ناسمجھی کا دور عبادت اور دکھاوا

آج سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی عبادتیں بھی محض دکھاوے تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں

ہمیں حج کو بھی بامقصد و بامطلب بنانا چاہیے، نہ کہ اس کی اصل روح بگاڑ کر رکھ دیں۔ (فوٹو: فائل)

لَپّے آااتییی اے دُو وا بن کے تمّنا میری
زندگی شمّہ کی سوراااتو خُدایا میری


سارا بچپن یہی بے مطلب و بے مقصد راگ الاپتے گزر گیا۔ بس اتنا پتا ہوتا تھا کہ اس سے پہلے اسکول نہ پہنچے تو ہماری تشریف لال کردی جائے گی۔ اس کے علاوہ کبھی درست الفاظ سے بھی آشنائی نہ ہوسکی۔ صرف یہی نہیں، قومی ترانہ، نعتیں، اشعار، گانے اور غزلیں، جو بھی یاد تھے، سب بے مطلب تھے۔


آج ایک عمر گزار چکے تو آہستہ آہستہ سب سمجھ میں آنے لگا ہے کہ فلاں بات تو یہ تھی اور اس کا مقصد یہ تھا۔ ہم بھولے، بچپن میں ان باتوں سے بے نیاز بس سنتے چلے آئے۔ اب اگر میں استاد بنوں تو روز سب سے پہلے بچوں کو روزمرہ زندگی کی اصطلاحات سمجھاؤں۔


بچپن میں جمعہ کے دن استاد جی کے بیان سے پہلے ایک گھنٹہ ہمارا ہوا کرتا۔ ہم سب دوست تیار ہوکر سفید کرتوں پاجاموں میں ملبوس سب سے پہلے مسجد پہنچ جایا کرتے اور نعتوں کے ٹوٹے پھوٹے اشعار جو یاد ہوتے، اسپیکر پر بنا کسی ترنم کا تردد کیے پڑھ دیتے، اور پھولے نہ سماتے، جب کہ ہماری آواز کی گونج جب ہماری ماؤں کے کانوں میں پڑتی ان کی مامتا کی مسکراہٹ سے ہمارے گھروں میں میلاد سا چراغاں ہوجاتا۔


ایک بوڑھے بابا جی کسی ساتھ والی بستی سے اکثر مسجد آجاتے اور اسپیکر آن کرکے کچھ اس طرح کے اشعار پڑھتے:
بیڑا محمد والا، لیندا پیا تاریاں
جس نے مدینے جانا، کرلو تیاریاں
حاجیاں نے اُٹھ سویرے،
بہہ کے روزے دے نیڑے
رو رو کے سوہنے اَگّے،
عرضاں گُزاریاں
بیڑا محمد والا، لیندا پیا تاریاں


یہ کلام تو ہماری سمجھ سے بالاتر تھا ہی، ساتھ بابا جی کی کانپتی آواز ہمارے مذاق کےلیے نہایت موزوں تھی۔ ہم بابا جی پر خوب ہنستے اور انہیں کوستے بھی کہ ہمارا وقت ضائع کردیا۔ کیوں کہ ہماری معصومانہ سوچوں میں سے ایک سوچ یہ بھی ہوتی تھی کہ ہماری ماں کے علاوہ بھی کوئی سماعت ہماری منتظر ہوگی اور ہاں شاید وہ بھی سن کر مسکراتی ہو۔


بابا جی گزر گئے، ہم نے بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کی منازل طے کیں۔ وہ مسجد، وہ دوست، وہ سوچیں، وہ خیالی سماعتیں اور وہ ہماری مائیں، ہم سے ان ہی منازل کے متوازی دور ہوتی گئیں۔ فرق یہ پڑا کہ اب دُعا لب پر آنے لگی، قومی ترانہ سمجھ میں آنے لگا، نعتیں رلانے لگیں، گانے اور غزلیں اداس کرنے لگے۔ آگہی ایک دیمک ہے جو جوانیاں کھا جاتی ہے!


یونہی ایک دن کسی گاؤں سے گزرتے، دور ٹریکٹر کی ٹیپ پر لگی کسی نعت خواں کی مترنم آواز ''بیڑا محمد والا'' سماعتوں میں رس گھول رہی تھی۔ ہواؤں کے دوش پر کبھی مدھم اور کبھی تیز ہوتی آواز کے سحر نے وہیں منجمد کرکے رکھ دیا۔ ایک ایک لفظ دل کی گہرائیوں میں اترتا محسوس ہورہا تھا۔ آنکھیں خودبخود دھل رہی تھیں۔ پتا نہیں وہ بچپن دیکھنا چاہتی تھیں یا اس حاضری کا سوچ کر نم تھیں کہ ''سویرے اٹھ کر، روزے دے نیڑے بیٹھ کر جو عرضیں گزارنی ہیں'' وہ کیسے گزارنی ہیں؟ اس ہستی کی قربت میں آنکھیں اٹھیں گی کیسے؟ کیا عالم ہوگا جب ان کی نظر ہم پر پڑی۔ جو ہستی ہمارے لیے روتی رہی، ہم نے ان کی احادیث، ان کے پروردگار کی آیات کو کتنا مانا، کتنا پس پشت ڈالا؟ بچپن والے بابا جی کی آواز سے زیادہ میرے جسم میں لرزش تھی۔ کوئی اب کا عثمان اُس وقت میرے پاس ہوتا تو مجھ پر خوب ہنستا اور شاید یہی میری بخشش کا سبب بن جاتا۔



