سیاست اور ریاست
آج بے شمار لوگ امن کے خواہش مند ہیں اور مظلوموں کو ناکردہ گناہوں سے بچانا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا کر نہیں سکتے
ہمارے ملک میں اس وقت انارکی کی صورتحال ہے غربت، افلاس، لاقانونیت اور اداروں کے اپنے فرائض سے چشم پوشی نے بے شمار لوگوں کو جیتے جی مار دیا ہے۔
دانشور حضرات کا یہ کہنا بجا ہے کہ 75 سالوں میں ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو آج ہیں، اسلام میں عورتوں کی عزت و حرمت اور ان کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کے لیے احکامات موجود ہیں، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی قوانین تو دورکی بات ہے، انسانی حقوق کی پاسداری بھی ہاتھ سے گئی۔
اختلاف رائے ہر شہری کا حق ہے، ضروری نہیں ہے کہ سب وہی بات تسلیم کریں جس کا حکم حکومت دیتی ہے، اگر وہ اس بات پر عمل کریں کہ قرآن نے سچ بولنے کا درس دیا ہے تو پھر مشکل ہی مشکل ہے۔ سچی بات کرنا ایک جرم بن چکا ہے، 24 کروڑ آبادی کے ذہنوں کو بدلنا ممکن نہیں ہے۔
آج کے حالات کے تناظر میں علامہ اقبال کی ایک نظم ''گُلِ رنگیں'' میرے قلم کی نوک پر آکر ٹھہرگئی ہے۔ 5 اشعار پر مشتمل یہ نظم اہلِ بصیرت کے لیے فکر کی راہ ہموار کرتی ہے:
تُو شناسائے خراشِ عقدہ مشکل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیب محفل ہے' شریکِ شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بیں نہیں
آہ یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گلچیں نہیں
آخری شعر یعنی ''مقطع'' حالاتِ حاضرہ کی تصویر کشی کے لیے کافی ہے۔
حالات یک دم کیا سے کیا ہو جائیں گے اور اس کے پیچھے کن عوامل کی کارستانی ہے، یہ بات کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھی۔ اسی حوالے سے ایک اور نظم اس کا عنوان ہے '' پرندے کی فریاد'' جو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں لگتا یوں ہے جیسے یہ اشعار انھی کے لیے تخلیق کیے گئے تھے۔
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا
آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے!
میں بے زباں ہوں قیدی، تُو چھوڑ کر دعا لے
یہ کیسی دستور زباں بندی ہے تیری محفل میں
بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
آگہی کا کرب بھی بڑا جان لیوا ہوتا ہے۔ سوچ و بچار اور غور و خوض وہی کرتا ہے جس کا شمار اہل بصیرت میں ہوتا ہے۔ وہ آنے والے کل اور آنے والے دکھوں کی یلغار کی آہٹ قبل ازوقت سن لیتا ہے اس کا مداوا کرنا بھی چاہے تو اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا ہے، اندھیروں اور اُجالوں کی تفریق اورکذب کا اندھیرا اور ایمان کی روشنی بھی اہل علم کے ہی حصے میں آتی ہے، وہ اپنی حکمت عملی سے فیصلے کرتا ہے اور آگے بڑھاتا ہے اس امید پرکہ اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا کہ اس کا ضمیر زندہ ہے، اس نے کچھ غلط نہیں کیا ہے، لیکن سب کی فکر اور سوچ ہرگز یکساں نہیں ہوتی۔
کچھ لوگ دنیا کی کامیابی کو ہی منزل سمجھتے ہیں اپنی عاقبت سے بے فکر ہو کر تعیشات زندگی کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں اسی دنیا میں جوگی، درویش اور سالک و صوفی بھی بستے ہیں جو دور تلک اسلام کا پیغام پہنچانے میں ایک مبلغ کا حق ادا کرتے ہیں، کفار ایسے ہی صوفیا کرام کے ساتھ بغض و عناد اور دشمنی رکھتے ہیں۔ انھیں ایسے ہی لوگ اچھے لگتے ہیں لیکن دوست وہ ان کے بھی نہیں ہوتے۔ اللہ نے اسی لیے دوستی کرنے سے منع کیا ہے کہ وقت کے ساتھ نگاہ بدلتے زبان بدلتے دیر نہیں لگتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا بحیثیت مسلمان اور مسلم حکمران کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو دکھوں اور بدترین ظلم سے نجات دلانے کی کوشش کی جاتی، امت مسلمہ کی خاموشی نے انھیں نڈر بنا دیا ہے اور وہ فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتے ہیں اور شیرخوار بچوں کو ان کی ماؤں کے سمیت اغوا کرلیتے ہیں اور بند کمروں میں ان بچوں کے ساتھ تشدد کیا جاتا ہے، ماں تڑپتی ہے، سسکتی ہے، لیکن انھیں رحم نہیں آتا ہے، اور رحم کیوں کر آئے، اس لیے کہ ان کے مسلمان بھائی ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں، یہی حال مقبوضہ کشمیر کا ہے، بلاناغہ نوجوانوں کو شہید کیا جاتا ہے۔
