روس کا تیل نئی توقعات
دنیا کے ہر ملک سے تجارتی روابط قائم ہونے چاہئیں اور ان تمام پالیسیوں کا فائدہ عام آدمی کو ہونا چاہیے
روس کا تیل بردار جہاز بیپر بوائے سن آخرکار کراچی پہنچ گیا۔ یوں ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ روس کا 45 ہزار میٹرک ٹن تیل کا جہاز آیا اور یوں کراچی کی ریفائنری میں تیل کی منتقلی کا عمل شروع ہوگیا۔
روس کا تیل 15ڈالر فی بیرل سستا ہے۔ پٹرولیم کے وزیر مملکت ڈاکٹر مصدق ملک نے وضاحت کی ہے کہ روس کا تیل خسارے کا سودا نہیں ہے مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک بڑی لابی روسی تیل کی مخالفت کر رہی ہے۔
تیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھنے سے اور آئی ایم ایف کی پٹرول اور ڈیزل وغیرہ میں سبسڈی نہ دینے کی شرط پر عملدرآمد سے پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا۔
روس اور یوکرین کی جنگ کی بناء پر امریکا اور یورپی اتحادی ممالک نے روس پر تجارتی پابندیاں عائد کی تھیں مگر جنگ کی بناء پر برطانیہ اور یورپی ممالک میں تیل کی قلت پیدا ہوگئی۔
برطانیہ کے شہریوں کو گزشتہ سردیوں میں ایندھن کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے روس سے تیل کی درآمد پر پابندی کے معاملہ کو پسِ پشت ڈال دیا تھا۔
سابق وزیر اعظم اس دن روس پہنچے جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا، یوں ان کا دورہ بہت زیادہ مفید نہ رہا مگر پی ٹی آئی کے سابق وزیر حماد اظہر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ روس سے سستے تیل کی فراہمی کے لیے بات چیت شروع کی گئی ہے۔
موجودہ وزیر مملکت ڈاکٹر مصدق ملک کا دعویٰ ہے کہ حماد اظہر کے دعویٰ کی تصدیق کے لیے وزارت میں کوئی دستاویز نہیں مل سکی۔ سابقہ حکومت نے محض روس سے تیل کی خریدار کے لیے بیان بازی کو کافی جانا تھا۔ روس سے بھارت سب سے زیادہ تیل درآمد کرتا ہے۔
ایک ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق روس بھارت کو 15 سے 20 ڈالر فی بیرل رعایت دیتا ہے۔ ترکی، بلغاریہ، چین اور بھارت روس کے تیل کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ روس کیونکہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا رکن نہیں ہے اس لیے روس پر اوپیک کی قیمتوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔
پی ڈی ایم حکومت کے 16 ماہ کے اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وفاقی کابینہ میں روس سے تیل کی درآمد پر اختلاف پائے جاتے تھے، جب چند ماہ قبل وزیر مملکت ڈاکٹر مصدق ملک نے یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان روس سے تیل کی خریداری کا معاہدہ کرنے جا رہا ہے، اس وقت وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری واشنگٹن میں تھے۔
روس اور سوشلسٹ ممالک سے پاکستان کے تعلقات کی بھی غضب کہانی ہے۔ ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے 11 اگست 1948کو آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں نئی ریاست کے خد و خال پر روشنی ڈالی تھی مگر بیرسٹر جناح نے اس تقریر میں امریکا کا شکریہ ادا کیا تھا۔ بیرسٹر محمد علی جناح نے گورنر جنرل کے عہدہ کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے قریبی ساتھی مرزا ابو الحسن اصفہانی کو امریکا میں سفیر مقررکیا تھا اور اصفہانی صاحب کے ذریعے امریکا سے 12 ارب ڈالر کی امداد کی درخواست کی تھی۔
اس وقت کی امریکی حکومت نے اس درخواست پر مثبت جواب نہیں دیا تھا۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پہلا دورہ امریکا کا کیا تھا اور روس کے دعوت نامہ کو نظرانداز کر دیا تھا۔
