پاکستان کی معیشت ماضی حال اور مستقبل
آئی ایم ایف یوں لگتا ہے کہ خود مہرے کے طور پر استعمال ہورہا ہے
ہماری معیشت آج جس موڑ پر ہے، اسی کی اپنی ایک تاریخ ہے اور ہماری جغرافیائی حقیقت ہے۔ یہیں سے لشکر گذرتے تھے ، جن کو دلی فتح کرنا ہوتا تھا، پانی پت کے میدانوں میں۔
ان لشکروں کی حکمرانی سات آٹھ صدیوں پر محیط ہے، وسط ایشیا بشمول ایران تک کے علاقے میں موجود ترک ، منگول ، خلجی ، تغلق وغیرہ مسلمان ہوگئے ۔ان مسلمانوں نے شمالی ہند کی طرف پیش قدمی کی ، آہستہ آہستہ یہ مسلمان گروہ شمالی ہند پر قابض ہوتے گئے ، مسلم حکمرانی کا یہ سلسلہ تقریبا آٹھ صدیوں تک جاری رہا اور بلاآخر انگریزوں نے اس حکمرانی کا خاتمہ کردیا۔
ایرانی اور تورانی مسلمانوں سے پہلے سارا ہند غیر مسلم تھا، پھر یہاں پہلے سے آباد قبائل میں لوگ مسلمان ہوئے اور بعد میں آنے والے بھی یہاں آباد ہوگئے، یوں صدیوں کے سفر میں شمالی ہند میں مسلمانوں اکثریت میں آگئے ۔ انگریز یہاں سے جاتے جاتے ہندوستان کو دو ٹکڑوں میں بانٹ گئے۔
ایک حصہ تو ہندوستان رہاجب کہ حصہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا۔ شمالی ہند کے وہ علاقے جو پاکستان کہلائے یعنی شمال مغربی سرحدی علاقہ، پوٹھوہار ریجن، یعنی اٹک،راولپنڈی، چکوال، جہلم، گجرات، سرگودھا، خوشاب اور لاہور ڈویژن تک کا پنجاب، انگریزوں کی فوج میں جو کچھ عسکری تھے، ان علاقوں سے تھے۔
پاکستان بن تو گیا مگر یہاں برپا رہنے والی جنگوں کی تاریخ کا سفر پھر بھی جاری رہا ۔ اتر پردیش، دلی، مدھیہ پردیش وغیرہ سے مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آئے ، مسلم لیگ ایک کمزور پارٹی تھی، محمد علی جناح کی وفات کے بعد قیادت لیاقت علی خان کے سپرد ہوئی۔ لیاقت علی خان کو امریکی بلاک میں جانا پڑا، نہرو نے آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی، پھر دنیا نے سرد جنگ کی طرف کروٹ لی۔جنرل ایوب خان کو میدان میں لایا گیا۔ سرد جنگ نے جو ہماری داخلی سیاست کے حلیے بگاڑے توہم آدھا ملک ہی گنواں بیٹھے۔
آمریتوں نے ایک مخصوص ''شرفاء ''کی کلاس کو جنم دیا۔ ہم دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک تھے۔ ہندوستان نے Take Off ڈاکٹر من موہن سنگھ کے زمانے میں لیا، امریکا نے ہمیں خوب نوازا ، ہم سوویت یونین کے خلاف امریکا کے لیے فرنٹ لائن ریاست تھے،پشاور کے اڈے سوویت یونین کے خلاف جاسوسی کے لیے استعمال ہوئے۔ مختصرا یہ کہ یہ تمام علاقہ لشکری رہا۔ لا شعوری طور پر اس مٹی کی تاثیر میں جنگ آوری رچی بسی ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانے میں بھی ہماری معیشت کو دھچکا لگا تھا نیشنلائیزیشن سے، مگر اس زمانے میں ہمارا مزدور طبقہ مڈل ایسٹ ممالک میں روزگار کے لیے سیٹل ہوئے اور ان تارکین وطن نے زرمبادلہ کی صورت اپنے ملک میں پیسے بھیجے ۔ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں شرح نمو چھ فیصد سے اوپر رہی۔ ان کے زمانے میں پولی ٹیکنیکل کالج بھی کھلے۔ ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا پروجیکٹ اسٹیل مل روس کی مدد سے متعارف کروایا گیا،یہ پروجیکٹ ہزاروں ایکڑ پر مبنی تھا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہمیں مخصوص قسم کے مدارس دیے گئے، ان مدارس کے طلبہ پیداواری کا کام نہیں کر سکتے تھے لہذا انھوں نے شرفا ء کو اپنے ساتھ لینے کے لیے کنگز پارٹی بنائی اور ان کو مراعات بھی دیں۔ نہ صرف یہ بلکہ تاریخ کو مسخ کیا گیا،یہاںجہا دیوں کی اقسام پیدا کی گئیں، یہ تمام جہادی گروپ اس ملک میں جمہوری عمل کے خلاف تھے ، یہی بات آمرانہ سوچ کو پسند تھی۔امریکا یہاں سے چلا تو گیا مگر ضیاء الحق کی سوچ یہاں اداروں میں بس گئی۔
