آگہی کا آشوب
اقتدار کا دیو جہاں اپنے آہنی قدم رکھ دے وہاں صدیوں کے لیے ذہن بنجر ہوجاتے ہیں۔۔۔۔
آپس کی لڑائی اب کون سی تباہی لانے والی ہے۔ یہ کوئی سربستہ راز نہیں۔ اپنے آپ کو تباہ کرنے کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں۔ ہمیں کسی بھی معاملے میں دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ ماشا اللہ جعلی اور خودساختہ لیڈروں اور مطلب پرست سیاستدانوں سے لے کر نفرت اور تعصب کے کھیتوں کی آبیاری تک تمام معاملات میں ہم ہمیشہ سے خود کفیل ہیں۔ پاکستان اپنے قیام کے چند سال بعد ہی جن طاغوتی قوتوں کے پنجے میں ہے انھیں سب جانتے ہیں۔
بعض سادہ دل لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت ہمیں قومی یک جہتی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ان کی کسی معصوم سی خواہش پہ مجھے پہلے رونا آتا ہے اور پھر ہنسی آتی ہے۔ رونا اس لیے آتا ہے کہ قوم تو 1947 سے پہلے تھی۔ اسی لیے یک جہتی بھی تھی۔ اسی اتحاد اور یگانگت نے بنگالیوں، یوپی اور دلی کے اردو بولنے والوں، مشرقی پنجاب کے پنجابی بولنے والوں، سرائیکی، پشتو، بلوچی اور سندھی بولنے والوں نے متحد ہوکر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ آگ اور خون کے دریا عبور کرکے آنے والے ایک آزاد سرزمین پہ سجدہ ریز بھی ہوئے، خاک وطن کو آنکھوں سے بھی لگایا۔
مل جل کر رہنے لگے اور نامساعد حالات میں ملک کی ترقی کے لیے مل کر کام کرنے لگے۔ کیونکہ یہ ایک قوم کے فرد تھے۔ پھر آہستہ آہستہ قوم غائب ہوگئی۔ اس کی جگہ پنجابی، سندھی، مہاجر، بلوچی، سرائیکی، پٹھان، ہندکو وجود میں آگئے۔ جب قوم زبانوں، صوبوں اور فرقوں میں بٹ جاتی ہے، تو گروہی سوچ جنم لیتی ہے۔ یہ لسانی، صوبائی، فرقہ واریت بھری سوچ ان طاغوتی قوتوں کی ہوتی ہے۔ ان ہی مہلک ہتھیاروں سے یہ اپنا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا خاص ایجنڈا۔ آوے ہی آوے۔ اور جاوے ہی جاوے۔ ہوتا ہے۔ ایک عام محنت کش آدمی ایک ماہ میں جتنا کماتا ہے۔ اس سے چار گنا زیادہ ان نعرے بازوں کی صرف ایک دن کی کمائی ہوتی ہے۔ معصوم لوگ اس حقیقت کو اب تک نہیں سمجھ پائے اسی لیے رونا آیا۔
اور ہنسی مجھے اس بات پر آئی کہ کیکر بوکر انگور کے خوشوں کی امید کرنے والے جان بوجھ کر احمقوں کی ایک ایسی جنت تخلیق کرنے میں جٹے ہیں جو صرف نعروں میں پوشیدہ ہے۔ ایک دیوزاد جس کے کئی ہاتھ ہیں۔ چہرہ بڑا بھیانک ہے۔ اس کے متعدد ہاتھوں میں مختلف ہتھیار ہیں۔ اس کے ایک ابرو کے اشارے پر کئی غلام ابن غلام سر جھکائے حاضر ہوجاتے ہیں۔ وہ دیوزاد جس کی آنکھیں آگ اگلتی ہیں۔ اپنے غلاموں کو ایک ایک ہتھیار تھما دیتا ہے۔
