جماعت اسلامی کی سیاست اور فکرِ مودودیؒ
جبر کے باوجود مودی کے بھارت میں مودودیؒ لٹریچر کا پھیلاؤ مسدود نہیں کیا جا سکا ہے
15جون 2023 کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر، کراچی، میں حاکم اور ہر قسم کی بالا دستی رکھنے والی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی، کے مقابل میئر اور ڈپٹی میئر کا الیکشن لڑتی ہُوئی جماعتِ اسلامی ناکام ہو گئی ۔جن اسالیب اور ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاتے ہُوئے پیپلز پارٹی کے اُمیدوار، مرتضیٰ وہاب، فتحیاب ہُوئے ہیں، اِس کی حقیقت اور معنویت سے سب آگاہ ہیں ۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جماعتِ اسلامی کے بہادر اور جی دار اُمیدوار، حافظ نعیم الرحمن، کی شکست دراصل ''شکستِ فاتحانہ'' ہے ۔جماعتِ اسلامی، امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق اور حافظ نعیم الرحمن اِس شکست پر ( بجا طور پر) احتجاج کررہے ہیں ۔ سوال مگر یہ ہے کہ آیا انھیں حکومتی سازشوں اور چالاکیوں کی اساس پر ملنے والی اِس شکست پر واویلا اور شورو غوغا مچانا چاہیے ؟جماعتِ اسلامی کے آج کے اکابرین کی خدمت میں ہم یہاں ایک تاریخی اقتباس پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں:
21مارچ1974 کو سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے جماعتِ اسلامی سے وابستہ طلبا کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا:''کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ کچھ نہ کچھ آپ کو بھی ''کرنا'' چاہیے ۔لیکن مَیں اس زمانے میں برابر لوگوں سے کہتا رہا کہ چاہے آپکو (انتخابات میں) ایک نشست بھی نہ ملے، لیکن آپ سچائی کے راستے سے نہ ہٹیں۔ وہ غلط وعدہ جسے آپ پورا نہ کر سکتے ہوں، وہ آپ(عوام سے) نہ کیجیے، کوئی ایسا کام نہ کیجیے کہ جس سے آپ کے اوپر ذمے داری خدا کے ہاں آجائے کہ آپ قوم کا اخلاق بگاڑ کر آئے ہیں،آپ اِس قوم کو لفنگا بنا کر آئے ہیں، آپ بھی اِس قوم کو جھوٹ اور گالی اور دوسری اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کر کے آئے ہیں۔
جو ذمے داری آپ پر آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ جو اللہ اور رسولﷺ کا بتایا راستہ ہے، اس کے اوپر کام کریں۔آپ کا کام اِسی راستے پر چل کر محنت کرنا ہے، جان کھپانا ہے۔ اِس میں اگر آپ کوتاہی کریں گے تو ماخوذ ہوں گے۔ اِس میں آپ کوتاہی نہیں کرتے تو خدا کے ہاں کامیاب ہیں، دُنیا میں خواہ کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔''
تقریباً 48سال قبل بانی جماعتِ اسلامی ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ، نے یہ لائحہ عمل اپنے کارکنان اور جماعتِ اسلامی کے وابستگان کو عنائت فرمایا۔ پچھلے تقریباً پانچ عشروں کے دوران جماعتِ اسلامی نے فکرِ مودوی کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ ان پانچ عشروں کے دوران کئی قومی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہُوا ہے، جماعتِ اسلامی نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ فکرِ مودودی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔
نتیجے میں جماعتِ اسلامی کو قومی انتخابات میں جتنی کامیابیاں ملی ہیں،وہ سب ہمارے سامنے ہیں۔ جماعتِ اسلامی مگر فخر کر سکتی ہے کہ اُس نے اپنے مرشد و مفکر کے عنائت کیے گئے لائحہ عمل سے عمومی طور پر انحراف نہیں کیا ہے ۔ دینی اور سیاسی طور پرفکرِ مودودیؒ کی اس مثال کی روشنی اور موجودگی میں اگر آج جماعتِ اسلامی کے اُمیدوار بکثرت انتخابی سیاست میں ناکام رہتے ہیں تو یہ ناکامی نہیں ہے۔مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ لوگ غاصب و کاذب نہیں ہیں۔ کسی کا مال لُوٹا ہے نہ کسی کی حرمت پامال کی ہے۔
ان لوگوں نے کسی کی جائیداد پر قبضہ کیا ہے نہ سرکاری بینکوں سے کروڑوں، اربوں روپے کے قرضے لے کر جھوٹے دعوؤں پر معاف کروائے ہیں۔
