پاک افغان تعلقات اور سیکیورٹی فالٹ لائنز
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات جتنے خوشگوار ہونے چاہیے تھے، اتنے نہیں ہوسکے ہیں
درہ آدم خیل میں انتہائی مطلوب دہشت گرد، دو ساتھیوں سمیت سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا۔
دہشت گرد ظفری پاکستان میں چھبیس گرنیڈ حملوں، کوئلے کے ٹھیکے داروں، تاجروں اور بااثر افراد کے خلاف دہشت گردی کی درجنوں کارروائیوں میں ملوث رہا، دہشت گرد کمانڈر تحریک طالبان افغانستان کا سابقہ ممبر بھی رہا۔
دوسری جانب ایک اخباری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے ایک بار پھر نئی کوششوں کا آغاز کیا گیا ہے، اگرچہ دونوں اطراف سے سرکاری سطح پر اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا، اس کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ اقوام عالم کے معیار پر پورا نہیں اتر رہے، یقیناً افغانستان کی حکومت چلانے والوں کو ان حقائق کا علم ہوگا۔
ادھر پاکستان جس نے دوحہ مذاکرات کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا، افغان طالبان اس کی توقعات پر پورا نہیں اترے ، پاکستان کے اصرار کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے انکار کردیا ۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو بطور پریشر ٹیکٹکس استعمال کر رہے ہیں ۔
حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق پاکستان یک طرفہ سوچ کا حامی نہیں اور اس حوالے سے عالمی برادری کی سوچ کا احترام کرے گا۔
پاکستان کے عوام کے لیے یہ امر انتہائی دکھ اور اذیت کا باعث ہے کہ افغانستان کی سرحد پر آئے دن پاک فوج کے نوجوان شہید ہو رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد جس تسلسل سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں، وہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
افغان طالبان کو قطر معاہدے کے ذریعے حکومت دی گئی ہے۔ اس معاہدے میں وہ دوسری کئی باتوں کے علاوہ اس کا بھی وعدہ کرچکے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، مگر اس کے برعکس ہو رہا ہے، جس شدت سے ٹی ٹی پی نے افغانستان کی سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر حملے کیے ہیں، یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
امریکا ہمارا مخالف رہا کہ ہم ڈبل گیم کر رہے ہیں، مگر اس کے باوجود ہم نے طالبان کی مدد جاری رکھی۔ لگ یہ رہا ہے ٹی ٹی پی کے معاملے میں افغان طالبان یہی کر رہے ہیں، پاکستان کے باخبر صحافی بار بار اسی امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ طالبان کو امید تھی کہ پاکستان انھیں تسلیم کر لے گا، مگر پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔
افغانستان میں جس کی مرضی حکومت رہی ہو، پاکستان کے لیے وہاں سے خیر کی خبریں بہت ہی کم آئی ہیں، اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو بڑے بڑے مسائل کی بنیادی وجہ افغانستان میں مسلسل خانہ جنگی کے اثرات ہیں۔ افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پاکستان کا رخ کر رہی ہے۔
پہلے پاکستان کے بڑے شہر تھے اور اب بات تو دیہات تک پہنچ چکی ہے، ہم مسلسل افغانستان کے لیے اپنی معاشرت قربان کرتے آئے ہیں، انڈیا ہمارا دشمن ملک ہے، مگر وہاں سے جتھے پاکستان آکر حملہ آور نہیں ہوتے۔ یہ افغانستان ہے، جہاں سے جتھے ہمارے جوانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یقینی طور پر افغانستان کے اپنے مسائل ہیں، طالبان کی حکومت میں باقاعدہ فوج کا نہ ہونا بھی ان کے لیے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات جتنے خوشگوار ہونے چاہیے تھے، اتنے نہیں ہوسکے ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے زعما کواس کی وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا۔ ہمارے پالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا کہ جن افغان طالبان کے لیے ہم نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا، جب انھیں اقتدار ملا تو وہ یوں ہمارے خلاف کیسے ہوگئے؟ اتنے حملے تو حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے دور میں نہیں ہوتے تھے، جتنے اس دور میں شروع ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں پچھتر برس سال سے پاکستان دشمنی پر مبنی نصاب تعلیم پڑھایا جا رہا ہے۔وہاں کی حکمران اشرافیہ اپنے مالی اور سیاسی مفادات کے لیے اس نفرت کو بڑھاتے رہے'افغانستان کے باشندوں کے ذہنوں کواس قدر آلودہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان دشمنی کو افغان حب الوطنی کی علامت سمجھتے ہیں۔
