یکم مئی سرمائے کی غلامی سے آزادی کا دن
پاکستانی محنت کشوں کے بنیادی حقوق بھی چھین لیے گئے ہیں
صنعتی دور کی تاریخ کروڑوں محنت کش انسانوں کی محنت اور جدوجہد سے عبارت ہے، لیکن اس اجتماعی سماجی محنت سے پیدا ہونے والی ساری دولت اور ترقی کے ثمرات وسائل پر قابض چند افراد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
محنت پر سرمائے کی بالادستی کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد صدیوں پر محیط ہے اور اس میں سب سے نمایاں دن یکم مئی ہے، جو انسانی تاریخ میں محنت کی عظمت اور جدوجہد کے استعارے کے طور پر ابھر ا ہے۔ 128 برس پہلے شکاگو میں سرمائے کے جبر کے خلاف اٹھنے والی پر امن آواز کو طاقت کے زور پر خون میں نہلا دیا گیا، لیکن خون میں لتھڑے اور پھانسی کے پھندے پر بہادری سے جھولتے ہوئے محنت کشوں نے بغاوت کا ایسا علم بلند کیا جو ہر آنے والے دن تمام تر نامساعد حالات کے باوجود محنت کشوں کی تحریک کو توانائی بخش رہا ہے۔ کارخانوں، کھیتوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کارگاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں محنت جھونکنے والے کروڑوں محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بنیاد ہوتے ہوئے بھی زندگی کی تمام رعنائیوں سے محروم اور محکوم ہیں۔
پوری دنیا خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک کے محنت کش بدترین دوہرے استحصال کا شکار ہیں۔ ایک تو تیسری دنیا کے باشندے ہونے کی حیثیت سے بین الاقوامی سرمائے کے تسلط اور سام راجی پالیسیوں کے نتیجے میں چھینی جانے والی آزادیاں اور معاشی و سیاسی غلامی ہے، تو دوسری طرف بحیثیت محنت کش مقامی و بین الاقوامی سرمایہ داروں کا براہ راست استحصال، جس نے ہر فرد کو زندہ رہنے کے لیے کم از کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ جسمانی و ذہنی محنت کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
مشینوں کی زبردست ترقی اور برق رفتار پیداواری عمل کے جبر نے انسان کو ایک کل پرزہ بنا کر رکھ دیا ہے جو قلیل سے قلیل وقت میں ناقابل تصور پیداوار کا باعث بن رہا ہے، جس کا مطلب سرمایہ دار کے منافع میں بے تحاشا اضافہ ہے، اس کے باوجود مزدور کے اوقات کار میں اضافہ اجرتوں میں حقیقی کمی کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے۔ یہ سرمایہ داری نظام کے جوہر میں ایک ایسا تضاد اور بُعد ہے جو صرف اور صرف کسی ایک فریق کے مکمل طور پر فنا ہونے سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔ سماجی سائنس کا علم حتمی نتیجے میں سرمایہ دار طبقے کے فنا ہی کی نشان دہی کرتا نظر آتا ہے۔
سوویت یونین اور دیگر اشتراکی ممالک میں مزدور حکومتوں کے خاتمے نے سرمایہ داری کو مادر پدر آزادی دے دی ہے۔ یہ ساری دنیا کے وسائل پر بلاشرکت غیرے قبضے اور وسائل سے مالامال خطوں پر جنگیں مسلط کر رہی ہے اور اپنے مفادات کے آڑے آنے والی حکومتوں کو طاقت اور سازش سے پلٹ رہی ہے۔ یہ سرمائے اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر انسانی مسکن یعنی کرہ ٔ ارض کو جہنم بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اس سارے گھناؤنے عمل میں اسے مقامی حکم راں طبقا ت اور اسلحے سے لیس منظم اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ایسی ہی کچھ صورت حال پاکستان میں بھی نظر آتی ہے جہاں حکومتی طریقۂ کار کی تبدیلی کے باوجود عام انسانوں خصوصاً محنت کشوں کی زندگیوں میں رتی بھر بھی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوئی اور نہ ہی ہونے کا امکان ہے۔
ملک میں فوجی حکومت ہو یا جمہوری حکومت، اقتدار کے ایوانوں تک صرف ذرائع پیداوار کے مالک طبقات اور ان کے مفادات کے نگہبان افراد ہی پہنچ پاتے ہیں۔ تمام ریاستی ادارے آخری تجزیے میں ہمیشہ محنت کش طبقات کے مخالف ہی نظر آتے ہیں ۔ پاکستان کے صنعتی اداروں خصوصاً نجی اداروں میں محنت کش نہایت ہی بنیادی نوعیت کے حقوق سے بھی محروم ہیں۔ پاکستان کی 6 کروڑ سے زاید لیبر فورس میں سے صرف 2.8 فی صد یونین سازی کے حق سے بہرہ مند ہیں۔ ان میں بھی پبلک سیکٹر کا حصہ 65 فی صد سے زاید ہے اگر پبلک سیکٹر کے اداروں کو نکال دیا جائے تو پرائیویٹ سیکٹر میں منظم مزدوروں کی تعداد 1 فی صد سے 1.5 فی صد تک رہ جاتی ہے۔
سرمایہ دارانہ منڈی میں خوف ناک حد تک بڑھتے ہوئے مقابلے کے رجحان نے مزدوروں کی مراعات کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔ منافع کی اس اندھی دوڑ میں پیداواری عمل کو فیکٹریوں کارخانوں سے نکال کر رہائش گاہوں میں منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں کروڑوں محنت کش جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے، جو اپنے گھروں کو بلا معاوضہ فیکٹریوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور نہایت ہی قلیل اجرت پر مصنوعات تیار کرکے سرمایہ داروں کے منافع کے لیے ایندھن کا کام دے رہے ہیں۔
ان مزدوروں کے لیے کوئی قانون موجود نہیں اور نہ ہی انہیں قانونی مراعات حاصل ہیں۔ ایسی ہی صورت حال زراعت سے وابستہ کروڑوں محنت کشوں کی ہے جو ملکی معیشت کے پیداواری عمل میں بنیادی اہمیت کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ زرعی محنت کش غلاموں سے بدتر حالات کار میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور ان کی زندگیوں میں صدیوں سے کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ صوبہ سندھ میں پہلی بار زراعت پر بھی صنعتی تعلقات ایکٹ 2013 لاگو ہو گیا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہاریوں نے اپنی ٹریڈ یونین ''سندھ ایگرکلچر جنرل ورکرز یونین'' رجسٹرڈ کروائی ہے۔ اب قانوناً یہ ہاری دیگر مزدوروں کی طرح ہر قسم کی مراعات کے حق دار ہیں، لیکن حقوق اور مراعات کا حصول دیگر محنت کشوں کی نسبت ان کے لیے زیادہ مشکل اور جدوجہد طلب ہے۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جنھوں نے بین الاقوامی ادارۂ محنت آئی ایل او کے 28 کنونشن پر دستخط اور ان کی توثیق کی ہے اور ان میں 9بنیادی کنونشن بھی شامل ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ نجی شعبے میں کام کرنے والے 90 فی صد پیداواری ادارے فیکٹری ایکٹ کے تحت رجسٹر ہی نہیں ہے، جب کہ 95 فی صد سے زاید محنت کش تقرر ناموں سے محروم ہیں، جس کی بنا پر وہ 20 سے 25 سال تک ایک ادارے میں کام کرنے کے باوجود اس ادارے سے اپنے قانونی اور جائز تعلق کو ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ملکی لیبر قوانین پر عمل درآمد خواب لگتا ہے، جن کے تحت لازم ہے کہ ہر ملازم کو سماجی تحفظ کے ادارے سے رجسٹر کرکے کارڈ دیا جائے، تاکہ وہ اور ان کے خاندان صحت کی سہولیات حاصل کرسکیں لیکن 95 فی صد سے زاید مزدور اس حق سے محروم ہیں۔ جن 5 فی صد مزدوروں کو سوشل سیکیوریٹی کے اداروں سے رجسٹر کیا جاتا ہے، ان کو بھی سوشل سیکیوریٹی کا رڈز نہیں دیے جاتے۔ مبادا وہ اپنے مزید حقوق کے لیے تگ و دو نہ شروع کردیں، جن میں یونین سازی کا حق بھی شامل ہے۔ یہی صورت حال ای او بی آئی (اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ) میں رجسٹریشن کی بھی ہے۔ مزدوروں کے پاس سوشل سیکیوریٹی کارڈ اور تقررنامہ نہ ہونے کی بنا پر وہ کسی بھی تنازع کی صورت میں لیبر کورٹس تک رسائی نہیں کر سکتے اور نہ ہی قانونی طور پر یونین بناکر اجتماعی سودا کاری کے تحت حقوق کا دفاع اور مالکان اور فیکٹری انتظامیہ سے مراعات حاصل کرسکتے ہیں۔
اس سے بھی بدتر صورت حال یہ ہے کہ 90 فی صد سے زاید مزدور حکومتی اعلان کردہ کم از کم تن خواہ ماہانہ دس ہزار روپے، جو کہ غیرہنرمند کے لیے ہے، اس سے بھی محروم ہیں۔ اکثر فیکٹریوں میں مزدور6000 سے 7000 روپے پر 12 سے 14 گھنٹے کام کر تے ہیں، لیکن اضافی کام کا انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ کارخانوں میں ٹھیکے داری نظام پورے جبر کے ساتھ موجود ہے، جس نے مزدوروں کو ذہنی طور پر مفلوج اور خوف زدہ کر رکھا ہے۔ بغیر اطلاع اور نوٹس کے برخاست کرنے کے خوف نے پیداواری عمل کو بری طرح نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ کئی ایک ذہنی بیماریوں کو بھی جنم دیا ہے۔
