردار اور ٹریڈ یونین کے لوگ تو اس سرمایہ داری اور جاگیرداری، ٹھیکیدار نظام اور امریکا ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے خلاف برسوں سے نعرے بازی اور جلسہ جلوس کرتے رہے ہیں مگر اس نظام سرمایہ داری، جاگیرداری، نوکر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ابھی تک جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کاش، ہمارے ملک کے حکمران اپنی ملکی معیشت کو ٹھیک کرسکیں اور ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دے سکیں۔
ہمارا بھی علاج ہو سکے ہمیں بھی تعلیم اور صحت کی سہولیات مل سکیں ہمیں بھی گھر مل سکیں ہمیں بھی سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمایندگی مل سکے اور ہمیں بھی قانون سازی کرنے کا حق مل سکے۔ کاش کوئی گورنر یا وزیر اعلیٰ بن سکے، مزدوروں، کسانوں، ہاریوں، ملک میں پڑھے لکھے دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، کالم نگاروں، ترقی پسند دانشوروں کو کم ازکم نمایندگی کا حق مل سکے اور ہم بھی ترقی یافتہ نہ سہی ترقی پذیر عوام کی شکل میں اپنی پریشانیوں اور اپنے دکھوں کو کم کرسکیں ۔کاش، ہمارے یہ خواب کبھی تو ادھورے ہی سہی کچھ نہ کچھ تو پورے ہو سکیں۔
دولت کی منصفانہ تقسیم ہو سکے، عدالتوں سے انصاف مل سکے، کم ازکم بے گناہوں کو تو معاف کیا جاسکے، کیا یہ ممکن ہے؟ آج ملک سیاسی اور معاشی افراتفری کا شکار ہے ملک بھر میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت، بیماری سمیت ہر قسم کے جرائم، لوٹ مار، قتل و غارت اور خودکشیوں میں مبتلا ہے اور دوسری حکمران طاقت ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور امریکی پالیسیوں کے چکر میں دل دل میں پہنچا ہوا ہے ایک طرف دولت کے انبار ہیں، جاگیردار ہیں، سرمایہ دار ہیں، بیوروکریٹ ہیں دوسری طرف لوگوں کے پاس دال اور روٹی کھانے کے لیے 500 روپے بھی نہیں ہیں۔
حکومت مخالف کہہ رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے، امریکا کی مداخلت سی پیک اور ریلوے کا (ML) کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔ سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے جو معاہدے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کیے تھے ان پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟ چین اور روس سمیت سعودی عرب متحدہ عرب امارات سے بات چیت بھی جاری ہے۔ امید ہے شاید معاملات بہتر ہو جائیں اور ملک میں اکتوبر میں انتخابات ہوجائیں۔ شاید عوام کو کچھ تو بے چینی سے نجات مل سکے۔
فوجی ادوار میں فوجی جنرلز کو بھی گورنر سندھ بنتے ہوئے بھی دیکھا ، حکیم محمد سعید اور پھر ممنون حسین کو بھی گورنر بنتے دیکھا اور بعد میں عشرت العباد بھی 10 سال سے زائد عرصے تک گورنر سندھ رہے، لیکن میں نے رسول بخش تالپور کو پہلا عوامی گورنر 1972 تا 1973 دیکھا تھا اور گورنر ہاؤس کو عوام کے لیے کھلا ہوا پایا، حالانکہ بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی کافی عہد تک عوامی انداز اپنائے ہوئے تھیں، وہ ہماری دعوت پر سٹی ریلوے کالونی میں بھی عوام کے درمیان رہتے ہوئے عوام اور خاص کر ریلوے ملازمین سے استقبالیہ جلسے میں خطاب بھی کر رہی تھیں اور مسائل بھی سن رہی تھیں اسی طرح مرحوم رسول بخش تالپور بھی کافی حد تک ایک عوامی گورنر تھے اور اپنے گورنر ہاؤس کے دروازے عوام کے لیے کھول رکھے تھے اور عوام میں گھل مل جاتے تھے۔
رسول بخش تالپور بھی کافی حد تک حد درجہ عوامی گورنر تھے مگر آج کل جو گورنر سندھ ہیں کامران ٹیسوری تو انھوں نے تو پچھلے تمام گورنر صاحبان کا ریکارڈ ہی توڑ دیا ہے۔ پچھلے ہفتوں جب میں لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تنظیمی دورے کے سلسلے میں گیا ہوا تھا تو لاہور اور خاص کر اسلام آباد کے ہمارے ایک کامریڈ ساتھی جو پہلے کئی برس کراچی میں آباد رہے، کامریڈ علی ناصر نے دوران گفتگو کہا کہ'' سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری تو کراچی اور سندھ میں بڑا کام کر رہے ہیں، کبھی آپ ان سے ملے ہیں یا گورنر ہاؤس گئے ہیں۔''
میں نے کہا کہ ''ہاں، ایسے ہی سرسری سی ہماری ملاقات ایک مشاعرے کے دوران ہوئی تھی اور شاید گلے لگا کر تصویریں بھی بنائی گئی تھیںمیں نے مزیدکہا کہ کامران ٹیسوری مشاعرے بھی گورنر ہاؤس میں کراتا ہے۔ ادبی محفلیں بھی ہوتی ہیں۔ موسیقی بھی ہوتی ہے۔ عید میلادالنبی کے جلسے بھی ہوتے ہیں اور علما اور مشائخ سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں''
