حذر اے چیرہ دستاں
اگر آپ کی ذاتی سواری نہیں تو ٹیکسی ڈرائیور بھی حاجی صاحبان سے غیر معمولی کمائی کو پسند نہیں کرتا
اس سال پاکستان کی تاریخ کا مہنگا ترین حج ہے۔ سرکاری طور پر فی کس مصارف جو وصول کیے گئے ہیں وہ گیارہ لاکھ 25 ہزار فی کس ہیں، اگر ایک عورت محرم کے ساتھ حج کرے تو اسے تقریباً 24 لاکھ روپے ادا کرنا ہوں گے۔
ظاہر ہے کہ اسے دو تین لاکھ روپے ذاتی مصارف کے لیے درکار ہوں گے اس طرح اسے یہ حج اوسطاً 28 لاکھ روپے میں پڑے گا۔ یہ رقم اتنی خطیر ہے کہ جن لوگوں نے زندگی بھر پیسہ جمع کرکے رکھا ہوگا وہ اس تعداد سے بہت کم پڑا ہوگا وہ اپنے دل میں حج کی حسرت لیے رہ گئے ہوں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا حج کے لیے جتنی درخواستوں کا کوٹہ مقرر کیا گیا تھا درخواستیں اس سے کہیں کم موصول ہوئیں اور ہزاروں لوگ حج سے محروم رہ گئے۔
ظاہر ہے کہ اس کے لیے عذر یہی بیان کیا گیا ہوگا کہ ہمارے سکے کی قیمت گر گئی ہے، مگر معاملہ صرف سکے کی ناقدری کا نہیں۔ پرائیویٹ طور پر حج پر جانے والوں کے مصارف سرکاری مصارف سے دو چار لاکھ ہی زیادہ ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکے کی ناقدری سے قطع نظر سرکاری حج کے مصارف کے سلسلے میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔
چلیے! آپ نے مصارف بڑے حوصلے سے مقررکیے ہیں تو حسن گمان یہ ہے کہ آپ حج کی سہولتیں بہتر فراہم کریں گے۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ جب حج کا موسم آتا ہے اور حج پروازیں شروع ہوتی ہیں تو ثواب صرف حاجی کے حصے میں نہیں آتا بلکہ مختلف قسم کے لوگ بھی ثواب سمیٹنے میں شریک ہو جاتے ہیں۔ دوست احباب ملنے جلنے والے اور محلے والے آکر آپ کو احترام سے رخصت کرتے ہیں اپنے لیے دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں اور یوں ثواب کے حصے دار بن جاتے ہیں۔
اگر آپ کی ذاتی سواری نہیں تو ٹیکسی ڈرائیور بھی حاجی صاحبان سے غیر معمولی کمائی کو پسند نہیں کرتا، ایئرپورٹ کا عملہ انتہائی اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے، سامان کی تلاشی لیتا ہے مگر کسر نفسی کے ساتھ اور رخصت کرتے ہوئے دعا کی درخواست بھی کرتا ہے۔ غرض ہر مرحلے پر بندگان خدا مسافران خانہ خدا کا اکرام ملحوظ رکھتے اور اپنے اپنے انداز میں ثواب سمیٹتے رہتے ہیں۔ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو سرکاری طور پر حجاج کرام کی آمد و رفت، قیام و طعام اور مناسک کی انجام دہی پر مامور ہوتے ہیں وہ تو زیادہ ہی ثواب حاصل کرلیتے ہوں گے۔
مگر ہوا یہ نہیں انتہائی مہنگے اس حج میں جو پرائیویٹ حج سے دو تین لاکھ کم میں ہو رہا ہے جب کہ پرائیویٹ حج میں بے تحاشا سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ اچھے معیاری ہوٹل میں قیام، حرم سے قریب، عمدہ غذا وغیرہ وغیرہ۔ مگر ہوا یہ کہ شاید اس بار انتظامیہ نے قیام گاہوں کے حصول کا کام دیر سے شروع کیا چنانچہ آپ کو قیام گاہیں حرم سے کافی فاصلے پر ملیں۔ اتنی دورکہ پیدل آنا جانا ممکن نہ ہو۔ اس کے لیے آپ نے سواری کا انتظام فرمایا تو تین یا چار کوسٹریں فراہم کردیں اب سیکڑوں حجاج کو قیام گاہ سے حرم پہنچانے کے لیے یہ منی کوسٹریں قطعاً کافی نہیں چنانچہ حجاج ان میں سوار ہونے کے لیے کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ایک دوسرے کو دھکے دے کر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ ان کی نماز چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ حج کے لیے حکم ہے اس کے دوران نہ فسوق ہے نہ جدال۔ مگر آپ نے اپنے نظم کی خرابی کے ذریعے انھیں جدال کی ایک شکل میں مبتلا کردیا ہے جس کے ذمے دار آپ منتظمین ہیں۔ حاجی تو صبر سے کام لیتا ہے مگر کس حد تک کیا سیکڑوں حجاج کو حرم تک پہنچانے کے لیے یہ منی کوسٹر کافی ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حاجی کو پیشاب کی حاجت ہو تو حرم میں درجنوں پیشاب گاہیں موجود ہیں مگر ہر پیشاب گاہ پر پچاسوں کی لائن لگی ہے اب اگر اس کی حاجت اسے پریشان کرے تو آپ کی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ کے اس انداز سے وہ گھنٹہ بھر سے قبل اپنی قیام گاہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ پھر اسے واپس آنے اور حرم سے وابستہ رہنے کی لالچ ہے اسے پھر اسی مرحلے سے گزرنا ہوگا۔پھر آپ نے کھانے کا بھی انتظام فرمایا ہے۔
عموماً حجاج کھانے کی پرواہ نہیں کرتے اس لیے اگر انھیں ایک وقت کا اچھا ناشتہ مل جائے تو وہ تادیر حرم میں رہتے ہیں مگر آپ معیاری کھانا بھی فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے۔اگر آپ کی غفلت، نااہلی یا سستی کے باعث حجاج کو ایسی تکالیف میسر ہوں کہ ان کا حج متاثر ہوتا ہو تو آپ کو جواب طلبی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ظاہر ہے کہ اسے دو تین لاکھ روپے ذاتی مصارف کے لیے درکار ہوں گے اس طرح اسے یہ حج اوسطاً 28 لاکھ روپے میں پڑے گا۔ یہ رقم اتنی خطیر ہے کہ جن لوگوں نے زندگی بھر پیسہ جمع کرکے رکھا ہوگا وہ اس تعداد سے بہت کم پڑا ہوگا وہ اپنے دل میں حج کی حسرت لیے رہ گئے ہوں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا حج کے لیے جتنی درخواستوں کا کوٹہ مقرر کیا گیا تھا درخواستیں اس سے کہیں کم موصول ہوئیں اور ہزاروں لوگ حج سے محروم رہ گئے۔
ظاہر ہے کہ اس کے لیے عذر یہی بیان کیا گیا ہوگا کہ ہمارے سکے کی قیمت گر گئی ہے، مگر معاملہ صرف سکے کی ناقدری کا نہیں۔ پرائیویٹ طور پر حج پر جانے والوں کے مصارف سرکاری مصارف سے دو چار لاکھ ہی زیادہ ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکے کی ناقدری سے قطع نظر سرکاری حج کے مصارف کے سلسلے میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔
چلیے! آپ نے مصارف بڑے حوصلے سے مقررکیے ہیں تو حسن گمان یہ ہے کہ آپ حج کی سہولتیں بہتر فراہم کریں گے۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ جب حج کا موسم آتا ہے اور حج پروازیں شروع ہوتی ہیں تو ثواب صرف حاجی کے حصے میں نہیں آتا بلکہ مختلف قسم کے لوگ بھی ثواب سمیٹنے میں شریک ہو جاتے ہیں۔ دوست احباب ملنے جلنے والے اور محلے والے آکر آپ کو احترام سے رخصت کرتے ہیں اپنے لیے دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں اور یوں ثواب کے حصے دار بن جاتے ہیں۔
