خواتین ہر جگہ یک ساں طور پر قابل احترام ہونی چاہئیں
صنف نازک کے ’اچھے رویوں‘ کو غلط معنی پہنانے کا چلن ختم کرنا ہوگا
جی نہیں! یہ بالکل بھی ضروری نہیں ہے کہ اگر کسی لڑکی نے آپ کو مسکرا کر دیکھ لیا، تو وہ آپ پر فِدا ہوگئی ہے۔۔۔!
انسان تو پھول، بادل، موسم، اپنے پسندیدہ جانور، چھوٹے بچوں، قوسِ قزح اور کسی بھی چیز کو مسکرا کر دیکھ سکتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو بالکل نہ ہوا کہ اگر کسی 'حضرت' کو مسکرا کر دیکھ لیا تو وہ خاتون یا لڑکی اس پر فریفتہ ہوگئی ہے!
سماج کو 'ہنسی تو پھنسی' والی مضحکہ خیز اور ہتک آمیز سوچ میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو بے وقوف سمجھ کر یا آپ کی سوچ کو ہنس کر ٹالنا چاہتی ہو یا پھر اپ کو ہنس کر نظر انداز کر رہی ہو یا آپ سے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہو۔
خواتین کے خلاف ایسے رویے ہمارے معاشرے کا مشترکہ مسئلہ ہی نہیں، بکہ المیہ ہیں اور یقیناً یہ 'ہنسی تو پھنسی' والی سوچ اور ذہینیت تو براہ راست جنسی ہراسگی کے زمرے میں بھی آتی ہے۔ جو کہ صرف کام کرنے والی خواتین اور دفاتر تک محدود نہیں، بلکہ ایسی سوچ کا دائرہ ہمارے حلقۂ احباب سے شروع ہو کر تعلیمی اداروں، عوام مقامات اور تفریح گاہوں تک پھیلا ہوا ہے۔
خواتین کے خلاف ہراسمنٹ یا جنسی تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے، جو ہر عمر، نسل اور سماجی اقتصادی پس منظر کی خواتین کو متاثر کرتا ہے۔ بین الاقومی رپورٹس اور اعداد و شمار کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہے۔
خواتین کے خلاف جنسی تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے، جو ہماری توجہ اور مثبت اقدامات کا متقاضی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنا، شعور اجاگر کرنا، بیداری پیدا کرنا، اور ایک ایسا معاشرہ بنانے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے، جہاں ہر عورت خود کو محفوظ، عزت دار اور بااختیار محسوس کرے۔
ہمیں صنف نازک کے مرتبے اور کسی شخص کے حدود کا احترام کرنے کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ یہ اصول زور دیتا ہے کہ کسی بھی قسم کی ایسی سرگرمی ناقابل قبول ہے اور یہ 'تشدد' کی کارروائی میں گنی جاتی ہے۔ جنس سے قطع نظر، رضامندی، حدود، اور دوسروں کے انتخاب اور خودمختاری کا احترام کرنے کی اہمیت کے بارے میں افراد کو تعلیم دینا ضروری ہے۔
خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی اور تشدد کے خاتمے کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں تعلیم، پالیسی میں تبدیلیاں، اور سماجی رویوں میں تبدیلی شامل ہو۔ ایسی ثقافت کو فروغ دینا بہت ضروری ہے، جو صنفی مساوات کو فروغ دے۔
نقصان دہ دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرے اور باہمی احترام اور رضامندی پر مبنی صحت مند تعلقات کی حوصلہ افزائی کرے۔ ایسے رویوں اور سوچ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے یقیناً مشترکہ اور سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے!
