لٹیروں میں یرغمال بنی قربانی

قربانی کے جانوروں کی جبری خریداری کے لیے سرکاری طور پر منڈیاں لگائی جاتی ہیں جہاں جانور بہت مہنگے فروخت ہوتے ہیں


Muhammad Saeed Arain June 19, 2023
[email protected]

سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان میں جو جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے وہ اب مہنگائی کے باعث ہر سال کم سے کم ہو رہی تھی، جو سرکاری اور نجی لٹیروں کے ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوئی تھی جس میں اب سندھ حکومت نے بھی حصہ ڈال دیا ہے اور قربانی کے جانوروں کو بھی کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔

حالیہ بجٹ میں ایک خبر کے مطابق سندھ حکومت نے چھوٹے جانوروں پر پانچ سو روپے اور بڑے جانوروں پر ایک ہزار روپے ٹیکس لگا دیا ہے جو غالباً کراچی اور بڑے شہروں میں لائے جانے والے ان جانوروں کے داخلے کے وقت انھیں لانے والے مالکان سے وصول کیا جائے گا جو سال بھر جانور پالتے ہیں اور عید قرباں کے موقع پر ٹرکوں اور چھوٹی گاڑیوں میں بڑے شہروں میں لاتے ہیں۔

ملک بھر سے کراچی لائے جانے والے ان جانوروں کے مالکان کو ٹرانسپورٹ مہنگی ملتی ہے پھر ان کی گاڑیاں جہاں جہاں سے گزرتی ہیں ان سے ٹول ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور ہر جگہ علاقہ پولیس انھیں تنگ کرکے رشوت وصول کرتی ہے جس کے بعد کراچی میں داخلے سے قبل جانوروں کی صحت چیک کرنے والے مالکان کو لوٹتے ہیں اور مقررہ سرکاری منڈی میں بھاری داخلہ فیس ادا کرتے ہیں جس کے بعد وہ سرکاری لٹیروں کے بعد نجی لٹیروں کے ہتھے چڑھتے ہیں اور سرکاری اداروں کے مقرر کردہ لٹیروں کا کام شروع ہوتا ہے۔

جانور مالکان کو اپنے مویشی باندھنے کے لیے منڈی میں جگہ خریدنی پڑتی ہے اور وہ جانوروں کے بجائے خود سایہ حاصل کرنے کے بعد جانوروں کے لیے گھاس، دانا اور پانی مہنگے داموں خریدتے ہیں۔ منڈی میں روشنی کی فراہمی کا معمولی انتظام ہوتا ہے اور رات کو خریداری زیادہ ہوتی ہے اس لیے اضافی لائٹس وہ منہ مانگے داموں خریدتے ہیں اور دن میں ان کے جانور کھلے آسمان تلے دھوپ میں جلتے رہتے ہیں۔

مہنگے مویشی فروخت کرنے والے کیٹل فارم مالکان اپنے وی آئی پی خریداروں کے لیے خصوصی انتظام کرتے ہیں اور اپنے مہنگے اور بھاری جانوروں کو ٹینٹ لگا کر صاف جگہوں پر رکھتے ہیں جہاں امیر گاہکوں کے بیٹھنے اور پنکھوں کا بھی خصوصی انتظام ہوتا ہے جب کہ سستے جانوروں کے خریدار گندگی والی جگہ پر آ کر جانور دیکھتے اور سودے کرتے ہیں جہاں انھیں کوئی سہولت ہوتی ہے نہ جانوروں پر توجہ ہوتی ہے۔

اب تو کراچی کی ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی سپرہائی وے سے غیر محفوظ سدرن بائی پاس تیسر ٹاؤن کے علاقے میں منتقل کردی گئی ہے۔ پہلے عسکری اداروں کے خوف سے منڈی کا حال بہتر، مویشی محفوظ سمجھے جاتے تھے اب ایسا بھی نہیں رہا، وارداتیں پہلے سے بڑھ گئی ہیں۔