حج ایسا مقدس اور پاکیزہ فریضہ ہے جو میرے رب نے فرض ہی اُن پر کیا ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں صوبہ سرحد اور پنجاب کے دور دراز کے علاقوں سے لوگ پہلے کسی قریبی شہر جاتے، وہاں سے دو دن ٹرین پر سفر کرکے کراچی پہنچتے، وہاں سے بحری جہاز پر سات سے دس دنوں میں سعودیہ پہنچتے اور حج کرتے۔ تب حج کی یہ سہولیات بھی نہیں تھیں۔ سمندر کا سفر، پھر حج کی مشقت، اکثر حجاج کرام کا تو دو مہنے بعد پتہ چلتا کہ وہیں انتقال ہوگیا تھا۔ یہ تھا اُن بابا جی کا محمدؐ والا بیڑا۔ لوگ اس بیڑے تک کا نام احترام سے نعتوں میں لیتے تھے۔ اور اس پر سوار ہونے سے پہلے گھر والوں اور عزیز رشتے داروں کو آخری بار مل جاتے کہ شاید واپسی نہ ہو، ہوسکتا ہے روزے والا پکا اپنا مہمان ہی بنا لے۔ جو وہاں کا مہمان بنتا وہ خوش قسمت ہوتا اور جو واپس آجاتا لوگ اس سے پنچایتوں میں فیصلے کرواتے۔ اِن دو مہینوں پر مشتمل سفر کے دوران گھر والوں سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ خالص اللہ، نبی اور بندے کا وقت ہوتا۔


وہاں سے آتے امیر لوگ صرف ایک کیمرہ نما چیز خرید لاتے جس میں مکہ اور مدینہ شریف کی تصاویر لینز سے بڑی ہوکر دکھتیں، جسے لڑکے باوضو اور لڑکیاں اپنے سروں پر چُنیاں سنبھال کر دیکھتیں۔ تب ایسا لگتا تھا کہ ہم بھی روزے کے نیڑے ہوکر بیٹھ گئے ہیں۔


ہمیں حج کو بھی بامقصد و بامطلب بنانا چاہیے، نہ کہ اس کی اصل روح بگاڑ کر رکھ دیں۔ آج کل کے دور کا حج اور روزہ رسولؐ کی حاضری بھی ایک کمرشل بنادی گئی ہے۔ جو جاتا ہے وہ پہلے اپنی ہر ایک موقع کی تصویر بنانا فرض سمجھتا ہے۔ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ پوری دنیا کو فیس بک پر اپنے ساتھ لائیو حج کرواتے ہیں۔ اور دھیان صرف موبائل اور کیمرہ پر ہوتا ہے۔


ہمارے گاؤں سے میرے ایک انکل حج پر گئے ہیں، بہت خوشی ہوئی۔ اُن سے دعاؤں کی درخواست بھی کی۔ اور اب انہیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ جہاں بھی پہنچتے ہیں بس موبائل میں ویڈیو ہی ریکارڈ کررہے ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ دکھ تب ہوا جب وہ روزہ رسولؐ پر حاضر ہوئے، سنہری جالیوں کے پاس سے گزرتے پیٹھ کرکے ویڈیو ہی بناتے رہے۔


اللہ کے بندے یہ حاضری ہے؟


حاضری مطلب ہمارے نبیؐ کے سامنے حاضر ہونا۔ وہ ظاہری حیات میں ہوتے تو آپ کو ایسا کرنے دیتے؟ اور آج کل کس نے مکہ شریف اور مدینہ شریف کو نہیں دیکھا؟ آپ گئے ہو تو اپنا کام کرو، یہ تصاویر تو ہم نے ایچ ڈی ریزلٹ میں بھی دیکھ رکھی ہیں۔ اللہ مجھے معاف کرے، میں تو اسے احترام بھی نہیں سمجھتا۔ چلیے آپ ایک آدھ تصویر ہر جگہ بنائیں تاکہ آپ کو یاد رہے، مگر ایسی حرکتیں تو نہ کیجیے۔ اللہ کی قسم کئی بار میں حرم شریف یا مسجد نبوی کی ویڈیو نہیں دیکھ پاتا کہ کہاں میں اور کہاں یہ جگہیں۔ وہاں جالی کے سامنے کھڑے ہوکر یہ سب سوجھتا ہے؟


بچپن میں ایک اور نعت سنتے تھے


یہ راہِ حق ہے، سنبھل کے چلنا
یہاں ہے منزل قدم قدم پر
پہنچنا در پر تو کہنا آقا
سلام لیجیے، غلام آیا


ہمارا نہ سہی، اپنا تو صحیح سے سلام کرلو۔ آپ خوش قسمت ہو، پیسہ ہے، توفیق ہے، چلے گئے۔ بہت سے بس حسرت لیے رخصت ہوجاتے ہیں۔ یہ دن صرف اپنے لیے گزارو، دنیا کےلیے نہیں۔


میں سوچ رہا تھا ابھی دور آئے گا لوگ نماز پڑھتے بھی ویڈیو ریکارڈ کر رہے ہوں گے تو آج اداکارہ میرا کی مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی ویڈیو بھی دیکھ لی، جو محترمہ ساتھ ساتھ خود ہی ریکارڈ کررہی ہیں۔ اللہ کی پناہ! اب پنچایت تو کیا، کسی کاروبار میں بھی ایسے حاجی صاحب دکھائی دیں تو لوگ وہاں سے خریداری نہیں کرتے۔


تمام لوگ ایسے نہیں۔ اللہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ بوجھ عطا فرمائے۔ صحیح معنوں میں اپنے اور اپنے نبیؐ کے گھر کی عزت و تکریم کی توفیق دے۔ بارہا مؤدب حاضری نصیب فرمائے اور تمام مسلمانوں کا حج اپنی بارگاہ میں مقبول فرماتے ہوئے اُن کے صدقے ہمارا بیڑا بھی پار لگائے۔ (آمین)


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story