سب سے اہم بات لوگوں کو خصوصاً نوجوان نسل اور حضرات کو یہ بتانا اور سکھانا ہے کہ کسی کا تہذیب سے احترام سے بات کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اس سے فری ہوجائیں یا پھر 'ہنسے' کا مطلب 'پھنسنا' نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی اگر لڑکی ایک بار 'نہ' کہہ دے تو اس کی 'نہ' ہی سمجھا جائے۔
نہ کہ فلموں اور گانوں کی طرح ہو کہ لڑکا پہلے مسلسل لڑکی کے پیچھے ہے اور وہ منع کر رہی ہے، لیکن حضرت اتنا پیچھے لگے کہ آگے جاکر لڑکی کی 'نہ' 'ہاں' میں بدل گئی۔ یہ یقیناً ایک غلط رویہ، سوچ اور پیغام ہے کہ اتنا پیچھے لگو کہ آگے جا کر 'ہاں' بن جائے کیوں کہ 'نہ کا مطلب نہ' ہی ہے آگے جاکر بھی 'نہ' ہی رہے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں اور خواتین کو ایک 'نہ' کرنے کے باعث زندگی سے ہاتھ دھونے سے لے کر تیزاب گردی اور دیگر انتہائی بھیانک نتائج تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس رویے اور سوچ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ مرد حضرات کو یہ بات باور کرائی جائے کہ اس سے قطع نظر کہ لڑکی نے کیا پہنا ہے، وہ جاب کرتی ہے یا پڑھتی ہے یا گھر پر رہتی ہے، وہ جو کوئی بھی ہے اس کا احترام کیا جائے اور اس کے اچھے رویے اچھے سے بات چیت کرنے اور ہنسنے بولنے کو کوئی اور معنی نہ پہنائے جائیں۔
جنسی تشدد کا خاتمہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے ہم سب کام کر سکتے ہیں۔ لوگوں کو یہ سکھا کر کہ 'ہنسنے کا مطلب پھنسنا' نہیں، ہم ایک ایسی دنیا بنانے میں مدد کر سکتے ہیں جہاں ہر کوئی محفوظ اور قابل احترام ہو۔
ہمیں اس سوچ اور ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اس جنسی تشدد کے کلچر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو رضامندی اور احترام کے بارے میں سکھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہراسانی سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے بارے میں غلط قسم کے دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ساتھ ہی ہمیں لوگوں کو ان کے اعمال کے لیے جواب دہ ٹھیرانے کی ضرورت ہے۔
ایک اور بات جو سب سے زیادہ توجہ طلب اور اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ جنسی تشدد کے واقعات میں زندہ بچ جانے والی خواتین کو بااختیار بنانا، مراعات فراہم کرنا اور امدادی خدمات فراہم کرنا سب سے اہم ہے۔
اس میں طبی دیکھ بھال، مشاورت، قانونی مدد، اور محفوظ جگہوں تک رسائی شامل ہے، جہاں وہ اپنی زندگیوں کو نئے سرے سے شروع کر سکتے ہیں، ان کی زندگیوں کی بحالی اور شخصیت کی تعمیر میں مدد کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، مضبوط قانونی نظام کے ذریعے مجرموں کو کٹہرے میں لانا، جواب دہ ٹھیرانا اور جنسی تشدد کو دوام بخشنے والے مسائل کو حل کرنا دیرپا تبدیلی پیدا کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے خاتمے میں کمیونٹیز، تنظیمیں اور افراد سب کا اپنا کردار ہے۔ نقصان دہ رویوں کو چیلنج کر کے اور تشدد کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی مدد کر کے، ہم سب کے لیے ایک محفوظ اور زیادہ جامع معاشرہ بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
آئیے مل کر اپنی آواز بلند کریں، ہراسانی کے واقعات میں زندہ بچ جانے والوں کی مدد کریں، اور ایک ایسی دنیا کے لیے کام کریں جہاں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بچیوں اور خواتین کا احترام ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس پیغام کو سب سنیں اور اس کا احترام کریں۔
انسان تو پھول، بادل، موسم، اپنے پسندیدہ جانور، چھوٹے بچوں، قوسِ قزح اور کسی بھی چیز کو مسکرا کر دیکھ سکتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو بالکل نہ ہوا کہ اگر کسی 'حضرت' کو مسکرا کر دیکھ لیا تو وہ خاتون یا لڑکی اس پر فریفتہ ہوگئی ہے!
سماج کو 'ہنسی تو پھنسی' والی مضحکہ خیز اور ہتک آمیز سوچ میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو بے وقوف سمجھ کر یا آپ کی سوچ کو ہنس کر ٹالنا چاہتی ہو یا پھر اپ کو ہنس کر نظر انداز کر رہی ہو یا آپ سے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہو۔
خواتین کے خلاف ایسے رویے ہمارے معاشرے کا مشترکہ مسئلہ ہی نہیں، بکہ المیہ ہیں اور یقیناً یہ 'ہنسی تو پھنسی' والی سوچ اور ذہینیت تو براہ راست جنسی ہراسگی کے زمرے میں بھی آتی ہے۔ جو کہ صرف کام کرنے والی خواتین اور دفاتر تک محدود نہیں، بلکہ ایسی سوچ کا دائرہ ہمارے حلقۂ احباب سے شروع ہو کر تعلیمی اداروں، عوام مقامات اور تفریح گاہوں تک پھیلا ہوا ہے۔
خواتین کے خلاف ہراسمنٹ یا جنسی تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے، جو ہر عمر، نسل اور سماجی اقتصادی پس منظر کی خواتین کو متاثر کرتا ہے۔ بین الاقومی رپورٹس اور اعداد و شمار کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہے۔
خواتین کے خلاف جنسی تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے، جو ہماری توجہ اور مثبت اقدامات کا متقاضی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنا، شعور اجاگر کرنا، بیداری پیدا کرنا، اور ایک ایسا معاشرہ بنانے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے، جہاں ہر عورت خود کو محفوظ، عزت دار اور بااختیار محسوس کرے۔
ہمیں صنف نازک کے مرتبے اور کسی شخص کے حدود کا احترام کرنے کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ یہ اصول زور دیتا ہے کہ کسی بھی قسم کی ایسی سرگرمی ناقابل قبول ہے اور یہ 'تشدد' کی کارروائی میں گنی جاتی ہے۔ جنس سے قطع نظر، رضامندی، حدود، اور دوسروں کے انتخاب اور خودمختاری کا احترام کرنے کی اہمیت کے بارے میں افراد کو تعلیم دینا ضروری ہے۔
خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی اور تشدد کے خاتمے کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں تعلیم، پالیسی میں تبدیلیاں، اور سماجی رویوں میں تبدیلی شامل ہو۔ ایسی ثقافت کو فروغ دینا بہت ضروری ہے، جو صنفی مساوات کو فروغ دے۔
نقصان دہ دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرے اور باہمی احترام اور رضامندی پر مبنی صحت مند تعلقات کی حوصلہ افزائی کرے۔ ایسے رویوں اور سوچ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے یقیناً مشترکہ اور سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے!
