جھوٹے الزامات پر سزا کیوں نہیں
پاکستان میں غیر ذمے دارانہ بیانات دینے اور جھوٹے الزامات لگانے والوں کے لیے کوئی سزا ہی مقرر نہیں ہے
انسانی حقوق کمیشن نے تحقیقات کے بعد وزیر اعظم کو اپنی رپورٹ بھیجی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کی جیلوں میں قید خواتین کے ساتھ کسی بھی زیادتی کی شکایت ثابت نہیں ہوئی، ایسی خبریں غلط و بے بنیاد ہیں۔
لاہور، کراچی ودیگر شہروں سمیت گرفتار خواتین محفوظ ہیں اور انھیں قانون کے مطابق تمام مراعات حاصل ہیں اور ان سے متعلق گمراہ کن خبریں پھیلائی گئیں جو غلط تھیں۔ایسی خبریں پھیلانے والوں میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کے لوگ ایکٹو ہیں'پی ٹی آئی قائدین بھی اس قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں حالانکہ یہ سب باتیں غلط ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے باوجود اس قسم کی باتیں کرنا 'یہی ظاہر کرتا ہے کہ جھوٹے الزامات لگا کر ایک تو ہمدردی حاصل کی جائے اور دوسرا پاکستان کو بدنام کیا جائے تاکہ حکومت پر دباؤ بڑھے۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کے بزرگ اور ایک نوجوان رہنما کی گرفتاری پر پارٹی قیادت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان کو برہنہ کیا گیا حالانکہ دونوں کا شروع میں ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا۔
بزرگ رہنما کو تو برہنہ کیے جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ ایسی کوئی وجہ بھی نہیں تھی کہ ان کے ساتھ یہ سب کچھ کیا جاتا'وہ ایک عام سیاستدان ہیں اور ان کا قومی سطح کی سیاست میں کوئی بڑا نام بھی نہیں رہا ہے۔بس پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے انھیں بھی بڑا سیاسی رہنما بنا کر پیش کیا حالانکہ وہ مقامی سطح کے سیاستدان بھی نہیں رہے۔ جب کہ دوسرے نوجوان رہنما جو اپنی زبان درازی میں مشہور تھے، اب وہ امریکا میں ہیں ' وہ بھی کسی قسم کا سیاسی پس منظر نہیں رکھتے ' نہ انھوں نے کبھی پاکستان میں الیکشن جیتا یا لڑا ہے۔
اس لیے وہ بھی پاکستان کی سیاست میں کوئی بڑا نام نہیں ہے بلکہ ان کے بارے میں یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ ان کا حلقہ کونسا ہے لیکن پی ٹی آئی کے میڈیا ونگ اور ہمارے کچھ اینکرز حضرات نے انھیں بھی لیڈر بنا کر پیش کیا 'یہ دونوں حضرات گرفتار ضرور ہوئے مگر دونوں نے اپنی زبان سے برہنہ کیے جانے کی کوئی شکایت نہیں کی تھی، مگر پارٹی سربراہ نے ایسا غیر ذمے دارانہ بیان دے کر انھیں ذلیل کرایا جب کہ ایسا ہوا ہی نہیں تھا۔
یہ کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے ' اسی طرح 9مئی کے واقعات میں جو خواتین گرفتار ہوئی ہیں ' ان کے بارے میں بھی پی ٹی آئی کے قائد نے ہی غلط سلط بیانات دیے جو انھیں نہیں دینے چاہئیں تھے۔کسی جرم میں گرفتاری عام سی بات ہوتی ہے۔ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی گرفتار رہی ہیں ' لیکن کسی نے اس قسم کی بیان بازی نہیں کی۔