خیر یہ باتیں اور بھی لوگ کرتے رہتے ہیں میں دراصل کامران ٹیسوری کے بارے میں کچھ اور بھی باتیں کرنا چاہتا ہوں حالانکہ میرا حکمرانوں کے ساتھ سوائے ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے تو رابطہ رہا اور ہم دوست سب پیپلز پارٹی بنانے والوں میں شامل رہے اور ہمیشہ ووٹ پیپلز پارٹی کو دیتے رہے اور آج بھی ان شہیدوں کو یاد کرتے ہیں لیکن سندھ کے جتنے بھی گورنر آئے ماسوائے گورنر رسول بخش تالپور کے بعد سندھ کو یہ پہلا گورنر ملا ہے جو عوامی انداز میں کراچی سمیت سندھ بھر میں کام کر رہا ہے۔
ہم روز دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ کبھی کامران ٹیسوری مچھرکالونی کا دورہ کر رہا ہے اور کبھی رنچھوڑ لائن میں چائے پی رہا ہے، تو کبھی لیاری میں چکر لگا رہا ہے، کبھی خدا کی بستی اور کبھی سرجانی ٹاؤن تو کبھی صدر اور کئی ایک ایسے علاقے لانڈھی، کورنگی اور اورنگی ٹاؤن سمیت کبھی سندھ کے بزرگ صوفی شاعروں کے مزارات پر چادر چڑھا رہا ہے اور کبھی کلفٹن پر عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضری دے رہا ہے، کبھی گورنر ہاؤس کراچی میں قوالی کی محفل سجا رہا ہے کبھی بس میں سفر کر رہا ہے تو کبھی بہادر آباد میں گولہ گنڈا کھا رہا ہے کیا عوامی انداز ہے۔
سندھ کے گورنر رمضان شریف میں پورے مہینے افطار اور سحری کا بندوبست کر رہے ہیں تو عید پر مہندی اور چوڑیوں کا بندوبست کرکے خواتین اور بچوں کو خوش کر رہے ہیں تو کہیں راشن تقسیم کر رہے ہیں اور اب تو فرما رہے ہیں کہ کراچی کے غریب عوام کو ایک لاکھ راشن کی بوریاں تقسیم کروں گا لوگ عوام خواتین اور بچے روز گورنر ہاؤس کے گیٹ پر ملاقات کے لیے لائن لگا کر کھڑے ہوئے ہیں اور ابھی چند دن ہوئے کہ گورنر ہاؤس کے گیٹ پر ایک گھنٹہ لگا دیا گیا ہے اور اب خواتین اور غریب عوام گھنٹی بھی بجا دیتے ہیں اور اپنی فریاد یا شکایات بھی ان تک پہنچا دیتے ہیں۔
دراصل ہم سب ترقی پسند اور انسانی حقوق کے علم بردار اور ٹریڈ یونین کے لوگ تو اس سرمایہ داری اور جاگیرداری، ٹھیکیدار نظام اور امریکا ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے خلاف برسوں سے نعرے بازی اور جلسہ جلوس کرتے رہے ہیں مگر اس نظام سرمایہ داری، جاگیرداری، نوکر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ابھی تک جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کاش، ہمارے ملک کے حکمران اپنی ملکی معیشت کو ٹھیک کرسکیں اور ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دے سکیں۔
ہمارا بھی علاج ہو سکے ہمیں بھی تعلیم اور صحت کی سہولیات مل سکیں ہمیں بھی گھر مل سکیں ہمیں بھی سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمایندگی مل سکے اور ہمیں بھی قانون سازی کرنے کا حق مل سکے۔ کاش کوئی گورنر یا وزیر اعلیٰ بن سکے، مزدوروں، کسانوں، ہاریوں، ملک میں پڑھے لکھے دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، کالم نگاروں، ترقی پسند دانشوروں کو کم ازکم نمایندگی کا حق مل سکے اور ہم بھی ترقی یافتہ نہ سہی ترقی پذیر عوام کی شکل میں اپنی پریشانیوں اور اپنے دکھوں کو کم کرسکیں ۔کاش، ہمارے یہ خواب کبھی تو ادھورے ہی سہی کچھ نہ کچھ تو پورے ہو سکیں۔
دولت کی منصفانہ تقسیم ہو سکے، عدالتوں سے انصاف مل سکے، کم ازکم بے گناہوں کو تو معاف کیا جاسکے، کیا یہ ممکن ہے؟ آج ملک سیاسی اور معاشی افراتفری کا شکار ہے ملک بھر میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت، بیماری سمیت ہر قسم کے جرائم، لوٹ مار، قتل و غارت اور خودکشیوں میں مبتلا ہے اور دوسری حکمران طاقت ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور امریکی پالیسیوں کے چکر میں دل دل میں پہنچا ہوا ہے ایک طرف دولت کے انبار ہیں، جاگیردار ہیں، سرمایہ دار ہیں، بیوروکریٹ ہیں دوسری طرف لوگوں کے پاس دال اور روٹی کھانے کے لیے 500 روپے بھی نہیں ہیں۔
حکومت مخالف کہہ رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے، امریکا کی مداخلت سی پیک اور ریلوے کا (ML) کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔ سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے جو معاہدے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کیے تھے ان پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟ چین اور روس سمیت سعودی عرب متحدہ عرب امارات سے بات چیت بھی جاری ہے۔ امید ہے شاید معاملات بہتر ہو جائیں اور ملک میں اکتوبر میں انتخابات ہوجائیں۔ شاید عوام کو کچھ تو بے چینی سے نجات مل سکے۔