پاکستان انسانی اسمگلنگ کی صورتحال سنگین
ایف آئی اے نے گرینڈ آپریشن کرتے ہوئے مرکزی ملزم سمیت انسانی اسمگلنگ میں ملوث گیارہ ایجنٹوں کو گرفتار کر لیا
غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کے دوران کشتی حادثے میں پچاس کے قریب نوجوان لاپتہ ہیں۔
ایف آئی اے نے گرینڈ آپریشن کرتے ہوئے مرکزی ملزم سمیت انسانی اسمگلنگ میں ملوث گیارہ ایجنٹوں کو گرفتار کر لیا۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رحجان کے بارے میں خبردار کرتی رہی ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
انسانی اسمگلر اپنے سیاسی اور مالی اثر و رسوخ کی وجہ سے کھلم کھلا اپنا کام کر رہے ہیں۔ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا اور بد عنوانی ان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ ایسے لوگوں کا با آسانی شکارکررہے ہیں جو ملک میں بڑھتی لاقانونیت اور مفلسی کے شکنجے سے فرار ہونے کے لیے اپنا جان و مال لگانے کو تیار ہیں۔
ملک میں معاشی مواقعے کی کمی کے باعث پاکستانی شدت سے بیرون ملک ہجرت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مزدور یہاں دن میں 12 گھنٹے سے زیادہ محنت کرنے کے بعد کچھ نہیں کماتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ یہی کام اٹلی یا کسی دوسرے مغربی ملک میں کریں تو وہ بہت سارے پیسے کما سکتے ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کی مدد ہو سکتی ہے لہٰذا لوگ بیرون ملک کام کی تلاش میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
آج پاکستان لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کا گھر ہے۔ خوراک کا بڑھتا ہوا عدم تحفظ، ملازمتوں کی کمی اور بنیادی ضروریات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے انھیں غیر قانونی طور پر یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبورکیا ہے۔ ایجنٹ انھیں کنٹینرز میں باندھ دیتے ہیں یا انھیں بھری ہوئی کشتیوں میں دھکیل دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ اپریل 2022 سے اب تک آٹھ لاکھ سے زائد پاکستانی ملازمتوں کے لیے بیرون ملک جاچکے ہیں۔
پولیسنگ کی ناکامی، اسمگلرزکا ملک کی بے روزگاری اور معاشی صورتحال کا کامیابی سے فائدہ اٹھانا، چند سال میں انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق، مرد، خواتین، بچے اور خواجہ سراء بھی انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں، اسمگلنگ کے رپورٹ ہونیوالے کیسز کی تعداد 6 تھی، جب کہ 2022 میں یہ تعداد بڑھ کر 217 تک پہنچ گئی ہے جوکہ حیرت انگیز اضافہ ہے۔
ایف آئی اے کی ریڈ بک کے مطابق بیشتر انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کا تعلق گجرات اور گوجرانوالہ سے ہے۔ کچھ انسانی اسمگلر سیالکوٹ، راولپنڈی، منڈی بہاء الدین اور آزاد جموں وکشمیر سے ہیں۔ یہ ایجنٹ لوگوں کو انتہائی تھوڑی رقم میں دوسرے ممالک میں بھیجنے کا جھانسا دیتے ہیں اور ان سے پیسے لے کر انھیں کسی دوسرے ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں سرگرم عمل انسانی اسمگلر اس غیر قانونی کاروبار سے تقریباً 15 کروڑ ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کے دوران راستے میں ویران اور پہاڑی راستوں پر بھوک پیاس اور چوٹ لگنے سے اموات معمول ہیں، کئی تو سرحد عبور کرتے ہوئے فائرنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کسی مرحلے پر مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔ غربت، تنگدستی اور بے روزگاری سے تنگ سنہرے مستقبل کے خواب دیکھنے والوں کے لیے یہ سفر زندگی اور موت کا سفر بن جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ رپورٹ کی تحقیقات کے مطابق یورپی یونین اور مشرق وسطیٰ میں غیر قانونی ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کی شرح گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