1999ء کے بعد شوکت عزیز کے زمانے میںہماری معیشت نے نئی راہ اختیار کی،یہ جنرل مشرف کا دور تھا۔ آئی ایم ایف تھا، امریکی ڈالر بھی تھے، ہمارا امپورٹ بھی بڑھ گی، ہماری ایکسپورٹ بھی بڑھی لیکن قرضوں کا حجم بڑھتا گیا۔ یہ سب ماضی کے بجٹ ہم کو بتائیں گے کہ لگ بھگ سات سے آٹھ فیصد کے خسارے کے بجٹ بنے، جس کو معاشی بے راہ روی کہا جاسکتا ہے۔
مشرف گیارہ سے بارہ ہزار ارب کا قرضہ چھوڑ گئے۔ زرداری صاحب کے زمانے میں یہ قرضہ 18000 ہزار ارب تک پہنچا، نواز شریف اس کو 24000 ارب تک چھوڑ گئے، عمران خان نے تو خیر کمال ہی کردیا ، کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا سب لوٹنے کے نئے ریکارڈ قائم کر گئے ۔ اورجاتے جاتے جناب44000 ارب تک کے مجموعی قرضے چھوڑ گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کو نیو کلیئر پاور بنایا، جان کا نذرانہ دیا، نواز شریف سی پیک لائے، جس میں میں جنرل راحیل شریف بھی آن بورڈ تھے لیکن اسی اسٹبلشمنٹ کے اندر ایسے بھی لوگ تھے جو سی پیک کے خلاف اور عمران خان کے ہنڈلر تھے۔ اس وجہ سے سی پیک ناکام ہوا۔ باجوہ صاحب اور عمران خان نے یہ کام مل کرکیا اور اب سی پیک بحال تو ہوا ہے مگر دنیا کے حالات ساز گار نہیں ہیں۔
آئی ایم ایف یوں لگتا ہے کہ خود مہرے کے طور پر استعمال ہورہا ہے، اگر اب ہم چین کے بلاک میں جاتے ہیں تو امریکا مخالف ہوگا ، تو کیا ہم یہ توازن برقرار رکھ سکیں گے جو ماضی میں رکھا تھا، یعنی بیک وقت چین اور امریکا دونوں سے بہتر تعلقات؟
ایسا لگتا ہے کہ اب ہم ایک نئے بھنور میں دھنستے جارہے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد 1950 میں رکھی گئی، اس کے اپنے نشیب و فراز رہے مگر اب ہم اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لارہے ہیں، جو ہمارے مفادات کا تقاضہ بھی ہے ، اب ہم فرنٹ لائن اسٹیٹ نہیں بن سکتے ۔ ہمیں اب مضبوط معیشت کی ضرورت ہے۔
ایک لحاظ سے ہم بہتر بھی ہیں کہ 1950 کی طرح ہماری اس وقت کی سیاسی قیادت اتنی کمزور نہیں، یقینا ہمارے پاس ذوالفقار علی بھٹو نہیں، جس نے ان سامراجی طاقتوں سے ٹکر لینے کی کوشش کی اور مارے گئے۔ اسی طرح سے بے نظیر بھی۔ہمارے پاس اس وقت جو عوامی قیادت ہے نواز شریف، زرداری اور دیگر مذہبی جماعتیں ان کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کا تعاون اور یہ تعاون اس ملک کو آج کی چیلنجز سے نکال سکتا ہے۔
جدید معیشت کے نئے خدوخال ہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی ہماری اتنی نوجوانوں کی قوت، ہماری وسیع تر زراعت دنیا میں بڑھتی ہوئی مہنگائی،ٹیکنیکل ڈیوائسز کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ان تمام چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں انرجی سیکٹر کو نئے سرے سے تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمارے لیے بحران ہے بیرونی قرضوں کا اور یہ چند سال کے اندر حل کرنا ہوگا، نئی سرد جنگوں کی زد سے بچانے کے لیے اس وقت پاکستان کو محتاط انداز میں اورپھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