محترمہ بینظیر بھٹو…عظیم سیاسی لیڈر

محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں لاتعداد مستحقین کی فراخدلانہ مدد کی

محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں لاتعداد مستحقین کی فراخدلانہ مدد کی۔ فوٹو: فائل

21جون محترمہ بے نظیربھٹوشہیدکا یوم ولادت ہے،وہ 21جون 1953میں پیدا ہوئیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو پاکستان اورعالم اسلام کی پہلی مسلم خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہے' وہ جب وزیراعظم بنیں تو اس وقت ان کی عمر 35سال تھی۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جورہتی دنیا تک ان کے نام کا حصہ رہے گا۔

1988میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ یوں وہ پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی پہلی مسلم خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ قوتیں اور ضیاء الحق کی باقیات ریاست کی پالیسیاں چلاتی تھی'ایسے حالات میںمحترمہ بینظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کی قیادت کی 'جلسے جلوسوں سے خطاب کیااور انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔

اس وقت ضیاء باقیات کا ایک کردار غلام اسحاق ملک کا صدر بن گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے نامساعد حالات کے باوجود امور مملکت کو چلایا اور غیرجمہوری قوتوں کا مقابلہ کیا لیکن ان کی حکومت کو 18ماہ کے قلیل عرصہ کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58ٹو بی کا سہارا لے کر برطرف کردیا۔

بے نظیربھٹوشہید آئین کی بالادستی پر پختہ یقین رکھتی تھیں۔وہ اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ سیاسی و انتخابی میدان میں کرتی رہیںاور کبھی غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ نہیں دیا۔

1990، 1993، 1997 اور2002کے انتخابات اس کی واضح مثالیں ہیں ، انھوں نے جمہوری عمل کا ساتھ دیا' الیکشن میں ہار بھی ہوئی تو تمام تر تحفظات کے باوجود نتائج قبول کیے اور پارلیمنٹ میں بیٹھیں۔ان کاجمہوری عمل پر اس قدر پختہ یقین تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب 2007کے عام انتخابات ہونے والے تھے۔

تب ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں آمر کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے حق میں نہ تھیں، محترمہ بے نظیربھٹو نے سیاسی قیادت کوالیکشن میں حصہ لینے کے لیے قائل کیا۔ انھوں نے جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ دیا۔ اس سے انھوں نے پیغام دیا کہ جمہوری عمل کے نتیجے میں کامیاب ہونا ہی دراصل مخالفین سے انتقام ہے یعنی عوام جن قوتوں کو مسترد کر دیں 'یہی جمہوریت کا انتقام ہے۔

بینظیر بھٹو نے اپنے عہد اقتدار میں اپنے والد ذوالفقارعلی بھٹو شہید کے ایٹمی پروگرام کو مزید وسعت دی اور پاکستان میں میزائل پروگرام کی بنیاد رکھی۔ بے نظیربھٹو کی انتھک محنت کے اس ثمر سے کیا کوئی انکار کرسکتا ہے کہ وہ میثاق جمہوریت کی وجہ بنیں اور وہ اس کی تخلیق کارتھیں۔

یہ میثاق جمہوریت ہی تھاجس سے دوبڑی سیاسی جماعتوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی طورپربقائے باہمی کااصول طے پایا۔اسی میثاق جمہوریت کا نتیجہ ہے کہ آج اتحادی حکومت ملک کا نظم و نسق کامیابی سے چلا رہی ہے اور اس حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

محترمہ بے نظیربھٹو 21 جون، 1953 میں سندھ کے معروف بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں۔بھٹو خاندان سندھ کا معروف سیاسی گھرانہ ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول ا ور کونونٹ آف جیسز اینڈ میری کراچی میں حاصل کی۔ 15 سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے 1973 میں پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کر لیا۔

اس کے بعد انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ جون 1977 میں وہ اس ارادے سے وطن واپس آئیں کہ پاکستان کے خارجہ امور میں خدمات سر انجام دیں گی۔


لیکن ان کے پاکستان پہنچنے کے دو ہفتے بعد5جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اورانھیں گرفتار کر لیا گیااور ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا، بے نظیر بھٹو کو بھی گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔

4اپریل 1979 کومحترمہ بینظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ محترمہ کے لیے ناقابل بیان صدمہ تھا۔لیکن اس کے باوجودان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو اور انھوں نے ظلم و جبر کا بڑی بہادری کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مارشل لاکے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے 1981 میں ایم آر ڈی کے نام سے اتحاد بنایا گیااورآمریت کے خلاف جدوجہد شروع کی گئی۔اس دوران انھیںپھر گرفتار کر لیا گیا۔

اگست 1983 میں محترمہ بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی، جس کے بعد انھوں نے دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنا دیا۔ ملک سے مارشل لا اٹھائے جانے کے بعد جب 10 اپریل 1986 کو بے نظیر وطن واپس آئیں تو لاہور ائیرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔

یوں انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی لیڈر ہیں جب کہ پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو 1987 میں آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ اس کے باوجودانھوں نے بڑی ذہانت اور بردباری سے پیپلز پارٹی کو چلایا اور سیاسی جدوجہد کو جاری رکھا۔آصف علی زرداری بھی ان کے شانہ بشانہ جمہوری جدوجہد میں شریک رہے۔ 2اکتوبر، 1990 میں عام انتخابات کے نتیجے میںاسلامی جمہوری اتحاد کو حکومت ملی اور میاں نواز شریف وزیراعظم بنے جب کہ بے نظیر قائدِ حزبِ اختلاف بن گئیں۔نواز شریف کی حکومت کو بھی غلام اسحاق خان نے 1993 میں بد عنوانی کے الزامات عائد کر کے برطرف کر دیا۔

جس کے بعد اکتوبر، 1993 میں عام انتخابات ہوئے۔ پیپلز پارٹی اور اس کے حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور بے نظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیںلیکن پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری نے 1996 میںمحترمہ بے نظیر کی حکومت برطرف کر دیا ۔

اس کے بعدمیاں نواز شریف ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم بنے لیکن انھیں بھی 1999میں جنرل پرویز مشرف نے عہدے سے ہٹا دیا اور ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔یوں میاں نواز شریف کو بھی دو مرتبہ بر طرفی اور مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا،اس کے بعدمحترمہ بینظیر بھٹو نے محسوس کیا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کے مفاد میں ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔یوں 14 مئی 2006 میں لندن میں نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان میثاقِ جمہوریت پر دستخط ہوئے 'دونوں نے جمہوریت کو بحال کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔

اسی میثاق جمہوریت کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا راستہ ہموار ہوا ۔ انتخابی مہم زوروشور سے جاری تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو عوامی جلسوں سے خطاب کر رہی تھیں۔ جس طرح عوام ان کے جلسوں میں امڈ آئی تھی' ملک کی غیر جمہوری قوتوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی جیت کو کسی صورت روکا نہیں جا سکتا۔

پاکستان دشمن دہشت گرد قوتوں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت 27 دسمبر 2007 کو جب محترمہ بے نظیر راولپنڈی لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد آرہی تھیں۔

لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پردہشت گردوں کی فائرنگ اور خود کش حملے کے نتیجے میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کر دی گئیں۔محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چل کر جان دیدی مگرپاکستان اور جمہوریت کو بچا لیا۔ پیپلزپارٹی محترمہ بینظیر بھٹو کے خواب کی تکمیل کے لیے آج بھی مسلسل جد جہد میں مصروف عمل ہے۔عالمی میڈیا نے محترمہ بینظیر بھٹو کو آئیرن لیڈی کا خطاب کیا۔

محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں لاتعداد مستحقین کی فراخدلانہ مدد کی۔اپنی شفیق فطرت کے مطابق وہ اپنے کارکنوں کے ساتھ ماں جیسا رویہ اختیار کرتی تھی اور پارٹی کے کارکن بھی انھیں ماں کا درجہ دیتے تھے۔محترمہ بینظیر بھٹو نے ان لوگوں کی مالی مدد کی منظوری دی اور ملازمتیں دی جن کا کوئی سفارشی نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکن ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے عوام محترمہ بینظیر بھٹو کا نام بڑی عزت و احترام کے ساتھ لیتے ہیں اور انھیں عالم اسلام ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کی بڑی لیڈر اور مدبر کا درجہ دیتے ہیں۔کسی لیڈر کی یہی سیاسی معراج ہوتی ہے کہ وہ اپنے اوصاف کی بدولت مر کر بھی عوام کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو بھی پاکستان کے عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔
Load Next Story