سب سے اہم بات لوگوں کو خصوصاً نوجوان نسل اور حضرات کو یہ بتانا اور سکھانا ہے کہ کسی کا تہذیب سے احترام سے بات کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اس سے فری ہوجائیں یا پھر 'ہنسے' کا مطلب 'پھنسنا' نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی اگر لڑکی ایک بار 'نہ' کہہ دے تو اس کی 'نہ' ہی سمجھا جائے۔
نہ کہ فلموں اور گانوں کی طرح ہو کہ لڑکا پہلے مسلسل لڑکی کے پیچھے ہے اور وہ منع کر رہی ہے، لیکن حضرت اتنا پیچھے لگے کہ آگے جاکر لڑکی کی 'نہ' 'ہاں' میں بدل گئی۔ یہ یقیناً ایک غلط رویہ، سوچ اور پیغام ہے کہ اتنا پیچھے لگو کہ آگے جا کر 'ہاں' بن جائے کیوں کہ 'نہ کا مطلب نہ' ہی ہے آگے جاکر بھی 'نہ' ہی رہے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں اور خواتین کو ایک 'نہ' کرنے کے باعث زندگی سے ہاتھ دھونے سے لے کر تیزاب گردی اور دیگر انتہائی بھیانک نتائج تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس رویے اور سوچ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ مرد حضرات کو یہ بات باور کرائی جائے کہ اس سے قطع نظر کہ لڑکی نے کیا پہنا ہے، وہ جاب کرتی ہے یا پڑھتی ہے یا گھر پر رہتی ہے، وہ جو کوئی بھی ہے اس کا احترام کیا جائے اور اس کے اچھے رویے اچھے سے بات چیت کرنے اور ہنسنے بولنے کو کوئی اور معنی نہ پہنائے جائیں۔
جنسی تشدد کا خاتمہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے ہم سب کام کر سکتے ہیں۔ لوگوں کو یہ سکھا کر کہ 'ہنسنے کا مطلب پھنسنا' نہیں، ہم ایک ایسی دنیا بنانے میں مدد کر سکتے ہیں جہاں ہر کوئی محفوظ اور قابل احترام ہو۔
ہمیں اس سوچ اور ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اس جنسی تشدد کے کلچر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو رضامندی اور احترام کے بارے میں سکھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہراسانی سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے بارے میں غلط قسم کے دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ساتھ ہی ہمیں لوگوں کو ان کے اعمال کے لیے جواب دہ ٹھیرانے کی ضرورت ہے۔
ایک اور بات جو سب سے زیادہ توجہ طلب اور اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ جنسی تشدد کے واقعات میں زندہ بچ جانے والی خواتین کو بااختیار بنانا، مراعات فراہم کرنا اور امدادی خدمات فراہم کرنا سب سے اہم ہے۔
اس میں طبی دیکھ بھال، مشاورت، قانونی مدد، اور محفوظ جگہوں تک رسائی شامل ہے، جہاں وہ اپنی زندگیوں کو نئے سرے سے شروع کر سکتے ہیں، ان کی زندگیوں کی بحالی اور شخصیت کی تعمیر میں مدد کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، مضبوط قانونی نظام کے ذریعے مجرموں کو کٹہرے میں لانا، جواب دہ ٹھیرانا اور جنسی تشدد کو دوام بخشنے والے مسائل کو حل کرنا دیرپا تبدیلی پیدا کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے خاتمے میں کمیونٹیز، تنظیمیں اور افراد سب کا اپنا کردار ہے۔ نقصان دہ رویوں کو چیلنج کر کے اور تشدد کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی مدد کر کے، ہم سب کے لیے ایک محفوظ اور زیادہ جامع معاشرہ بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
آئیے مل کر اپنی آواز بلند کریں، ہراسانی کے واقعات میں زندہ بچ جانے والوں کی مدد کریں، اور ایک ایسی دنیا کے لیے کام کریں جہاں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بچیوں اور خواتین کا احترام ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس پیغام کو سب سنیں اور اس کا احترام کریں۔