خیبرپختونخوا… اتحادیوں میں گلے شکوے
کیا یہ کوئی سیاسی مفادات کا مسئلہ ہے یا کوئی اور ذاتی مفاد آڑے آ رہا ہے
بظاہر سیدھے سادے نظر آنے والے ہمارے خیبر پختون خوا کے گورنر حاجی غلام علی آج کل اپنی ہی اتحادی جماعتوں کے توپخانوں کے نشانے پر ہیں۔ 9مئی کے واقعات کے بعد جب وزیراعظم شہباز شریف پشاور آئے تو اس وقت بھی اتحادی جماعتوں نے گورنر اور خصوصاً نگران کابینہ کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھائے۔
یہاں تک سننے میں آیا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے نوجوان صدر ایمل ولی خان نے تو کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ صوبائی حکومت نہ صرف نااہل ہے بلکہ اتحادی جماعتوں کے مشورے بھی نہیں مانتی۔ خود ساختہ مہنگائی کے خلاف کمزور انتظامیہ کے ردعمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ لگتا یہ ہے کہ حاجی غلام علی کو پی ٹی آئی کی مخالفت کے بعد اب خود اپنی ہی اتحادی جماعتوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔
اس ملاقات کے بعد بھی ایمل ولی خان کے تحفظات کم نہ ہوئے بلکہ انھوں نے دو دن اسلام آباد میں گذار کر وزیراعظم کو گورنر کی مزید شکایتیں بھی لگائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ واقفان حال کے مطابق سابق صدر زرداری بھی غلام علی کی بحیثیت گورنر تقرری کے حق میں نہیں تھے تو اس وقت ایمل ولی نے ہی آصف زرداری کو غلام علی کی تعیناتی پر رام کیا کیونکہ پشاور کے اندر اے این پی کے بلور خاندان اور غلام علی کافی قریب آ گئے تھے۔
شاید اسی لیے اے این پی کے سربراہ نے غلام علی کی حمایت کی کیونکہ ان کے خیال میں معاملہ فہم غلام علی بات کو بگڑنے نہیں دیں گے۔ تو آخر ایسا کیا ہوا کہ کل تک اے این پی غلام علی کی حمایتی تھی اور اب اچانک خفا ہو گئی ہے اگرچہ ایمل ولی خان کے آبائی ضلع میں ان کے پسندیدہ اور مرحوم اعظم خان ہوتی کے سابقہ دوست کو بطور ایس پی تعینات کر دیا گیا ہے۔
یہ سوال کافی اہم ہے کہ اے این پی جیسی اتحادی حکومت کو کیا شکایات ہیں؟ اے این پی کا ایک مطالبہ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے 9 سالہ دور میں ان کے قریب رہنے والے سرکاری افسروں کو اہم انتظامی عہدوں سے ہٹا دیا جائے، ایسا نگران حکومت نے اپنی تعیناتی کے دوسرے ماہ کیا بھی لیکن شاید نتائج اس طرح سامنے نہیں آئے کیونکہ چالاک بیوروکریسی نے تبدیل کیے جانے والے انتظامی افسروں کی جگہ ان افسروں کی تعیناتی کی جو کبھی ہٹائے جانے والوں کے جونیئرز رہ چکے تھے، مطلب مسئلہ وہیں کا وہیں رہا۔ ابھی ایسی اطلاعات ہیں کہ آیندہ چند روز میں صوبائی بیورو کریسی کے اندر کافی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔
اے این پی کا مسئلہ چل ہی رہا تھا کہ ایک اور اہم اتحادی مسلم لیگ ن نے بھی گورنر غلام علی کے خلاف زبان کھول دی۔ پارٹی کے ترجمان اور سابق ایم پی اے اختیار ولی نے حاجی غلام علی پر الزامات عائد کیے اور ان کی تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا۔ جب گورنر کے پاس کوئی آئینی اختیار نہیں تو یہ اتحادی جماعتیں ان کے خلاف کیوں بول رہی ہیں۔
قانون کے تحت تمام تر اختیارات کا منبع وزیراعلیٰ ہے جس کی تعیناتی پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار ایمل ولی خان نے کیا تھا اور خود بہ نفس نفیس ان کی حلف برداری میں شرکت بھی کی۔ تو وہ وزیراعلیٰ سے کیوں گلہ نہیں کرتے۔ صوبے میں تمام معاملات کے ذمے دار وہی ہیں تو وزیراعلیٰ کو کیوں نشانے پر نہیں رکھا جاتا؟ غلام علی ہی نشانہ پر کیوں؟