پاکستان، روس کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا۔ پاکستان نے روس کے خلاف دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اختیارکی۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے پشاور کے قریب بڈابیر کے ہوائی اڈے کو امریکا کے حوالہ کیا۔ امریکا کے جاسوس طیارے اس ہوائی اڈہ سے پرواز کر کے سوویت یونین کی وسطی ایشیائی ریاستوں کی جاسوسی کے لیے پروازیں کرتے تھے۔
جب روس نے ایک امریکی طیارہ مارگرایا تو اس کے پائلٹ نے پوچھ گچھ کے دوران اقرار کیا کہ امریکی فوج پاکستان کے ہوائی اڈے استعمال کر رہی ہے۔ اس وقت کے سوویت کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل خروشیف نے نقشہ میں پشاور پر ریڈ لائن لگا دی تھی۔ ایوب خان نے بھی جواب میں ایسی دھمکی دی۔
جنرل ایوب خان کی پہلی کابینہ میں نوجوان ذوالفقارعلی بھٹوکو وزیر بنایا گیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے سوشلسٹ ممالک سے تجارت اور ملک میں تیل کی تلاش کے منصوبوں میں ان ممالک کی شرکت کے لیے راہ ہموارکی تھی۔ سوویت یونین نے 1950میں پاکستان میں آئل فیلڈکی تعمیر کا معاہدہ کیا تھا پھر جب ذوالفقار علی بھٹو وزیرِ صنعت بنے تو ان کی قیادت میں 4 جنوری 1961 کو ایک اقتصادی وفد نے ماسکوکا دورہ کیا۔
اس وفدکی سوویت یونین کے وزیر اعظم خروشیف سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وفد کے دورہ کے پانچ ماہ بعد سوویت یونین نے پاکستان کو اقتصادی امداد کی پیشکش کی تھی۔ 3 جولائی 1961 کو سوویت یونین اور پاکستان کے درمیان تیل کی تلاش کا معاہدہ ہوا جس کے بعد ایوب خان حکومت نے اگست 1961 میں آئل اینڈ گیس کارپوریشن قائم کی۔
کمیونسٹ پارٹی کے بعض سینئر اراکین کا کہنا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے رکن حسن ناصر نے اس بارے میں اہم کردار دا کیا تھا، یوں وہ امریکی دشمنی کا شکار ہوئے اور لاہور کے شاہی قلعہ میں شہید کردیے گئے۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے روس سے کراچی میں اسٹیل ملز لگانے کے منصوبے کو حتمی شکل دی تھی، اسٹیل ملز ایک بہت بڑا منصوبہ تھا۔ روس نے پاکستان کے علاوہ ایران، بھارت، مصر اور برازیل میں بھی اسٹیل ملز لگائی تھی مگر پاکستان میں اسٹیل ملزکو ناکام بنا دیا گیا جب کہ ایران، بھارت اور مصرمیں لگی اسٹیل ملز ان ممالک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان کئی ثقافتی اور تجارتی معاہدے ہوئے تھے۔
سوویت یونین نے پاکستانی طلبہ کے لیے اسکالر شپ کی اسکیم بھی شروع کی تھی البتہ اسلام آباد کی بیوروکریسی نے روس سے معمول کے تعلقات کی حوصلہ شکنی کی۔ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی بائیں بازو کے مختلف گروہوں اور دانشوروں کی سفارش پر پاکستانی طالب علموں کو سوویت یونین میں مفت تعلیم کے مواقع ملتے تھے مگر ان لوگوں کی ملک میں ملازمتوں پر پابندی عائد تھی، جو افراد سوویت یونین کے ثقافتی مرکز فرینڈ شپ ہاؤس جاتے تھے خفیہ اہلکار انھیں ہراساں کرتے تھے اور ان کی فائلیں تیارکی جاتی تھیں، جب کہ بھارت کی برسر اقتدار آنے والی حکومتوں سے لاکھوں طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے سوویت یونین بھیجا، مگر سوویت یونین کے خاتمہ اور سرمایہ دار روس کے وجود میں آنے کے باوجود پرانی پالیسیاں برقرار رہیں۔ مستقبل میں پالیسیاں تیارکرنے والے اکابرین کو بدلتی ہوئی دنیا کے حقائق کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینی چاہیے۔
دنیا کے ہر ملک سے تجارتی روابط قائم ہونے چاہئیں اور ان تمام پالیسیوں کا فائدہ عام آدمی کو ہونا چاہیے۔ اب ضروری ہے کہ پاکستان دنیا کے تمام ممالک سے تجارتی تعلقات استوار کرے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ترکی اور بھارت ہمارے لیے ماڈل ہیں۔ پاکستان کے قیام سے اب تک برسر اقتدار حکومتوں نے جو غلطیاں کی ہیں، اب ان کے ازالہ کا وقت ہے۔
