سیاسی کارکنان
سیاسی کارکن سیاسی جماعتوں کی جان ہوتے ہیں، انھی کارکنوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کا وجود قائم رہتا ہے
سیاسی کارکن سیاسی جماعتوں کی جان ہوتے ہیں، انھی کارکنوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کا وجود قائم رہتا ہے اور یہ عوام میں زندہ رہتی ہیں ۔خوش قسمت ہوتی ہیں وہ سیاسی جماعتیں جن کے ساتھ ان کے کارکن سرد و گرم حالات میں بھی ثابت قدم رہتے ہیں کیونکہ ان کارکنوںکی ثابت قدمی سے ہی سیاسی جماعت عوام میںاپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔
ہر سیاسی جماعت کسی نظریے پر وجود میں آتی ہے، ماضی میں سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی جماعت کے نظریے اور منشور کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے، وہ اس بات کا فہم رکھتے تھے کہ جس سیاسی جماعت کے ساتھ وہ وابستہ ہیں، اس کا سیاسی نظریہ کیا ہے اور اقتدار میں آکر وہ عوامی فلاح کے لیے کیا خدمات سر انجام دے گی۔
یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ سیاست دان عوام کو دکھاتے کچھ اور ہیں جب کہ عمل کچھ اور کرتے ہیں البتہ وہ اپنے کارکنوں کو ساتھ رکھنے کے لیے ان کو طرح طرح کی ترغیب دیتے ہیں۔ کچھ کو سیاسی عہدے دیے جاتے ہیں اور کچھ کارکنوں کو حکومت میں آنے کے بعد مشیر و معاون خصوصی بنائے جانے کا وعدہ کر لیا جاتا ہے۔ سلام ہے ان سیاسی کارکنوں کو جو اپنے لیڈروں کی ہیرا پھیریوں کے باوجود بھی انھی لیڈروں کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔
ماضی میں سیاسی جماعتیں کارکنوں کی ایک کھیپ تیار کرتی تھیں جن کے دم قدم سے سیاسی سرگرمیاں جاری رہتی تھیں، یہ کارکن اپنے لیڈروں کے شانہ بشانہ بے لوث اور کسی طمع و لالچ کے بغیر نظرئیے کی آبیاری کے لیے کام کرتے تھے ۔
عوام کی نبض پر ان کا ہاتھ ہوتا تھا اور یہ اپنی جماعت کی رہنمائی بھی کرتے تھے، لیڈر حضرات کو انھی کارکنوں کی بدولت عوام کی سوچ سے بھی آگاہی ہوتی تھی اور اسی عوامی سوچ کو مدنظر رکھ کر مستقبل کی سیاسی حکمت عملی ترتیب دی جاتی تھی۔
ہماری سیاسی تاریخ میں کئی ایک ایسے سیاسی کارکن گزرے ہیں جنھوں نے اپنی انتھک محنت کی بدولت ایک بلند سیاسی مقام حاصل کیا۔ ہمارے بزرگ ملک معراج خالد بھی سیاسی کارکنوں کے اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ، وہ کسی بڑے سیاسی گھرانے کے چشم و چراغ نہیں تھے لیکن انھوں نے اپنی سیاسی سمجھ بوجھ اور بصیرت کی بدولت بھٹو صاحب کے دل میں جگہ بنالی جنھوں نے انھیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی بنا دیا۔ان کی نیک نامی کے سبب بھٹو صاحب کے بعد شہید بینظیر نے انھیں قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر کامیاب کرایا اور بعد ازاں وہ پاکستان کے نگران وزیر اعظم کے عہدے پر بھی بڑی شان اور وقارسے متمکن رہے۔
میری ناقص رائے میں پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو اپنے کارکنوں کی وجہ سے وجود میں آئی اور اس کے کارکنوں نے اسے پانچ مرتبہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کا موقع دیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کا کارکن ایک طویل عرصے تک پارٹی سے جڑارہا جس کی ایک بنیادی وجہ پارٹی قیادت کی جانب سے اپنے کارکنان کے ساتھ براہ راست رابطہ ہے ۔بھٹو صاحب اور شہید بینظیر صاحبہ پارٹی کارکنان کی رائے کا احترام کرتے تھے اور ان کے مشوروں کو بغور سنا جاتا تھا۔