فیکٹریاں کارخانے عملاً ہر قسم کی لیبر انسپیکشن سے مبرا ہیں، جس کے نتیجے میں کام کی جگہیں قتل گاہیں بن چکی ہیں، جہاں ہیلتھ اور سیفٹی کے ملکی اور بین الاقوامی بنیادی اصولوں کو مجرمانہ حد تک نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس کی واضح مثال ستمبر 2012 میں علی انٹر پرائز بلدیہ کراچی کی گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی بھیانک آگ ہے جس میں جھلس کر260 سے زاید محنت کش شہید ہوگئے۔ اس المناک سانحہ کے باوجود فیکٹریوں کارخانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے کسی بھی قسم کے اقدامات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
پاکستان کا انسانی حقوق اور مزدور قوانین کی پاس داری کے حوالے سے ریکارڈ بین الاقوامی طور پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس سوالیہ نشان کے مضمرات پاکستان کے حکم راں اور سرمایہ دار سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کو اس سال کے شروع میں GSP+ (جنرل سسٹم آف پریفرنس پلس) جیسی خصوصی حیثیت یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے دس برس کے لیے دی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کا بنا مال خصوصاً ٹیکسائل گارمنٹ کو یورپی منڈیوں تک بغیر کسی رکاوٹ اور ڈیوٹی کی چھوٹ کے ساتھ رسائی حاصل ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی ایکسپورٹ میں سالانہ ایک ارب ڈالر زاید اضافے کا امکان ہے اور یہ اضافہ سالانہ13 فی صد کے حساب سے ہوگا۔
ایک اندازے کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ 13ارب ڈالر سے بڑھ کر 26 ارب تک جا پہنچے گی۔ یوں صرف اس شعبے سے 10 لاکھ محنت کشوں کے لیے روز گار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس GSP+ معاہدے کے تحت حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آئی ایل او کے بنیادی مزدور معیارات کو حقیقی معنوں میں فیکٹریوں میں لاگو کرے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا اور اس بارے میں صنعت کار مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت اور صنعت کاروں نے GSP+ کے تحت مزدوروں کے لیے تجویز کیے گئے حقوق نہ دیے تو یہ خصوصی حیثیت واپس لی جا سکتی ہے، جس کے پاکستان کی معیشت پر نہایت ہی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک رسائی کے خصوصی حیثیت کے نتیجے میں ہونے والی ترقی کے ثمرات مزدوروں تک پہنچنے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔
موجودہ حکومت جو ترقی اور معاشی ابتری کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ اس نے آتے ہی محنت کش عوام دشمن پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کا اعلانیہ ثبوت دیا ہے۔ پبلک سیکٹر کے اداروں کی نج کاری کا اعلان ملک کے محنت کشوں پر ضرب کاری ہے۔ بجلی گیس پانی اور دیگر اداروں کی نج کاری کا براہ راست نتیجہ بجلی، گیس، پانی اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور لاکھوں محنت کشوں کی بے روزگاری کی شکل میں نمودار ہو گا اور سارے سماج مین بد ترین انارکی پھیلے گی جو منظم تحریک نہ ہونے کی بنا پر سماج کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔ پچھلے ادوار کی نجکاری کے بھیانک نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اداروں کی نج کاری دراصل مزدور کے لیے موت کا پیغام ہے۔
حکومت بین الاقوامی سامراجی پالیسی سازوں کی ایما پر محنت کش عوام سے تمام مراعات چھین رہی ہے۔ بجلی گیس پر ملنے والی ریاستی رعایت (سبسڈی) بتدریج واپس لے لی گئی ہے اور سماج کو سوشل ڈارون ازم کے اصول کے تحت چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا واحد مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس جتنی دولت ہے وہ اتنی ہی بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔ جس کے پاس پیسہ ہے وہ علاج کروائے، تعلیم ، پانی ، بجلی اور گیس حاصل کرے جو پیسے سے محروم ہے اس کے لیے زندگی میں اندھیرا ہی اندھیر ا ہے۔ اس گمبھیر صورت حال میں جب مزدور قانون میں دیے گئے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو اسے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یونین سازی بنیادی حق ہے، لیکن کراچی اور فیصل آباد میں پاور لومز کے ورکرز پر یونین بنانے کی پاداش میں ، دہشت گردی ایکٹ کے تحت درجنوں مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
آج محنت کشوں کی جدوجہد کی علامت اور عظیم دن اس امر کی تجدید کرنے کا سبق دیتا ہے کہ مزدوروں کو بحیثیت طبقہ اپنی بقا اور اپنے قانونی حقوق کے حصول کے لیے ایک منظم ٹریڈیونین اور مزدور تحریک کی اشد ضرورت ہے، جو حالات کا مکمل ادراک رکھتی ہو اور وہ مزدوروں پر سرمایہ داروں اور حکومت کی جانب سے ہونے والے مہلک حملوں کا جواب دینے کی ٹھوس حکمت عملی رکھتی ہو۔ یہ کام ایسی مزدور تحریک اور ٹریڈ یونین ہی کر سکتی ہے جس کی قیادت سیاسی و نظریاتی طور پر طبقاتی شعور سے لیس ہو۔ مزدور طبقے کے ذہنوں کو مذہبی، فرقہ وارانہ لسانی اور نسلی تعصبات پر مبنی جہالت کے اندھیروں اور بالادست طبقات کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کے اثر سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے بنیادی حقوق اور روزمرہ کے مسائل پر منظم ہو کر جدوجہد کا آغاز کیا جائے جو کہ مزدوروں کسانوں اور محنت کرنے والے عام انسانوں کی ایک انقلابی سیاسی جماعت کی تشکیل کی جانب لے کر جائے گا۔
محنت کش طبقہ کا عہد ہے کہ وہ یکم مئی کے شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دے گا اور کرۂ ارض سے سرمائے کی بربریت اور وحشت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔ اس لیے کہ ''مزدوروں کو اپنی زنجیروں کے سوا کھونا ہی کیا ہے اور پانے کے لیے ساری کائنات پڑی ہے۔''
پاکستان میں مزدوروں کے حالات
ہر سال کی طرح امسال بھی پاکستان کے محنت کش عوام دنیا بھر کے مزدوروں، غریبوں، مظلوموں اور جمہوریت پسند عوام کے شا نہ بشانہ یوم مئی منائیں گے اور اُن شہید مزدور راہ نماؤں اور کارکنوں کو خراج عقیدت پیش کریں گے جنہوں نے 1886 میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، زہر کا پیالہ پیا اور مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوما اور رہتی دنیا تک کے لیے جدوجہد اور قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کرگئے۔ 1886 سے قبل بھی یورپ اور امریکا کے مختلف ممالک اور شہروں میں صنعتی مزدور جابرانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑتے رہے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مئی 1886 میں شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد ان تمام تحاریک کا نقطۂ عروج تھی جنہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے بھیانک چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو نوچ کر پھینک دیا اور دنیا نے اُس کا اصل چہرہ دیکھ لیا۔ اس عظیم تحریک کے قائدین کو بدترین بربریت کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں پھانسی کی سزائیں دی گئیں۔ اس طرح استحصالی نظام کے آقاؤں اور اُن کے پروردہ عناصر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے ہوں گے کہ انہوں نے غریبوں اور مظلوموں کی آواز کا گلا ہمیشہ کے لیے گھونٹ دیا ہے، مگر تاریخ کوئی اور فیصلہ کرچکی تھی۔ آج 2014 میں 128 سال بیت جانے کے بعد شکاگو کی مزدور تحریک کے قائدین دنیا بھر کے ہیروز اور کروڑہا محنت کشوں کی آنکھ کا تارا ہیں، جب کہ اُن پر مظالم کرنے والوں کا نام و نشان بھی مٹ چکا ہے۔
