زندگی دار بھی ہے زندگی دلدار بھی ہے حصہ اول

غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوموں نے کتنی قربانیوں کے بعد اپنے ملکوں کو استعمار کی غلامی سے آزاد کیا تھا

zahedahina@gmail.com

وہ صدی جو 23 سال پہلے ہمیشہ کے لیے جاچکی ہے، بلاشبہ ایک مثالی صدی تھی ۔ بے مثال ان معنوں میں کہ اس صدی میں جتنی زیادہ عوامی تحریکیں چلیں ان کی مثال نہ ماضی میں ملتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں مل سکے گی۔

ہماری وہ نسل جس کی عمر اس وقت چالیس سال یا اس سے کچھ زیادہ ہے اسے ان تحریکوں کے بارے میں بہت کم علم ہے۔ انھیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس میں انقلابات اور آزادی کی شاندار جدوجہد کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا جس میں لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیوں کے نذرانے پیش کیے۔

ان گنت لوگ گیت گاتے اور نعرے لگاتے ہوئے تختۂ دار پر جھول گئے۔ کتنے دکھ کا مقام ہے کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوموں نے کتنی قربانیوں کے بعد اپنے ملکوں کو استعمار کی غلامی سے آزاد کیا تھا۔ بہت کم لوگ ان عظیم رہنماؤں کے ناموں سے بھی واقف ہیں جنھوں نے آزادی کی تحریکوں کی قیادت کی اور اپنی زندگی کی کئی دہائیاں جیلوں کی کال کوٹھریوں میں گزار دیں۔

دور کیوں جائیں اپنے ملک کی مثال لے لیں۔ گنتی کے لوگ ہوں گے جو یہ جانتے ہوں گے کہ باچا خان، ولی خان، عبدالصمد اچکزئی، غوث بخش بزنجو سمیت نہ جانے کتنے لوگوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ زنداں میں گزارا تھا۔

ہماری نوجوان نسل اگر تاریخ کے ان پہلوؤں سے نا آشنا رہے گی تو وہ زندگی میں زیادہ غیر معمولی تخلیقی، علمی، ادبی، سماجی اور سیاسی کام نہیں کرسکے گی کیونکہ ماضی سے کٹ کر مستقبل میں آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوتا ۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو یاد دلایا جاتا رہے کہ ماضی نے کتنے عظیم کردار پیدا کیے۔

جن کے بار ے میں ہم نہ جاننے کے برابر جانتے ہیں۔ اس حوالے سے آج میں ایک ایسی ہی شخصیت دادا امیر حیدر کی بات کرنا چاہوں گی۔

ہمارے یہاں جتنے بھی سچے اور کھرے سیاست دان تھے انھیں نااہل، نالائق ، غدار اور غیر محب وطن قرار دے کر یا جیلوں میں بند رکھا گیا یا ان کو زندگی کے بڑے دھارے سے اس طرح کاٹ دیا گیا کہ وہ کبھی ابھر کر سامنے نہ آسکے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک امیر حیدر خان تھے جو رہنے والے پوٹھوہار کے تھے لیکن ان کی زندگی کا ایک طویل عرصہ بنگال اور بنگالی سیاست دانوں کے درمیان گزرا، وہاں کسی بھی اہم اور محترم شخص کو ''دادا '' یا ''دا '' کہا جاتا ہے۔

یوں سمجھ لیں کہ جیسے ہم '' بھائی صاحب'' یا '' بڑے بھائی'' کہتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں '' دادا '' اپنے بزرگ ترین رشتے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ احترام کی ان ہی روایات کے زیرِ اثر امیر حیدر خان '' دادا'' کہے گئے اور پھر یہ الفاظ ان کے نام کا اس طور حصہ بنا کہ اگر کسی کے سامنے صرف '' امیر حیدر خان'' کہا جائے تو وہ نہیں سمجھے گا کہ یہ کس شخص کا ذکر ہے۔

دادا امیر حیدر اپنے زمانے کے ایک اہم سیاسی کارکن اور مزدور رہنما تھے، وہ برطانوی راج کے عروج کے دن تھے ، پہلی جنگ عظیم ابھی برپا نہیں ہوئی تھی اور برٹش ایمپائر اتنی وسیع و عریض تھی کہ سورج اس پرکبھی غروب نہیںہوتا تھا۔


اسی زمانے میں دادا پوٹھوہار کے ایک دور افتادہ گاؤں کے غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو چند برس کے بچے پر زندگی کچھ زیادہ ہی نامہربان ہوگئی۔ اس سر پھرے بچے نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا، پانچ چھ برس کے بچے کا یہ فیصلہ اس کی زندگی بدل گیا۔