کیا یہ کوئی سیاسی مفادات کا مسئلہ ہے یا کوئی اور ذاتی مفاد آڑے آ رہا ہے کیونکہ قانوناً غلام علی کے پاس کوئی انتظامی اختیار نہیں وہ سب کچھ وزیراعلیٰ کے مشورے پر کرنے کے پابند ہیں تو ایسا کیا مسئلہ ہے کہ غلام علی اے این پی اور مسلم لیگ ن دونوں کے نشانے پر ہیں حالانکہ مسلم لیگ کو اپنے تنظیمی معاملات کے علاوہ بجلی کے بحران اور گیس کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
خیبر پختونخوا کے اکثر علاقوں میں بجلی کی جو صورتحال ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اب پشاور کے پوش ایریا میں گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے تو دیہاتی اور دیگر علاقوں کا حال کیا ہو گا۔ بجلی کے بھاری بل اس کے علاوہ ہیں۔ ابھی ہاڑ کے مہینے کو شروع ہوئے چار دن ہی ہوئے ہیں اور گرمی 40 سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے۔ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر کے پاس بجلی کے محکمے کی مشاورت ہے وہ بھی صوبے کے حق مانگنے سے زیادہ کسی اور چیز میں مصروف ہیں۔ بظاہر اتحادی جماعتیں صوبے کے معاملات سے لاتعلق ہیں۔
صوبے کی معاشی حالت خراب ہو رہی ہے کبھی ہیلتھ کارڈ معطل ہو رہا ہے اور کبھی بس سروس بند کیے جانے کے اشارے ملتے ہیں۔ نگران حکومت بھی مرکز سے کم وسائل ملنے کا رونا روتی ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں کیا خاک اضافہ ہو گاجب ملازمین کو تنخواہیں ہی وقت پر نہیں دی جا سکتیں۔ صوبے میں ایک افراتفری کا ماحول ہے جس کی بڑی وجہ نگران حکومت اور خود اتحادی جماعتیں ہیں۔ کیا گورنر سے خفگی کی وجہ یہ ہے کہ وہ صوبے کے وسائل میں رکاوٹ ہیں۔
نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اتحادی صوبے کے مفادات سے اتنے لاتعلق ہیں۔ صرف پیپلز پارٹی نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر پی ٹی آئی کے گڑھ سوات میں جلسہ کروا کے اپنی انتخابی مہم کا اعلان کیا اور اپنے اتحادی جو انتخابات کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اتحادی جماعتیں نگران صوبائی حکومت کی کارکردگی پر کیوں بات نہیں کرتیں۔ ہر جگہ سے ایسے الزامات اٹھ رہے ہیں کہ کابینہ کے لوگ سرکار سے زیادہ اپنے مفاد کو پورا کرنے تقرریوں اور تبادلوں میں مشغول ہیں۔
صوبے میں انتخابات، امن و امان اور معاشی بہتری کے بجائے نگران کابینہ نئی بھرتیوں کی تگ و دو میں ہے تاکہ اپنے لوگوں کو بھرتی کر سکیں۔ چن چن کر کلاس فور ڈرائیور کی آسامیاں پیدا کی جا رہی ہیں کیونکہ یہ بھرتیاں برہ راست ہوتی ہیں اور ان کے لیے میرٹ بھی کوئی اتنا خاص نہیں۔ کرپشن کے الزامات بھی سامنے آ رہے ہیں کئی دفعہ نگران وزراء اور سرکاری افسران کا پروٹوکول پر پھڈا ہوا کسی کو ابھی بھی سرکاری گاڑی نہ ملنے کی شکایت ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ خیبرپختونخوا کو جان بوجھ کر ایسے حالات کا شکار بنایا جا رہا ہے کہ جس میں پی ٹی آئی کا چورن ایک بار پھر بک سکے چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو یا پھر کسی نئی جماعت کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
کیونکہ صوبے کی بڑی سیاسی جماعتیں اے این پی، جے یو آئی، مسلم لیگ ن عوامی مفاد میں کچھ کردار ادا نہیں کر رہی ہیں۔ انھیں مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کا خیال ہی نہیں نہ ہی انھیں صوبے میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا احساس ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کی یہی کارکردگی اقتدار سے اپنے حصہ وصولی تک محدود رہی تو پھر اس صوبے میں ایک نئی پی ٹی آئی یا اس کی طرح جماعت کا ظہور روکنا ممکن نہیں۔