حال ہی میں سابق وزیر اعظم ایک جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے جہاں انھیں ان کی وہ تمام وڈیوز دکھائی گئیں جن میں انھوں نے وزیر اعظم، وزیر داخلہ، ایک اہم عسکری شخصیت سمیت ان پر خود کو قتل کرانے جیسے بے بنیاد و سنگین الزامات لگائے تھے۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ وڈیوز ان ہی کی ہیں مگر ان میں لگائے جانے والے کسی ایک الزام کا ان کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں کیونکہ انھوں نے دوسروں سے سنی گئی باتوں پر وہ الزامات لگائے تھے جب کہ وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے ہیں اور انھیں بخوبی اندازہ ہے کہ سرکاری شخصیات پر ایسے سنگین اور جھوٹے الزامات لگانا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
اسی پارٹی چیئرمین نے سیاسی مخالفت میں سابق صدر آصف زرداری پر بھی الزام لگایا تھا کہ انھوں نے انھیں قتل کرانے کے لیے کرائے کے قاتلوں کو ٹارگٹ دے دیا ہے۔
ایسا ہی الزام ان سے پہلے شیخ رشید احمد نے لگایا تھا مگر جب انھیں قانونی نوٹس ملا تو وہ مکر گئے اور کہہ دیا کہ میں نے سابق وزیر اعظم کے الزام لگانے پر ایسا کہا تھا۔ پی ٹی آئی سربراہ اقتدار میں آنے سے قبل بھی مخالفین پر سنگین الزام تراشی کرتے رہے ہیں جس پر انھیں مقدمات کا بھی سامنا ہے جہاں عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں اس لیے وہ تاخیر پہ تاخیر کرکے عدالتوں میں فیصلہ نہیں ہونے دے رہے۔
سابق وزیر اعظم کے اسپتال سے متعلق بیان دینے پر انھیں بڑی تکلیف پہنچی تھی اور انھوں نے خواجہ آصف کو نوٹس بھی دیا تھا مگر وہ خود ہی مقدمے کی پیروی نہیں کر رہے اگر وہ سچے ہوتے تو یہ مقدمہ جیت سکتے تھے۔سابق وزیر اعظم نے 2013 کے عام انتخابات میں پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ پر الیکشن میں 35 پنکچر لگانے اور دھاندلی کا الزام لگایا تھا اور بعد میں کہا کہ وہ تو ان کا سیاسی بیان تھا۔
سابق وزیر اعظم پر برطانوی اخبار نے الزامات لگائے تھے جو درست تھے جس پر ان کے مخالفین نے انھیں کہا کہ الزامات کا جواب دیں اور اگر وہ غلط ہیں تو اخبار کو نوٹس دیں مگر انھوں نے خاموشی اختیار کر لی نہ الزامات کا جواب دیا نہ برطانوی اخبار کو نوٹس دیا۔ میاں شہباز شریف پر بھی برطانوی اخبار نے شہزاد اکبر کے حوالے سے جھوٹے الزامات لگائے تھے جس پر میاں شہباز شریف نے برطانوی اخبار کو نوٹس دیا تھا اور خبر غلط ہونے پر برطانوی اخبار نے معافی مانگ لی تھی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں مخالفین پر جھوٹے الزامات لگانا فیشن اور عادت بنی ہوئی ہے جس کا ذمے دار موجودہ عدالتی نظام ہے جہاں الزامات کے غلط یا درست ہونے کا فیصلہ سالوں میں نہیں ہو پاتا، اس لیے متعلقہ فرد الزام لگانے والے کو نوٹس ہتک عزت تو دے دیا جاتا ہے مگر اس کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جاتا ہے ۔
پاکستان میں غیر ذمے دارانہ بیانات دینے اور جھوٹے الزامات لگانے والوں کے لیے کوئی سزا ہی مقرر نہیں ہے اور جھوٹے الزام لگانے والا محفوظ رہتا ہے اور الزام لگا کر مسلسل اپنے مخالف پر چور ڈاکو، چور ڈاکو کے الزامات دہراتا ہے اور اس کے جھوٹے الزامات پر کبھی کسی عدالت نے سوموٹو نہیں لیا۔