وہ گھر کے مردوں کی سختی سے تنگ آکر بھاگ نکلا تھا، ڈھونڈ کر کئی مرتبہ گھر لایا گیا لیکن آخر اس نے کلکتے کا رخ کیا اور پھر وہاں سے بمبئی، جہاں سے وہ دنیا کی سیر کو نکلا۔ وہ بچہ جو 14 بر س کی عمر میں دنیا دیکھنے کے لیے نکلا تھا، وہ ہمیں کوئلے کی دھول میں اٹا ہوا بحری جہازوں کے انجن روم میں کوئلے جھونکتا دکھائی دیتا ہے اور یہاں سے وہ زندگی ہمارے سامنے کھلتی چلی جاتی ہے جس کی بوقلمونی، جس کا تنوع ناقابلِ یقین ہے۔

ابتدا میں یہ ایک خود سر اور ضدی بچے کی زندگی تھی لیکن پھر وہ اس سیاست سے وابستہ ہوا جو اس زمانے میں ساری دنیا کے نوجوانوں کا دل موہ رہی تھی۔ دادا اس جیل خانے کی صعوبتیں، کبھی وہ ناسک جیل اور کبھی لاہورکے شاہی قلعے میں ہیں، کبھی ہانگ کانگ میں گرفتار ہورہے ہیں۔ کبھی نیویارک میں غدر پارٹی کی بنیاد رکھنے والے سردار جی سے طویل نظم ''غدر کی گونج'' سن رہے ہیں۔

کبھی '' فرینڈز آف فریڈم آف انڈیا '' کے دفتر میں کام کر رہے ہیں۔ یہ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کی وہ دنیا ہے جس میں خواب دیکھنے والوں اور دنیا بدلنے کے لیے اپنی زندگیوں کو جدوجہد کی آگ میں جھونک دینے والے سیکڑوں، ہزاروں افراد نظر آتے ہیں۔

ان سب کے درمیان امیر حیدر خان ہیں، سمندرکی لہروں سے کھیلتے ہوئے، ہوائی جہاز اڑاتے ہوئے۔ کار فیکٹریوں میں کام کرتے ہوئے۔

مزدور تحریک کا حصہ بنتے ہوئے، نعرہ لگاتے ہوئے کہ '' دنیا کے مزدورو ایک ہوجاؤ' تمہارے پاس اپنی زنجیریں کھونے کے سوا کچھ بھی نہیں۔'' دادا کی کیسی رنگا رنگ شخصیت ہے ۔

یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ایک ایسے فرد تھے جس میں ایک ہزار انسان رہتے تھے اور سب کا مقصد دنیا کو بدل دینا، نو آبادیاتی نظام سے آزادی اور صرف ہندوستان نہیں تمام دنیا کے انسانوں کے لیے مساوی حقوق، مساوی مواقع کا حصول تھا، ایک لاطبقاتی سماج کی تعمیر تھا۔

دادا ہمیں سوویت یونین کی University of the Peoples of the Eastمیں پڑھتے ہوئے اور ماسکو کے ریڈ اسکوائرکی مے ڈے پریڈ میں فاتحانہ قدم اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہ بالشویک پارٹی کے رکن ہیں۔ وہ امریکی شہریت اختیارکرتے ہیں پھر کبھی وہ چین میں ہیں توکبھی ان کا تعلق '' میرٹھ سازش کیس'' سے بنتا ہے۔

کبھی جلیانوالہ باغ کے شہیدوں کی یاد منا رہے ہیں، کبھی بھگت سنگھ اور ساتھیوں کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ جیل بھیجے جاتے ہیں لیکن وہاں سے رہا ہوتے ہی ہر اس کام میں جی جان سے لگ جاتے ہیں جس کے بعد دوسری جیل کے دروازے ان پر کھل جاتے ہیں۔

انھوں نے مزدور رہنما کے طور پر ایک بھر پور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری، اور ہر مرحلے پر اپنی یاد داشتیں لکھتے رہے۔ ان تحریروں کا ابتدائی حصہ محفوظ رہا لیکن آخری حصہ ضایع ہوگیا۔ ان کی ان یاد داشتوں اور بعد کی زندگی کی یادوں کو مرتب کرنے کا بیڑا کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر حسن نواز گردیزی نے اٹھایا، اس کام میں دادا جان سے ان کی خط وکتابت، انٹرویو اور ملاقاتوں نے ان کی مدد کی۔ (جاری ہے)
Load Next Story