استحصال کا خاتمہ کرکے ڈومیسٹک ورکرز کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے
محنت پوری مگر اجرت ادھوری...کیوں؟
16 جون کو ہر سال دنیا بھر میں ڈومیسٹک ورکرز کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس روز عالمی و مقامی سطح پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جن میں نہ صرف سال بھر کی کار کردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے بلکہ مستقبل کا لائحہ عمل بھی تیار کیا جاتا ہے۔
اس اہم دن کے موقع پر پاکستان میں ڈومیسٹک ورکرز کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور ڈومیسٹک ورکرزکے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
محمد شاہد
(سیکرٹری منیمم ویج بورڈ سینئر لاء آفیسر محکمہ لیبر پنجاب)
جنوبی ایشیاء میں پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ڈومیسٹک ورکرز کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔2018ء میں سیکرٹری لیبر پنجاب اسد اللہ فیض کی سربراہی میں ہم نے اپنی پالیسی کو رسمی سے غیر رسمی شعبے کی طرف منتقل کیا۔
تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد آئی ایل او کنونشن 144 کی روشنی میں پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء بنایا گیا جس میں ڈومیسٹک ورکرز کے کام کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ورکر قرار دیا گیا لہٰذا اب انہیں نوکر نہیں کہا جاسکتا۔
اس قانون کے تحت ان کے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دیا گیا اور انہیں یونین سازی کا حق بھی دیا گیا ہے تاکہ وہ منظم ہوکر رسمی شعبے کے مزدوروں کی طرح اپنے مسائل حل کر سکیں۔ پنجاب کی پالیسی میں کسی قسم کی کوئی تفرق نہیں، مرد، عورت، خواجہ سرا سمیت کسی جنس میں کوئی فرق نہیں، جو بھی غیر رسمی شعبے میں کام کر رہا ہے اسے ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
اس وقت ڈومیسٹک ورکرز کی کچھ یونینز رجسٹرڈ ہیں، ہم سب کو سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز کی رجسٹریشن کے حوالے سے بھی کافی کام ہوا ہے جو تاحال جاری ہے۔ ورکرز کی رجسٹریشن آن لائن ایپ سے بھی ہوسکتی ہے جبکہ ہم نے مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز و مقامات پر خصوصی کیمپس بھی لگائے جن میں ہمیں این جی اوز کا تعاون حاصل ہے۔
ہم نے پنجاب میں ڈومیسٹک ورکرز سروے کروایا ہے جس میں ڈومیسٹک ورکرز کی تعداد، کام کی نوعیت، اوقات کار و دیگر حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں 1 ملین سے زائد ڈومیسٹک ورکرز ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں ڈومیسٹک ورکرز کی کم از کم اجرت کے حوالے سے کچھ نہیں ہوسکا۔
پہلی مرتبہ یہ معاملہ بھی زیر بحث آیا ہے اور اس پر کام ہورہا ہے، چند دنوں میں ان کی کم از کم اجرت کا اعلان کیا جائے گا جو رسمی شعبے کیلئے حکومت کی مقرر کردہ کم از کم اجرت کے مطابق ہوگا۔ اس اجرت کو گھنٹے، د ن اور مہینے کے حساب سے تقسیم کیا جائے گا۔
تنخواہ و دیگر حوالے سے شکایات کیلئے لیبر ڈیپارٹمنٹ کا شکایات سیل موجود ہے، ہمارے آفیسرز کے پاس سول جج کے برابر اختیارات ہیں جو ریکوری کو یقینی بناتے ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز کو سول سکیورٹی بینفٹ دینے کیلئے محکمہ لیبر کی جانب سے 5 ملین روپے کا فنڈ مقرر کر دیا گیا ہے۔
حکومت، مخیر حضرات، مالکان، ورکرز و دیگر سٹیک ہولڈرز بھی اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ تنازعات کے حل کیلئے دیہی اور شہری علاقوں میں لوکل باڈیز کے نظام کے حساب سے یونین کونسل اور نیبر ہڈ کونسل کی سطح پر کمیٹیاں ہونگی، جب تک نظام نہیں بنتا تب تک یو سی ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے تنازعات حل کیے جائیں گے۔
چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں، کم از کم عمر کی حد 15برس ہے، 15 سے 18 برس میں چند گھنٹے آسان کام ہے، خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے اور سزا دی جاتی ہے، ہم نے چائلڈ لیبر کے 2016ء کے قانون کے تحت ایک ہزار سے زائد پرچے بھی دیے ہیں۔ چائلڈ لیبر، بانڈڈ لیبر اور بچوں کی سمگلنگ کی وجہ سے پاکستان فیٹف میں پھنس سکتاتھا، ہم نے دن رات ایک کیا اور اس سے باہر نکل آئے۔ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ جنوبی ایشیاء میں واحد ایکٹ ہے جو صرف پنجاب میں ہے۔
اس کے رولز آف بزنس سہہ فریقی کمیٹی سے منظوری کے بعد کابینہ کو بھجوائے جائیں گے، امید ہے جلد قانونی مراحل طے کر لیے جائیں گے اور اس پر عملددرآمد کے ذریعے ڈومیسٹک ورکرز کی زندگی کو بہتر بنایا جائے گا۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی )
پاکستان میںغیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے ورکرز غیر دستاویزی، غیر رجسٹرڈ، غیر منظم اور کمزور ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم ابھی ایک مہذب لائف سٹائل سے بہت دور ہیں، ہماری لیبر فورس کو تعلیم، صحت، تحفظ، ٹرانسپورٹ، کم از کم تنخواہ سمیت بیسیوں مسائل کا سامنا ہے۔
ہماری طبقاتی تقسیم اس میں ایک بڑی وجہ ہے، خواتین اس کا زیادہ شکار ہیں، انہیں ایک سا معاوضہ، سہولیات نہیں ملتی۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو ملنے والی مراعات اور جی ایس پی پلس سٹیٹس کے باوجود اس شعبے میں خواتین کا استحصال ہو رہا ہے۔ افسوس ہے کہ سستی مزدوری کیلئے خواتین اور بچوں سے کام لیا جاتا ہے، ان کا معاشی، معاشرتی اور خاندانی استحصال ہو رہا ہے۔
جہاں مسائل ہیں وہاں یہ خوش آئند ہے کہ پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے ڈومیسٹک ورکرز کو تسلیم اور 2019ء میں ان کیلئے قانون سازی کی، اب کسی بھی ڈومیسٹک ورکر کو نوکر نہیں کہا جاسکتا بلکہ اسے ورکر تسلیم کرکے حقوق و تحفظ یقینی گیا ہے۔
ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں بچے کی ملازمت کیلئے کم از کم عمر کی حد 15 برس رکھی گئی ہے۔15سے 18 برس کی عمر کے بچوں کیلئے 'لائٹ ورک' رکھا گیا ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ بچے ہیں جو کمزور ہوتے ہیں۔ وہ کسی دوسرے کے گھر کی چار دیواری میں غیر محفوظ ہوتے ہیں خصوصاََ بچیاں جن کے ساتھ تشدد، زیادتی و دیگر افسوسناک واقعات پیش آتے ہیں، اکثر تو ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
اموات بھی ہوئی ہیں جو افسوسناک ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے بچے احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کا بچپن اور مستقبل ان سے چھین لیا جاتا ہے لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ عمر کی حد بڑھا کر 18 برس کی جائے، اس سے ایک شہر سے دوسرے شہر بچوں کی سمگلنگ کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ تو 2019ء میں بن گیا تھا مگر تاحال اس کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔
اس میں کافی تاخیر ہوچکی ہے مگر اب یہ رولز آف بزنس زیر بحث ہیں، فائنل ہونے کے بعد کابینہ سے منظوری کیلئے بھیجے جائیں گے اس میں سول سوسائٹی، این جی اوز، مزدور تنظیمیں و دیگر سٹیک ہولڈرز، حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔ڈومیسٹک ورکرز کے مسائل بہت زیادہ ہیں جن کے حل کیلئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز کیلئے کم از کم اجرت، ورکرز ویلفیئر فنڈ، تنازعات کے حل کیلئے کمیٹی و دیگر کام قانون کے مطابق جلد کئے جائیں۔
سب سے بڑھ کر تنظیم سازی کیلئے ڈومیسٹک ورکرز کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، ان آواز کو مضبوط بنانے کیلئے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز کی رجسٹریشن کا آغاز ہوا تھا، ہم نے بھی اس میں حکومت کو سہولت فراہم کی جس کے بعد 40 ہزار سے زائدڈومیسٹک ورکرز کی رجسٹریشن ہوئی مگر پھر انہیں سوشل سکیورٹی کارڈ کے اجراء کا کام رک گیا، اس حوالے سے کام کیا جائے اور ورکرز کی رجسٹریشن کر کے انہیں سوشل سکیورٹی سمیت دیگر سہولیات دی جائیں، انہیں مختلف فلاحی منصوبوں میںبھی شامل کیا جائے۔