اس سوچ اور فکر کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں اوراس سے ملحقہ بندوبستی علاقوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں ' کتنی عجیب بات ہے کہ افغانستان کے لاکھوں باشندے پاکستان میں رہ رہے ہیں' یہاں کاروبار کر رہے ہیں ' پاکستان کی ریاست کے مہیا کردہ وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں ' یہاں کے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں ' عزت سے کاروبار کر رہے ہیں لیکن سوچ کے اعتبار سے منفی رویے اختیار کرتے ہیںحالانکہ ان کے اپنے وطن میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔
اس کے باوجود یہ لوگ پاکستان کے مفاد کے برعکس کام کرنے پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے جینز میںنفرت کو ساتھ لے کر آئے ہیں'انھیں اپنے ملک میں یہی بتایا اور پڑھایا گیا ہے۔ اس صورتحال میں افغانستان میں جس کی مرضی حکومت آجائے، پاک افغان تعلقات یونہی رہیں گے۔ یہ فالٹ لائن ہے، اسے درست کرنا ہوگا، تبھی جا کر نارمل تعلقات کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔
افغان طالبان لاکھ کہیں کہ ان کے ٹی ٹی پی سے تعلقات نہیں یا یہ ان کی سرپرستی میں نہیں چل رہی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں موجود ہیں اور وہیں سے آپریٹ کرتے ہیں، اگر ٹی ٹی پی کے ٹھکانے افغانستان میں نہیں ہیں اور ان کی قیادت پاکستان میں ہے تو پھر افغان طالبان کی سرپرستی میں کابل میں مذاکرات کیسے ہوتے رہے؟ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر کے غلطی کی تھی، پاکستان کو افغانستان سے ان لوگوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔
اسی طرح ان کے خلاف کارروائی پر افغان طالبان پر دباؤ رکھنا چاہیے تھا۔ ٹی ٹی پی کو فریق بنا کر بہت بڑی سیکیورٹی غلطی کی گئی۔ ممکن ہے کہ ہمارے پالیسی ساز کو اس کا ادراک ہوگیا ہوگا۔
افغانستان کی عبوری حکومت ہمسایہ ممالک کے ساتھ جس پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہے،یہ پالیسی ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی۔دہشت گرد تنظمیں کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتیں کیونکہ انھیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ۔ ایسے گروہ امن و امان کے مسائل ضرور پیدا کریں گے، جیسا کہ وہ کر رہے ہیں، مگر ریاستی ادارے اب پہلے سے کہیں زیادہ تیار ہیں۔
پاکستان اب بھی چاہتا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کامیاب ہوجائے اور وہ اس سے تعاون کررہا ہے۔پاکستان آج بھی افغانستان کی بات سن رہا ہے اور افغان عبوری حکومت موقع بھی دے رہا ہے کہ وہ اپنے معاملات کودرست کریں، افغان طالبان نے پاکستان کو یقین دلایا کہ کسی شدت پسند تنظیم کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، افغان حکومت اپنے اس وعدے پر عملدرآمد کرائے نہ کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا ایجنڈا لے کر بات کرے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہے، امریکا نے بھی پاکستان کے اندر روز بروز بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان عالمی پابندیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہے۔
ماضی بعید میں پاکستان افغان حکام سے درخواست کرتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی قیادت کے خلاف کارروائی کریں یا دوحہ معاہدے کے تحت عسکریت پسندوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکیں۔ یہ معاہدہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ اس وعدوں کا امتحان ہوگا اور اس کے بین الاقوامی ساخت کو متاثر کرے گا۔ پاکستان اب ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کرنے کے بجائے، جو کہ ماضی میں دو بار ناکام ہو چکے ہیں، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے افغان طالبان سے مطالبہ کر رہا ہے۔
افغانستان کی عبوری حکومت کو یقیناً سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ ممکن ہے کہ افغان طالبان کے اندر بھی تقسیم ہو ' سخت گیر عناصر کا حکومت پر کنٹرول زیادہ نظر آتا ہے جب کہ معتدل اور متوازن سوچ رکھنے والوں کی حکومت پر گرفت کمزور ہے ' افغانستان میں داعش کا نیٹ ورک بھی پوری طرح متحرک ہے ' ازبک 'تاجک اور ہزارہ منگول چپقلش بھی موجود ہے۔
ان مشکلات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت بہت سے معاملات میں اصلاحات لانے کے قابل نہیں ہے ' افغانستان میں انفرااسٹرکچر کی کمی بھی دہشت گرد گروپوں کی طاقت ہے کیونکہ انھیں چھپنا آسان ہو جاتا ہے۔اس لیے طالبان حکومت کو عالمی مدد کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کے قابل ہو سکیں۔