یہاں تک سننے میں آیا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے نوجوان صدر ایمل ولی خان نے تو کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ صوبائی حکومت نہ صرف نااہل ہے بلکہ اتحادی جماعتوں کے مشورے بھی نہیں مانتی۔ خود ساختہ مہنگائی کے خلاف کمزور انتظامیہ کے ردعمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ لگتا یہ ہے کہ حاجی غلام علی کو پی ٹی آئی کی مخالفت کے بعد اب خود اپنی ہی اتحادی جماعتوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔
اس ملاقات کے بعد بھی ایمل ولی خان کے تحفظات کم نہ ہوئے بلکہ انھوں نے دو دن اسلام آباد میں گذار کر وزیراعظم کو گورنر کی مزید شکایتیں بھی لگائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ واقفان حال کے مطابق سابق صدر زرداری بھی غلام علی کی بحیثیت گورنر تقرری کے حق میں نہیں تھے تو اس وقت ایمل ولی نے ہی آصف زرداری کو غلام علی کی تعیناتی پر رام کیا کیونکہ پشاور کے اندر اے این پی کے بلور خاندان اور غلام علی کافی قریب آ گئے تھے۔
شاید اسی لیے اے این پی کے سربراہ نے غلام علی کی حمایت کی کیونکہ ان کے خیال میں معاملہ فہم غلام علی بات کو بگڑنے نہیں دیں گے۔ تو آخر ایسا کیا ہوا کہ کل تک اے این پی غلام علی کی حمایتی تھی اور اب اچانک خفا ہو گئی ہے اگرچہ ایمل ولی خان کے آبائی ضلع میں ان کے پسندیدہ اور مرحوم اعظم خان ہوتی کے سابقہ دوست کو بطور ایس پی تعینات کر دیا گیا ہے۔
یہ سوال کافی اہم ہے کہ اے این پی جیسی اتحادی حکومت کو کیا شکایات ہیں؟ اے این پی کا ایک مطالبہ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے 9 سالہ دور میں ان کے قریب رہنے والے سرکاری افسروں کو اہم انتظامی عہدوں سے ہٹا دیا جائے، ایسا نگران حکومت نے اپنی تعیناتی کے دوسرے ماہ کیا بھی لیکن شاید نتائج اس طرح سامنے نہیں آئے کیونکہ چالاک بیوروکریسی نے تبدیل کیے جانے والے انتظامی افسروں کی جگہ ان افسروں کی تعیناتی کی جو کبھی ہٹائے جانے والوں کے جونیئرز رہ چکے تھے، مطلب مسئلہ وہیں کا وہیں رہا۔ ابھی ایسی اطلاعات ہیں کہ آیندہ چند روز میں صوبائی بیورو کریسی کے اندر کافی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔
اے این پی کا مسئلہ چل ہی رہا تھا کہ ایک اور اہم اتحادی مسلم لیگ ن نے بھی گورنر غلام علی کے خلاف زبان کھول دی۔ پارٹی کے ترجمان اور سابق ایم پی اے اختیار ولی نے حاجی غلام علی پر الزامات عائد کیے اور ان کی تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا۔ جب گورنر کے پاس کوئی آئینی اختیار نہیں تو یہ اتحادی جماعتیں ان کے خلاف کیوں بول رہی ہیں۔
قانون کے تحت تمام تر اختیارات کا منبع وزیراعلیٰ ہے جس کی تعیناتی پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار ایمل ولی خان نے کیا تھا اور خود بہ نفس نفیس ان کی حلف برداری میں شرکت بھی کی۔ تو وہ وزیراعلیٰ سے کیوں گلہ نہیں کرتے۔ صوبے میں تمام معاملات کے ذمے دار وہی ہیں تو وزیراعلیٰ کو کیوں نشانے پر نہیں رکھا جاتا؟ غلام علی ہی نشانہ پر کیوں؟
