وفاقی حکومت قبائلی اضلاع کو سالانہ 100 ارب روپے فراہمی کا وعدہ پورا نہ کرسکی
مرکز کی جانب سے 5 برس کے دوران کے پی کے میں ضم ہونے والے اضلاع کو صرف 87 ارب روپے فراہم کیے جاسکے
وفاقی حکومت قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے تحت ان کی ترقی کے لیے سالانہ 100 ارب روپے فراہمی کا وعدہ پورا نہ کرسکی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے 5 برس کے دوران صوبے کو 500 ارب میں سے صرف 87 ارب روپے فراہم کیے جاسکے ہیں۔ مرکزی حکومت نے 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (7 قبائلی ایجنسیاں اور ایف آر علاقے) کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا تھا جس کی منظوری خیبرپختونخوا اسمبلی سے بھی لی گئی تھی۔
قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے فیصلے کے تحت قبائلی ایجنسیوں کو اضلاع کا درجہ دیاگیا جبکہ ایف آر علاقوں کو نزدیکی اضلاع میں شامل کردیا گیا۔ اس سلسلے میں وفاقی کابینہ نے اپنے 2 مارچ2017 ءکے اجلاس میں فیصلہ کیاتھا کہ مرکزی حکومت مذکورہ ضم اضلاع کو سالانہ بنیادوں پر 100 ارب روپے فراہم کرے گی تاکہ یہ علاقے ترقی کرتے ہوئے ملک کے دیگر علاقوں کے برابر آسکیں۔
انضمام کے فیصلے کے تحت ہی مذکورہ ضم اضلاع کو پانچ سالوں کے لیے ٹیکسوں سے استثنیٰ بھی دیا گیا جو اس سال 30 جون کو پورے ہورہے ہیں جس میں اب مرکزی حکومت نے مزید ایک سال کی توسیع دی ہے۔
صوبائی محکمہ خزانہ کے ریکارڈ کے مطابق مرکزی حکومت نے ضم اضلاع کے لیے سالانہ 100 ارب روپے فراہم کرنے کے فیصلے کے تحت سال 2018ء سے 2023ء تک پانچ سال کے دوران صوبے کو صرف 87 ارب روپے فراہم کیے ہیں جبکہ اس مد میں مرکز کے ذمہ 413 ارب روپے واجب الادا ہیں، مذکورہ رقم پوری نہ ملنے کی وجہ سے صوبائی حکومت ان ضم اضلاع میں ترقی کا عمل بھرپور طریقہ سے شروع نہیں کرپائی۔
واضح رہے کہ صوبائی حکومت مرکز سے نیا این ایف سی ایوارڈ جاری کرنے کا مطالبہ لیے قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس بھی ریکوزٹ کرنے جارہی ہے جس میں مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ضم اضلاع کی آبادی اور دیگر مسائل صوبہ کے حوالے ہونے کے بعد ان کی بنیاد پر مجموعی قومی وسائل میں صوبہ کا حصہ 14.63 فیصد سے بڑھا کر 19.64 فیصد کیا جائے جس سے صوبے کو سالانہ بنیادوں پر 213 ارب روپے اضافی ملنے کی توقع ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے 5 برس کے دوران صوبے کو 500 ارب میں سے صرف 87 ارب روپے فراہم کیے جاسکے ہیں۔ مرکزی حکومت نے 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (7 قبائلی ایجنسیاں اور ایف آر علاقے) کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا تھا جس کی منظوری خیبرپختونخوا اسمبلی سے بھی لی گئی تھی۔
قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے فیصلے کے تحت قبائلی ایجنسیوں کو اضلاع کا درجہ دیاگیا جبکہ ایف آر علاقوں کو نزدیکی اضلاع میں شامل کردیا گیا۔ اس سلسلے میں وفاقی کابینہ نے اپنے 2 مارچ2017 ءکے اجلاس میں فیصلہ کیاتھا کہ مرکزی حکومت مذکورہ ضم اضلاع کو سالانہ بنیادوں پر 100 ارب روپے فراہم کرے گی تاکہ یہ علاقے ترقی کرتے ہوئے ملک کے دیگر علاقوں کے برابر آسکیں۔
انضمام کے فیصلے کے تحت ہی مذکورہ ضم اضلاع کو پانچ سالوں کے لیے ٹیکسوں سے استثنیٰ بھی دیا گیا جو اس سال 30 جون کو پورے ہورہے ہیں جس میں اب مرکزی حکومت نے مزید ایک سال کی توسیع دی ہے۔
صوبائی محکمہ خزانہ کے ریکارڈ کے مطابق مرکزی حکومت نے ضم اضلاع کے لیے سالانہ 100 ارب روپے فراہم کرنے کے فیصلے کے تحت سال 2018ء سے 2023ء تک پانچ سال کے دوران صوبے کو صرف 87 ارب روپے فراہم کیے ہیں جبکہ اس مد میں مرکز کے ذمہ 413 ارب روپے واجب الادا ہیں، مذکورہ رقم پوری نہ ملنے کی وجہ سے صوبائی حکومت ان ضم اضلاع میں ترقی کا عمل بھرپور طریقہ سے شروع نہیں کرپائی۔
واضح رہے کہ صوبائی حکومت مرکز سے نیا این ایف سی ایوارڈ جاری کرنے کا مطالبہ لیے قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس بھی ریکوزٹ کرنے جارہی ہے جس میں مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ضم اضلاع کی آبادی اور دیگر مسائل صوبہ کے حوالے ہونے کے بعد ان کی بنیاد پر مجموعی قومی وسائل میں صوبہ کا حصہ 14.63 فیصد سے بڑھا کر 19.64 فیصد کیا جائے جس سے صوبے کو سالانہ بنیادوں پر 213 ارب روپے اضافی ملنے کی توقع ہے۔