شکاگو کی مزدور تحریک کے واقعات کی تفصیل میں جائے بغیر ہم اپنے ملک کی موجودہ صورت حال محنت کشوں کے حالات کار اور ٹریڈ یونین و مزدور تحریک پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ سال بہ سال ہمارے ہاں صورت حال انحطاط پذیر ہے۔ بڑی تعداد میں رجسٹرڈ ٹریڈ یونینز، ٹریڈ یونینز فیڈریشنز اور مختلف سیاسی جماعتوں کے لیبر ونگز موجود ہیں، لیکن عملی طور پر میدان تقریباً خالی ہی دکھائی دیتا ہے۔ گوکہ مزدور تنظیموں نے سیاسی اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہوکر انتہائی خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوششیں کی ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ کاوشیں کوئی منظم شکل اختیار نہیں کرسکیں، جب کہ دوسری طرف فری مارکیٹ اکانومی اور گلوبلائزیشن کے نظریات نے ٹریڈ یونین تحریک کو دیوار کے ساتھ لگادیا ہے۔
آج بھی کارخانوں، اداروں اور دفاتر میں لاکھوں کی تعداد میں ملازمین کام کررہے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے باوجود ٹریڈ یونینز کی ممبر شپ دن بہ دن گرتی جارہی ہے۔ ٹھیکے داری نظام اور تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم نے ٹریڈ یونین تحریک کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔ وہ دن اب خواب وخیال بن کر رہ گئے ہیں جب ان اداروں میں ٹریڈ یونین کی ممبرشپ ہزاروں میں ہوا کرتی تھی۔ اب حالت یہ ہے کہ بڑے بڑے ادارے، جہاں پندرہ اور بیس ہزار کی تعداد میں افراد ی قوّت موجود ہے، وہاں ٹریڈ یونینز کی ممبرشپ چند سو افراد تک محدود ہے، دیگر ملازمین کو قانون کا غلط سہارا لے کر اس حق سے محروم کردیا گیا ہے اور ٹھیکے داری نظام یا تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم کے تحت زندگی کا عذاب کاٹنے پر مجبور ہیں، جہاں انہیں ایک کارکن کی حیثیت سے اُن کے بنیادی حقوق اور سہولتوں سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ملازمین کم از کم اجرت (جوکہ فی الوقت 10,000/-روپے ماہانہ ہے) کے تحت کام کرنے پر مجبور ہیں۔
یہاں یہ الزام بھی عام ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے بیشتر اداروں میں کم از کم اجرت کی رقم بھی کارکنان کو ادا نہیں کی جاتی، جب کہ کم از کم ماہانہ اجرت پر کام کرنے والی افرادی قوّت، طبّی سہولتوں، بونس، سالانہ اضافہ، ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئر بورڈ کی جانب سے دی جانے والی سہولتوں اور سوشل سیکیوریٹی کی اسکیم سے بھی فوائد حاصل نہیں کرپاتی۔ اس کے علاوہ پرائیویٹائزیشن کے عمل نے بھی پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کی قوّت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ مختلف اداروں کی پرائیویٹائزیشن کے بعد ڈاؤن سائزنگ کے ذریعہ اور رائٹ سائزنگ کے نام پر لاکھوں ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا۔ بعض کارخانے نجکاری کے بعد بند کردیے گئے اور اُن کی زمینوں کو بیچ دیا گیا چناں چہ ہمارے یہاں نجکاری اور بیروزگاری کو لازم و ملزوم تصّور کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف یہ الزام بھی عام ہے کہ سرکاری تحویل کے اداروں اور کارپوریشنز میں بدانتظامی اور کرپشن ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں یہ ادارے ہر سال اربوں روپے کے نقصان میں جاتے ہیں اور پھر حکومت کو انہیں سنبھالنے اور چلانے کے لیے سرکاری خزانے سے عوام کے ٹیکس کے اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ جہاں تک ملک میں صنعتی ترقی کا تعلق ہے تو کئی دہائیوں سے اس میں پیش رفت نظر نہیں آرہی۔ بتایا جاتا ہے کہ اب بھی تقریباً ساڑھے تین ہزار کارخانے بند پڑے ہیں، لیکن انہیں چلانے کی کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی جاسکی ہے۔ موبائل فون انڈسٹری، فاسٹ فوڈ کی تجارت اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی ہمارے معاشرے میں آئی ہیں اور اُنہوں نے سماج میں بڑی تبدیلیاں بھی پیدا کی ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تجارت کا عروج صنعتی ترقی کا انجن نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے بہرکیف بڑی بڑی صنعتوں اور کارخانوں کا احیاء ضروری ہے، جن میں لاکھوں افراد کو روزگار حاصل ہوسکے۔
پاکستان میں مزدوروں اور عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے صنعتی ترقی کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں۔ جب صنعتیں قائم ہوں گی تو عوام کو روز گار ملے گا۔ ٹریڈ یونینز قائم ہوں گی، جو محنت کشوں میں حقوق کا شعور بیدار کریں گی اور اس طرح جمہوری جدوجہد بھی مضبوط ہوکر آگے بڑھے گی۔ سرکاری تحویل کے اداروں اور کارخانوں کی ری اسٹرکچرنگ کرکے انہیں انتہائی پروفیشنل انتظامیہ کے حوالے کردینا چاہیے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے انڈسٹرلائزیشن کے لیے اتفاق رائے سے پالیسی اور حکمت عملی ترتیب دی جانی چاہیے۔ چوں کہ شعبۂ محنت مکمل طور پر صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے، لہٰذا اب یہ اختیار کلّی طور پر صوبائی حکومتوں کا ہے کہ وہ کس طرح اس شعبے کو صوبے کی ترقی اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک مشورہ یہ ہے کہ محنت کشوں کے حوالے سے کام کرنے والے تمام اداروں کی ری اسٹرکچرنگ کی جائے اور انہیں بھی جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرکے میدان عمل میں لایا جائے۔ صوبائی حکومتیں محنت کش تنظیموں اور آجروں کی تنظیموں کی مشاورت سے لیبر قوانین اور صنعتی قوانین میں ترامیم اور اضافہ کرے۔ ہر سال ہر صوبے میں ایک لیبر کانفرنس مئی کے مہینے میں منعقد کی جانی چاہیے، جس میں مزدوروں، آجروں، حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے نمائندگان شرکت کریں، تاکہ ان طبقات کے مابین کوئی بڑا کمیونیکیشن گیپ پیدا نہ ہوسکے۔ مزدور تنظیمیں جو کہ ہمارے معاشرہ کا انتہائی اہم اور فعال عنصر ہیں انہیں بھی ایک دوسرے کے قریب آنے اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ اور معاشرے میں، پارلیمان میں اور میدان سیاست میں مزدوروں کا جائز مقام دلانے کے لیے جدوجہد جاری رکھنا چاہیے۔ یوم مئی 2014 آگے بڑھنے اور ترقی کا پیغام دیتا ہے، اس پر عمل وقت کی ضرورت ہے۔
مسائل کی چکی میں پستی محنت کش خواتین
مسائل کی چکی میں پستی محنت کش خواتین ہمارے سماج کا وہ حصہ ہیں جن پر اہل قلم نے بھی خوب طبع آزمائی کی تو انسانی اور خواتین کے حقوق کی علم بردار تنظیمیں بھی آوازیں بلند کرتی رہیں لیکن افسوس کہ یہ خواتین اپنی انتھک محنت اور مشقت کے باوجود آج بھی عزت کی متلاشی اور معاشی بدحالی کا شکار نظر آتی ہیں۔
شکنتلا بیوٹی پارلروں اور رہائشی عمارتوں کی صفائی کا کام کرتی ہے، پانچ بیٹیوں کی اس ماں کے حوصلے نہایت بلند ہیں، زندہ دل اور چہار سو قہقہے بکھیرتی اس خاتون کو دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ نو گھنٹے اتنا پُرمشقت کام کرتی ہوگی۔ لیکن اس کی کٹی پھٹی ایڑیوں اور ہاتھوں میں پڑے گٹے دیکھ کر اس کی مشقت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
شکنتلا خود اتنی پڑھی لکھی تو نہیں لیکن اتنے پرمشقت کام کے عوض ملنے والی قلیل تنخواہ میں بھی اس نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے محروم نہیں رکھا۔ اس کا کہنا ہے کہ میں اپنی بیٹیوں کے ہاتھوں میں جھاڑو نہیں دینا چاہتی تھی، لہٰذا میں نے قلم کا انتخاب کیا۔ سماج کے رویے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس پیشے میں عزت نہیں ہے، جن کے گھروں کا ہم گند صاف کرتے ہیں، ان کی نظروں میں ہی ہمارے لیے اتنی حقارت ہوتی ہے کہ دل کٹ سا جاتا ہے۔ مرد حضرات اکثر فقرے کستے اور میلی نظروں سے تکتے ضرور ہیں، لیکن جھاڑو کو میں اپنے دفاعی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہوں۔