اس ظلم پر اقوام متحدہ اور دوسری تنظیموں اور صحافیوں کی طرف سے آواز اٹھائی جاتی ہے بھارت کا مکروہ چہرہ دکھایا جاتا ہے، کشمیریوں پر ہونے والی بربریت کے خونی چھینٹوں اور خون سے آلودہ اوراق پوری دنیا کے سامنے رکھ دیے جاتے ہیں، معصوم لڑکیوں کی آبرو کی دھجیاں الفاظ اور تقریر کی شکل میں دکھائی جاتی ہیں۔
آج بے شمار بچوں اور بڑوں کے سینے زخموں سے چور اورچہرے پیلٹ گن سے داغ دار ہو چکے ہیں لیکن دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی فریاد کون سنے گا؟ اپنے ہم وطنوں کے مسائل ہی حل نہیں ہو رہے ہیں، لوگ اس طرح ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جیسے ان کے اس عمل سے ان کی عزت اور ملک کے استحکام میں اضافہ ہوگا۔
آج بے شمار لوگ امن کے خواہش مند ہیں اور مظلوموں کو ناکردہ گناہوں سے بچانا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا کر نہیں سکتے کہ خوف و ہراس دل و دماغ پر طاری ہو چکا ہے۔ حقیقت پسندی کا کوئی طالب علم نہیں اس کی وجہ ہمارے ملک میں دہرا نظام ہے۔ امیر، غریب اور طاقتور کے قوانین میں زمین آسمان کا فرق ہے، آج بھی چھوٹے چھوٹے جرائم کرنے والے پا بہ سلاسل ہیں جنھوں نے عدالت کی شکل نہیں دیکھی، ان حالات میں کہاں کی سزا و رہائی؟
اسی تفریق نے ریاست کو کمزور اور داغ دار سیاست کو فروغ دیا ہے، اب بھی وقت ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے ارادوں میں لچک لائی جاسکتی ہے قوم اور ملک اسی وقت مضبوط ہوتا ہے جب آپس میں خیرسگالی کے جذبات جنم لیں۔
شاخ بریدہ سے سبق اندوز ہوکہ
ناآشنا سے قاعدہ روزگار سے
ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
دانشور حضرات کا یہ کہنا بجا ہے کہ 75 سالوں میں ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو آج ہیں، اسلام میں عورتوں کی عزت و حرمت اور ان کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کے لیے احکامات موجود ہیں، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی قوانین تو دورکی بات ہے، انسانی حقوق کی پاسداری بھی ہاتھ سے گئی۔
اختلاف رائے ہر شہری کا حق ہے، ضروری نہیں ہے کہ سب وہی بات تسلیم کریں جس کا حکم حکومت دیتی ہے، اگر وہ اس بات پر عمل کریں کہ قرآن نے سچ بولنے کا درس دیا ہے تو پھر مشکل ہی مشکل ہے۔ سچی بات کرنا ایک جرم بن چکا ہے، 24 کروڑ آبادی کے ذہنوں کو بدلنا ممکن نہیں ہے۔
آج کے حالات کے تناظر میں علامہ اقبال کی ایک نظم ''گُلِ رنگیں'' میرے قلم کی نوک پر آکر ٹھہرگئی ہے۔ 5 اشعار پر مشتمل یہ نظم اہلِ بصیرت کے لیے فکر کی راہ ہموار کرتی ہے:
تُو شناسائے خراشِ عقدہ مشکل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیب محفل ہے' شریکِ شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بیں نہیں
آہ یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گلچیں نہیں
آخری شعر یعنی ''مقطع'' حالاتِ حاضرہ کی تصویر کشی کے لیے کافی ہے۔
حالات یک دم کیا سے کیا ہو جائیں گے اور اس کے پیچھے کن عوامل کی کارستانی ہے، یہ بات کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھی۔ اسی حوالے سے ایک اور نظم اس کا عنوان ہے '' پرندے کی فریاد'' جو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں لگتا یوں ہے جیسے یہ اشعار انھی کے لیے تخلیق کیے گئے تھے۔
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا
آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے!