روس کا تیل 15ڈالر فی بیرل سستا ہے۔ پٹرولیم کے وزیر مملکت ڈاکٹر مصدق ملک نے وضاحت کی ہے کہ روس کا تیل خسارے کا سودا نہیں ہے مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک بڑی لابی روسی تیل کی مخالفت کر رہی ہے۔
تیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھنے سے اور آئی ایم ایف کی پٹرول اور ڈیزل وغیرہ میں سبسڈی نہ دینے کی شرط پر عملدرآمد سے پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا۔
روس اور یوکرین کی جنگ کی بناء پر امریکا اور یورپی اتحادی ممالک نے روس پر تجارتی پابندیاں عائد کی تھیں مگر جنگ کی بناء پر برطانیہ اور یورپی ممالک میں تیل کی قلت پیدا ہوگئی۔
برطانیہ کے شہریوں کو گزشتہ سردیوں میں ایندھن کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے روس سے تیل کی درآمد پر پابندی کے معاملہ کو پسِ پشت ڈال دیا تھا۔
سابق وزیر اعظم اس دن روس پہنچے جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا، یوں ان کا دورہ بہت زیادہ مفید نہ رہا مگر پی ٹی آئی کے سابق وزیر حماد اظہر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ روس سے سستے تیل کی فراہمی کے لیے بات چیت شروع کی گئی ہے۔
موجودہ وزیر مملکت ڈاکٹر مصدق ملک کا دعویٰ ہے کہ حماد اظہر کے دعویٰ کی تصدیق کے لیے وزارت میں کوئی دستاویز نہیں مل سکی۔ سابقہ حکومت نے محض روس سے تیل کی خریدار کے لیے بیان بازی کو کافی جانا تھا۔ روس سے بھارت سب سے زیادہ تیل درآمد کرتا ہے۔
ایک ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق روس بھارت کو 15 سے 20 ڈالر فی بیرل رعایت دیتا ہے۔ ترکی، بلغاریہ، چین اور بھارت روس کے تیل کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ روس کیونکہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا رکن نہیں ہے اس لیے روس پر اوپیک کی قیمتوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔
پی ڈی ایم حکومت کے 16 ماہ کے اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وفاقی کابینہ میں روس سے تیل کی درآمد پر اختلاف پائے جاتے تھے، جب چند ماہ قبل وزیر مملکت ڈاکٹر مصدق ملک نے یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان روس سے تیل کی خریداری کا معاہدہ کرنے جا رہا ہے، اس وقت وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری واشنگٹن میں تھے۔
روس اور سوشلسٹ ممالک سے پاکستان کے تعلقات کی بھی غضب کہانی ہے۔ ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے 11 اگست 1948کو آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں نئی ریاست کے خد و خال پر روشنی ڈالی تھی مگر بیرسٹر جناح نے اس تقریر میں امریکا کا شکریہ ادا کیا تھا۔ بیرسٹر محمد علی جناح نے گورنر جنرل کے عہدہ کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے قریبی ساتھی مرزا ابو الحسن اصفہانی کو امریکا میں سفیر مقررکیا تھا اور اصفہانی صاحب کے ذریعے امریکا سے 12 ارب ڈالر کی امداد کی درخواست کی تھی۔
اس وقت کی امریکی حکومت نے اس درخواست پر مثبت جواب نہیں دیا تھا۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پہلا دورہ امریکا کا کیا تھا اور روس کے دعوت نامہ کو نظرانداز کر دیا تھا۔
پاکستان، روس کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا۔ پاکستان نے روس کے خلاف دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اختیارکی۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے پشاور کے قریب بڈابیر کے ہوائی اڈے کو امریکا کے حوالہ کیا۔ امریکا کے جاسوس طیارے اس ہوائی اڈہ سے پرواز کر کے سوویت یونین کی وسطی ایشیائی ریاستوں کی جاسوسی کے لیے پروازیں کرتے تھے۔