منڈی میں ضروری سامان فروخت کرنے، ہوٹل بنانے اور اشیائے خور و نوش فروخت کرنے والوں کے لیے منڈی کمانے کا سیزن ہوتا ہے۔

اس لیے منڈی آنے والوں کو بلاامتیاز مہنگی اشیا فروخت کی جاتی ہیں اور منڈی انتظامیہ جب خود انھیں لوٹتی ہے تو وہ کیوں کسی کو بخشیں گے انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ منڈی میں ہر چیز مہنگی ہوگی تو جانوروں کی قیمتیں بھی آسمان پر ہوتی ہیں۔ جانور خرید کر شہر لے جانے والی گاڑیوں کے مالکان بھی منہ مانگے کرائے وصول کرکے جانور شہر لے جاتے ہیں۔

بڑی منڈی میں کیونکہ جانور مہنگے اور خریدار غیر محفوظ ہوتے ہیں اس لیے مقررہ سرکاری منڈیوں میں لٹنے کے بجائے گاہک کوشش کرتے ہیں کہ شہر سے ہی جانور خرید لیں جن کے لیے شہر بھر میں مویشیوں کی غیر قانونی منڈیاں بن جاتی ہیں جو دفعہ 144 کے باعث پولیس، بلدیاتی اداروں کے لیے بھی کمائی کا ذریعہ ہوتی ہے۔

قربانی سنت ابراہیمی ہے جو مہنگی سے مہنگی ہوگئی ہے مگر اس مہنگائی بڑھانے میں حکومتی اداروں اور متعلقہ ٹھیکیداروں کا بھی حصہ ہے جو مافیا بن چکے ہیں اور انھوں نے قربانی کو بھی اپنی اندھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے اور یہ دونوں ہمارے اس مذہبی فریضے کو بھی لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جس پر حکومت خاموش ہے۔

بھارت کی حکومت سیکولر ہوتے ہوئے بھاری مسلمانوں کو حج کے لیے سہولت دیتی ہے مگر اسلامی ملک پاکستان میں قربانی کی طرح حج کو بھی کرپشن اور حاجیوں کو لوٹنے اور سرکاری کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔

قربانی کے جانوروں کی جبری خریداری کے لیے سرکاری طور پر منڈیاں لگائی جاتی ہیں جہاں جانور بہت مہنگے فروخت ہوتے ہیں۔ جانور شہر لانا مہنگا پڑتا ہے اور گھاس، دانہ اور دیگر اشیا مہنگی کردی جاتی ہیں جب کہ قربانی کے جانور ذبحہ کرنے والوں کی تو عید ہو جاتی ہے اور قربانی کے خواہش مندوں کو ہر طرف سے بے دردی سے لوٹا جانا معمول بن چکا ہے۔

منڈیوں میں جبری خریداری کے لیے شہروں میں جگہ جگہ جانور فروخت کرنے پر دفعہ 1544 نافذ کرائی جاتی ہے تاکہ قربانی کرنے والوں کو سہولت میسر نہ آئے اور انھیں شہر میں کم نرخوں کے جانور دستیاب نہ ہو سکیں۔

جانور مہنگے ہونے کے باعث جانور کم فروخت ہو رہے ہیں۔ پورا جانور ذبحہ کرنے والے جانوروں میں حصے لینے پر مجبور ہو گئے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ حصہ لینے کی مالی استطاعت نہیں رکھتے۔ غریبوں پر کم قربانی کا زیادہ اثر پڑ رہا ہے۔

جنھیں سال میں ایک ہی بار قربانی کا گوشت مل جایا کرتا تھا، گوشت مہنگا ہونے کی وجہ سے غریبوں میں تقسیم کے بجائے فریجوں میں گوشت محفوظ کرلیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مہنگائی نے ایسا کرنے پر مجبور کردیا ہے جس کی شرعی اجازت بھی ہے مگر قربانی کا اصل مقام ختم ہوتا جا رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں