اپنا کراچی

یہ وہ شہر ہے جس کی سڑکیں کبھی پیرس کی طرح دھلا کرتی تھیں اور اب حالت یہ ہے کہ سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہیں


Shakeel Farooqi June 20, 2023
[email protected]

کراچی پاکستان کے تمام شہروں میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اِسی شہر میں آنکھ کھولی اور یہیں آسودہ خاک ہیں، اِس لیے اِس شہرکو شہرِ قائد کہا جاتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت اِسی شہر کو پاکستان کا دارالخلافہ بننے کا اعزاز حاصل ہے۔

کراچی وطنِ عزیز کی بندرگاہ ہے، اس بندر گاہ سے پورے پاکستان کو مال سپلائی ہوتا ہے۔ اگرچہ اسلام آباد کو پاکستان کا دارالخلافہ بنا دیا گیا اور بحریہ کا صدر دفتر بھی کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا لیکن کراچی کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

اسلام آباد کے دارالخلافہ ہونے کے باوجود کراچی ملک کا کاروباری، صنعتی اور تجارتی عروس البلاد ہے۔یہ شہر آج بھی سب سے زیادہ روز گار فراہم کر رہا ہے اور یہاں پاکستان کے ہر گاؤں اور قصبے کے لوگ محنت مزدوری کرنے کے لیے آتے ہیں اور یہ شہر انھیں روز گار بھی فراہم کرتا ہے اور عزت بھی دیتا ہے۔

اسی لیے کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے۔یہ اعزاز پاکستان کے کسی اور شہر کو حاصل نہیں ہے۔ کراچی میں کاروباری سرگرمیاں بھی ملک کے دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ ہیں۔

قیامِ پاکستان سے پہلے یہ ایک چھوٹا سا شہر ہوا کرتا تھا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد اِس شہر کی کایا ہی پلٹ گئی۔ علامہ اقبالؔ نے فرمایا ہے کہ:

کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد

کراچی کے ساتھ یہی ہوا۔ نئے آنے والوں نے اِسے کیا سے کیا بنا دیا۔ یہ شہر پاکستان کا صنعتی و تجارتی اور کاروباری مرکز بن گیا۔ پھر اِس کے بعد اِس نے جو برق رفتار ترقی کی وہ ایک ریکارڈ ہے جو سب کے سامنے ہے۔

اِس حقیقت سے انکار نہیں کہ ملک کا سب سے زیادہ ریونیو یہی شہر ادا کرتا ہے اور زکوۃ، خیرات اور صدقات کی ادائیگی میں بھی اِس کا نمبر اوّل ہے۔ملک کے بہترین طبی ادارے بھی کراچی شہر میں ہیں جب کہ مالیاتی اداروں کے ہیڈ آفسز کراچی میں موجود ہیں' اسی وجہ سے کراچی کو پاکستان کا معاشی دارالحکومت کہا جاتا ہے۔

یہ اعزاز بھی پاکستان کے کسی اور شہر کو حاصل نہیں ہے حتی کہ اسلام آباد جو ملک کا دارالحکومت ہے ' اسے بھی حاصل نہیں۔

اعدادوشماریہی بتاتے ہیں کہ پورے پاکستان کو یہی شہر سب سے زیادہ روزگار مہیا کرتا ہے جس کی وجہ سے ملک کے کونے کونے سے لوگ اِس کی طرف کھچے کھچے چلے آتے ہیں اور پھر یہیں کے ہوکے رہ جاتے ہیں،کراچی میں مہاجر' سندھی' بلوچ ' پنجابی ' پٹھان ' ہندکو ہزارہ وال خوش و خرم اپنے اپنے کاروبار کرتے نظر آئیں گے۔

اگر پاکستان کو ایک جسد مان لیا جائے تو کراچی کی حیثیت قلب کی ہے۔ کراچی چلتا ہے تو پورا ملک چلتا ہے۔ حرکتِ قلب کو درست رکھنے کے لیے لازم ہے کہ اِس کی پوری نگہداشت کی جائے اور ایسی کوئی حرکت کرنے سے گریزکیا جائے جس سے اِسے گزند پہنچے۔

بدقسمتی سے ہوتا یہ رہا ہے کہ کراچی سیاسی مصلحت پوشی اور چپقلش کا شکار ہوتا رہا ہے جس کی وجہ سے کوئی اصلاحِ احوال ہونے کے بجائے اِس کی حالت روز بروز دگرگوں ہوتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ پاکستان کا یہ سب سے بڑا شہر سب سے زیادہ مسائل گرفتہ ہے۔