دہشت گرد ظفری پاکستان میں چھبیس گرنیڈ حملوں، کوئلے کے ٹھیکے داروں، تاجروں اور بااثر افراد کے خلاف دہشت گردی کی درجنوں کارروائیوں میں ملوث رہا، دہشت گرد کمانڈر تحریک طالبان افغانستان کا سابقہ ممبر بھی رہا۔
دوسری جانب ایک اخباری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے ایک بار پھر نئی کوششوں کا آغاز کیا گیا ہے، اگرچہ دونوں اطراف سے سرکاری سطح پر اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا، اس کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ اقوام عالم کے معیار پر پورا نہیں اتر رہے، یقیناً افغانستان کی حکومت چلانے والوں کو ان حقائق کا علم ہوگا۔
ادھر پاکستان جس نے دوحہ مذاکرات کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا، افغان طالبان اس کی توقعات پر پورا نہیں اترے ، پاکستان کے اصرار کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے انکار کردیا ۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو بطور پریشر ٹیکٹکس استعمال کر رہے ہیں ۔
حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق پاکستان یک طرفہ سوچ کا حامی نہیں اور اس حوالے سے عالمی برادری کی سوچ کا احترام کرے گا۔
پاکستان کے عوام کے لیے یہ امر انتہائی دکھ اور اذیت کا باعث ہے کہ افغانستان کی سرحد پر آئے دن پاک فوج کے نوجوان شہید ہو رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد جس تسلسل سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں، وہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
افغان طالبان کو قطر معاہدے کے ذریعے حکومت دی گئی ہے۔ اس معاہدے میں وہ دوسری کئی باتوں کے علاوہ اس کا بھی وعدہ کرچکے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، مگر اس کے برعکس ہو رہا ہے، جس شدت سے ٹی ٹی پی نے افغانستان کی سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر حملے کیے ہیں، یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
امریکا ہمارا مخالف رہا کہ ہم ڈبل گیم کر رہے ہیں، مگر اس کے باوجود ہم نے طالبان کی مدد جاری رکھی۔ لگ یہ رہا ہے ٹی ٹی پی کے معاملے میں افغان طالبان یہی کر رہے ہیں، پاکستان کے باخبر صحافی بار بار اسی امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ طالبان کو امید تھی کہ پاکستان انھیں تسلیم کر لے گا، مگر پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔
افغانستان میں جس کی مرضی حکومت رہی ہو، پاکستان کے لیے وہاں سے خیر کی خبریں بہت ہی کم آئی ہیں، اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو بڑے بڑے مسائل کی بنیادی وجہ افغانستان میں مسلسل خانہ جنگی کے اثرات ہیں۔ افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پاکستان کا رخ کر رہی ہے۔
پہلے پاکستان کے بڑے شہر تھے اور اب بات تو دیہات تک پہنچ چکی ہے، ہم مسلسل افغانستان کے لیے اپنی معاشرت قربان کرتے آئے ہیں، انڈیا ہمارا دشمن ملک ہے، مگر وہاں سے جتھے پاکستان آکر حملہ آور نہیں ہوتے۔ یہ افغانستان ہے، جہاں سے جتھے ہمارے جوانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یقینی طور پر افغانستان کے اپنے مسائل ہیں، طالبان کی حکومت میں باقاعدہ فوج کا نہ ہونا بھی ان کے لیے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات جتنے خوشگوار ہونے چاہیے تھے، اتنے نہیں ہوسکے ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے زعما کواس کی وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا۔ ہمارے پالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا کہ جن افغان طالبان کے لیے ہم نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا، جب انھیں اقتدار ملا تو وہ یوں ہمارے خلاف کیسے ہوگئے؟ اتنے حملے تو حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے دور میں نہیں ہوتے تھے، جتنے اس دور میں شروع ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں پچھتر برس سال سے پاکستان دشمنی پر مبنی نصاب تعلیم پڑھایا جا رہا ہے۔وہاں کی حکمران اشرافیہ اپنے مالی اور سیاسی مفادات کے لیے اس نفرت کو بڑھاتے رہے'افغانستان کے باشندوں کے ذہنوں کواس قدر آلودہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان دشمنی کو افغان حب الوطنی کی علامت سمجھتے ہیں۔