آج جب زرداری صاحب اور بلاول صاحب پارٹی کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں، انھوں نے سندھ میں تو پیپلز پارٹی کا علم بلند کر رکھا ہے لیکن پیپلز پارٹی جو ماضی میں چاروں صوبوں کی زنجیر کا نعرہ لگاتی تھی، سندھ کے سوا دوسرے صوبوں میں اس کا سیاسی وجود وہ نہیں رہا ہے کہ جس کے بل بوتے پر وہ انتخابی سیاست میں میدان مار سکے۔
پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو آیندہ الیکشن کے لیے ملک بھر میں پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی روایات کو نبھانے اور ملک بھر میں اس کی سیاست کو زندہ کرنے کی کوششوں میں ہیں لیکن نہ جانے ان کوششوں میں کون آڑے آجاتا ہے کہ ایک آدھے بیان کے بعد بلاول بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔
محترمہ بینظیر کی شہادت کے بعدپیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے کارکنان کو کسی حد تک بے یارو مددگار چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کارکن اپنی پارٹی سے مایوس اور ناراض ہو کر گھر بیٹھ گیا اور بعدا زاں ان کارکنوں کو پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی نے اچک لیا۔
جو بچے کھچے جماندور کارکنان آج بھی پارٹی کا دم بھرتے ہیں، ان میں آیندہ الیکشن کے لیے جوش و جذبہ نظر آرہا ہے، وہ اپنی پارٹی کی انتخابی سرگرمیوں سے سرشار دکھائی دیتے ہیں اور ایک نئے جوش و ولولے کے ساتھ انھوں نے الیکشن میں پارٹی کی کامیابی کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔ زندہ دلان کا شہر لاہور جہاں پر ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر بھٹو صاحب نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، یہ لاہور کسی زمانے میں پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا، پیپلز پارٹی کا یہ دعویٰ تھا کہ لاہور اس کا لاڑکانہ ہے۔
اسی لاہور نے جہانگیر بدر، بابائے سوشلزم شیخ رشید، حنیف رامے، ملک معراج خالد ، شیخ رفیق اور ان جیسے کئی کارکنوں کو قومی اسمبلی اور صوبائی میں پہنچایا اور وہ قومی افق پر ابھرے لیکن پیپلز پارٹی کے اس پنجابی لاڑکانے میں میاں نواز شریف نے کامیاب نقب لگائی اور گزشتہ تین دہائیوں تک لاہور ی میاں نواز شریف کا دم بھرتے رہے۔ میاں صاحب نے اپنے کئی ایسے سیاسی رہنماؤں کو لاہور سے کامیاب کرایا جو اپنے آبائی علاقوں سے الیکشن ہار گئے تھے، ان میں جناب جاوید ہاشمی اور شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں۔
بات سیاسی کارکنان سے شروع کی تھی، آج کی سیاست میں پیپلز پارٹی کے دو سیاسی کارکن اور وکلاء رہنماء چوہدری اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ جو پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہیں اور ان کی جماعت حکومت میں شراکت دار بھی ہے، وہ حکومتی پالیسی کے برعکس سیاسی کارکنان کے فوجی عدالتوں میں مقدمات پر اپنے موقف کو کھل کے بیان کر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کو داد دینا پڑے گی کہ وہ حکومتی شراکت دار ہونے کے باجوداپنے صف اول کے رہنماؤں کی تنقید کو برداشت کر رہے ہیں اور یہی وہ بنیادی وصف ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کا کارکن مشکل حالات میں بھی ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ ہم نے آج کے زمانے کے کارکنا ن بھی دیکھے ہیں جن کی اکثریت چوری کھانے والے مجنوں ہی ثابت ہوئی ہے اور ایسے کارکنان کوان سیاسی جماعتوں کی بدقسمتی کہا جا سکتا ہے کہ جن کے پاس مخلص کارکنوں کی کمی ہے کیونکہ کارکن ہی پارٹی کی جان ہوتا ہے اوروہ اسے سیاسی میدان میں متحرک رکھتا ہے۔