کیا یہ کوئی سیاسی مفادات کا مسئلہ ہے یا کوئی اور ذاتی مفاد آڑے آ رہا ہے کیونکہ قانوناً غلام علی کے پاس کوئی انتظامی اختیار نہیں وہ سب کچھ وزیراعلیٰ کے مشورے پر کرنے کے پابند ہیں تو ایسا کیا مسئلہ ہے کہ غلام علی اے این پی اور مسلم لیگ ن دونوں کے نشانے پر ہیں حالانکہ مسلم لیگ کو اپنے تنظیمی معاملات کے علاوہ بجلی کے بحران اور گیس کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
خیبر پختونخوا کے اکثر علاقوں میں بجلی کی جو صورتحال ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اب پشاور کے پوش ایریا میں گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے تو دیہاتی اور دیگر علاقوں کا حال کیا ہو گا۔ بجلی کے بھاری بل اس کے علاوہ ہیں۔ ابھی ہاڑ کے مہینے کو شروع ہوئے چار دن ہی ہوئے ہیں اور گرمی 40 سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے۔ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر کے پاس بجلی کے محکمے کی مشاورت ہے وہ بھی صوبے کے حق مانگنے سے زیادہ کسی اور چیز میں مصروف ہیں۔ بظاہر اتحادی جماعتیں صوبے کے معاملات سے لاتعلق ہیں۔
صوبے کی معاشی حالت خراب ہو رہی ہے کبھی ہیلتھ کارڈ معطل ہو رہا ہے اور کبھی بس سروس بند کیے جانے کے اشارے ملتے ہیں۔ نگران حکومت بھی مرکز سے کم وسائل ملنے کا رونا روتی ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں کیا خاک اضافہ ہو گاجب ملازمین کو تنخواہیں ہی وقت پر نہیں دی جا سکتیں۔ صوبے میں ایک افراتفری کا ماحول ہے جس کی بڑی وجہ نگران حکومت اور خود اتحادی جماعتیں ہیں۔ کیا گورنر سے خفگی کی وجہ یہ ہے کہ وہ صوبے کے وسائل میں رکاوٹ ہیں۔
نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اتحادی صوبے کے مفادات سے اتنے لاتعلق ہیں۔ صرف پیپلز پارٹی نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر پی ٹی آئی کے گڑھ سوات میں جلسہ کروا کے اپنی انتخابی مہم کا اعلان کیا اور اپنے اتحادی جو انتخابات کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اتحادی جماعتیں نگران صوبائی حکومت کی کارکردگی پر کیوں بات نہیں کرتیں۔ ہر جگہ سے ایسے الزامات اٹھ رہے ہیں کہ کابینہ کے لوگ سرکار سے زیادہ اپنے مفاد کو پورا کرنے تقرریوں اور تبادلوں میں مشغول ہیں۔
صوبے میں انتخابات، امن و امان اور معاشی بہتری کے بجائے نگران کابینہ نئی بھرتیوں کی تگ و دو میں ہے تاکہ اپنے لوگوں کو بھرتی کر سکیں۔ چن چن کر کلاس فور ڈرائیور کی آسامیاں پیدا کی جا رہی ہیں کیونکہ یہ بھرتیاں برہ راست ہوتی ہیں اور ان کے لیے میرٹ بھی کوئی اتنا خاص نہیں۔ کرپشن کے الزامات بھی سامنے آ رہے ہیں کئی دفعہ نگران وزراء اور سرکاری افسران کا پروٹوکول پر پھڈا ہوا کسی کو ابھی بھی سرکاری گاڑی نہ ملنے کی شکایت ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ خیبرپختونخوا کو جان بوجھ کر ایسے حالات کا شکار بنایا جا رہا ہے کہ جس میں پی ٹی آئی کا چورن ایک بار پھر بک سکے چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو یا پھر کسی نئی جماعت کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
کیونکہ صوبے کی بڑی سیاسی جماعتیں اے این پی، جے یو آئی، مسلم لیگ ن عوامی مفاد میں کچھ کردار ادا نہیں کر رہی ہیں۔ انھیں مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کا خیال ہی نہیں نہ ہی انھیں صوبے میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا احساس ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کی یہی کارکردگی اقتدار سے اپنے حصہ وصولی تک محدود رہی تو پھر اس صوبے میں ایک نئی پی ٹی آئی یا اس کی طرح جماعت کا ظہور روکنا ممکن نہیں۔