ہمارے ملک میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں انسانی زندگیوں کا ضیاع نئی بات نہیں، تاہم ہر بار طریقہ واردات اکثر واقعات میں مختلف نکلا ہے، کبھی اچھی جاب، تو کبھی اچھے پیسوں کی لالچ میں یہ انسانی اسمگلر انسانیت بیچ اور زندگی تباہ کر ڈالتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ میں مردوں اور عورتوں کی شرح کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے لیے کوئی مخصوص طریقہ کار یا ضابطہ ہی نہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق مردوں سے زیادہ خواتین اس جہنم کی نذر ہوتی ہیں،کچھ اپنی مجبوریوں اورضرورتوں کے باعث تو کبھی جبراً اس بھٹی میں جلا دی جاتی ہیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق پاکستان انسانی اسمگلنگ کے لیے ایک ذریعہ، راہداری اور منزل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ چار سالوں کے دوران ملک بھر سے انسانی اسمگلنگ کے 80 ہزار سے زائد واقعات سامنے آئے ہیں اور متاثرین میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔
اس بات کا انکشاف ملک میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام کی جانب سے کیا گیا ہے۔حکام کے مطابق، پاکستان سے اسمگل کی جانے والی لڑکیوں کو عام طور پر زبردستی شادی، جنسی استحصال، گھریلو کاموں کے لیے غلام بنائے جانے سمیت دیگر مقاصد کے لیے اسمگل کیا جاتا ہے۔ تاہم، ان کے بارے میں حقائق جمع کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ ان اسمگلرزکا شکار ہونے والی خواتین کی عمریں 2 سے 50 سال کے درمیان دیکھی گئی ہیں۔
ملک میں انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان کا جغرافیہ اورکئی ممالک سے منسلک اس کی طویل سرحدیں بھی ہیں۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد 900 کلومیٹر طویل ہے، جہاں سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس کی سرگرمیاں سب سے زیادہ ہیں،کیونکہ صرف تافتان کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان امیگریشن مرکز ہے اور وہ بھی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہے۔
پاکستان میں بلوچستان سے ایران پھر ترکی اور پھر وہاں سے یونان یہ ایک روایتی راستہ رہا ہے اور جب اسمگل کیے جانے والے افراد مطلوبہ ملک میں پہنچ جاتے ہیں، بشمول یورپی ملکوں میں تو وہاں موجود ایجنٹس انھیں ان کی مرضی کی منزلوں پر بھیج دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی سرحد پر ایران میں مند بیلو کا علاقہ انسانی اسمگلروں کے زیر استعمال ہے۔
یہاں سے یہ بڑے بحری جہازوں یا کشتیوں میں مسقط جاتے ہیں اور پھر وہاں سے یہ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں نکل جاتے ہیں۔ ایران سے سالانہ تقریباً 15 ہزار جب کہ عمان سے لگ بھگ سات آٹھ ہزار پاکستانیوں کو گرفتاری کے بعد ملک بدر کر کے پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے، تاہم انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی سالانہ مجموعی تعداد کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی اعداد و شمار جمع کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
پاکستان اس غیر قانونی عمل سے شدید طور پر متاثر ہوا ہے، یہاں سے نہ صرف انسانی اسمگلنگ ہوتی ہے، بلکہ اس سرزمین کو گزرگاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بنگلا دیش، سری لنکا ، برما اور انڈیا سے خواتین، بچوں اور مردوں کو غیر قانونی طور پر خلیجی ممالک، ترکی، ایران اور یورپ میں اونٹوں کی دوڑ، جسم فروشی اور جبری مشقت کے لیے ہوائی، سمندری اور زمینی راستوں سے اسمگل کیا جاتا ہے۔