اگر ملک میں جھوٹے الزامات پر کوئی سزا مقرر ہوتی اور ہتک عزت کے مقدمات کے جلد فیصلے ہوتے یا الزامات لگانے والوں سے کوئی باز پرس ہی ہوتی تو ملک میں جھوٹی الزام تراشی کو فروغ نہ ملتا۔ لوگوں کی عزت محفوظ رہتی۔
لاہور، کراچی ودیگر شہروں سمیت گرفتار خواتین محفوظ ہیں اور انھیں قانون کے مطابق تمام مراعات حاصل ہیں اور ان سے متعلق گمراہ کن خبریں پھیلائی گئیں جو غلط تھیں۔ایسی خبریں پھیلانے والوں میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کے لوگ ایکٹو ہیں'پی ٹی آئی قائدین بھی اس قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں حالانکہ یہ سب باتیں غلط ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے باوجود اس قسم کی باتیں کرنا 'یہی ظاہر کرتا ہے کہ جھوٹے الزامات لگا کر ایک تو ہمدردی حاصل کی جائے اور دوسرا پاکستان کو بدنام کیا جائے تاکہ حکومت پر دباؤ بڑھے۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کے بزرگ اور ایک نوجوان رہنما کی گرفتاری پر پارٹی قیادت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان کو برہنہ کیا گیا حالانکہ دونوں کا شروع میں ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا۔
بزرگ رہنما کو تو برہنہ کیے جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ ایسی کوئی وجہ بھی نہیں تھی کہ ان کے ساتھ یہ سب کچھ کیا جاتا'وہ ایک عام سیاستدان ہیں اور ان کا قومی سطح کی سیاست میں کوئی بڑا نام بھی نہیں رہا ہے۔بس پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے انھیں بھی بڑا سیاسی رہنما بنا کر پیش کیا حالانکہ وہ مقامی سطح کے سیاستدان بھی نہیں رہے۔ جب کہ دوسرے نوجوان رہنما جو اپنی زبان درازی میں مشہور تھے، اب وہ امریکا میں ہیں ' وہ بھی کسی قسم کا سیاسی پس منظر نہیں رکھتے ' نہ انھوں نے کبھی پاکستان میں الیکشن جیتا یا لڑا ہے۔
اس لیے وہ بھی پاکستان کی سیاست میں کوئی بڑا نام نہیں ہے بلکہ ان کے بارے میں یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ ان کا حلقہ کونسا ہے لیکن پی ٹی آئی کے میڈیا ونگ اور ہمارے کچھ اینکرز حضرات نے انھیں بھی لیڈر بنا کر پیش کیا 'یہ دونوں حضرات گرفتار ضرور ہوئے مگر دونوں نے اپنی زبان سے برہنہ کیے جانے کی کوئی شکایت نہیں کی تھی، مگر پارٹی سربراہ نے ایسا غیر ذمے دارانہ بیان دے کر انھیں ذلیل کرایا جب کہ ایسا ہوا ہی نہیں تھا۔
یہ کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے ' اسی طرح 9مئی کے واقعات میں جو خواتین گرفتار ہوئی ہیں ' ان کے بارے میں بھی پی ٹی آئی کے قائد نے ہی غلط سلط بیانات دیے جو انھیں نہیں دینے چاہئیں تھے۔کسی جرم میں گرفتاری عام سی بات ہوتی ہے۔ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی گرفتار رہی ہیں ' لیکن کسی نے اس قسم کی بیان بازی نہیں کی۔
