سڑکوں کے نام اور ثقافتی انتشار کا مسئلہ
کیا ہی اچھا ہو کہ مستقبل میں سڑکوں کے نام رکھنے میں مقامی شخصیات کو بھی شامل کرکے توازن قائم کیا جائے
ایک زمانہ تھا جب ہمارے ملک میں سماجی ،ثقافتی او رسیاسی سمیت کئی موضوعات پر سنجیدہ کتابیں اور مضامین بڑی کثرت سے شائع ہواکرتے تھے جن کے قارئین کی تعداد بھی کافی زیادہ ہوتی تھی۔
یہ رجحان آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے لیکن معاشی طور پر پسماندہ صوبے بلوچستان میں بہت زیادہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس صوبے کے عوام کا سیاسی شعور بھی قابلِ رشک ہے۔ ایک ایسے دور میں جب سماجی رابطوں کے مختلف ذرائع کی وجہ سے چھپی ہوئی کتابوں اور رسائل کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد کم ہوئی ہے اگر کوئی اچھی کتاب پڑھنے کو مل جائے تو یقینا کافی خوشی ہوتی ہے۔
حارث خلیق اور عرفان احمد نے ''پاکستان عصرحاضر میں'' کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ہے جس میں چونکا دینے والے موضوعات پر اعلیٰ پائے کے مضامین کویکجا کردیاگیا ہے۔
مذکورہ کتاب میں حسن زیدی کا ایک منفرد طویل مضمون بھی شامل ہے جس میں بڑے دلچسپ پیرائے میں یہ امر اجاگر کیاگیا ہے کہ ہم اپنی شناخت کے لیے بیرونی حوالے تلاش کرتے ہیں اور اپنے مقامی ودیسی حوالوں کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان کے خیال میںیہ ایک بڑی وجہ ہے کہ ہم مستقل ثقافتی انتشار یقینی اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جس کے بارے میںہمیں ضرور جاننا چاہیے حسن زیدی لکھتے ہیں۔
کراچی کی خیابان شاہین پر اگر آپ جنو ب کی سمت سفر کریں تو آپ کے سامنے خیابان اتحاد آئے گی۔ خیابان اتحاد کو پار کرکے آپ ڈی ایچ اے کے اب تک نسبتاً نئے فیز 8 سیکٹر میں داخل ہوجائیں گے۔ آپ تھوڑا سا دھیان دیں تو جو شے آپ کی توجہ حاصل کرے گی وہ سڑکوں کے نام ہیں۔
پہلی سڑک جو آپ کے سامنے آتی ہے اس کا نام تیرھویں صدی کے برصغیر کے صوفی شاعر ، عالم اور موسیقار امیر خسرو(1253-1325) کے نام پر رکھاگیا ہے ۔ اس کے بعد خیابان ِ طارق ہے، اس سڑک کو یہ نام اوائل آٹھویں صدی عیسوی میں اسپین کا بڑا حصہ فتح کرنے والے بربر مسلمان جنرل طارق بن زیاد (670-720) کے نام پر دیاگیا ہے۔
اس کے بعد خیابانِ قاسم آتی ہے،یہ اموی فوجی کمانڈر محمد بن قاسم (694-715) کے نام پر ہے جس سے یہ اعزاز منسوب کیا جاتا ہے کہ اس نے اوائل آٹھویں صدی عیسوی میں سترہ برس کی عمر میں بر صغیر میں عربوں کے اوّلین نقوش ثبت کیے اور سندھ کے کچھ حصوں کو فتح کیا۔
اس کے بعد خیابانِ رومی ہے ، اس سڑک کو یہ نام فارس کے صوفی ، عالم دین اور شاعر مولانا جلال الدین رومی(1207-1273) کے نام پر دیاگیا ہے۔ اس کے بعد خیابانِ اقبال ہے۔یہ بیسویں صدی کے شاعر وفلسفی محمد اقبال (1877-1938) سے منسوب ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن اور تخلیق پاکستان کے خواب کا سہرا انھی کے سر باندھا جاتا ہے۔
مزید آگے کی جانب سفر کرنے پر آپ خیابانِ خالد تک پہنچ جائینگے۔ بظاہر یہ نام ابتدائی اسلامی دور کے جنرل خالد بن ولید (592-642) کے نام پردیاگیا ہے جنہوں نے عراق اور شام کے وسیع علاقوںکو فتح کیا تھا۔
