مرجینا کا مقدمہ

اصل کہانی تو سب کو معلوم ہے یعنی وہی ہے جو زمانوں سے تقریباً ہر ملک و قوم میں چل رہی ہے

barq@email.com

''مرجینا''کہنے کو تو ایک کنیزہے لیکن الف لیلیٰ کی مشہورداستان ''علی بابا اورچالیس چور'' کی ہیروئن ہے۔ اس کہانی پر دنیا میں بے شمار فلمیں بنی ہیں جن میں سے ایک پڑوسی ملک میں بھی بنی ہے اوراس کی ہیروئن یا مرجینا ہمامالنی تھی، اسے لیے ''مرجینا'' بے شمار لوگوں کی ''ڈریم گرل'' بھی بنی تھی۔

اصل کہانی تو سب کو معلوم ہے یعنی وہی ہے جو زمانوں سے تقریباً ہر ملک و قوم میں چل رہی ہے۔ چالیس چور یا پندرہ فی صد اشراف جو ملکوں کو لوٹتے ہیں اور لوٹ کا مال ایسے ''غاروں''میں جمع کرتے ہیں جو صرف ان کے منہ سے نکلنے والی آواز ''سم سم سے کھلتے ہیں'' لیکن یہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ یہ کہانی ادھوری ہے کیوں کہ ابھی علی بابا پیدا نہیں ہوا ہے اورکہانی نویس نے اپنے تخیل سے تخلیق کرکے کہانی میں ڈالا ہواہے۔

چالیس چوروں کے ہاتھوں لٹے ہوئے عوام کو ابھی ''علی بابا'' کاانتظار ہے جن میں پاکستان کے عوام بھی شامل اور منتظرہیں۔یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ''علی بابا'' کا ظہور کب ہوگا اوروہ کب چوروں پر ''مور''بنے گا اورمرجینا کب ان چالیس چوروں پر کھولتا ہوا تیل ڈال کرانھیں پکوڑا کرے گی۔لیکن اصل کہانی کی کچھ ذیلی کہانیوں سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ''مرجینا'' کون تھی، کون ہے اورکون ہوگی۔

ان ذیلی کہانیوں یا واقعات میں سے ایک وہ بھی ہے جب مرجینا کی ملکیت پر علی بابا کا ایک عیار سوداگر سے جھگڑا ہوگیا تھا اورمقدمہ حاکم کی عدالت میں چل گیا ،اس سوداگر کادعویٰ تھا کہ مرجینا میری کنیزہے جسے علی بابا نے اغواکرکے اپنی ملکیت بنایاہے، یہ مقدمہ تقریباً ایک حالیہ مقدمے جیسا تھا۔

حاکم نے دونوں فریقوںکے بیانات سن کر کہا کہ اس سلسلے میں اگر کسی فریق کے پاس کوئی ''ثبوت''ہو تو پیش کیاجائے،اس پر مدعی سوداگر کے ''بلیک اینڈوائٹ'' نے ایک ڈبیہ حاکم کودے دی کہ ہمارے پاس یہ ''ثبوت''ہے، حاکم نے ڈبیہ کھولی تو اس میں ایک اشرفی تھی۔

اس پر حاکم نے کہا ، یہ ثبوت قابل قبول ہے لیکن کیا دوسرے فریق کے پاس بھی کوئی ثبوت ہے ،دوسرے فریق کے لائراینڈ لائر نے بھی ایک ڈبیہ حاکم کے دست مبارک میں دے دی،حاکم نے ڈبیہ میں دو اشرفیاں دیکھ کرکہا، ہاں یہ ثبوت پہلے والے ثبوت سے زیادہ مضبوط ہے۔

اس پر دوسرے فریق کے وکیل نے ایک اور ڈبیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس یہ ثبوت بھی موجودہے ،کھولنے پر حاکم نے کہا، واقعی یہ ثبوت مخالف فریق کے ثبوت سے زیادہ معتبر اورمضبوط ہے کیوں کہ اس میں تین اشرفیاں تھیں لیکن مخالف فریق کے بلیک اینڈ وائٹ نے بھی ایک اورثبوت پیش کردیا جس میں چار اشرفیاں تھیں، اس طرح دونوں فریقوں کے وکیل ایک دوسرے سے بڑھ کر ثبوت پیش کرتے رہے اور حاکم صاحب ان کو شرف قبولیت بخشتا رہا۔ آخر ایک مرحلے پر سوداگر کے وکیل کے پاس ''ثبوت'' ختم ہوگئے اور مخالف فریق کے ثبوت کو آخری مضبوط ثبوت مان لیا گیا جو بیس اشرفیوں پر مشتمل تھا اورعلی بابا نے مر جینا جیت لی۔

اب آپ یہ سوچیں گے یا پوچھیں گے کہ جب ''مال مقدمہ''یعنی مرجینا موجود تھی تو اس سے کیوں نہ پوچھا گیا یا وہ خود کیوں کچھ نہیں بولی؟ تو جواب یہ ہے کہ وہ ''کنیز'' تھی اور کنیزوں کو بولنے کی اجازت نہیں ہوتی یا اگر وہ بولے بھی تو کوئی سنتا نہیں۔ جیسے ہمارے ملک کے عوام کو کوئی پوچھتا نہیں اورفریق دعویٰ کرتاہے کہ مرجینا میری ہے۔

ویسے مرجینا کا نام بھی مصنف نے کمال کا رکھا ہوا ہے۔ مرجینا یعنی مرنا اورجینا۔ مرجینا عرف حکومت۔ جو خود کو کنیز یعنی خدمت گار اورخادم کہتی ہے اورلوگ اس کے لیے مرتے بھی ہیں اورجیتے بھی۔


محبت میں نہیں فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کرجیتے ہیں جس کافر پر دم نکلے

مرجینا کے مقدمے سے ایک اورمقدمہ یادآیا، ایک ملاجی کو دو فریقوں نے اپنا ثالث بنایا، ایک فریق نے ملاجی کو پگڑی کی رشوت دی کہ فیصلہ اس کے حق میں کیاجائے لیکن دوسرے فریق نے ''گائے'' پیش کی۔

ملاجی نے فیصلہ گائے دینے والے کے حق میں کیا تو پگڑی والے نے شکایت کی کہ میں نے تو آپ کو پگڑی بھی دی تھی لیکن آپ نے فیصلہ دوسرے کے حق میں کیا تو ملاجی بولے ، میں بھی کیاکرتا گائے نے آکر پگڑی کو نگل لیا۔

خیرتو اس وقت پھر ''مرجینا''کے حق ملکیت کامقدمہ درپیش ہے اورفریقین ثبوت پیش کر رہے ہیں ۔

دل و مژگاں کاجو مقدمہ تھا

آج پھر اس کی روبہ کاری ہے

مرجینا بھی موجود ہے ،چالیس چور بھی ہیں، غار بھی ہے ،کاش ایسے میں اچانک علی بابا پرگھٹ ہوجائے اورمرجینا اورغار دونوں پر قبضہ کرلے۔

اتنی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فراز

رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ
Load Next Story