شہناز اجمل
(صدر وویمن ڈومیسٹک ورکرز یونین پنجاب)
ڈومیسٹک ورکرز کو کم معاوضہ، زیادہ کام، تحفظ، ٹرانسپوٹ، سکیورٹی کارڈ سمیت درجنوں مسائل کا سامنا ہے جو حل طلب ہیں۔ ہمیں مختلف علاقوں اور ہاؤسنگ سکیموں میں صرف اس لیے روک لیا جاتا ہے کہ ہمارے پاس سکیورٹی کارڈ نہیں ہوتا، اس میں مسئلہ یہ ہے کہ مالک کے شناختی کارڈ کی کاپی درکار ہوتی ہے، وہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے ہمارا کارڈ نہیں بن پاتا، اگر محکمہ لیبر اس میں ہماری مدد کرے تو بہتری آسکتی ہے۔
ہمارا ایک اور بڑا مسئلہ اجرت کا ہے۔ ہماری صلاحیت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے جبکہ معاوضہ کم، سوال یہ ہے کہ ہماری محنت پوری ہے تو اجرت ادھوری کیوں؟ ہم سے 24گھنٹے کام لیا جاتا ہے، چھٹی بھی نہیں دی جاتی، مزدوری کاٹ لی جاتی ہے، ہم پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں مگر کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔
حکومت نے مزدور کی کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کی ہے جبکہ ہمیں تو 25 ہزار روپے بھی نہیں ملتے لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ دیگر مزدوروں کی طرح ڈومیسٹک ورکرز کے لیے بھی کم از کم اجرت کا قانون لاگو کیا جائے اور ہماری مزدوری کوبھی دیگر مزدوروں کے برابر کیا جائے۔
ہمیں تنظیم سازی کا حق دیا جائے، یونین کی رجسٹریشن میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے خواتین ڈومیسٹک ورکرز کو مضبوط کیا جائے تاکہ وہ مل کر اپنے حقوق و تحفظ کی جدوجہد کر سکیں۔
ایک اوراہم مسئلہ یہ ہے کہ گھروں میں بچوں کو ملازمت پر رکھا جاتا ہے جو ان سے ان کی زندگی اور مستقبل چھیننے کے مترادف ہے۔ ان کا بدترین استحصال ہوتا ہے، ان کے تمام انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے لہٰذا بچہ مزدوری کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ خدارا! بچوں سے ان کا مستقبل نہ چھینیں۔ ریاست اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔
اس اہم دن کے موقع پر پاکستان میں ڈومیسٹک ورکرز کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور ڈومیسٹک ورکرزکے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
محمد شاہد
(سیکرٹری منیمم ویج بورڈ سینئر لاء آفیسر محکمہ لیبر پنجاب)
جنوبی ایشیاء میں پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ڈومیسٹک ورکرز کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔2018ء میں سیکرٹری لیبر پنجاب اسد اللہ فیض کی سربراہی میں ہم نے اپنی پالیسی کو رسمی سے غیر رسمی شعبے کی طرف منتقل کیا۔
تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد آئی ایل او کنونشن 144 کی روشنی میں پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء بنایا گیا جس میں ڈومیسٹک ورکرز کے کام کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ورکر قرار دیا گیا لہٰذا اب انہیں نوکر نہیں کہا جاسکتا۔
اس قانون کے تحت ان کے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دیا گیا اور انہیں یونین سازی کا حق بھی دیا گیا ہے تاکہ وہ منظم ہوکر رسمی شعبے کے مزدوروں کی طرح اپنے مسائل حل کر سکیں۔ پنجاب کی پالیسی میں کسی قسم کی کوئی تفرق نہیں، مرد، عورت، خواجہ سرا سمیت کسی جنس میں کوئی فرق نہیں، جو بھی غیر رسمی شعبے میں کام کر رہا ہے اسے ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
اس وقت ڈومیسٹک ورکرز کی کچھ یونینز رجسٹرڈ ہیں، ہم سب کو سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز کی رجسٹریشن کے حوالے سے بھی کافی کام ہوا ہے جو تاحال جاری ہے۔ ورکرز کی رجسٹریشن آن لائن ایپ سے بھی ہوسکتی ہے جبکہ ہم نے مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز و مقامات پر خصوصی کیمپس بھی لگائے جن میں ہمیں این جی اوز کا تعاون حاصل ہے۔