مزید آگے بڑھنے پر آپ خیابان غالب پر پہنچیں گے ۔ یہ سڑک انیسویں صدی کے اہم ترین اردو شعرا میں شمار کیے جانے والے مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کے نام سے منسوب ہے۔ اس کے فوری بعد خیابانِ بابر آتی ہے جو کہ برصغیر میں مغل سلطنت کے ترک نژاد بانی ظہیر الدین محمد بابر (1483-1530) کے نام پر ہے۔
یہاں سے آگے آپ کو خیابانِ فیصل ملتی ہے جو سعودی باشاہ فیصل(1906-1975) کے نام سے منسوب ہے اور اس کے بعد خیابانِ ٹیپو سلطان(1750-1799) ہے ۔ یہ نام جنوبی ہند کی مسلم ریاست میسور کے مسلمان حکمران کے نام پر ہے جنھیں انگریز نو آبادیات کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
آپ کا یہ سفر ذوالفقار اسٹریٹ نمبر ایک پر ختم ہوجاتا ہے جو کہ ایک جانب سے ڈی ایچ اے کے ایلیٹ گولف کلب کی حد پر ہے۔ اس سڑک کا یہ نام حضرت علی مرتضیٰؓ کی تلوار کے نام پرہے۔اگر آپ اسی سمت میں سفر جاری رکھتے تو آگے آپ کو خیابان خیبر ملتی ہے ، خیبر ابتدائی اسلامی تاریخ میں اہم مقام رکھنے والا ایک قلعہ تھا۔ اس کے بعد خیابان ِغزنوی آتی ہے جسے یہ نام غزنی کے سلطان محمود سبکتگین (931-1030) کے نامِ نامی پر دیاگیا ہے ۔ یہ وہ ترک جنرل تھا جس نے شمال مغربی ہندوستان میں فارسی بولنے والی ترک سلطنت کی بنیاد ڈالی اور وسطیٰ کے ہندوستان امیر شہروں کو سترہ بار تاخت وتاراج کیا۔
خیابان عرفات کا نام یا تو سعودی عرب میں موجود مقدس پہاڑی چوٹی ( جبلِ عرفات) کے نام پر ہے یا یہ تنظیم آزادی فلسطین ( پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات کے نام پر ہے، خیابان شجر( درختوں والی شاہراہ) ان سب ناموں کے بیچوں بیچ ایک غیر جانبدار سے نام والی سڑک ہے ، خیابانِ ثاقب ( یہ کس کے نام سے منسوب ہے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے) اور پھر خیابانِ بلالؓ یہ سڑک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے نام سے منسوب ہے جناب بلال ایک آزادہ کردہ ایتھوپیائی غلام تھے جنھیں ابتدائی اسلامی تاریخ میں بہت نمایاں مقام حاصل ہوا۔
جب کبھی اس علاقے سے گزرتا ہوں تو سڑکوں کے یہ نام پڑھ کر اس اجلاس کی حرکیات کو تصور میں لانے کی کوشش کرتا ہوں جو اس نئے سیکٹر میں سڑکوں کے نام رکھنے کے لیے منعقد کیاگیا ہوگا۔ بنیادی طور پر نام رکھتے ہوئے تین شعبوں کے لوگوں کو ہی اس اعزاز کا مستحق گرداناگیا ،شاعر، جنرل اور بادشاہ، جن سب کا تعلق مسلم تاریخ سے ہے۔ اس حوالے سے جو چیز میرے لیے زیادہ حیرانی کا سبب بنتی ہے وہ یہ ہے کہ سڑکوں کا نام رکھتے ہوئے اس دھرتی سے تعلق رکھنے والے ایک بھی مقامی شخص کو اس اعزاز کے قابل نہیں سمجھاگیا۔
ایسا نہیںہے کہ تمام شاعروں اور صوفیا کے نام کو کسی ایک جگہ اور جنگجو یا حکمرانوں کے نام کسی دوسری جگہ کی سڑکوںکو دیے گئے ہوں، اس کے بجائے ناموں کے مابین پائی جانے والی مسابقت مجھے یہ خیال کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ شاید دو یا تین مختلف گروہ اپنے اپنے پسندیدہ ناموں کو منتخب کروانے کے لیے مہم چلارہے ہوں گے۔ ایک جانب امن کا خواہاں شاعری پسند گروہ جب کہ دوسری جانب جنگجو ئوں کو سراہنے والا گروہ۔ شاہوں کی حمایت پر کمر بستہ ایک چھوٹا گروہ تیسری جانب سے زورآزما ہورہا ہوگا۔