کراچی میں بدامنی کی صورتحال پیدا کی گئی ' یہاں بھتہ خوری کے کلچر کو فروغ دیا گیا ' آبادی میں بے تحاشا اضافے کو روکنے کے لیے کوئی مربوط کوشش نہیں کی گئی ' جس کی وجہ سے کراچی میں معاشرتی مسائل پیدا ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کاموں میں سستی در آئی ' نیا انفرااسٹرکچر تعمیر نہ ہو سکا 'بغیر منصوبہ بندی کے رہائشی آبادیاں قائم ہونے لگیں' گندے نالوں کی زمینوں تک پر گھر تعمیرہو گئے یا پلازے کھڑے کر دیے گئے' جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو انتظامیہ خاموش رہی' اب یہ سارے مسائل اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ انھیں کیسے حل کیا جائے'اگر ماضی کی حکومتیں اور انتظامی مشینری فرض شناسی سے اپنے فرائض انجام دیتی تو کراچی کی حالت یہ نہ ہوتی تو آج نظر آتی ہے۔

یہ وہ شہر ہے جس کی سڑکیں کبھی پیرس کی طرح دھلا کرتی تھیں اور اب حالت یہ ہے کہ سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہیں۔ قدم قدم پرکچرے کے انبار ہیں اور جگہ جگہ گٹر اُبل رہے ہیں۔ ووٹ لینے کے لیے تو سب آجاتے ہیں لیکن اِس شہر کی صفائی ستھرائی اور سڑکوں کی تعمیر کا کسی کو خیال نہیں ہے۔

دو تین میئروں کو چھوڑ کر جن میں عبدالستار افغانی مرحوم، نعمت اللہ خان مرحوم، مصطفی کمال کے علاوہ کسی بھی میئر نے اِس شہر کی کوئی خدمت نہیں کی۔کراچی کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی تو کُجا بعض علاقوں میں پانی ہی میسر نہیں ہے۔ کے فور کا منصوبہ مدتِ دراز سے لٹکا ہوا ہے اور کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اِس کی طرف توجہ دے۔

ایک اور بات یہ ہے کہ سمندر کا پانی دستیاب ہے جس سے اِس شہر کا مسئلہ آب حل کیا جاسکتا ہے لیکن اِس طرف کسی نے بھی دھیان نہیں دیا ہے اور سمندر کے کھارے پانی کو صاف کرنے والا پلانٹ لگانے کی زحمت نہیں کی ہے۔

شہر روز بروز پھیلتا جارہا ہے اور نئی نئی عمارتیں بے لگام تعمیر ہو رہی ہیں اور پانی، صفائی ستھرائی، گیس اور بجلی کی فراہمی کے مسائل گمبھیر سے گمبھیر ہوتے جارہے ہیں اور کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔

سچ پوچھیے تو یہ شہر شہرِ ناپُرساں اور لاوارث بن چکا ہے۔ ہمیں اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اِس شہرکا میئر کون بنتا ہے اور کون نہیں بنتا۔ ہمارا سروکار اور دلچسپی صرف اِس بات سے ہے کہ جو بھی اس لاوارث شہر کا میئر بنے وہ اِس شہر کے مسائل کو پوری طرح سمجھے اور اصلاحِ احوال کی جانب پوری اور فوری توجہ دے۔

ہماری یہ بھی گزارش ہے کہ میئر شِپ کا مسئلہ ہوجانے کے بعد اسپورٹس مین اسپرٹ کے ساتھ اِس شہر کی ترقی اور حالت درست کرنے کی طرف توجہ دی جائے اور شہر کے مسائل کو یکسو ہوکر جلد سے جلد حل کرنے کی کوشش کی جائے۔اگر موجودہ میئر اس کارِ خیر کو انجام دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آیندہ انتخابات میں انھیں کامیابی حاصل نہ ہو۔

نئے میئرکو ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے آفس میں اپنی کُرسی پر بیٹھے رہنے کے بجائے باہر نکلیں اور شہرکے معاملات کا ذاتی مشاہدہ کریں۔ عوام سے رابطہ قائم کریں اور اُن سے اُن کے مسائل دریافت کریں اور اُن کا فوری حل تلاش کریں۔

اِس کے علاوہ سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر اپنے فرائضِ منصبی پوری تندہی سے انجام دیں۔ کراچی کے شہریوں کو بھی میئر کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے اور اپنے مسائل سے آگاہ کرنا چاہیے۔ہمیں امید نہیں بلکہ پورا یقین ہے کہ کراچی شہر کی قسمت بدلے گی اور یہ شہر ایک بار پھر ماڈل سٹی بن جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