حالات کی ستائی ہوئی ایک اور خاتون عذرا بانو ایک تولیے کی فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ شوہر کی دوسری شادی کے بعد اب وہ اپنے دو بچوں کی واحد کفیل ہیں۔ بارہ گھنٹے کی مشقت کے بعد یومیہ دوسو سے ڈھائی سو روپے کمانے والی اس خاتون کا کہنا ہے کہ مرد سپروائزر کا رویہ خواتین ورکرز کے ساتھ انتہائی برا ہوتا ہے۔ وہاں انہیں نہ صرف مرد ساتھیوں کے غیر اخلاقی رویوں کے ساتھ ساتھ سپروائزر کی حریصانہ نگاہیں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں بلکہ انہیں یوں محسوس کروایا جاتا ہے کہ جیسے انہوں نے اپنے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اپنی ذات بھی بیچ ڈالی ہو۔عذرا اور شکنتلا جیسی محنت کش خواتین کی طرح ایسی ہی سیکڑوں کہانیاں ہمارے معاشرے کے قرطاس پر بکھری ہوئی ہیں۔ یکم مئی ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ وہ پیٹ بھرا ہوا سرمایہ دار طبقہ جو کہ مزدوروں کے استحصال کا باعث بنا، وہی عالیشان ہوٹلوں میں تقاریب منعقد کرواتا ہے، اس پر مستزاد انہیں میڈیا کوریج بھی خوب ملتی ہے لیکن وہاں ایک عام مزدور خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس کی نمائندگی نظر نہیں آتی، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب انہیں نمائندگی کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا تو تبدیلی کیا خاک رونما ہوگی؟ منہگائی اور معاشی نا انصافیوں کے ذریعہ اس طبقے کو تو روزی روٹی کے چکر ہی میں اس قدر پھنسا دیا گیا ہے کہ اسے تو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ مزدوروں کا عالمی دن آتا کب ہے؟ اور اچھا ہی ہے ... یومیہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور حکومت کی جانب سے دی جانے والی اس ''عام تعطیل'' نامی عیاشی کا کیسے متحمل ہوسکتا ہے؟
مزدوروں کی تحریک کا آغاز امریکا کے شہر شکاگو سے 1884 میں ہوا۔ خواتین بھی اس جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ رہیں۔ اس دور میں نہ صرف خواتین کی ایک بڑی تعداد لیبر فورس میں شامل ہورہی تھی بلکہ انہیں امتیازی رویوں اور مردوں کے مقابلے میں کم اجرت جیسے مسائل کا بھی سامنا تھا، لہٰذا 1908 میں امریکا کی سوشلسٹ خواتین کی جانب سے محنت کش خواتین کے معاشی استحصال اور دیگر سماجی ناانصافیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
آج خواتین ہمیں کھیتوں، فیکٹریوں اور صنعتوں میں بھی کام کرتی نظر آتی ہیں تو کہیں چار دیواری ہی میں سلائی کڑھائی اور دیگر چھوٹے موٹے بزنس کرکے اپنے خاندان کا ہاتھ بٹاتی نظر آتی ہیں۔ کہیں پولیو ورکرز کی صورت میں نئی نسل کو صحت مند زندگی کی نوید دینے والیاں درندوں کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں تو کہیں حالات کے بے رحم تھپیڑے انہیں دوسروں کی غلامی پر مجبور کررہے ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والی کسان خواتین سخت مشقت کے باوجود وہ آج تک زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی اپنے نام کروانے میں ناکام ہیں، جائیداد تو بہت دور کی بات اس کی تو محنت کا معاوضہ تک اس کے باپ، بھائی یا شوہر کی صورت میں مرد وصول کرلیتا ہے، حکومت بھی خواتین کے اس معاشی استحصال کے خلاف کوئی قانون سازی کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
محنت کش خواتین کو گھر سے باہر قدم رکھتے ہی راہ چلتے مردوں اور ساتھ کام کرنے والے مرد ساتھیوں کی جانب سے نازیبا رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ ہراساں کرنے کے خلاف قانون بھی بن چکا ہے لیکن جب تک قانون کی عمل داری نہ ہو تو ایسی کاغذی دستاویز کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ پاکستان میں خواتین گھریلو ملازمین لیبر فورس کا ایک بڑا حصہ ہونے کے باوجود لیبر قوانین میں محض دو جگہ گھریلو ملازمین کا ذکر کیا گیا ہے۔
پہلا سوشل سیکوریٹی آرڈیننس 1965، جس میں ایک مالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کل وقتی گھریلو ملازمین کی صحت سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں معاونت کرے (اس میں ڈلیوری کیسز بھی شامل ہیں) تاہم اس قانون میں ایسا کوئی طریقہ کار نہیں بتایا گیا کہ جس کے تحت یہ چیک کیا جاسکے کہ آیا مالک اس قانون پر کاربند ہے بھی یا نہیں۔ ''منیمم ویجز ایکٹ 1961'' میں ملازمین کی تعریف میں گھریلو ملازمین بھی شامل ہیں، تاہم حکومت کی جانب سے کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا کہ اس قانون کا اطلاق گھریلو ملازمین پر ہوگا یا نہیں۔ خواتین گھریلو ملازمین کے جسمانی، سماجی اور معاشی تحفظ کے لیے مؤثر قانون سازی حکومت وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
تجدیدِ عہد کا دن
آج سے 128 سال قبل 1886ء یکم مئی کو امریکا کے صنعتی شہر شکاگو کے مزدوروں نے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھے، جس سے جبری مشقت لی جاتی تھی اور ان کے اوقات کار بھی طے نہیں تھے۔ مزدوروں کا یہ مطالبہ تھا کہ وہ 24 گھنٹوں میں آٹھ گھنٹے کام کریں گے اور آٹھ گھنٹے گھر کے کاموں کو دیں گے اور باقی آٹھ گھنٹے آرام کریں گے۔
مزدور اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہاتھوں میں سفید جھنڈے (جو امن کا نشان ہے) لے کر پرامن جلوس کے لیے نکلے۔ سرمایہ داروں کی حامی پولیس نے پرامن جلوس پر گولیاں چلادیں۔ بہت سے بے گناہ مزدور مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ مزدور راہ نماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر جھوٹے مقدمے بنائے اور پھانسیوں کی سزا سنائی گئی۔ ان راہ نماؤں میں سے ایک نے پھانسی چڑھنے سے قبل کہا:''تم ہمیں مار سکتے ہو ہماری تحریک ختم نہیں کر سکتے۔''
اس مزدور راہ نما کے یہ الفاظ سچ ثابت ہوئے اور یوم مئی دنیا بھر کے محنت کشوں کا عالمی دن بن گیا۔ اس دن محنت کش تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ مزدور جلوس نکالتے ہیں، جن میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مطالبات کیے جاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاریخ میں پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے مزدوروں کے حقوق کی بات کی اور 1972ء میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو نے یوم مئی پر عام تعطیل کا اعلان کیا۔ تب سے یہ دن سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ بہتر حالات کار انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 37-C بھی یہ کہتا ہے کہ ریاست قوانین کے ذریعے اچھے حالات کار اور محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ ہر طرح کے استحصال کو ختم کرے اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پاکستان نے اقوام متحدہ کے ڈیکلریشن پر 1948ء میں دستخط کیے تھے، جس میں کام کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ہر شخص کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق بہتر حالات کار میں کام کرے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں پرامن صنعتی ماحول قائم ہو اور صنعت ترقی کرے تو ہمیں محنت کشوں کے جائز مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے، کیوںکہ ایک صحت مند مطمئن مزدور ہی خوش حال اور ترقی یافتہ معاشرے کی ضمانت ہے۔
محنت کشوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مزدوروں کو یونین سازی کی آزادی دی جائے۔ تمام صنعتی اداروں میں لیبر قوانین کا نفاذ کیا جائے۔ عارضی ملازمین کو مستقل کیا جائے۔ ٹھیکے داری نظام کا خاتمہ ہو۔ لیبر پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور ایک نئی مزدور دوست لیبر پالیسی تشکیل دی جائے۔ محنت کشوں کو سوشل سیکیوریٹی کی سہولیات فراہم کی جائیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد قانون کے مطابق پنشن دی جائے۔ بھٹے کے مزدوروں پر لیبر قوانین کا نفاذ ہو اور بچوں سے جبری مشقت کروانے پر پابندی لگائے جائے۔ خواتین ورکرز کو بلا تفریق جنس مرد ورکرز کے برابر مراعات دی جائیں۔ پارلیمنٹ میں مزدوروں کی مخصوص نشستیں رکھی جائیں تاکہ پارلیمنٹ میں براہ راست نمائندگی ہوسکے۔ مزدوروں کی لیبر کورٹس میں محکمہ محنت مزدوروں کو صنعت قانونی امداد کا بندوبست کرے۔