میرے تخیل میں اس اجلاس کی جو صورت بنتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ خاصا ہنگامہ خیز رہا ہوگا جہاں ہر تجویز کنندہ گروہ ، سڑکوں کے نام کے حوالے سے کچھ، اور جیسے ہاتھ لگے ، لے اُڑنے کے لیے کوشاں ہوگا۔ لین دین کیا جارہاہوگا کہ کون سے گروہ کا تجویز کردہ نام کس سڑک کو ملے۔ شاذ ہی کسی کمزور گروہ( ماحولیات کے تحفظ کے طرفدار جنہوں نے سڑک کے لیے شجر یا ثاقب کا نام پیش کیا ) کو بھی موقع نصیب ہوجاتا ہوگا کہ وہ اپنی کوئی تجویز منواسکیں۔
بظاہر یہ سوچ بچار کی ایک دلچسپ کوشش ہے لیکن میں اسے علمِ بشریات کے نقطۂ نظر سے سامنے آنے والے ایک چھوٹے سے نمونے کے طور پر پیش کرتا ہوں۔یہ پاکستانی ثقافت کی تعریف متعین کرنے کے لیے جاری ایک بڑی مسابقت اورکھینچا تانی کا مظہر ہے۔ کسی ہنڈولے کی ماندن اوپر نیچے ہوتا ہوا یہ جھگڑا نیا نہیں بلکہ ملک کی تخلیق کے وقت سے ہی جاری ہے اور ، اس چیز کو اگر بیانوں کے عمومی معیار پر پرکھا جائے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
تاہم، اس مباحثے کی کبھی ختم نہ ہونے والی نوعیت ، اور اس پر گفتگو کے لیے حدود پر عدم اتفاق رائے، صورت ِحال کو مابعد جدید قسم کی انارکی میں بدلنے کے لیے ہر طرح کے خیالات کے ملغوبے کو جگہ فراہم کرتی ہے ۔
ہوسکتا ہے بہت سے لوگ حسن زیدی کے نقطہ نظر سے اختلاف کریں تاہم ، کیا ہی اچھا ہو کہ مستقبل میں سڑکوں کے نام رکھنے میں مقامی شخصیات کو بھی شامل کرکے توازن قائم کیا جائے۔ا سے معاشرے میں تنوع کو قبول کرنے کے رجحان کوفروغ ملے گا۔
یہ رجحان آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے لیکن معاشی طور پر پسماندہ صوبے بلوچستان میں بہت زیادہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس صوبے کے عوام کا سیاسی شعور بھی قابلِ رشک ہے۔ ایک ایسے دور میں جب سماجی رابطوں کے مختلف ذرائع کی وجہ سے چھپی ہوئی کتابوں اور رسائل کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد کم ہوئی ہے اگر کوئی اچھی کتاب پڑھنے کو مل جائے تو یقینا کافی خوشی ہوتی ہے۔
حارث خلیق اور عرفان احمد نے ''پاکستان عصرحاضر میں'' کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ہے جس میں چونکا دینے والے موضوعات پر اعلیٰ پائے کے مضامین کویکجا کردیاگیا ہے۔
مذکورہ کتاب میں حسن زیدی کا ایک منفرد طویل مضمون بھی شامل ہے جس میں بڑے دلچسپ پیرائے میں یہ امر اجاگر کیاگیا ہے کہ ہم اپنی شناخت کے لیے بیرونی حوالے تلاش کرتے ہیں اور اپنے مقامی ودیسی حوالوں کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان کے خیال میںیہ ایک بڑی وجہ ہے کہ ہم مستقل ثقافتی انتشار یقینی اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جس کے بارے میںہمیں ضرور جاننا چاہیے حسن زیدی لکھتے ہیں۔