اب جب کہ سیاست کے انداز بدلے گئے ہیں تو ان بدلے حالات میں سیاسی کارکنان کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے، ہماری سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں الیکٹیبلز کے ساتھ ساتھ کارکنان کو بھی متحرک کرنا پڑے گا اور ان متحرک کارکنان کاہی آیندہ الیکشن میں عمل دخل زیادہ ہوگا جس سیاسی جماعت اور قیادت نے اپنے کارکنا ن سے پہلوتی اختیار کی وہ انتخابی عمل میں کامیابی سے بہت دور رہ جائے گی۔
ہر سیاسی جماعت کسی نظریے پر وجود میں آتی ہے، ماضی میں سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی جماعت کے نظریے اور منشور کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے، وہ اس بات کا فہم رکھتے تھے کہ جس سیاسی جماعت کے ساتھ وہ وابستہ ہیں، اس کا سیاسی نظریہ کیا ہے اور اقتدار میں آکر وہ عوامی فلاح کے لیے کیا خدمات سر انجام دے گی۔
یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ سیاست دان عوام کو دکھاتے کچھ اور ہیں جب کہ عمل کچھ اور کرتے ہیں البتہ وہ اپنے کارکنوں کو ساتھ رکھنے کے لیے ان کو طرح طرح کی ترغیب دیتے ہیں۔ کچھ کو سیاسی عہدے دیے جاتے ہیں اور کچھ کارکنوں کو حکومت میں آنے کے بعد مشیر و معاون خصوصی بنائے جانے کا وعدہ کر لیا جاتا ہے۔ سلام ہے ان سیاسی کارکنوں کو جو اپنے لیڈروں کی ہیرا پھیریوں کے باوجود بھی انھی لیڈروں کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔
ماضی میں سیاسی جماعتیں کارکنوں کی ایک کھیپ تیار کرتی تھیں جن کے دم قدم سے سیاسی سرگرمیاں جاری رہتی تھیں، یہ کارکن اپنے لیڈروں کے شانہ بشانہ بے لوث اور کسی طمع و لالچ کے بغیر نظرئیے کی آبیاری کے لیے کام کرتے تھے ۔
عوام کی نبض پر ان کا ہاتھ ہوتا تھا اور یہ اپنی جماعت کی رہنمائی بھی کرتے تھے، لیڈر حضرات کو انھی کارکنوں کی بدولت عوام کی سوچ سے بھی آگاہی ہوتی تھی اور اسی عوامی سوچ کو مدنظر رکھ کر مستقبل کی سیاسی حکمت عملی ترتیب دی جاتی تھی۔
ہماری سیاسی تاریخ میں کئی ایک ایسے سیاسی کارکن گزرے ہیں جنھوں نے اپنی انتھک محنت کی بدولت ایک بلند سیاسی مقام حاصل کیا۔ ہمارے بزرگ ملک معراج خالد بھی سیاسی کارکنوں کے اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ، وہ کسی بڑے سیاسی گھرانے کے چشم و چراغ نہیں تھے لیکن انھوں نے اپنی سیاسی سمجھ بوجھ اور بصیرت کی بدولت بھٹو صاحب کے دل میں جگہ بنالی جنھوں نے انھیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی بنا دیا۔ان کی نیک نامی کے سبب بھٹو صاحب کے بعد شہید بینظیر نے انھیں قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر کامیاب کرایا اور بعد ازاں وہ پاکستان کے نگران وزیر اعظم کے عہدے پر بھی بڑی شان اور وقارسے متمکن رہے۔
میری ناقص رائے میں پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو اپنے کارکنوں کی وجہ سے وجود میں آئی اور اس کے کارکنوں نے اسے پانچ مرتبہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کا موقع دیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کا کارکن ایک طویل عرصے تک پارٹی سے جڑارہا جس کی ایک بنیادی وجہ پارٹی قیادت کی جانب سے اپنے کارکنان کے ساتھ براہ راست رابطہ ہے ۔بھٹو صاحب اور شہید بینظیر صاحبہ پارٹی کارکنان کی رائے کا احترام کرتے تھے اور ان کے مشوروں کو بغور سنا جاتا تھا۔
آج جب زرداری صاحب اور بلاول صاحب پارٹی کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں، انھوں نے سندھ میں تو پیپلز پارٹی کا علم بلند کر رکھا ہے لیکن پیپلز پارٹی جو ماضی میں چاروں صوبوں کی زنجیر کا نعرہ لگاتی تھی، سندھ کے سوا دوسرے صوبوں میں اس کا سیاسی وجود وہ نہیں رہا ہے کہ جس کے بل بوتے پر وہ انتخابی سیاست میں میدان مار سکے۔
پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو آیندہ الیکشن کے لیے ملک بھر میں پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی روایات کو نبھانے اور ملک بھر میں اس کی سیاست کو زندہ کرنے کی کوششوں میں ہیں لیکن نہ جانے ان کوششوں میں کون آڑے آجاتا ہے کہ ایک آدھے بیان کے بعد بلاول بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔
محترمہ بینظیر کی شہادت کے بعدپیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے کارکنان کو کسی حد تک بے یارو مددگار چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کارکن اپنی پارٹی سے مایوس اور ناراض ہو کر گھر بیٹھ گیا اور بعدا زاں ان کارکنوں کو پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی نے اچک لیا۔
جو بچے کھچے جماندور کارکنان آج بھی پارٹی کا دم بھرتے ہیں، ان میں آیندہ الیکشن کے لیے جوش و جذبہ نظر آرہا ہے، وہ اپنی پارٹی کی انتخابی سرگرمیوں سے سرشار دکھائی دیتے ہیں اور ایک نئے جوش و ولولے کے ساتھ انھوں نے الیکشن میں پارٹی کی کامیابی کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔ زندہ دلان کا شہر لاہور جہاں پر ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر بھٹو صاحب نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، یہ لاہور کسی زمانے میں پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا، پیپلز پارٹی کا یہ دعویٰ تھا کہ لاہور اس کا لاڑکانہ ہے۔
اسی لاہور نے جہانگیر بدر، بابائے سوشلزم شیخ رشید، حنیف رامے، ملک معراج خالد ، شیخ رفیق اور ان جیسے کئی کارکنوں کو قومی اسمبلی اور صوبائی میں پہنچایا اور وہ قومی افق پر ابھرے لیکن پیپلز پارٹی کے اس پنجابی لاڑکانے میں میاں نواز شریف نے کامیاب نقب لگائی اور گزشتہ تین دہائیوں تک لاہور ی میاں نواز شریف کا دم بھرتے رہے۔ میاں صاحب نے اپنے کئی ایسے سیاسی رہنماؤں کو لاہور سے کامیاب کرایا جو اپنے آبائی علاقوں سے الیکشن ہار گئے تھے، ان میں جناب جاوید ہاشمی اور شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں۔
بات سیاسی کارکنان سے شروع کی تھی، آج کی سیاست میں پیپلز پارٹی کے دو سیاسی کارکن اور وکلاء رہنماء چوہدری اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ جو پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہیں اور ان کی جماعت حکومت میں شراکت دار بھی ہے، وہ حکومتی پالیسی کے برعکس سیاسی کارکنان کے فوجی عدالتوں میں مقدمات پر اپنے موقف کو کھل کے بیان کر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کو داد دینا پڑے گی کہ وہ حکومتی شراکت دار ہونے کے باجوداپنے صف اول کے رہنماؤں کی تنقید کو برداشت کر رہے ہیں اور یہی وہ بنیادی وصف ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کا کارکن مشکل حالات میں بھی ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ ہم نے آج کے زمانے کے کارکنا ن بھی دیکھے ہیں جن کی اکثریت چوری کھانے والے مجنوں ہی ثابت ہوئی ہے اور ایسے کارکنان کوان سیاسی جماعتوں کی بدقسمتی کہا جا سکتا ہے کہ جن کے پاس مخلص کارکنوں کی کمی ہے کیونکہ کارکن ہی پارٹی کی جان ہوتا ہے اوروہ اسے سیاسی میدان میں متحرک رکھتا ہے۔
اب جب کہ سیاست کے انداز بدلے گئے ہیں تو ان بدلے حالات میں سیاسی کارکنان کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے، ہماری سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں الیکٹیبلز کے ساتھ ساتھ کارکنان کو بھی متحرک کرنا پڑے گا اور ان متحرک کارکنان کاہی آیندہ الیکشن میں عمل دخل زیادہ ہوگا جس سیاسی جماعت اور قیادت نے اپنے کارکنا ن سے پہلوتی اختیار کی وہ انتخابی عمل میں کامیابی سے بہت دور رہ جائے گی۔