محنت پر سرمائے کی بالادستی کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد صدیوں پر محیط ہے اور اس میں سب سے نمایاں دن یکم مئی ہے، جو انسانی تاریخ میں محنت کی عظمت اور جدوجہد کے استعارے کے طور پر ابھر ا ہے۔ 128 برس پہلے شکاگو میں سرمائے کے جبر کے خلاف اٹھنے والی پر امن آواز کو طاقت کے زور پر خون میں نہلا دیا گیا، لیکن خون میں لتھڑے اور پھانسی کے پھندے پر بہادری سے جھولتے ہوئے محنت کشوں نے بغاوت کا ایسا علم بلند کیا جو ہر آنے والے دن تمام تر نامساعد حالات کے باوجود محنت کشوں کی تحریک کو توانائی بخش رہا ہے۔ کارخانوں، کھیتوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کارگاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں محنت جھونکنے والے کروڑوں محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بنیاد ہوتے ہوئے بھی زندگی کی تمام رعنائیوں سے محروم اور محکوم ہیں۔
پوری دنیا خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک کے محنت کش بدترین دوہرے استحصال کا شکار ہیں۔ ایک تو تیسری دنیا کے باشندے ہونے کی حیثیت سے بین الاقوامی سرمائے کے تسلط اور سام راجی پالیسیوں کے نتیجے میں چھینی جانے والی آزادیاں اور معاشی و سیاسی غلامی ہے، تو دوسری طرف بحیثیت محنت کش مقامی و بین الاقوامی سرمایہ داروں کا براہ راست استحصال، جس نے ہر فرد کو زندہ رہنے کے لیے کم از کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ جسمانی و ذہنی محنت کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
مشینوں کی زبردست ترقی اور برق رفتار پیداواری عمل کے جبر نے انسان کو ایک کل پرزہ بنا کر رکھ دیا ہے جو قلیل سے قلیل وقت میں ناقابل تصور پیداوار کا باعث بن رہا ہے، جس کا مطلب سرمایہ دار کے منافع میں بے تحاشا اضافہ ہے، اس کے باوجود مزدور کے اوقات کار میں اضافہ اجرتوں میں حقیقی کمی کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے۔ یہ سرمایہ داری نظام کے جوہر میں ایک ایسا تضاد اور بُعد ہے جو صرف اور صرف کسی ایک فریق کے مکمل طور پر فنا ہونے سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔ سماجی سائنس کا علم حتمی نتیجے میں سرمایہ دار طبقے کے فنا ہی کی نشان دہی کرتا نظر آتا ہے۔
سوویت یونین اور دیگر اشتراکی ممالک میں مزدور حکومتوں کے خاتمے نے سرمایہ داری کو مادر پدر آزادی دے دی ہے۔ یہ ساری دنیا کے وسائل پر بلاشرکت غیرے قبضے اور وسائل سے مالامال خطوں پر جنگیں مسلط کر رہی ہے اور اپنے مفادات کے آڑے آنے والی حکومتوں کو طاقت اور سازش سے پلٹ رہی ہے۔ یہ سرمائے اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر انسانی مسکن یعنی کرہ ٔ ارض کو جہنم بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اس سارے گھناؤنے عمل میں اسے مقامی حکم راں طبقا ت اور اسلحے سے لیس منظم اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ایسی ہی کچھ صورت حال پاکستان میں بھی نظر آتی ہے جہاں حکومتی طریقۂ کار کی تبدیلی کے باوجود عام انسانوں خصوصاً محنت کشوں کی زندگیوں میں رتی بھر بھی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوئی اور نہ ہی ہونے کا امکان ہے۔
ملک میں فوجی حکومت ہو یا جمہوری حکومت، اقتدار کے ایوانوں تک صرف ذرائع پیداوار کے مالک طبقات اور ان کے مفادات کے نگہبان افراد ہی پہنچ پاتے ہیں۔ تمام ریاستی ادارے آخری تجزیے میں ہمیشہ محنت کش طبقات کے مخالف ہی نظر آتے ہیں ۔ پاکستان کے صنعتی اداروں خصوصاً نجی اداروں میں محنت کش نہایت ہی بنیادی نوعیت کے حقوق سے بھی محروم ہیں۔ پاکستان کی 6 کروڑ سے زاید لیبر فورس میں سے صرف 2.8 فی صد یونین سازی کے حق سے بہرہ مند ہیں۔ ان میں بھی پبلک سیکٹر کا حصہ 65 فی صد سے زاید ہے اگر پبلک سیکٹر کے اداروں کو نکال دیا جائے تو پرائیویٹ سیکٹر میں منظم مزدوروں کی تعداد 1 فی صد سے 1.5 فی صد تک رہ جاتی ہے۔
سرمایہ دارانہ منڈی میں خوف ناک حد تک بڑھتے ہوئے مقابلے کے رجحان نے مزدوروں کی مراعات کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔ منافع کی اس اندھی دوڑ میں پیداواری عمل کو فیکٹریوں کارخانوں سے نکال کر رہائش گاہوں میں منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں کروڑوں محنت کش جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے، جو اپنے گھروں کو بلا معاوضہ فیکٹریوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور نہایت ہی قلیل اجرت پر مصنوعات تیار کرکے سرمایہ داروں کے منافع کے لیے ایندھن کا کام دے رہے ہیں۔
ان مزدوروں کے لیے کوئی قانون موجود نہیں اور نہ ہی انہیں قانونی مراعات حاصل ہیں۔ ایسی ہی صورت حال زراعت سے وابستہ کروڑوں محنت کشوں کی ہے جو ملکی معیشت کے پیداواری عمل میں بنیادی اہمیت کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ زرعی محنت کش غلاموں سے بدتر حالات کار میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور ان کی زندگیوں میں صدیوں سے کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ صوبہ سندھ میں پہلی بار زراعت پر بھی صنعتی تعلقات ایکٹ 2013 لاگو ہو گیا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہاریوں نے اپنی ٹریڈ یونین ''سندھ ایگرکلچر جنرل ورکرز یونین'' رجسٹرڈ کروائی ہے۔ اب قانوناً یہ ہاری دیگر مزدوروں کی طرح ہر قسم کی مراعات کے حق دار ہیں، لیکن حقوق اور مراعات کا حصول دیگر محنت کشوں کی نسبت ان کے لیے زیادہ مشکل اور جدوجہد طلب ہے۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جنھوں نے بین الاقوامی ادارۂ محنت آئی ایل او کے 28 کنونشن پر دستخط اور ان کی توثیق کی ہے اور ان میں 9بنیادی کنونشن بھی شامل ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ نجی شعبے میں کام کرنے والے 90 فی صد پیداواری ادارے فیکٹری ایکٹ کے تحت رجسٹر ہی نہیں ہے، جب کہ 95 فی صد سے زاید محنت کش تقرر ناموں سے محروم ہیں، جس کی بنا پر وہ 20 سے 25 سال تک ایک ادارے میں کام کرنے کے باوجود اس ادارے سے اپنے قانونی اور جائز تعلق کو ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ملکی لیبر قوانین پر عمل درآمد خواب لگتا ہے، جن کے تحت لازم ہے کہ ہر ملازم کو سماجی تحفظ کے ادارے سے رجسٹر کرکے کارڈ دیا جائے، تاکہ وہ اور ان کے خاندان صحت کی سہولیات حاصل کرسکیں لیکن 95 فی صد سے زاید مزدور اس حق سے محروم ہیں۔ جن 5 فی صد مزدوروں کو سوشل سیکیوریٹی کے اداروں سے رجسٹر کیا جاتا ہے، ان کو بھی سوشل سیکیوریٹی کا رڈز نہیں دیے جاتے۔ مبادا وہ اپنے مزید حقوق کے لیے تگ و دو نہ شروع کردیں، جن میں یونین سازی کا حق بھی شامل ہے۔ یہی صورت حال ای او بی آئی (اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ) میں رجسٹریشن کی بھی ہے۔ مزدوروں کے پاس سوشل سیکیوریٹی کارڈ اور تقررنامہ نہ ہونے کی بنا پر وہ کسی بھی تنازع کی صورت میں لیبر کورٹس تک رسائی نہیں کر سکتے اور نہ ہی قانونی طور پر یونین بناکر اجتماعی سودا کاری کے تحت حقوق کا دفاع اور مالکان اور فیکٹری انتظامیہ سے مراعات حاصل کرسکتے ہیں۔
اس سے بھی بدتر صورت حال یہ ہے کہ 90 فی صد سے زاید مزدور حکومتی اعلان کردہ کم از کم تن خواہ ماہانہ دس ہزار روپے، جو کہ غیرہنرمند کے لیے ہے، اس سے بھی محروم ہیں۔ اکثر فیکٹریوں میں مزدور6000 سے 7000 روپے پر 12 سے 14 گھنٹے کام کر تے ہیں، لیکن اضافی کام کا انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ کارخانوں میں ٹھیکے داری نظام پورے جبر کے ساتھ موجود ہے، جس نے مزدوروں کو ذہنی طور پر مفلوج اور خوف زدہ کر رکھا ہے۔ بغیر اطلاع اور نوٹس کے برخاست کرنے کے خوف نے پیداواری عمل کو بری طرح نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ کئی ایک ذہنی بیماریوں کو بھی جنم دیا ہے۔