ہم نے پنجاب میں ڈومیسٹک ورکرز سروے کروایا ہے جس میں ڈومیسٹک ورکرز کی تعداد، کام کی نوعیت، اوقات کار و دیگر حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں 1 ملین سے زائد ڈومیسٹک ورکرز ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں ڈومیسٹک ورکرز کی کم از کم اجرت کے حوالے سے کچھ نہیں ہوسکا۔
پہلی مرتبہ یہ معاملہ بھی زیر بحث آیا ہے اور اس پر کام ہورہا ہے، چند دنوں میں ان کی کم از کم اجرت کا اعلان کیا جائے گا جو رسمی شعبے کیلئے حکومت کی مقرر کردہ کم از کم اجرت کے مطابق ہوگا۔ اس اجرت کو گھنٹے، د ن اور مہینے کے حساب سے تقسیم کیا جائے گا۔
تنخواہ و دیگر حوالے سے شکایات کیلئے لیبر ڈیپارٹمنٹ کا شکایات سیل موجود ہے، ہمارے آفیسرز کے پاس سول جج کے برابر اختیارات ہیں جو ریکوری کو یقینی بناتے ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز کو سول سکیورٹی بینفٹ دینے کیلئے محکمہ لیبر کی جانب سے 5 ملین روپے کا فنڈ مقرر کر دیا گیا ہے۔
حکومت، مخیر حضرات، مالکان، ورکرز و دیگر سٹیک ہولڈرز بھی اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ تنازعات کے حل کیلئے دیہی اور شہری علاقوں میں لوکل باڈیز کے نظام کے حساب سے یونین کونسل اور نیبر ہڈ کونسل کی سطح پر کمیٹیاں ہونگی، جب تک نظام نہیں بنتا تب تک یو سی ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے تنازعات حل کیے جائیں گے۔
چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں، کم از کم عمر کی حد 15برس ہے، 15 سے 18 برس میں چند گھنٹے آسان کام ہے، خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے اور سزا دی جاتی ہے، ہم نے چائلڈ لیبر کے 2016ء کے قانون کے تحت ایک ہزار سے زائد پرچے بھی دیے ہیں۔ چائلڈ لیبر، بانڈڈ لیبر اور بچوں کی سمگلنگ کی وجہ سے پاکستان فیٹف میں پھنس سکتاتھا، ہم نے دن رات ایک کیا اور اس سے باہر نکل آئے۔ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ جنوبی ایشیاء میں واحد ایکٹ ہے جو صرف پنجاب میں ہے۔
اس کے رولز آف بزنس سہہ فریقی کمیٹی سے منظوری کے بعد کابینہ کو بھجوائے جائیں گے، امید ہے جلد قانونی مراحل طے کر لیے جائیں گے اور اس پر عملددرآمد کے ذریعے ڈومیسٹک ورکرز کی زندگی کو بہتر بنایا جائے گا۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی )
پاکستان میںغیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے ورکرز غیر دستاویزی، غیر رجسٹرڈ، غیر منظم اور کمزور ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم ابھی ایک مہذب لائف سٹائل سے بہت دور ہیں، ہماری لیبر فورس کو تعلیم، صحت، تحفظ، ٹرانسپورٹ، کم از کم تنخواہ سمیت بیسیوں مسائل کا سامنا ہے۔
ہماری طبقاتی تقسیم اس میں ایک بڑی وجہ ہے، خواتین اس کا زیادہ شکار ہیں، انہیں ایک سا معاوضہ، سہولیات نہیں ملتی۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو ملنے والی مراعات اور جی ایس پی پلس سٹیٹس کے باوجود اس شعبے میں خواتین کا استحصال ہو رہا ہے۔ افسوس ہے کہ سستی مزدوری کیلئے خواتین اور بچوں سے کام لیا جاتا ہے، ان کا معاشی، معاشرتی اور خاندانی استحصال ہو رہا ہے۔
جہاں مسائل ہیں وہاں یہ خوش آئند ہے کہ پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے ڈومیسٹک ورکرز کو تسلیم اور 2019ء میں ان کیلئے قانون سازی کی، اب کسی بھی ڈومیسٹک ورکر کو نوکر نہیں کہا جاسکتا بلکہ اسے ورکر تسلیم کرکے حقوق و تحفظ یقینی گیا ہے۔
ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں بچے کی ملازمت کیلئے کم از کم عمر کی حد 15 برس رکھی گئی ہے۔15سے 18 برس کی عمر کے بچوں کیلئے 'لائٹ ورک' رکھا گیا ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ بچے ہیں جو کمزور ہوتے ہیں۔ وہ کسی دوسرے کے گھر کی چار دیواری میں غیر محفوظ ہوتے ہیں خصوصاََ بچیاں جن کے ساتھ تشدد، زیادتی و دیگر افسوسناک واقعات پیش آتے ہیں، اکثر تو ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