ہتھیاروں سے لیس یہ غلاموں کی نسل اپنے آقا کی طرف دیکھتی ہے اور جنبش ابرو سے اجازت پاکر وہ اپنے مشن پہ نکل جاتے ہیں۔ پھر کہیں بم دھماکے ہوتے ہیں، کہیں قاتلانہ حملے ہوتے ہیں۔ کہیں عبادت گاہوں اور بازاروں میں جب لہو گرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ جو بھی تھے ان سب کے لہو کا رنگ تو ایک جیسا ہی ہے۔ بازار اقتدار میں خریدے گئے غلاموں کو بھی اس حقیقت کا ادراک تھا کہ خود ان کا لہو بھی سرخ ہی ہے۔ جب کہیں گرے گا تو گواہی دے گا کہ وہ بھی ہم میں سے ہی تھے جن کا لہو ظالم اور خونخوار آقا کے حکم پر رزق خاک ہوا تھا۔
مجھے اور بھی بہت سی باتوں پہ پہلے رونا آتا ہے پھر ہنسی آتی ہے۔ بلکہ اب تو رونا زیادہ آتا ہے، ہنسی لبوں تک آتے آتے کہیں کھو جاتی ہے۔ اب ان مسکراہٹوں کو واپس لانے میں، نہ مشتاق یوسفی سے مدد ملتی ہے، نہ ابن انشاء کے کٹیلے جملے ہنسنے پہ مجبور کرتے ہیں، نہ عطا الحق قاسمی کے فی البدیہہ فقرے قہقہہ لگانے میں مدد دیتے ہیں اور دل کی پژمردگی دور کرتے ہیں کہ رونے کے مواقعے زیادہ ہیں۔ ہر گزرتا دن خاص طور پر پڑھے لکھے باشعور لوگوں کے لیے بڑھتا ہوا عذاب ہے۔ آشوب آگہی کا دکھ جھیلنا ہی ایک قیامت سے کم نہ تھا، چہ جائیکہ بارگاہ قیادت یہ حکم ہوا صادر کہ چپ رہو، زبانیں بند رکھو۔ یہ محبتوں اور کتابوں کی باتیں لکھنا بند کرو کہ علم آگہی کا شعور بیدار کرتا ہے۔ ہم غلاموں کی نسل پروان چڑھا رہے ہیں اور تم انھیں احساس غلامی کا شعور عطا کر رہے ہو۔
اقتدار کا دیو جہاں اپنے آہنی قدم رکھ دے وہاں صدیوں کے لیے ذہن بنجر ہوجاتے ہیں۔ طاقت کا نشہ سب سے زیادہ مہلک ہوتا ہے کیونکہ طاقت اور اقتدار ایک ہی چنے کی دالیں ہیں اور ان سب کے جلو میں دولت، غرور، تکبر، بدمستی، قصیدہ خوانی بھی ساتھ ساتھ ہاتھ باندھے چلے آتے ہیں۔ جو اس تلخ حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں وہ نوازے جاتے ہیں۔ سروں پہ رنگ برنگی ٹوپیاں، گلوں میں لٹکے بے قیمت اعزازات انھیں ان گراں مایہ خدمات کے عوض ملتے ہیں جو وہ ''ناپسندیدہ'' عناصر کے خلاف زور و شور سے گھن گرج سے بول کر حاصل کرتے ہیں۔ گھریلو ملازم بھی وہی مالک کی نظروں میں عزت پاتے ہیں اور انعام و اکرام کے مستحق ٹھہرتے ہیں جو ''شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار'' ہونے کا ثبوت دیں اور بدلے میں مناصب و اعزازات سے نوازے جائیں۔
اپنی بات پھر دہراؤں گی کہ قوم ہوتی تو نازک حالات میں متحد ہوتی۔ قوم تو رہی نہیں۔ صرف گروہ رہ گئے ہیں۔ گروہ صرف اپنے قبیلے اور برادری کی سوچ سے آگے نہیں نکل سکتے۔ ذاتی، گروہی، مسلکی، صوبائی اور علاقائی سوچ سے بالاتر ہوکر۔ لکھنے والے آج کے دور میں سب سے زیادہ ناکام اور مایوس ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ ہر بار انسانوں کی ہلاکت پر جب ان کی شناخت مسلکوں اور زبانوں کی بنیاد پر ہوتی ہے تو مجھے بار بار رونا کیوں آتا ہے؟ پھر ہنسی آجاتی ہے۔ وہ ہنسی جس میں کرب شامل ہوتا ہے اور میں اس حقیقت کا ادراک کرلیتی ہوں کہ تاجر کو مال بیچنے کے لیے ''کچھ الگ'' کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ مال کون خریدے گا؟ قتل ہونے والے، ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والے، عبادت گاہوں میں رزق خاک بن جانے والے اور گھروں سے خوشی خوشی نکلنے والے سب انسان ہی تو تھے لیکن ایسی خبریں بکتی نہیں ہیں۔ ریٹنگ بڑھانے کے لیے انھیں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ، یہودی، پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان اور مہاجر کے خانوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔ تبھی تو مطلوبہ ٹارگٹ حاصل ہوسکے گا۔
مجھے بار بار یوں بھی رونا آتا ہے کہ آج کا دور ظالموں کے ساتھ دینے والوں کا دور ہے۔ یہ ظالم جو آئے دن قصیدہ خوانوں کے جلو میں مرگ انبوہ کا تہوار مناتے ہیں اور خوش ہیں کہ انھوں نے مرنے والوں کو بھوک، غربت اور مفلسی کے عذاب سے نجات دلاکر سکون سے سونے کے لیے قبروں میں پہنچا دیا۔ انھیں دن رات روزگار کی فکر میں گھلنے سے آزاد کیا۔ کیونکہ اقتدار اور طاقت کے دیوزاد کا مسلک، قانون اور شریعت سب الگ ہے۔ اپنی اپنی ذات کے گنبدوں میں بند لکھاریوں کو صرف اپنے آقا کی ہی آواز سنائی دیتی ہے۔ اسی لیے وہ اپنی راہ بنانے کے بجائے دوسروں کی راہ کھوٹی کرتا ہے۔ جن کی قابلیت، ذہانت اور مقبولیت کو وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ہر ممکن طریقے سے ہر طرح کے کانٹے اس کی راہ میں بونا شروع کردیتا ہے۔ ان کانٹوں میں سب سے زیادہ کارآمد کانٹے، زبان، علاقائی تعصب اور مسلک کے ہیں۔
ایسے ہی لوگ آج اقتدار اور طاقت کے دیو کے غلام ہیں۔ انسانیت، شرافت، خلوص، اپنائیت، آج ناپید ہیں۔ اگر کوئی چیز بکتی ہے تو وہ ہے خوشامد اور منافقت۔ طلب اور رسد کے توازن کا بگڑنا ہے۔ معاشی اصطلاح میں اسے ڈیمانڈ اور سپلائی کا قانون کہا جاتا ہے۔ جس شے کی طلب زیادہ ہوگی وہی مارکیٹ میں بھی دستیاب ہوگی۔ آج ہتھیار اور کتاب آمنے سامنے ہیں۔ ہتھیار بک رہے ہیں۔ اور کتابیں بیچنے اور کتاب کلچر کو بڑھانے کے لیے عالمی یوم کتاب بھی منایا جاتا ہے۔ قومی کتاب میلہ بھی سجتا ہے۔ لیکن مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے سینئر ادیبوں نے محسوس بھی کیا اور اس کا اظہار بھی کیا کہ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ ''میلہ'' دیکھنے آتے ہیں، ادیبوں، شاعروں، قابل احترام سینئر لکھنے والوں کی کتابیں خریدنے نہیں۔ کیونکہ کتاب کلچر تعلیم یافتہ اور باشعور شہریوں کا ورثہ ہے۔ ہمارے خریدار اب صرف آتشیں اسلحے کے خریدار ہیں نہ کہ کتاب کے۔