افغانستان کے باشندوں کو بھی مغربی اور خلیجی ممالک کی طرف اسمگل کرنے کے لیے پاکستان کو راہداری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان 2400 کلومیٹر طویل سرحد پر صرف چمن اور طورخم کے مقام پر دو امیگریشن پوسٹیں ہیں اور ان پر بھی محض پانچ فیصد افراد بین الاقوامی مسافر ہوتے ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق یورپ میں ویزا اور امیگریشن کے نظام میں موثر تبدیلیوں کے بعد حالیہ برسوں میں اہم قانون سازی کے علاوہ امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کے تعاون سے خصوصاً ہوائی اڈوں پر جدید مشینری کی تنصیب کی مدد سے جعلی سفری دستاویزات کی بنیاد پر ہوائی راستوں سے پاکستان سے انسانی اسمگلنگ کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔
اپریل 2018 میں قومی اسمبلی سے منظورکیے گئے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے پہلے خصوصی قانون میں غیر انسانی سلوک کا شکار ہونے والے ایسے تارکین وطن کو ملزمان کے بجائے متاثرین کی حیثیت دی جاتی ہے اور ان کی قانونی مدد کی جاتی ہے۔
پہلے خصوصی قانون نہ ہونے کی وجہ سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو عدالتوں سے چند ہزار روپے اور چند ماہ کی قید دی جاتی تھی لیکن نئے قانون کے تحت کم سے کم سزا تین سال اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے اور جرم کی سنگین صورت میں 14 سال قید اور 20 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔مجرم اگر حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ملی بھگت نہ کریں تو کوئی جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ ہوائی اڈے پر سخت چیکنگ، دفتر خارجہ اور سفارت خانوں، ایف آئی اے کے متحرک ہونے کے مطالبہ پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔
بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور تباہ حال معیشت کا مطلب یہ ہے کہ اسمگلر آسانی سے لوگوں سے جوڑ توڑ کرتے رہیں گے، وہ بیرون ملک بہتر مواقع کے بارے میں جھوٹ بیچ کر نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر سرحد پار منتقل کر سکتے ہیں۔پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات کا سدباب کرے، انسانی اسمگلروں کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ملک سے بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کرے، تاکہ غریب آدمی کسی دھوکے باز کے ہاتھوں اپنا مال اور جان نہ گنوا بیٹھے۔
ایف آئی اے نے گرینڈ آپریشن کرتے ہوئے مرکزی ملزم سمیت انسانی اسمگلنگ میں ملوث گیارہ ایجنٹوں کو گرفتار کر لیا۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رحجان کے بارے میں خبردار کرتی رہی ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
انسانی اسمگلر اپنے سیاسی اور مالی اثر و رسوخ کی وجہ سے کھلم کھلا اپنا کام کر رہے ہیں۔ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا اور بد عنوانی ان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ ایسے لوگوں کا با آسانی شکارکررہے ہیں جو ملک میں بڑھتی لاقانونیت اور مفلسی کے شکنجے سے فرار ہونے کے لیے اپنا جان و مال لگانے کو تیار ہیں۔
ملک میں معاشی مواقعے کی کمی کے باعث پاکستانی شدت سے بیرون ملک ہجرت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مزدور یہاں دن میں 12 گھنٹے سے زیادہ محنت کرنے کے بعد کچھ نہیں کماتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ یہی کام اٹلی یا کسی دوسرے مغربی ملک میں کریں تو وہ بہت سارے پیسے کما سکتے ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کی مدد ہو سکتی ہے لہٰذا لوگ بیرون ملک کام کی تلاش میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
آج پاکستان لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کا گھر ہے۔ خوراک کا بڑھتا ہوا عدم تحفظ، ملازمتوں کی کمی اور بنیادی ضروریات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے انھیں غیر قانونی طور پر یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبورکیا ہے۔ ایجنٹ انھیں کنٹینرز میں باندھ دیتے ہیں یا انھیں بھری ہوئی کشتیوں میں دھکیل دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ اپریل 2022 سے اب تک آٹھ لاکھ سے زائد پاکستانی ملازمتوں کے لیے بیرون ملک جاچکے ہیں۔