اموات بھی ہوئی ہیں جو افسوسناک ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے بچے احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کا بچپن اور مستقبل ان سے چھین لیا جاتا ہے لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ عمر کی حد بڑھا کر 18 برس کی جائے، اس سے ایک شہر سے دوسرے شہر بچوں کی سمگلنگ کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ تو 2019ء میں بن گیا تھا مگر تاحال اس کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔
اس میں کافی تاخیر ہوچکی ہے مگر اب یہ رولز آف بزنس زیر بحث ہیں، فائنل ہونے کے بعد کابینہ سے منظوری کیلئے بھیجے جائیں گے اس میں سول سوسائٹی، این جی اوز، مزدور تنظیمیں و دیگر سٹیک ہولڈرز، حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔ڈومیسٹک ورکرز کے مسائل بہت زیادہ ہیں جن کے حل کیلئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز کیلئے کم از کم اجرت، ورکرز ویلفیئر فنڈ، تنازعات کے حل کیلئے کمیٹی و دیگر کام قانون کے مطابق جلد کئے جائیں۔
سب سے بڑھ کر تنظیم سازی کیلئے ڈومیسٹک ورکرز کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، ان آواز کو مضبوط بنانے کیلئے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز کی رجسٹریشن کا آغاز ہوا تھا، ہم نے بھی اس میں حکومت کو سہولت فراہم کی جس کے بعد 40 ہزار سے زائدڈومیسٹک ورکرز کی رجسٹریشن ہوئی مگر پھر انہیں سوشل سکیورٹی کارڈ کے اجراء کا کام رک گیا، اس حوالے سے کام کیا جائے اور ورکرز کی رجسٹریشن کر کے انہیں سوشل سکیورٹی سمیت دیگر سہولیات دی جائیں، انہیں مختلف فلاحی منصوبوں میںبھی شامل کیا جائے۔
شہناز اجمل
(صدر وویمن ڈومیسٹک ورکرز یونین پنجاب)
ڈومیسٹک ورکرز کو کم معاوضہ، زیادہ کام، تحفظ، ٹرانسپوٹ، سکیورٹی کارڈ سمیت درجنوں مسائل کا سامنا ہے جو حل طلب ہیں۔ ہمیں مختلف علاقوں اور ہاؤسنگ سکیموں میں صرف اس لیے روک لیا جاتا ہے کہ ہمارے پاس سکیورٹی کارڈ نہیں ہوتا، اس میں مسئلہ یہ ہے کہ مالک کے شناختی کارڈ کی کاپی درکار ہوتی ہے، وہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے ہمارا کارڈ نہیں بن پاتا، اگر محکمہ لیبر اس میں ہماری مدد کرے تو بہتری آسکتی ہے۔
ہمارا ایک اور بڑا مسئلہ اجرت کا ہے۔ ہماری صلاحیت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے جبکہ معاوضہ کم، سوال یہ ہے کہ ہماری محنت پوری ہے تو اجرت ادھوری کیوں؟ ہم سے 24گھنٹے کام لیا جاتا ہے، چھٹی بھی نہیں دی جاتی، مزدوری کاٹ لی جاتی ہے، ہم پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں مگر کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔
حکومت نے مزدور کی کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کی ہے جبکہ ہمیں تو 25 ہزار روپے بھی نہیں ملتے لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ دیگر مزدوروں کی طرح ڈومیسٹک ورکرز کے لیے بھی کم از کم اجرت کا قانون لاگو کیا جائے اور ہماری مزدوری کوبھی دیگر مزدوروں کے برابر کیا جائے۔
ہمیں تنظیم سازی کا حق دیا جائے، یونین کی رجسٹریشن میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے خواتین ڈومیسٹک ورکرز کو مضبوط کیا جائے تاکہ وہ مل کر اپنے حقوق و تحفظ کی جدوجہد کر سکیں۔
ایک اوراہم مسئلہ یہ ہے کہ گھروں میں بچوں کو ملازمت پر رکھا جاتا ہے جو ان سے ان کی زندگی اور مستقبل چھیننے کے مترادف ہے۔ ان کا بدترین استحصال ہوتا ہے، ان کے تمام انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے لہٰذا بچہ مزدوری کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ خدارا! بچوں سے ان کا مستقبل نہ چھینیں۔ ریاست اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