یہ اس لیے ہُوا ہے کہ ان افراد نے فکرِ مودودیؒ کی گود میں تربیت پائی ہے۔ فکرِ مودودیؒ کی روشنی میں چلتے ہوئے اگر جماعتِ اسلامی کے اکلوتے سینیٹر،مشتاق احمد خان، اور قومی اسمبلی میں جماعتِ اسلامی کے اکیلے رکن، مولانا اکبر چترالی، پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر مقتدرین پر تنقید کرتے اور ناراضیاں سمیٹتے ہیں تو یہ ناکامی نہیں ہے۔یہ لوگ کم از کم اپنے اللہ اور ضمیر کے سامنے سرخرو تو ہیں۔
جماعتِ اسلامی سر تا پا صلحاء اور اولیاء کی جماعت نہیں ہے۔اس میں کچھ ایسی خامیاں، خرابیاں اور کجیاں ہوں گی جو ووٹروں کو بوجوہ پسند نہ آتی ہوں گی لیکن جماعتِ اسلامی کو کئی اعتبار سے دیگر سیاسی جماعتوں پر اخلاقی فوقیت حاصل ہے۔اس فوقیت کے باوصف اگر یہ انتخابی سیاست میں کامیاب ہو کر اکثریتی سیٹیں نہیں جیت سکی تو کوئی بات نہیں۔کم از کم یہ جماعت فکرِ مودودی ؒ کے پس منظر میں قلب و ضمیر کی کامیابیاں تو سمیٹ رہی ہے۔
تسلیم کہ آج جماعتِ اسلامی میں مطالعہ اور تبلیغ کا وہ جذبہ سرد پڑ چکا ہے جو کبھی فکرِ مودودی ؒ کا خاصہ تھا لیکن یہ جماعت آج بھی شائستہ مزاج نوجوانوں اور تعلیم یافتہ بزرگوں پر مشتمل ہے۔ فکرِ مودودی ؒکی ایک شاندار کامیابی یہ بھی ہے کہ سید مودودیؒ کا جاری کردہ ماہنامہ جریدہ'' عالمی ترجمان القرآن'' آج بھی باقاعدگی کے ساتھ شایع ہوکر پاکستان، بھارت،مقبوضہ کشمیر اور بنگلہ دیش کے ساتھ یہ دُنیا کے کئی ممالک میں ہر ماہ لاکھوں ہاتھوں تک پہنچ رہا ہے۔
اِس کے ہر مضمون میں عالمِ اسلام کی بہتری کے لیے دھڑکن سنائی دیتی ہے۔یہ جریدہ گزشتہ 90برسوں سے مسلسل شایع ہو کر اہلِ علم و ایمان کو ذہنی غذا فراہم کررہا ہے۔ عالمِ اسلام کی کوئی اورسیاسی و مذہبی جماعت اس ذیل میں ایسا موقر دعویٰ کر سکتی ہے؟( ترجمان کے جون 2023کے شمارے میں 7 پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کے آرٹیکلز شایع ہُوئے ہیں) کئی کتابوں کے مصنف، مرتب اور مولّف جناب سلیم منصور خالد''عالمی ترجمان القرآن'' کو بہترین اسلوب میں مرتب کر رہے ہیں۔ اس معتدل جریدے کے سیاسی اور مذہبی مضامین میں اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے نہ فرقہ پردازی کی حوصلہ افزائی۔
جماعتِ اسلامی کے سیاسی اثرورسوخ کی بظاہر ناکامیوں سے کئی ''طاقتور'' سیاسی لوگ اِس سے مصافحہ و معانقہ کرنے میں متردّد ہو سکتے ہیں لیکن فکرِ مودودیؒ کی ضوفشانیاں مدہم نہیں کی جا سکی ہیں۔
جماعتِ اسلامی اپنی سیاسی و انتخابی'' ناکامیوں'' کے باوجود آج بھی بنگلہ دیش کے مستبد سیاسی ماحول میں(جہاں وزیر اعظم حسینہ واجد کے حکم پر جماعتِ اسلامی کے کئی سینئر اور بے گناہ افراد کو پھانسیاں دی گئی ہیں) جس استقامت اور استقلال کے ساتھ سروقد کھڑی ہے،اس کی دوسری مثال مصر میں تو ملتی ہے (اخوان المسلمین کی شکل میں)،لیکن عالم ِاسلام و عالمِ نصرانیت و عالمِ صہیونیت میں اور کہیں نہیں ملتی۔ واقعہ یہ ہے کہ فکرِ مودودیؒ آج بھارت میں بھی لا تعداد افراد کے لیے پُر کشش ہے۔
حالانکہ اسلام و مسلمانوں کے کھلے دشمن ،نریندر مودی، کے بھارت میں فکرِ مودودیؒ کو محدود اور مسدود کرنے کے لیے بہت دباؤ ہے ۔ یہ دباؤ اور استبداد ہمہ گیر اور متنوع ہے۔
بھارت میں بہت سی ابلیسی و طاغوتی قوتیں فکرِ مودودیؒ پر حملہ آور ہیں۔ لیکن اس جبر کے باوجود مودی کے بھارت میں مودودیؒ لٹریچر کا پھیلاؤ مسدود نہیں کیا جا سکا ہے۔یہ بھی درحقیقت فکرِ مودودیؒ کی کامیابی ہے اور یہ کامیابی کئی دنیاوی و سیاسی اور انتخابی ناکامیوں و کامیابیوں سے برتر،بہتر اور بالا ہے۔یہ درست ہے کہ جماعتِ اسلامی اپنے پلیٹ فارم سے آج تک ہماری صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت بنانے والی سیٹیں نہیں جیت سکی ہے ۔
سوال مگر یہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں نے اکثریت میں یہ سیٹیں جیتی تھیں اور جیتی ہیں، انھوں نے اِس بد قسمت قوم کے کتنے مسائل و مصائب حل کیے ہیں؟ان ''کامیاب'' سیاسی جماعتوں کے منتخب وزرائے اعظم اور وزرائے خزانہ کا کام بس یہ رہ گیا ہے کہ کاسہ لے کر غیر ممالک سے قرض کے نام پر بھیک مانگیں اور گلشن کا کاروبار چلائیں۔ایسی ''کامیابیوں'' کے مقابلے میں جماعتِ اسلامی کی ''ناکامیاں'' ہی بہتر ہیں۔