بجلی کے واجبات کی عدم ادائیگی کا تنازع

وزارت پانی وبجلی کی جانب سےاندرون سندھ اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دعویٰ کیا گیاتھا لیکن غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے


Editorial May 01, 2014
وزارت پانی و بجلی کی جانب سے اندرون سندھ اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ فوٹو: فائل

نادہندہ سرکاری محکموں کی بجلی کاٹنے کی مہم کا آغاز ہوتے ہی بیان بازی اور سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔سندھ اسمبلی نے منگل کو ایک قرارداد اتفاق رائے کے ذریعے وفاقی وزارت پانی وبجلی کے رویے کی مذمت کے علاوہ صوبہ سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کا بھی شکوہ کیا ہے ۔اسی طرح کا اظہار خیبر پختون خوا کے وزیراعلی سمیت دیگر وزراء نے بھی کیا تھا ۔ دراصل اس مسئلے کو صوبائیت ،لسانیت یا تنگ نظری سے دیکھنے کے بجائے وسیع ترقومی اور عوامی مفاد میں دیکھنا چاہیے۔

ایک عام صارف جب بل کی ادائیگی نہیں کرتا تو اس کی لائن عدم ادائیگی پر فوراً منقطع کردی جاتی ہے جب کہ سرکاری محکموں کے ذمے لاکھوں ،کروڑوں اور اربوں روپے کے بل واجب الادا ہیں،لیکن وہ بجلی کی سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں ،اگر ہماری سوچ اور روش یہی رہی تو یہ نظام کیسے چلے گا ،بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی کیونکر ہوسکے گی ، اعداد وشمار کے تناظر میں دیکھیں تو این ٹی ڈی سی ذرایع کے مطابق ملک بھرمیں بجلی کی طلب 14300اور پیداوار 9500میگاواٹ ہے۔ملک کے میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث بجلی کا شارٹ فال 3800 میگاواٹ تک پہنچ گیا یہی سبب ہے کہ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے لوگوں کا جینا دو بھرکردیا ہے۔

سیاست دان عوام کے منتخب کردہ نمایندے ہیں انھیں عوامی مفادات کو ہی ترجیح دینی چاہیے نا کہ اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کو ، یہ درست ہے کہ وفاقی وزارت برائے بجلی وپانی نے نادہندگان کے خلاف ایک بھرپور مہم شروع کی ہے اور رقوم کی وصولی سے قومی خزانے کو فائدہ ہوگا ۔لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ وصولی کا طریقہ کار خاصا سنسنی خیز ہے ، بجلی چوری کے الزامات صوبوں یا اداروں پر براہ راست لگانے کے بجائے ریکوری کو شائستگی اور انتظامی طریقہ کار کے تحت مکمل کیا جائے ۔اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاق اور صوبوں کے درمیان انتظامی امور کی نئی حدود کا تعین کیا جاچکا ہے تو پھر جگھڑا کس بات کا ہے ۔ دراصل یہ وقت زور خطابت اور جوش جذبات دکھانے کے بجائے تحمل،برداشت اور رواداری کا ہے۔

وفاق اورصوبوں کے نمایندے سر جوڑ کر بیٹھیں اس مسئلے کا درست حل تلاش کریں اور اس کو میڈیا کی ہاٹ کیک خبر بنانے سے پرہیز کریں کیونکہ ملک کے طول وعرض میں عوام لوڈشیڈنگ پر سراپا احتجاج ہیں ،بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ8سے 12گھنٹے اور دیہی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ12سے14 گھنٹے تک پہنچ چکا ہے۔کراچی اور اندرون سندھ سمیت لاہوراور دیگر شہروں میں گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث بجلی کی آنکھ مچولی میں بھی اضافہ ہوگیا۔ ملک میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے جس کے باعث نہ صرف گھریلو صارفین کو بجلی تسلسل سے فراہم نہیں کی جا رہی جب کہ سیکڑوں صنعتی اور پیداواری یونٹ بند ہوچکے ہیں ۔

وزارت پانی و بجلی کی جانب سے اندرون سندھ اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے جب کہ سندھ سمیت پنجاب کے دیہی فیڈرز پر 18 گھنٹے بجلی بند ہو رہی ہے جس کے باعث پانی کی قلت پیدا ہو گئی۔اس منظر نامے کو کسی بھی صورت اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا ،عوام میں بے چینی کی ایک لہر پائی جاتی ہے جو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز کرسکتی ہے ۔

البتہ ایک بہتر خبر اس حوالے سے اخبارات میں شایع ہوئی ہے کہ وفاق نے گرمی کے موسم میں بجلی کی پیداوار،ترسیل ،لوڈشیڈنگ پلان،بجلی چوری کی روک تھام اور واجبات کی وصولی کے لیے صوبائی حکومتوں سے مدد لینے کا فیصلہ کرلیا ہے،اس ضمن میں وزیر اعظم اپنے بیرون ملک سے دورہ واپسی کے بعد جلد ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بلائیں گے، جس میں بجلی کی بچت کے پلان میں تجاویز پر غور کیا جائے گا ۔یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ بجلی کے بحران کا حل اور نادہندہ سرکاری اداروں سے وصولی کی مہم کو سیاسی تدبر اور انتظامی میکنزم سے حل کرنے کی ضرورت ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