جب روس نے ایک امریکی طیارہ مارگرایا تو اس کے پائلٹ نے پوچھ گچھ کے دوران اقرار کیا کہ امریکی فوج پاکستان کے ہوائی اڈے استعمال کر رہی ہے۔ اس وقت کے سوویت کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل خروشیف نے نقشہ میں پشاور پر ریڈ لائن لگا دی تھی۔ ایوب خان نے بھی جواب میں ایسی دھمکی دی۔
جنرل ایوب خان کی پہلی کابینہ میں نوجوان ذوالفقارعلی بھٹوکو وزیر بنایا گیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے سوشلسٹ ممالک سے تجارت اور ملک میں تیل کی تلاش کے منصوبوں میں ان ممالک کی شرکت کے لیے راہ ہموارکی تھی۔ سوویت یونین نے 1950میں پاکستان میں آئل فیلڈکی تعمیر کا معاہدہ کیا تھا پھر جب ذوالفقار علی بھٹو وزیرِ صنعت بنے تو ان کی قیادت میں 4 جنوری 1961 کو ایک اقتصادی وفد نے ماسکوکا دورہ کیا۔
اس وفدکی سوویت یونین کے وزیر اعظم خروشیف سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وفد کے دورہ کے پانچ ماہ بعد سوویت یونین نے پاکستان کو اقتصادی امداد کی پیشکش کی تھی۔ 3 جولائی 1961 کو سوویت یونین اور پاکستان کے درمیان تیل کی تلاش کا معاہدہ ہوا جس کے بعد ایوب خان حکومت نے اگست 1961 میں آئل اینڈ گیس کارپوریشن قائم کی۔
کمیونسٹ پارٹی کے بعض سینئر اراکین کا کہنا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے رکن حسن ناصر نے اس بارے میں اہم کردار دا کیا تھا، یوں وہ امریکی دشمنی کا شکار ہوئے اور لاہور کے شاہی قلعہ میں شہید کردیے گئے۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے روس سے کراچی میں اسٹیل ملز لگانے کے منصوبے کو حتمی شکل دی تھی، اسٹیل ملز ایک بہت بڑا منصوبہ تھا۔ روس نے پاکستان کے علاوہ ایران، بھارت، مصر اور برازیل میں بھی اسٹیل ملز لگائی تھی مگر پاکستان میں اسٹیل ملزکو ناکام بنا دیا گیا جب کہ ایران، بھارت اور مصرمیں لگی اسٹیل ملز ان ممالک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان کئی ثقافتی اور تجارتی معاہدے ہوئے تھے۔
سوویت یونین نے پاکستانی طلبہ کے لیے اسکالر شپ کی اسکیم بھی شروع کی تھی البتہ اسلام آباد کی بیوروکریسی نے روس سے معمول کے تعلقات کی حوصلہ شکنی کی۔ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی بائیں بازو کے مختلف گروہوں اور دانشوروں کی سفارش پر پاکستانی طالب علموں کو سوویت یونین میں مفت تعلیم کے مواقع ملتے تھے مگر ان لوگوں کی ملک میں ملازمتوں پر پابندی عائد تھی، جو افراد سوویت یونین کے ثقافتی مرکز فرینڈ شپ ہاؤس جاتے تھے خفیہ اہلکار انھیں ہراساں کرتے تھے اور ان کی فائلیں تیارکی جاتی تھیں، جب کہ بھارت کی برسر اقتدار آنے والی حکومتوں سے لاکھوں طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے سوویت یونین بھیجا، مگر سوویت یونین کے خاتمہ اور سرمایہ دار روس کے وجود میں آنے کے باوجود پرانی پالیسیاں برقرار رہیں۔ مستقبل میں پالیسیاں تیارکرنے والے اکابرین کو بدلتی ہوئی دنیا کے حقائق کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینی چاہیے۔
دنیا کے ہر ملک سے تجارتی روابط قائم ہونے چاہئیں اور ان تمام پالیسیوں کا فائدہ عام آدمی کو ہونا چاہیے۔ اب ضروری ہے کہ پاکستان دنیا کے تمام ممالک سے تجارتی تعلقات استوار کرے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ترکی اور بھارت ہمارے لیے ماڈل ہیں۔ پاکستان کے قیام سے اب تک برسر اقتدار حکومتوں نے جو غلطیاں کی ہیں، اب ان کے ازالہ کا وقت ہے۔