پولیسنگ کی ناکامی، اسمگلرزکا ملک کی بے روزگاری اور معاشی صورتحال کا کامیابی سے فائدہ اٹھانا، چند سال میں انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق، مرد، خواتین، بچے اور خواجہ سراء بھی انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں، اسمگلنگ کے رپورٹ ہونیوالے کیسز کی تعداد 6 تھی، جب کہ 2022 میں یہ تعداد بڑھ کر 217 تک پہنچ گئی ہے جوکہ حیرت انگیز اضافہ ہے۔
ایف آئی اے کی ریڈ بک کے مطابق بیشتر انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کا تعلق گجرات اور گوجرانوالہ سے ہے۔ کچھ انسانی اسمگلر سیالکوٹ، راولپنڈی، منڈی بہاء الدین اور آزاد جموں وکشمیر سے ہیں۔ یہ ایجنٹ لوگوں کو انتہائی تھوڑی رقم میں دوسرے ممالک میں بھیجنے کا جھانسا دیتے ہیں اور ان سے پیسے لے کر انھیں کسی دوسرے ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں سرگرم عمل انسانی اسمگلر اس غیر قانونی کاروبار سے تقریباً 15 کروڑ ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کے دوران راستے میں ویران اور پہاڑی راستوں پر بھوک پیاس اور چوٹ لگنے سے اموات معمول ہیں، کئی تو سرحد عبور کرتے ہوئے فائرنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کسی مرحلے پر مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔ غربت، تنگدستی اور بے روزگاری سے تنگ سنہرے مستقبل کے خواب دیکھنے والوں کے لیے یہ سفر زندگی اور موت کا سفر بن جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ رپورٹ کی تحقیقات کے مطابق یورپی یونین اور مشرق وسطیٰ میں غیر قانونی ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کی شرح گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
ہمارے ملک میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں انسانی زندگیوں کا ضیاع نئی بات نہیں، تاہم ہر بار طریقہ واردات اکثر واقعات میں مختلف نکلا ہے، کبھی اچھی جاب، تو کبھی اچھے پیسوں کی لالچ میں یہ انسانی اسمگلر انسانیت بیچ اور زندگی تباہ کر ڈالتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ میں مردوں اور عورتوں کی شرح کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے لیے کوئی مخصوص طریقہ کار یا ضابطہ ہی نہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق مردوں سے زیادہ خواتین اس جہنم کی نذر ہوتی ہیں،کچھ اپنی مجبوریوں اورضرورتوں کے باعث تو کبھی جبراً اس بھٹی میں جلا دی جاتی ہیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق پاکستان انسانی اسمگلنگ کے لیے ایک ذریعہ، راہداری اور منزل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ چار سالوں کے دوران ملک بھر سے انسانی اسمگلنگ کے 80 ہزار سے زائد واقعات سامنے آئے ہیں اور متاثرین میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔
اس بات کا انکشاف ملک میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام کی جانب سے کیا گیا ہے۔حکام کے مطابق، پاکستان سے اسمگل کی جانے والی لڑکیوں کو عام طور پر زبردستی شادی، جنسی استحصال، گھریلو کاموں کے لیے غلام بنائے جانے سمیت دیگر مقاصد کے لیے اسمگل کیا جاتا ہے۔ تاہم، ان کے بارے میں حقائق جمع کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ ان اسمگلرزکا شکار ہونے والی خواتین کی عمریں 2 سے 50 سال کے درمیان دیکھی گئی ہیں۔
ملک میں انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان کا جغرافیہ اورکئی ممالک سے منسلک اس کی طویل سرحدیں بھی ہیں۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد 900 کلومیٹر طویل ہے، جہاں سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس کی سرگرمیاں سب سے زیادہ ہیں،کیونکہ صرف تافتان کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان امیگریشن مرکز ہے اور وہ بھی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہے۔