فیکٹریاں کارخانے عملاً ہر قسم کی لیبر انسپیکشن سے مبرا ہیں، جس کے نتیجے میں کام کی جگہیں قتل گاہیں بن چکی ہیں، جہاں ہیلتھ اور سیفٹی کے ملکی اور بین الاقوامی بنیادی اصولوں کو مجرمانہ حد تک نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس کی واضح مثال ستمبر 2012 میں علی انٹر پرائز بلدیہ کراچی کی گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی بھیانک آگ ہے جس میں جھلس کر260 سے زاید محنت کش شہید ہوگئے۔ اس المناک سانحہ کے باوجود فیکٹریوں کارخانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے کسی بھی قسم کے اقدامات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
پاکستان کا انسانی حقوق اور مزدور قوانین کی پاس داری کے حوالے سے ریکارڈ بین الاقوامی طور پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس سوالیہ نشان کے مضمرات پاکستان کے حکم راں اور سرمایہ دار سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کو اس سال کے شروع میں GSP+ (جنرل سسٹم آف پریفرنس پلس) جیسی خصوصی حیثیت یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے دس برس کے لیے دی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کا بنا مال خصوصاً ٹیکسائل گارمنٹ کو یورپی منڈیوں تک بغیر کسی رکاوٹ اور ڈیوٹی کی چھوٹ کے ساتھ رسائی حاصل ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی ایکسپورٹ میں سالانہ ایک ارب ڈالر زاید اضافے کا امکان ہے اور یہ اضافہ سالانہ13 فی صد کے حساب سے ہوگا۔
ایک اندازے کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ 13ارب ڈالر سے بڑھ کر 26 ارب تک جا پہنچے گی۔ یوں صرف اس شعبے سے 10 لاکھ محنت کشوں کے لیے روز گار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس GSP+ معاہدے کے تحت حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آئی ایل او کے بنیادی مزدور معیارات کو حقیقی معنوں میں فیکٹریوں میں لاگو کرے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا اور اس بارے میں صنعت کار مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت اور صنعت کاروں نے GSP+ کے تحت مزدوروں کے لیے تجویز کیے گئے حقوق نہ دیے تو یہ خصوصی حیثیت واپس لی جا سکتی ہے، جس کے پاکستان کی معیشت پر نہایت ہی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک رسائی کے خصوصی حیثیت کے نتیجے میں ہونے والی ترقی کے ثمرات مزدوروں تک پہنچنے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔
موجودہ حکومت جو ترقی اور معاشی ابتری کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ اس نے آتے ہی محنت کش عوام دشمن پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کا اعلانیہ ثبوت دیا ہے۔ پبلک سیکٹر کے اداروں کی نج کاری کا اعلان ملک کے محنت کشوں پر ضرب کاری ہے۔ بجلی گیس پانی اور دیگر اداروں کی نج کاری کا براہ راست نتیجہ بجلی، گیس، پانی اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور لاکھوں محنت کشوں کی بے روزگاری کی شکل میں نمودار ہو گا اور سارے سماج مین بد ترین انارکی پھیلے گی جو منظم تحریک نہ ہونے کی بنا پر سماج کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔ پچھلے ادوار کی نجکاری کے بھیانک نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اداروں کی نج کاری دراصل مزدور کے لیے موت کا پیغام ہے۔
حکومت بین الاقوامی سامراجی پالیسی سازوں کی ایما پر محنت کش عوام سے تمام مراعات چھین رہی ہے۔ بجلی گیس پر ملنے والی ریاستی رعایت (سبسڈی) بتدریج واپس لے لی گئی ہے اور سماج کو سوشل ڈارون ازم کے اصول کے تحت چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا واحد مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس جتنی دولت ہے وہ اتنی ہی بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔ جس کے پاس پیسہ ہے وہ علاج کروائے، تعلیم ، پانی ، بجلی اور گیس حاصل کرے جو پیسے سے محروم ہے اس کے لیے زندگی میں اندھیرا ہی اندھیر ا ہے۔ اس گمبھیر صورت حال میں جب مزدور قانون میں دیے گئے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو اسے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یونین سازی بنیادی حق ہے، لیکن کراچی اور فیصل آباد میں پاور لومز کے ورکرز پر یونین بنانے کی پاداش میں ، دہشت گردی ایکٹ کے تحت درجنوں مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
آج محنت کشوں کی جدوجہد کی علامت اور عظیم دن اس امر کی تجدید کرنے کا سبق دیتا ہے کہ مزدوروں کو بحیثیت طبقہ اپنی بقا اور اپنے قانونی حقوق کے حصول کے لیے ایک منظم ٹریڈیونین اور مزدور تحریک کی اشد ضرورت ہے، جو حالات کا مکمل ادراک رکھتی ہو اور وہ مزدوروں پر سرمایہ داروں اور حکومت کی جانب سے ہونے والے مہلک حملوں کا جواب دینے کی ٹھوس حکمت عملی رکھتی ہو۔ یہ کام ایسی مزدور تحریک اور ٹریڈ یونین ہی کر سکتی ہے جس کی قیادت سیاسی و نظریاتی طور پر طبقاتی شعور سے لیس ہو۔ مزدور طبقے کے ذہنوں کو مذہبی، فرقہ وارانہ لسانی اور نسلی تعصبات پر مبنی جہالت کے اندھیروں اور بالادست طبقات کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کے اثر سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے بنیادی حقوق اور روزمرہ کے مسائل پر منظم ہو کر جدوجہد کا آغاز کیا جائے جو کہ مزدوروں کسانوں اور محنت کرنے والے عام انسانوں کی ایک انقلابی سیاسی جماعت کی تشکیل کی جانب لے کر جائے گا۔
محنت کش طبقہ کا عہد ہے کہ وہ یکم مئی کے شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دے گا اور کرۂ ارض سے سرمائے کی بربریت اور وحشت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔ اس لیے کہ ''مزدوروں کو اپنی زنجیروں کے سوا کھونا ہی کیا ہے اور پانے کے لیے ساری کائنات پڑی ہے۔''
پاکستان میں مزدوروں کے حالات
ہر سال کی طرح امسال بھی پاکستان کے محنت کش عوام دنیا بھر کے مزدوروں، غریبوں، مظلوموں اور جمہوریت پسند عوام کے شا نہ بشانہ یوم مئی منائیں گے اور اُن شہید مزدور راہ نماؤں اور کارکنوں کو خراج عقیدت پیش کریں گے جنہوں نے 1886 میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، زہر کا پیالہ پیا اور مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوما اور رہتی دنیا تک کے لیے جدوجہد اور قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کرگئے۔ 1886 سے قبل بھی یورپ اور امریکا کے مختلف ممالک اور شہروں میں صنعتی مزدور جابرانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑتے رہے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مئی 1886 میں شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد ان تمام تحاریک کا نقطۂ عروج تھی جنہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے بھیانک چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو نوچ کر پھینک دیا اور دنیا نے اُس کا اصل چہرہ دیکھ لیا۔ اس عظیم تحریک کے قائدین کو بدترین بربریت کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں پھانسی کی سزائیں دی گئیں۔ اس طرح استحصالی نظام کے آقاؤں اور اُن کے پروردہ عناصر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے ہوں گے کہ انہوں نے غریبوں اور مظلوموں کی آواز کا گلا ہمیشہ کے لیے گھونٹ دیا ہے، مگر تاریخ کوئی اور فیصلہ کرچکی تھی۔ آج 2014 میں 128 سال بیت جانے کے بعد شکاگو کی مزدور تحریک کے قائدین دنیا بھر کے ہیروز اور کروڑہا محنت کشوں کی آنکھ کا تارا ہیں، جب کہ اُن پر مظالم کرنے والوں کا نام و نشان بھی مٹ چکا ہے۔