حال ہی میں سابق وزیر اعظم ایک جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے جہاں انھیں ان کی وہ تمام وڈیوز دکھائی گئیں جن میں انھوں نے وزیر اعظم، وزیر داخلہ، ایک اہم عسکری شخصیت سمیت ان پر خود کو قتل کرانے جیسے بے بنیاد و سنگین الزامات لگائے تھے۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ وڈیوز ان ہی کی ہیں مگر ان میں لگائے جانے والے کسی ایک الزام کا ان کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں کیونکہ انھوں نے دوسروں سے سنی گئی باتوں پر وہ الزامات لگائے تھے جب کہ وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے ہیں اور انھیں بخوبی اندازہ ہے کہ سرکاری شخصیات پر ایسے سنگین اور جھوٹے الزامات لگانا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
اسی پارٹی چیئرمین نے سیاسی مخالفت میں سابق صدر آصف زرداری پر بھی الزام لگایا تھا کہ انھوں نے انھیں قتل کرانے کے لیے کرائے کے قاتلوں کو ٹارگٹ دے دیا ہے۔
ایسا ہی الزام ان سے پہلے شیخ رشید احمد نے لگایا تھا مگر جب انھیں قانونی نوٹس ملا تو وہ مکر گئے اور کہہ دیا کہ میں نے سابق وزیر اعظم کے الزام لگانے پر ایسا کہا تھا۔ پی ٹی آئی سربراہ اقتدار میں آنے سے قبل بھی مخالفین پر سنگین الزام تراشی کرتے رہے ہیں جس پر انھیں مقدمات کا بھی سامنا ہے جہاں عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں اس لیے وہ تاخیر پہ تاخیر کرکے عدالتوں میں فیصلہ نہیں ہونے دے رہے۔
سابق وزیر اعظم کے اسپتال سے متعلق بیان دینے پر انھیں بڑی تکلیف پہنچی تھی اور انھوں نے خواجہ آصف کو نوٹس بھی دیا تھا مگر وہ خود ہی مقدمے کی پیروی نہیں کر رہے اگر وہ سچے ہوتے تو یہ مقدمہ جیت سکتے تھے۔سابق وزیر اعظم نے 2013 کے عام انتخابات میں پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ پر الیکشن میں 35 پنکچر لگانے اور دھاندلی کا الزام لگایا تھا اور بعد میں کہا کہ وہ تو ان کا سیاسی بیان تھا۔
سابق وزیر اعظم پر برطانوی اخبار نے الزامات لگائے تھے جو درست تھے جس پر ان کے مخالفین نے انھیں کہا کہ الزامات کا جواب دیں اور اگر وہ غلط ہیں تو اخبار کو نوٹس دیں مگر انھوں نے خاموشی اختیار کر لی نہ الزامات کا جواب دیا نہ برطانوی اخبار کو نوٹس دیا۔ میاں شہباز شریف پر بھی برطانوی اخبار نے شہزاد اکبر کے حوالے سے جھوٹے الزامات لگائے تھے جس پر میاں شہباز شریف نے برطانوی اخبار کو نوٹس دیا تھا اور خبر غلط ہونے پر برطانوی اخبار نے معافی مانگ لی تھی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں مخالفین پر جھوٹے الزامات لگانا فیشن اور عادت بنی ہوئی ہے جس کا ذمے دار موجودہ عدالتی نظام ہے جہاں الزامات کے غلط یا درست ہونے کا فیصلہ سالوں میں نہیں ہو پاتا، اس لیے متعلقہ فرد الزام لگانے والے کو نوٹس ہتک عزت تو دے دیا جاتا ہے مگر اس کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جاتا ہے ۔
پاکستان میں غیر ذمے دارانہ بیانات دینے اور جھوٹے الزامات لگانے والوں کے لیے کوئی سزا ہی مقرر نہیں ہے اور جھوٹے الزام لگانے والا محفوظ رہتا ہے اور الزام لگا کر مسلسل اپنے مخالف پر چور ڈاکو، چور ڈاکو کے الزامات دہراتا ہے اور اس کے جھوٹے الزامات پر کبھی کسی عدالت نے سوموٹو نہیں لیا۔
اگر ملک میں جھوٹے الزامات پر کوئی سزا مقرر ہوتی اور ہتک عزت کے مقدمات کے جلد فیصلے ہوتے یا الزامات لگانے والوں سے کوئی باز پرس ہی ہوتی تو ملک میں جھوٹی الزام تراشی کو فروغ نہ ملتا۔ لوگوں کی عزت محفوظ رہتی۔