پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار
ان حالات میں بجائے اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنے کے پاکستان کو اپنے لیے تمام سفارتی آپشنز کھلے رکھنے چاہئیں
پاکستان میں ایک سال سے جاری سیاسی رسہ کشی اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ کسی جماعت کو کمزور کیا جا رہا ہے تو کسی جماعت پر دست شفقت رکھ کر الیکٹیبلز کو ان کی طرف ہانکا جا رہا ہے۔
بڑھتا ہوا سیاسی اور معاشی عدم استحکام تو پہلے ہی بڑا مسئلہ تھا، لیکن اب لگتا ہے بدلتی ہوئی عالمی صورتحال بھی پاکستان کے لیے ایک سنگین چیلنج بن سکتی ہے۔ پاکستان اپنے مقامی مسائل میں الجھ کر عالمی سیاست اور منظر نامے سے بہت تیزی کے ساتھ غیر متعلق ہو رہا ہے۔
ایک طرف مشرقی وسطیٰ میں بڑی ہلچل کا دور دورہ ہے۔ عرب ممالک باہمی دشمنی بھلا کر ایک ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف یوکرین کے مسئلے پر یورپی اتحادیوں کی جانب سے امریکا کے قائدانہ کردار پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سعودیہ کے ایران اور شام کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد روس، ترکی اور شام کے تعلقات کی بحالی کے لیے سرگرم ہے۔
عالمی سیاست میں رونما ہونے والی کوئی بھی بڑی تبدیلی پاکستان جیسا منفرد جغرافیہ رکھنے والے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک سنہری موقع ثابت ہو سکتی ہے لیکن دوسری طرف بدلتے ہوئے عالمی حالات کے مطابق بروقت اور درست فیصلے نہ کیے جائیں تو یہی مواقع خارجہ پالیسی کے لیے سنگین چیلنج بھی بن سکتے ہیں۔
پاکستان کے پاس مشرقی وسطیٰ میں خاص طور پر بہت زبردست موقع تھا ایران اور سعودیہ کو قریب لا کر خطے کی سیاست میں اپنے کردار کو بڑھانے کا لگتا ہے، پاکستان یہ چانس ضایع کرچکا ہے۔ اس ہفتے سعودیہ عرب میں امریکا، بھارت اور سعودی عرب کے قومی سلامتی مشیروں کی ولی عہد محمد بن سلمان سے ہونے والی ملاقات کے بعد سعودی وزیرِ خارجہ کا سول مقاصد کے لیے جوہری پروگرام شروع کرنے کا اعلان بہت معنی خیز ہے۔
سعودی وزیرِ خارجہ نے امریکا سے بھی درخواست کی ہے کہ پر امن مقاصد کے لیے شروع کیے جانے والے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکا سعودی عرب کی مدد کرے اگر امریکا مدد نہیں کرتا تو سعودی عرب کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔ کیا سعودی عرب جوہری تعاون کے لیے بھارت کی طرف دیکھ رہا ہے یا پاکستان نے سعودیہ عرب کے ساتھ ایسی کوئی کمٹمنٹ کی ہے؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مشرقی وسطیٰ کی سیاست میں بھارت کا بڑھتا ہوا کردار پاکستان کے لیے کتنا تشویش ناک ہے؟
دوسری طرف چین، امریکا کشیدگی اور روس یوکرین جنگ کے تناظر میں پاکستان کے لیے اپنی غیر جانبدار پوزیشن برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک لیک میموکے مطابق پاکستان کی وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کو ایسی پالیسی سے گریز کرنا چاہیے، جس سے یہ تاثر جائے کہ پاکستان مغرب کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا کے ساتھ شراکت داری قائم رکھنے کی خواہش پر چین کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ پاکستان کو مغربی ممالک اور امریکا یا چین میں سے کسی ایک کو چننا ہوگا؟ اس وقت یہ پالیسی بھی زیر بحث ہے کہ آیا پوری طرح چین اور روس کے بلاک میں شامل ہوا جائے یا مغربی بلاک کے ساتھ تعلقات کو بہترکرنے کی کوشش کی جائے؟