شکاگو کی مزدور تحریک کے واقعات کی تفصیل میں جائے بغیر ہم اپنے ملک کی موجودہ صورت حال محنت کشوں کے حالات کار اور ٹریڈ یونین و مزدور تحریک پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ سال بہ سال ہمارے ہاں صورت حال انحطاط پذیر ہے۔ بڑی تعداد میں رجسٹرڈ ٹریڈ یونینز، ٹریڈ یونینز فیڈریشنز اور مختلف سیاسی جماعتوں کے لیبر ونگز موجود ہیں، لیکن عملی طور پر میدان تقریباً خالی ہی دکھائی دیتا ہے۔ گوکہ مزدور تنظیموں نے سیاسی اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہوکر انتہائی خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوششیں کی ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ کاوشیں کوئی منظم شکل اختیار نہیں کرسکیں، جب کہ دوسری طرف فری مارکیٹ اکانومی اور گلوبلائزیشن کے نظریات نے ٹریڈ یونین تحریک کو دیوار کے ساتھ لگادیا ہے۔
آج بھی کارخانوں، اداروں اور دفاتر میں لاکھوں کی تعداد میں ملازمین کام کررہے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے باوجود ٹریڈ یونینز کی ممبر شپ دن بہ دن گرتی جارہی ہے۔ ٹھیکے داری نظام اور تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم نے ٹریڈ یونین تحریک کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔ وہ دن اب خواب وخیال بن کر رہ گئے ہیں جب ان اداروں میں ٹریڈ یونین کی ممبرشپ ہزاروں میں ہوا کرتی تھی۔ اب حالت یہ ہے کہ بڑے بڑے ادارے، جہاں پندرہ اور بیس ہزار کی تعداد میں افراد ی قوّت موجود ہے، وہاں ٹریڈ یونینز کی ممبرشپ چند سو افراد تک محدود ہے، دیگر ملازمین کو قانون کا غلط سہارا لے کر اس حق سے محروم کردیا گیا ہے اور ٹھیکے داری نظام یا تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم کے تحت زندگی کا عذاب کاٹنے پر مجبور ہیں، جہاں انہیں ایک کارکن کی حیثیت سے اُن کے بنیادی حقوق اور سہولتوں سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ملازمین کم از کم اجرت (جوکہ فی الوقت 10,000/-روپے ماہانہ ہے) کے تحت کام کرنے پر مجبور ہیں۔
یہاں یہ الزام بھی عام ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے بیشتر اداروں میں کم از کم اجرت کی رقم بھی کارکنان کو ادا نہیں کی جاتی، جب کہ کم از کم ماہانہ اجرت پر کام کرنے والی افرادی قوّت، طبّی سہولتوں، بونس، سالانہ اضافہ، ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئر بورڈ کی جانب سے دی جانے والی سہولتوں اور سوشل سیکیوریٹی کی اسکیم سے بھی فوائد حاصل نہیں کرپاتی۔ اس کے علاوہ پرائیویٹائزیشن کے عمل نے بھی پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کی قوّت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ مختلف اداروں کی پرائیویٹائزیشن کے بعد ڈاؤن سائزنگ کے ذریعہ اور رائٹ سائزنگ کے نام پر لاکھوں ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا۔ بعض کارخانے نجکاری کے بعد بند کردیے گئے اور اُن کی زمینوں کو بیچ دیا گیا چناں چہ ہمارے یہاں نجکاری اور بیروزگاری کو لازم و ملزوم تصّور کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف یہ الزام بھی عام ہے کہ سرکاری تحویل کے اداروں اور کارپوریشنز میں بدانتظامی اور کرپشن ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں یہ ادارے ہر سال اربوں روپے کے نقصان میں جاتے ہیں اور پھر حکومت کو انہیں سنبھالنے اور چلانے کے لیے سرکاری خزانے سے عوام کے ٹیکس کے اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ جہاں تک ملک میں صنعتی ترقی کا تعلق ہے تو کئی دہائیوں سے اس میں پیش رفت نظر نہیں آرہی۔ بتایا جاتا ہے کہ اب بھی تقریباً ساڑھے تین ہزار کارخانے بند پڑے ہیں، لیکن انہیں چلانے کی کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی جاسکی ہے۔ موبائل فون انڈسٹری، فاسٹ فوڈ کی تجارت اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی ہمارے معاشرے میں آئی ہیں اور اُنہوں نے سماج میں بڑی تبدیلیاں بھی پیدا کی ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تجارت کا عروج صنعتی ترقی کا انجن نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے بہرکیف بڑی بڑی صنعتوں اور کارخانوں کا احیاء ضروری ہے، جن میں لاکھوں افراد کو روزگار حاصل ہوسکے۔
پاکستان میں مزدوروں اور عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے صنعتی ترقی کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں۔ جب صنعتیں قائم ہوں گی تو عوام کو روز گار ملے گا۔ ٹریڈ یونینز قائم ہوں گی، جو محنت کشوں میں حقوق کا شعور بیدار کریں گی اور اس طرح جمہوری جدوجہد بھی مضبوط ہوکر آگے بڑھے گی۔ سرکاری تحویل کے اداروں اور کارخانوں کی ری اسٹرکچرنگ کرکے انہیں انتہائی پروفیشنل انتظامیہ کے حوالے کردینا چاہیے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے انڈسٹرلائزیشن کے لیے اتفاق رائے سے پالیسی اور حکمت عملی ترتیب دی جانی چاہیے۔ چوں کہ شعبۂ محنت مکمل طور پر صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے، لہٰذا اب یہ اختیار کلّی طور پر صوبائی حکومتوں کا ہے کہ وہ کس طرح اس شعبے کو صوبے کی ترقی اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک مشورہ یہ ہے کہ محنت کشوں کے حوالے سے کام کرنے والے تمام اداروں کی ری اسٹرکچرنگ کی جائے اور انہیں بھی جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرکے میدان عمل میں لایا جائے۔ صوبائی حکومتیں محنت کش تنظیموں اور آجروں کی تنظیموں کی مشاورت سے لیبر قوانین اور صنعتی قوانین میں ترامیم اور اضافہ کرے۔ ہر سال ہر صوبے میں ایک لیبر کانفرنس مئی کے مہینے میں منعقد کی جانی چاہیے، جس میں مزدوروں، آجروں، حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے نمائندگان شرکت کریں، تاکہ ان طبقات کے مابین کوئی بڑا کمیونیکیشن گیپ پیدا نہ ہوسکے۔ مزدور تنظیمیں جو کہ ہمارے معاشرہ کا انتہائی اہم اور فعال عنصر ہیں انہیں بھی ایک دوسرے کے قریب آنے اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ اور معاشرے میں، پارلیمان میں اور میدان سیاست میں مزدوروں کا جائز مقام دلانے کے لیے جدوجہد جاری رکھنا چاہیے۔ یوم مئی 2014 آگے بڑھنے اور ترقی کا پیغام دیتا ہے، اس پر عمل وقت کی ضرورت ہے۔
مسائل کی چکی میں پستی محنت کش خواتین
مسائل کی چکی میں پستی محنت کش خواتین ہمارے سماج کا وہ حصہ ہیں جن پر اہل قلم نے بھی خوب طبع آزمائی کی تو انسانی اور خواتین کے حقوق کی علم بردار تنظیمیں بھی آوازیں بلند کرتی رہیں لیکن افسوس کہ یہ خواتین اپنی انتھک محنت اور مشقت کے باوجود آج بھی عزت کی متلاشی اور معاشی بدحالی کا شکار نظر آتی ہیں۔
شکنتلا بیوٹی پارلروں اور رہائشی عمارتوں کی صفائی کا کام کرتی ہے، پانچ بیٹیوں کی اس ماں کے حوصلے نہایت بلند ہیں، زندہ دل اور چہار سو قہقہے بکھیرتی اس خاتون کو دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ نو گھنٹے اتنا پُرمشقت کام کرتی ہوگی۔ لیکن اس کی کٹی پھٹی ایڑیوں اور ہاتھوں میں پڑے گٹے دیکھ کر اس کی مشقت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
شکنتلا خود اتنی پڑھی لکھی تو نہیں لیکن اتنے پرمشقت کام کے عوض ملنے والی قلیل تنخواہ میں بھی اس نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے محروم نہیں رکھا۔ اس کا کہنا ہے کہ میں اپنی بیٹیوں کے ہاتھوں میں جھاڑو نہیں دینا چاہتی تھی، لہٰذا میں نے قلم کا انتخاب کیا۔ سماج کے رویے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس پیشے میں عزت نہیں ہے، جن کے گھروں کا ہم گند صاف کرتے ہیں، ان کی نظروں میں ہی ہمارے لیے اتنی حقارت ہوتی ہے کہ دل کٹ سا جاتا ہے۔ مرد حضرات اکثر فقرے کستے اور میلی نظروں سے تکتے ضرور ہیں، لیکن جھاڑو کو میں اپنے دفاعی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہوں۔