کراچی کی خیابان شاہین پر اگر آپ جنو ب کی سمت سفر کریں تو آپ کے سامنے خیابان اتحاد آئے گی۔ خیابان اتحاد کو پار کرکے آپ ڈی ایچ اے کے اب تک نسبتاً نئے فیز 8 سیکٹر میں داخل ہوجائیں گے۔ آپ تھوڑا سا دھیان دیں تو جو شے آپ کی توجہ حاصل کرے گی وہ سڑکوں کے نام ہیں۔
پہلی سڑک جو آپ کے سامنے آتی ہے اس کا نام تیرھویں صدی کے برصغیر کے صوفی شاعر ، عالم اور موسیقار امیر خسرو(1253-1325) کے نام پر رکھاگیا ہے ۔ اس کے بعد خیابان ِ طارق ہے، اس سڑک کو یہ نام اوائل آٹھویں صدی عیسوی میں اسپین کا بڑا حصہ فتح کرنے والے بربر مسلمان جنرل طارق بن زیاد (670-720) کے نام پر دیاگیا ہے۔
اس کے بعد خیابانِ قاسم آتی ہے،یہ اموی فوجی کمانڈر محمد بن قاسم (694-715) کے نام پر ہے جس سے یہ اعزاز منسوب کیا جاتا ہے کہ اس نے اوائل آٹھویں صدی عیسوی میں سترہ برس کی عمر میں بر صغیر میں عربوں کے اوّلین نقوش ثبت کیے اور سندھ کے کچھ حصوں کو فتح کیا۔
اس کے بعد خیابانِ رومی ہے ، اس سڑک کو یہ نام فارس کے صوفی ، عالم دین اور شاعر مولانا جلال الدین رومی(1207-1273) کے نام پر دیاگیا ہے۔ اس کے بعد خیابانِ اقبال ہے۔یہ بیسویں صدی کے شاعر وفلسفی محمد اقبال (1877-1938) سے منسوب ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن اور تخلیق پاکستان کے خواب کا سہرا انھی کے سر باندھا جاتا ہے۔
مزید آگے کی جانب سفر کرنے پر آپ خیابانِ خالد تک پہنچ جائینگے۔ بظاہر یہ نام ابتدائی اسلامی دور کے جنرل خالد بن ولید (592-642) کے نام پردیاگیا ہے جنہوں نے عراق اور شام کے وسیع علاقوںکو فتح کیا تھا۔
مزید آگے بڑھنے پر آپ خیابان غالب پر پہنچیں گے ۔ یہ سڑک انیسویں صدی کے اہم ترین اردو شعرا میں شمار کیے جانے والے مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کے نام سے منسوب ہے۔ اس کے فوری بعد خیابانِ بابر آتی ہے جو کہ برصغیر میں مغل سلطنت کے ترک نژاد بانی ظہیر الدین محمد بابر (1483-1530) کے نام پر ہے۔
یہاں سے آگے آپ کو خیابانِ فیصل ملتی ہے جو سعودی باشاہ فیصل(1906-1975) کے نام سے منسوب ہے اور اس کے بعد خیابانِ ٹیپو سلطان(1750-1799) ہے ۔ یہ نام جنوبی ہند کی مسلم ریاست میسور کے مسلمان حکمران کے نام پر ہے جنھیں انگریز نو آبادیات کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
آپ کا یہ سفر ذوالفقار اسٹریٹ نمبر ایک پر ختم ہوجاتا ہے جو کہ ایک جانب سے ڈی ایچ اے کے ایلیٹ گولف کلب کی حد پر ہے۔ اس سڑک کا یہ نام حضرت علی مرتضیٰؓ کی تلوار کے نام پرہے۔اگر آپ اسی سمت میں سفر جاری رکھتے تو آگے آپ کو خیابان خیبر ملتی ہے ، خیبر ابتدائی اسلامی تاریخ میں اہم مقام رکھنے والا ایک قلعہ تھا۔ اس کے بعد خیابان ِغزنوی آتی ہے جسے یہ نام غزنی کے سلطان محمود سبکتگین (931-1030) کے نامِ نامی پر دیاگیا ہے ۔ یہ وہ ترک جنرل تھا جس نے شمال مغربی ہندوستان میں فارسی بولنے والی ترک سلطنت کی بنیاد ڈالی اور وسطیٰ کے ہندوستان امیر شہروں کو سترہ بار تاخت وتاراج کیا۔