اگر آپ کی ذاتی سواری نہیں تو ٹیکسی ڈرائیور بھی حاجی صاحبان سے غیر معمولی کمائی کو پسند نہیں کرتا، ایئرپورٹ کا عملہ انتہائی اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے، سامان کی تلاشی لیتا ہے مگر کسر نفسی کے ساتھ اور رخصت کرتے ہوئے دعا کی درخواست بھی کرتا ہے۔ غرض ہر مرحلے پر بندگان خدا مسافران خانہ خدا کا اکرام ملحوظ رکھتے اور اپنے اپنے انداز میں ثواب سمیٹتے رہتے ہیں۔ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو سرکاری طور پر حجاج کرام کی آمد و رفت، قیام و طعام اور مناسک کی انجام دہی پر مامور ہوتے ہیں وہ تو زیادہ ہی ثواب حاصل کرلیتے ہوں گے۔
مگر ہوا یہ نہیں انتہائی مہنگے اس حج میں جو پرائیویٹ حج سے دو تین لاکھ کم میں ہو رہا ہے جب کہ پرائیویٹ حج میں بے تحاشا سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ اچھے معیاری ہوٹل میں قیام، حرم سے قریب، عمدہ غذا وغیرہ وغیرہ۔ مگر ہوا یہ کہ شاید اس بار انتظامیہ نے قیام گاہوں کے حصول کا کام دیر سے شروع کیا چنانچہ آپ کو قیام گاہیں حرم سے کافی فاصلے پر ملیں۔ اتنی دورکہ پیدل آنا جانا ممکن نہ ہو۔ اس کے لیے آپ نے سواری کا انتظام فرمایا تو تین یا چار کوسٹریں فراہم کردیں اب سیکڑوں حجاج کو قیام گاہ سے حرم پہنچانے کے لیے یہ منی کوسٹریں قطعاً کافی نہیں چنانچہ حجاج ان میں سوار ہونے کے لیے کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ایک دوسرے کو دھکے دے کر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ ان کی نماز چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ حج کے لیے حکم ہے اس کے دوران نہ فسوق ہے نہ جدال۔ مگر آپ نے اپنے نظم کی خرابی کے ذریعے انھیں جدال کی ایک شکل میں مبتلا کردیا ہے جس کے ذمے دار آپ منتظمین ہیں۔ حاجی تو صبر سے کام لیتا ہے مگر کس حد تک کیا سیکڑوں حجاج کو حرم تک پہنچانے کے لیے یہ منی کوسٹر کافی ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حاجی کو پیشاب کی حاجت ہو تو حرم میں درجنوں پیشاب گاہیں موجود ہیں مگر ہر پیشاب گاہ پر پچاسوں کی لائن لگی ہے اب اگر اس کی حاجت اسے پریشان کرے تو آپ کی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ کے اس انداز سے وہ گھنٹہ بھر سے قبل اپنی قیام گاہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ پھر اسے واپس آنے اور حرم سے وابستہ رہنے کی لالچ ہے اسے پھر اسی مرحلے سے گزرنا ہوگا۔پھر آپ نے کھانے کا بھی انتظام فرمایا ہے۔
عموماً حجاج کھانے کی پرواہ نہیں کرتے اس لیے اگر انھیں ایک وقت کا اچھا ناشتہ مل جائے تو وہ تادیر حرم میں رہتے ہیں مگر آپ معیاری کھانا بھی فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے۔اگر آپ کی غفلت، نااہلی یا سستی کے باعث حجاج کو ایسی تکالیف میسر ہوں کہ ان کا حج متاثر ہوتا ہو تو آپ کو جواب طلبی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