اس وقت پاکستان کے اندرونی حالات اور معاشی مشکلات کے تناظر میں آئی ایم ایف کے دبائو اور مغربی ممالک کا پاکستان کی معاشی مشکلات سے نظریں چرانے کی وجہ سے پاکستان کے پالیسی ساز حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر مغرب اور امریکا مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی بجائے آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو مزید مشکلات میں دھکیلنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
اگر مغرب پاکستان کی مجبوریوں کا پوری طرح خیال نہیں کرتا، تو پاکستان مکمل طور پر چین کی طرف راغب ہوجائے گا۔ معاشی مشکلات کے خاتمے کے لیے چین کی پاکستان کے لیے مالی مدد اور سی پیک منصوبے کے ذریعے دوطرفہ تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچانا بے مثال ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا چین ہمارے لیے امریکا کا متبادل ہو سکتا ہے؟
اس وقت امریکا 8 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کے ساتھ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ اسی طرح پاکستان کو سب سے زیادہ ترسیلات زر بھی امریکا سے ہی موصول ہوتی ہیں، اگر امریکا کے لیے پاکستان کی ایکسپورٹس اور یورپی یونین کا پاکستان کے لیے جی سی پی پلس اسٹیٹس بھی شامل کرلیا جائے تو ہماری قریبا 70 فیصد ایکسپورٹس امریکا یورپی ممالک کو جاتی ہیں۔
اس حقیقت سے بھی نظر نہیں چرا سکتے کہ عالمی اداروں اور عالمی نظام پر آج بھی تن تنہا امریکا کی اجارہ داری ہے، چاہے وہ آئی ایم ایف ہو، ورلڈ بینک یا اقوام متحدہ۔ سرد جنگ کے دوران بھی پاکستان امریکا کا اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کی چین کے ساتھ قریبی شراکت داری جاری رہی۔
1970 کی دہائی میں یہ پاکستان ہی تھا جس نے چین کے ساتھ تعلقات کے قیام میں امریکا کی مدد کی۔ اس وقت ایک ملین سے زائد اوورسیز پاکستانی امریکا میں مقیم ہیں جو ہر سال اربوں ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں۔ دوسری پاک چین دوطرفہ تجارت کا حجم 24 ارب ڈالر ہونے کے باوجود چین کے ساتھ ہمارا تجارتی خسارہ سب سے زیادہ ہے۔
چین ہر سال ہزاروں پاکستانی طلبا کو سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت اور سوشل سائنسز سمیت درجنوں شعبوں میں ریسرچ اور اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپس دے رہا ہے، لیکن آج بھی پاکستانی طلبا اور بیرون ملک شفٹ ہونے کے خواہش مند پاکستانیوں کی پہلی ترجیح امریکا اور یورپی ممالک ہیں۔
ان حالات میں بجائے اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنے کے پاکستان کو اپنے لیے تمام سفارتی آپشنز کھلے رکھنے چاہئیں۔ کسی ایک بلاک میں شمولیت کی بجائے ہمیں دونوں بلاکس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی خلفشار اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے ہم کوئی بھی بڑا فیصلہ لینے کی پوزیشن میں نہیں۔
پاکستان اپنی اندرونی کمزوریوں اور معاشی حالات کی وجہ سے بیک وقت تمام عالمی طاقتوں کو خوش رکھنے کی کوشش میں سفارتکاری میں بہتر برقرار نہیں رکھ پا رہا، جب تک ہم اپنے اندرونی مسائل پر قابو پاکر اپنی سیاسی پوزیشن کو بہتر نہیں کرتے اس وقت تک ہم عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے موقعوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اس وقت ڈر یہ ہے کہ کہیں پاکستان اپنے معاشی حالات اور اندرونی کمزوریوں کے باعث عالمی طاقتوں کی کھینچا تانی اور دباؤ کے باعث خدانخواستہ کوئی بڑا سفارتی نقصان نہ کر بیٹھے۔