خیابان عرفات کا نام یا تو سعودی عرب میں موجود مقدس پہاڑی چوٹی ( جبلِ عرفات) کے نام پر ہے یا یہ تنظیم آزادی فلسطین ( پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات کے نام پر ہے، خیابان شجر( درختوں والی شاہراہ) ان سب ناموں کے بیچوں بیچ ایک غیر جانبدار سے نام والی سڑک ہے ، خیابانِ ثاقب ( یہ کس کے نام سے منسوب ہے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے) اور پھر خیابانِ بلالؓ یہ سڑک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے نام سے منسوب ہے جناب بلال ایک آزادہ کردہ ایتھوپیائی غلام تھے جنھیں ابتدائی اسلامی تاریخ میں بہت نمایاں مقام حاصل ہوا۔
جب کبھی اس علاقے سے گزرتا ہوں تو سڑکوں کے یہ نام پڑھ کر اس اجلاس کی حرکیات کو تصور میں لانے کی کوشش کرتا ہوں جو اس نئے سیکٹر میں سڑکوں کے نام رکھنے کے لیے منعقد کیاگیا ہوگا۔ بنیادی طور پر نام رکھتے ہوئے تین شعبوں کے لوگوں کو ہی اس اعزاز کا مستحق گرداناگیا ،شاعر، جنرل اور بادشاہ، جن سب کا تعلق مسلم تاریخ سے ہے۔ اس حوالے سے جو چیز میرے لیے زیادہ حیرانی کا سبب بنتی ہے وہ یہ ہے کہ سڑکوں کا نام رکھتے ہوئے اس دھرتی سے تعلق رکھنے والے ایک بھی مقامی شخص کو اس اعزاز کے قابل نہیں سمجھاگیا۔
ایسا نہیںہے کہ تمام شاعروں اور صوفیا کے نام کو کسی ایک جگہ اور جنگجو یا حکمرانوں کے نام کسی دوسری جگہ کی سڑکوںکو دیے گئے ہوں، اس کے بجائے ناموں کے مابین پائی جانے والی مسابقت مجھے یہ خیال کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ شاید دو یا تین مختلف گروہ اپنے اپنے پسندیدہ ناموں کو منتخب کروانے کے لیے مہم چلارہے ہوں گے۔ ایک جانب امن کا خواہاں شاعری پسند گروہ جب کہ دوسری جانب جنگجو ئوں کو سراہنے والا گروہ۔ شاہوں کی حمایت پر کمر بستہ ایک چھوٹا گروہ تیسری جانب سے زورآزما ہورہا ہوگا۔
میرے تخیل میں اس اجلاس کی جو صورت بنتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ خاصا ہنگامہ خیز رہا ہوگا جہاں ہر تجویز کنندہ گروہ ، سڑکوں کے نام کے حوالے سے کچھ، اور جیسے ہاتھ لگے ، لے اُڑنے کے لیے کوشاں ہوگا۔ لین دین کیا جارہاہوگا کہ کون سے گروہ کا تجویز کردہ نام کس سڑک کو ملے۔ شاذ ہی کسی کمزور گروہ( ماحولیات کے تحفظ کے طرفدار جنہوں نے سڑک کے لیے شجر یا ثاقب کا نام پیش کیا ) کو بھی موقع نصیب ہوجاتا ہوگا کہ وہ اپنی کوئی تجویز منواسکیں۔
بظاہر یہ سوچ بچار کی ایک دلچسپ کوشش ہے لیکن میں اسے علمِ بشریات کے نقطۂ نظر سے سامنے آنے والے ایک چھوٹے سے نمونے کے طور پر پیش کرتا ہوں۔یہ پاکستانی ثقافت کی تعریف متعین کرنے کے لیے جاری ایک بڑی مسابقت اورکھینچا تانی کا مظہر ہے۔ کسی ہنڈولے کی ماندن اوپر نیچے ہوتا ہوا یہ جھگڑا نیا نہیں بلکہ ملک کی تخلیق کے وقت سے ہی جاری ہے اور ، اس چیز کو اگر بیانوں کے عمومی معیار پر پرکھا جائے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
تاہم، اس مباحثے کی کبھی ختم نہ ہونے والی نوعیت ، اور اس پر گفتگو کے لیے حدود پر عدم اتفاق رائے، صورت ِحال کو مابعد جدید قسم کی انارکی میں بدلنے کے لیے ہر طرح کے خیالات کے ملغوبے کو جگہ فراہم کرتی ہے ۔
ہوسکتا ہے بہت سے لوگ حسن زیدی کے نقطہ نظر سے اختلاف کریں تاہم ، کیا ہی اچھا ہو کہ مستقبل میں سڑکوں کے نام رکھنے میں مقامی شخصیات کو بھی شامل کرکے توازن قائم کیا جائے۔ا سے معاشرے میں تنوع کو قبول کرنے کے رجحان کوفروغ ملے گا۔