میں بے زباں ہوں قیدی، تُو چھوڑ کر دعا لے
یہ کیسی دستور زباں بندی ہے تیری محفل میں
بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
آگہی کا کرب بھی بڑا جان لیوا ہوتا ہے۔ سوچ و بچار اور غور و خوض وہی کرتا ہے جس کا شمار اہل بصیرت میں ہوتا ہے۔ وہ آنے والے کل اور آنے والے دکھوں کی یلغار کی آہٹ قبل ازوقت سن لیتا ہے اس کا مداوا کرنا بھی چاہے تو اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا ہے، اندھیروں اور اُجالوں کی تفریق اورکذب کا اندھیرا اور ایمان کی روشنی بھی اہل علم کے ہی حصے میں آتی ہے، وہ اپنی حکمت عملی سے فیصلے کرتا ہے اور آگے بڑھاتا ہے اس امید پرکہ اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا کہ اس کا ضمیر زندہ ہے، اس نے کچھ غلط نہیں کیا ہے، لیکن سب کی فکر اور سوچ ہرگز یکساں نہیں ہوتی۔
کچھ لوگ دنیا کی کامیابی کو ہی منزل سمجھتے ہیں اپنی عاقبت سے بے فکر ہو کر تعیشات زندگی کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں اسی دنیا میں جوگی، درویش اور سالک و صوفی بھی بستے ہیں جو دور تلک اسلام کا پیغام پہنچانے میں ایک مبلغ کا حق ادا کرتے ہیں، کفار ایسے ہی صوفیا کرام کے ساتھ بغض و عناد اور دشمنی رکھتے ہیں۔ انھیں ایسے ہی لوگ اچھے لگتے ہیں لیکن دوست وہ ان کے بھی نہیں ہوتے۔ اللہ نے اسی لیے دوستی کرنے سے منع کیا ہے کہ وقت کے ساتھ نگاہ بدلتے زبان بدلتے دیر نہیں لگتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا بحیثیت مسلمان اور مسلم حکمران کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو دکھوں اور بدترین ظلم سے نجات دلانے کی کوشش کی جاتی، امت مسلمہ کی خاموشی نے انھیں نڈر بنا دیا ہے اور وہ فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتے ہیں اور شیرخوار بچوں کو ان کی ماؤں کے سمیت اغوا کرلیتے ہیں اور بند کمروں میں ان بچوں کے ساتھ تشدد کیا جاتا ہے، ماں تڑپتی ہے، سسکتی ہے، لیکن انھیں رحم نہیں آتا ہے، اور رحم کیوں کر آئے، اس لیے کہ ان کے مسلمان بھائی ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں، یہی حال مقبوضہ کشمیر کا ہے، بلاناغہ نوجوانوں کو شہید کیا جاتا ہے۔
اس ظلم پر اقوام متحدہ اور دوسری تنظیموں اور صحافیوں کی طرف سے آواز اٹھائی جاتی ہے بھارت کا مکروہ چہرہ دکھایا جاتا ہے، کشمیریوں پر ہونے والی بربریت کے خونی چھینٹوں اور خون سے آلودہ اوراق پوری دنیا کے سامنے رکھ دیے جاتے ہیں، معصوم لڑکیوں کی آبرو کی دھجیاں الفاظ اور تقریر کی شکل میں دکھائی جاتی ہیں۔
آج بے شمار بچوں اور بڑوں کے سینے زخموں سے چور اورچہرے پیلٹ گن سے داغ دار ہو چکے ہیں لیکن دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی فریاد کون سنے گا؟ اپنے ہم وطنوں کے مسائل ہی حل نہیں ہو رہے ہیں، لوگ اس طرح ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جیسے ان کے اس عمل سے ان کی عزت اور ملک کے استحکام میں اضافہ ہوگا۔
آج بے شمار لوگ امن کے خواہش مند ہیں اور مظلوموں کو ناکردہ گناہوں سے بچانا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا کر نہیں سکتے کہ خوف و ہراس دل و دماغ پر طاری ہو چکا ہے۔ حقیقت پسندی کا کوئی طالب علم نہیں اس کی وجہ ہمارے ملک میں دہرا نظام ہے۔ امیر، غریب اور طاقتور کے قوانین میں زمین آسمان کا فرق ہے، آج بھی چھوٹے چھوٹے جرائم کرنے والے پا بہ سلاسل ہیں جنھوں نے عدالت کی شکل نہیں دیکھی، ان حالات میں کہاں کی سزا و رہائی؟
اسی تفریق نے ریاست کو کمزور اور داغ دار سیاست کو فروغ دیا ہے، اب بھی وقت ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے ارادوں میں لچک لائی جاسکتی ہے قوم اور ملک اسی وقت مضبوط ہوتا ہے جب آپس میں خیرسگالی کے جذبات جنم لیں۔
شاخ بریدہ سے سبق اندوز ہوکہ
ناآشنا سے قاعدہ روزگار سے
ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