اس سوچ اور فکر کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں اوراس سے ملحقہ بندوبستی علاقوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں ' کتنی عجیب بات ہے کہ افغانستان کے لاکھوں باشندے پاکستان میں رہ رہے ہیں' یہاں کاروبار کر رہے ہیں ' پاکستان کی ریاست کے مہیا کردہ وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں ' یہاں کے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں ' عزت سے کاروبار کر رہے ہیں لیکن سوچ کے اعتبار سے منفی رویے اختیار کرتے ہیںحالانکہ ان کے اپنے وطن میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔
اس کے باوجود یہ لوگ پاکستان کے مفاد کے برعکس کام کرنے پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے جینز میںنفرت کو ساتھ لے کر آئے ہیں'انھیں اپنے ملک میں یہی بتایا اور پڑھایا گیا ہے۔ اس صورتحال میں افغانستان میں جس کی مرضی حکومت آجائے، پاک افغان تعلقات یونہی رہیں گے۔ یہ فالٹ لائن ہے، اسے درست کرنا ہوگا، تبھی جا کر نارمل تعلقات کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔
افغان طالبان لاکھ کہیں کہ ان کے ٹی ٹی پی سے تعلقات نہیں یا یہ ان کی سرپرستی میں نہیں چل رہی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں موجود ہیں اور وہیں سے آپریٹ کرتے ہیں، اگر ٹی ٹی پی کے ٹھکانے افغانستان میں نہیں ہیں اور ان کی قیادت پاکستان میں ہے تو پھر افغان طالبان کی سرپرستی میں کابل میں مذاکرات کیسے ہوتے رہے؟ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر کے غلطی کی تھی، پاکستان کو افغانستان سے ان لوگوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔
اسی طرح ان کے خلاف کارروائی پر افغان طالبان پر دباؤ رکھنا چاہیے تھا۔ ٹی ٹی پی کو فریق بنا کر بہت بڑی سیکیورٹی غلطی کی گئی۔ ممکن ہے کہ ہمارے پالیسی ساز کو اس کا ادراک ہوگیا ہوگا۔
افغانستان کی عبوری حکومت ہمسایہ ممالک کے ساتھ جس پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہے،یہ پالیسی ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی۔دہشت گرد تنظمیں کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتیں کیونکہ انھیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ۔ ایسے گروہ امن و امان کے مسائل ضرور پیدا کریں گے، جیسا کہ وہ کر رہے ہیں، مگر ریاستی ادارے اب پہلے سے کہیں زیادہ تیار ہیں۔
پاکستان اب بھی چاہتا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کامیاب ہوجائے اور وہ اس سے تعاون کررہا ہے۔پاکستان آج بھی افغانستان کی بات سن رہا ہے اور افغان عبوری حکومت موقع بھی دے رہا ہے کہ وہ اپنے معاملات کودرست کریں، افغان طالبان نے پاکستان کو یقین دلایا کہ کسی شدت پسند تنظیم کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، افغان حکومت اپنے اس وعدے پر عملدرآمد کرائے نہ کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا ایجنڈا لے کر بات کرے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہے، امریکا نے بھی پاکستان کے اندر روز بروز بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان عالمی پابندیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہے۔
ماضی بعید میں پاکستان افغان حکام سے درخواست کرتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی قیادت کے خلاف کارروائی کریں یا دوحہ معاہدے کے تحت عسکریت پسندوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکیں۔ یہ معاہدہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ اس وعدوں کا امتحان ہوگا اور اس کے بین الاقوامی ساخت کو متاثر کرے گا۔ پاکستان اب ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کرنے کے بجائے، جو کہ ماضی میں دو بار ناکام ہو چکے ہیں، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے افغان طالبان سے مطالبہ کر رہا ہے۔
افغانستان کی عبوری حکومت کو یقیناً سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ ممکن ہے کہ افغان طالبان کے اندر بھی تقسیم ہو ' سخت گیر عناصر کا حکومت پر کنٹرول زیادہ نظر آتا ہے جب کہ معتدل اور متوازن سوچ رکھنے والوں کی حکومت پر گرفت کمزور ہے ' افغانستان میں داعش کا نیٹ ورک بھی پوری طرح متحرک ہے ' ازبک 'تاجک اور ہزارہ منگول چپقلش بھی موجود ہے۔
ان مشکلات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت بہت سے معاملات میں اصلاحات لانے کے قابل نہیں ہے ' افغانستان میں انفرااسٹرکچر کی کمی بھی دہشت گرد گروپوں کی طاقت ہے کیونکہ انھیں چھپنا آسان ہو جاتا ہے۔اس لیے طالبان حکومت کو عالمی مدد کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کے قابل ہو سکیں۔