پاکستان میں بلوچستان سے ایران پھر ترکی اور پھر وہاں سے یونان یہ ایک روایتی راستہ رہا ہے اور جب اسمگل کیے جانے والے افراد مطلوبہ ملک میں پہنچ جاتے ہیں، بشمول یورپی ملکوں میں تو وہاں موجود ایجنٹس انھیں ان کی مرضی کی منزلوں پر بھیج دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی سرحد پر ایران میں مند بیلو کا علاقہ انسانی اسمگلروں کے زیر استعمال ہے۔
یہاں سے یہ بڑے بحری جہازوں یا کشتیوں میں مسقط جاتے ہیں اور پھر وہاں سے یہ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں نکل جاتے ہیں۔ ایران سے سالانہ تقریباً 15 ہزار جب کہ عمان سے لگ بھگ سات آٹھ ہزار پاکستانیوں کو گرفتاری کے بعد ملک بدر کر کے پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے، تاہم انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی سالانہ مجموعی تعداد کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی اعداد و شمار جمع کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
پاکستان اس غیر قانونی عمل سے شدید طور پر متاثر ہوا ہے، یہاں سے نہ صرف انسانی اسمگلنگ ہوتی ہے، بلکہ اس سرزمین کو گزرگاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بنگلا دیش، سری لنکا ، برما اور انڈیا سے خواتین، بچوں اور مردوں کو غیر قانونی طور پر خلیجی ممالک، ترکی، ایران اور یورپ میں اونٹوں کی دوڑ، جسم فروشی اور جبری مشقت کے لیے ہوائی، سمندری اور زمینی راستوں سے اسمگل کیا جاتا ہے۔
افغانستان کے باشندوں کو بھی مغربی اور خلیجی ممالک کی طرف اسمگل کرنے کے لیے پاکستان کو راہداری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان 2400 کلومیٹر طویل سرحد پر صرف چمن اور طورخم کے مقام پر دو امیگریشن پوسٹیں ہیں اور ان پر بھی محض پانچ فیصد افراد بین الاقوامی مسافر ہوتے ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق یورپ میں ویزا اور امیگریشن کے نظام میں موثر تبدیلیوں کے بعد حالیہ برسوں میں اہم قانون سازی کے علاوہ امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کے تعاون سے خصوصاً ہوائی اڈوں پر جدید مشینری کی تنصیب کی مدد سے جعلی سفری دستاویزات کی بنیاد پر ہوائی راستوں سے پاکستان سے انسانی اسمگلنگ کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔
اپریل 2018 میں قومی اسمبلی سے منظورکیے گئے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے پہلے خصوصی قانون میں غیر انسانی سلوک کا شکار ہونے والے ایسے تارکین وطن کو ملزمان کے بجائے متاثرین کی حیثیت دی جاتی ہے اور ان کی قانونی مدد کی جاتی ہے۔
پہلے خصوصی قانون نہ ہونے کی وجہ سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو عدالتوں سے چند ہزار روپے اور چند ماہ کی قید دی جاتی تھی لیکن نئے قانون کے تحت کم سے کم سزا تین سال اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے اور جرم کی سنگین صورت میں 14 سال قید اور 20 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔مجرم اگر حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ملی بھگت نہ کریں تو کوئی جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ ہوائی اڈے پر سخت چیکنگ، دفتر خارجہ اور سفارت خانوں، ایف آئی اے کے متحرک ہونے کے مطالبہ پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔
بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور تباہ حال معیشت کا مطلب یہ ہے کہ اسمگلر آسانی سے لوگوں سے جوڑ توڑ کرتے رہیں گے، وہ بیرون ملک بہتر مواقع کے بارے میں جھوٹ بیچ کر نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر سرحد پار منتقل کر سکتے ہیں۔پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات کا سدباب کرے، انسانی اسمگلروں کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ملک سے بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کرے، تاکہ غریب آدمی کسی دھوکے باز کے ہاتھوں اپنا مال اور جان نہ گنوا بیٹھے۔