حالات کی ستائی ہوئی ایک اور خاتون عذرا بانو ایک تولیے کی فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ شوہر کی دوسری شادی کے بعد اب وہ اپنے دو بچوں کی واحد کفیل ہیں۔ بارہ گھنٹے کی مشقت کے بعد یومیہ دوسو سے ڈھائی سو روپے کمانے والی اس خاتون کا کہنا ہے کہ مرد سپروائزر کا رویہ خواتین ورکرز کے ساتھ انتہائی برا ہوتا ہے۔ وہاں انہیں نہ صرف مرد ساتھیوں کے غیر اخلاقی رویوں کے ساتھ ساتھ سپروائزر کی حریصانہ نگاہیں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں بلکہ انہیں یوں محسوس کروایا جاتا ہے کہ جیسے انہوں نے اپنے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اپنی ذات بھی بیچ ڈالی ہو۔عذرا اور شکنتلا جیسی محنت کش خواتین کی طرح ایسی ہی سیکڑوں کہانیاں ہمارے معاشرے کے قرطاس پر بکھری ہوئی ہیں۔ یکم مئی ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ وہ پیٹ بھرا ہوا سرمایہ دار طبقہ جو کہ مزدوروں کے استحصال کا باعث بنا، وہی عالیشان ہوٹلوں میں تقاریب منعقد کرواتا ہے، اس پر مستزاد انہیں میڈیا کوریج بھی خوب ملتی ہے لیکن وہاں ایک عام مزدور خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس کی نمائندگی نظر نہیں آتی، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب انہیں نمائندگی کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا تو تبدیلی کیا خاک رونما ہوگی؟ منہگائی اور معاشی نا انصافیوں کے ذریعہ اس طبقے کو تو روزی روٹی کے چکر ہی میں اس قدر پھنسا دیا گیا ہے کہ اسے تو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ مزدوروں کا عالمی دن آتا کب ہے؟ اور اچھا ہی ہے ... یومیہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور حکومت کی جانب سے دی جانے والی اس ''عام تعطیل'' نامی عیاشی کا کیسے متحمل ہوسکتا ہے؟
مزدوروں کی تحریک کا آغاز امریکا کے شہر شکاگو سے 1884 میں ہوا۔ خواتین بھی اس جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ رہیں۔ اس دور میں نہ صرف خواتین کی ایک بڑی تعداد لیبر فورس میں شامل ہورہی تھی بلکہ انہیں امتیازی رویوں اور مردوں کے مقابلے میں کم اجرت جیسے مسائل کا بھی سامنا تھا، لہٰذا 1908 میں امریکا کی سوشلسٹ خواتین کی جانب سے محنت کش خواتین کے معاشی استحصال اور دیگر سماجی ناانصافیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
آج خواتین ہمیں کھیتوں، فیکٹریوں اور صنعتوں میں بھی کام کرتی نظر آتی ہیں تو کہیں چار دیواری ہی میں سلائی کڑھائی اور دیگر چھوٹے موٹے بزنس کرکے اپنے خاندان کا ہاتھ بٹاتی نظر آتی ہیں۔ کہیں پولیو ورکرز کی صورت میں نئی نسل کو صحت مند زندگی کی نوید دینے والیاں درندوں کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں تو کہیں حالات کے بے رحم تھپیڑے انہیں دوسروں کی غلامی پر مجبور کررہے ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والی کسان خواتین سخت مشقت کے باوجود وہ آج تک زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی اپنے نام کروانے میں ناکام ہیں، جائیداد تو بہت دور کی بات اس کی تو محنت کا معاوضہ تک اس کے باپ، بھائی یا شوہر کی صورت میں مرد وصول کرلیتا ہے، حکومت بھی خواتین کے اس معاشی استحصال کے خلاف کوئی قانون سازی کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
محنت کش خواتین کو گھر سے باہر قدم رکھتے ہی راہ چلتے مردوں اور ساتھ کام کرنے والے مرد ساتھیوں کی جانب سے نازیبا رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ ہراساں کرنے کے خلاف قانون بھی بن چکا ہے لیکن جب تک قانون کی عمل داری نہ ہو تو ایسی کاغذی دستاویز کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ پاکستان میں خواتین گھریلو ملازمین لیبر فورس کا ایک بڑا حصہ ہونے کے باوجود لیبر قوانین میں محض دو جگہ گھریلو ملازمین کا ذکر کیا گیا ہے۔
پہلا سوشل سیکوریٹی آرڈیننس 1965، جس میں ایک مالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کل وقتی گھریلو ملازمین کی صحت سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں معاونت کرے (اس میں ڈلیوری کیسز بھی شامل ہیں) تاہم اس قانون میں ایسا کوئی طریقہ کار نہیں بتایا گیا کہ جس کے تحت یہ چیک کیا جاسکے کہ آیا مالک اس قانون پر کاربند ہے بھی یا نہیں۔ ''منیمم ویجز ایکٹ 1961'' میں ملازمین کی تعریف میں گھریلو ملازمین بھی شامل ہیں، تاہم حکومت کی جانب سے کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا کہ اس قانون کا اطلاق گھریلو ملازمین پر ہوگا یا نہیں۔ خواتین گھریلو ملازمین کے جسمانی، سماجی اور معاشی تحفظ کے لیے مؤثر قانون سازی حکومت وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
تجدیدِ عہد کا دن
آج سے 128 سال قبل 1886ء یکم مئی کو امریکا کے صنعتی شہر شکاگو کے مزدوروں نے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھے، جس سے جبری مشقت لی جاتی تھی اور ان کے اوقات کار بھی طے نہیں تھے۔ مزدوروں کا یہ مطالبہ تھا کہ وہ 24 گھنٹوں میں آٹھ گھنٹے کام کریں گے اور آٹھ گھنٹے گھر کے کاموں کو دیں گے اور باقی آٹھ گھنٹے آرام کریں گے۔
مزدور اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہاتھوں میں سفید جھنڈے (جو امن کا نشان ہے) لے کر پرامن جلوس کے لیے نکلے۔ سرمایہ داروں کی حامی پولیس نے پرامن جلوس پر گولیاں چلادیں۔ بہت سے بے گناہ مزدور مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ مزدور راہ نماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر جھوٹے مقدمے بنائے اور پھانسیوں کی سزا سنائی گئی۔ ان راہ نماؤں میں سے ایک نے پھانسی چڑھنے سے قبل کہا:''تم ہمیں مار سکتے ہو ہماری تحریک ختم نہیں کر سکتے۔''
اس مزدور راہ نما کے یہ الفاظ سچ ثابت ہوئے اور یوم مئی دنیا بھر کے محنت کشوں کا عالمی دن بن گیا۔ اس دن محنت کش تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ مزدور جلوس نکالتے ہیں، جن میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مطالبات کیے جاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاریخ میں پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے مزدوروں کے حقوق کی بات کی اور 1972ء میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو نے یوم مئی پر عام تعطیل کا اعلان کیا۔ تب سے یہ دن سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ بہتر حالات کار انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 37-C بھی یہ کہتا ہے کہ ریاست قوانین کے ذریعے اچھے حالات کار اور محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ ہر طرح کے استحصال کو ختم کرے اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پاکستان نے اقوام متحدہ کے ڈیکلریشن پر 1948ء میں دستخط کیے تھے، جس میں کام کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ہر شخص کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق بہتر حالات کار میں کام کرے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں پرامن صنعتی ماحول قائم ہو اور صنعت ترقی کرے تو ہمیں محنت کشوں کے جائز مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے، کیوںکہ ایک صحت مند مطمئن مزدور ہی خوش حال اور ترقی یافتہ معاشرے کی ضمانت ہے۔
محنت کشوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مزدوروں کو یونین سازی کی آزادی دی جائے۔ تمام صنعتی اداروں میں لیبر قوانین کا نفاذ کیا جائے۔ عارضی ملازمین کو مستقل کیا جائے۔ ٹھیکے داری نظام کا خاتمہ ہو۔ لیبر پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور ایک نئی مزدور دوست لیبر پالیسی تشکیل دی جائے۔ محنت کشوں کو سوشل سیکیوریٹی کی سہولیات فراہم کی جائیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد قانون کے مطابق پنشن دی جائے۔ بھٹے کے مزدوروں پر لیبر قوانین کا نفاذ ہو اور بچوں سے جبری مشقت کروانے پر پابندی لگائے جائے۔ خواتین ورکرز کو بلا تفریق جنس مرد ورکرز کے برابر مراعات دی جائیں۔ پارلیمنٹ میں مزدوروں کی مخصوص نشستیں رکھی جائیں تاکہ پارلیمنٹ میں براہ راست نمائندگی ہوسکے۔ مزدوروں کی لیبر کورٹس میں محکمہ محنت مزدوروں کو صنعت قانونی امداد کا بندوبست کرے۔