متوازن غذا بچوں کی نشوونما کیلئے ضروری

فوٹو : فائل

بچوں کی صحت کے لیے ان کو متوازن غذا کی فراہمی بہت ضروری ہے، جسے بدقسمتی سے ہمارے ہاں نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

غیر صحت مندانہ خوراک اور غذائی عادات کی وجہ سے بچے کی صحت اور نشوونما بری طرح سے متاثر ہوتی ہے، اس کے ساتھ وہ تعلیمی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ ماہرین کے مطابق متوازن خوراک کی عدم فراہمی کے سبب ایک بچہ جسمانی اور ذہنی طور پر ارتقاکے مراحل طے کرنے میں کمزوری کامظاہرہ کرتا ہے۔

اس کی وجہ سے دیگر کمزوریوں کے ساتھ بچوں میں آئرن کی کمی سب سے زیادہ نمودار ہوتی ہے جس سے ان کے جسمانی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زیادہ تر بچوں کو یادداشت، آئی کیو لیول میں کمی،کسی چیز پر نامکمل گرفت اوراپنا مدعا بیان کرنے میں رکاوٹ جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

متوازن غذا اس وقت ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس سے ہماری مجموعی قومی صورت حال متاثر ہورہی ہے۔ سکول ایج چلڈرن ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سروے 2020ء کے مطابق سکول جانے والے نوے فی صد بچوں کی غذا میں آئرن کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح نیشنل نیوٹریشن سروے 2018ء کے مطابق پانچ سال کے عمر کے بچوں میں 49 فی صد تک آئرن کی کمی کاسامنا ہے۔

مجموعی طور پر 80 فی صد بچے آئرن،کیلشیئم، زنک اور وٹامن اے ، 60 فی صد بچے وٹامن سی، 25 فی صد وٹامن بی اور 75 فی صد بچے فولیٹ کی کمی کا شکار ہیں۔ اسی طرح 64 فی صد بچوں میں پروٹین کی شرح 30 فی صد اور نشاستہ کی شرح 10 فی صد تک ہونی چاہیے۔

مذکورہ بالا تناسب برقرار رکھنے سے بچے جسمانی و ذہنی طور پر مستعد، چاق وچوبند اور متحرک رہنے کے ساتھ نصابی وہم نصابی سرگرمیوں میں اعلیٰ کارکردگی کامظاہرہ کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔

آغا خان یونیورسٹی کی تحقیق کے اعداد و شمار کے مطابق متوازن غذائیت کی عدم فراہمی کے باعث سالانہ آمدن میں تین بلین ڈالر تک کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ نیشنل نیوٹریشن سروے 2018ء کے مطابق پاکستان میں ہر دوسرے بچے میں آئرن کی کمی پائی جاتی ہے۔ جس کے سبب بچوں کی نشوونما اور سیکھنے کے عمل میں سست روی، سانس کاجلدی پھول جانا اور ذہنی کمزوری جیسے عوامل رونما ہونے لگتے ہیں، بچوں کی سکول میں حاضری متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ زندگی کے دوسرے مقابلوں میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔


ماہرین تجویزکرتے ہیں کہ اس بات کا خاص طور پر دھیان رکھنا چاہیے کہ بچے کو جو بھی خوراک دی جا رہی ہے اس میں مختلف النوع اجزا شامل ہوں۔ صحت مند پلیٹ سکیم کے تحت دن کے دو اہم کھانوں، دوپہر اور رات کے کھانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے جو صرف بچے کی ضروریات کی خاطر ہی نہیں بلکہ زندگی بھر کے لیے کام آ سکتی ہے۔ بچوں کی خوارک میں سبزیوں کا شامل ہونا بہت اہم ہے۔

ایک سے دو سال کی عمر تک کے بچوں کو دن میں دو بار جب کہ دو سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کو روزانہ تین بار سبزی دینی چاہیے۔ سبزیوں میں پتوں والی سبزیاں فائبر، وٹامن کے ساتھ ساتھ فولک ایسڈ اور آئرن جیسے معدنیات کا بہتر ذریعہ ہوتی ہیں۔ آئرن بچے کی دماغی نشوونما کے لیے نہایت اہم ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے بچے جن کو روزانہ وٹامن سی کی مطلوبہ مقدار نہیں مل پاتی، وہ جلد کی بیماریوں، خون میں آئرن کی کمی، دانتوں کا گرنا، کمزور ہڈیوں اور زخموں کا دیر سے ٹھیک ہونا جیسی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں کمزور نظر یا اندھے پن کی کیفیت ظاہر ہو سکتی ہے، سبزیوں میں گاجر اور کدو وٹامن اے فراہم کرنے کا اچھا ذریعہ ہیں جب کہ بینگن کیلشیئم، میگنیشیئم، پوٹاشیئم اور وٹامن بی فائیو جیسے اہم اجزا سے بھرپور ہے۔

بروکولی وٹامن کے، وٹامن سی اور وٹامن اے کے علاوہ پوٹاشیئم فراہم کرتی ہے۔چاول، گندم، میدہ ، روٹی، آلو، جو ، مکئی کا گروپ ایسی خوراک کا حامل ہے جس کو بچے کے کھانے کی پلیٹ کا 25 فیصد ہونا چاہیے،یہ گروپ کاربوہائیڈریٹس اور وٹامن کے ساتھ ساتھ چربی کا بھی صحتمند ذریعہ ہے جن سے جسم کو توانائی ملتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کو دی جانے والی خوارک میں 50 سے 60 فیصد کیلوریز کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہونی چاہیے، بچے کے دن میں دو اہم کھانوں میں گوشت یا انڈے ضرور شامل ہوں ، یہ آئرن فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ بچے کے کھانے کی پلیٹ کا بقیہ حصہ دالوں سے مکمل ہوتا ہے۔ اس گروپ میں لوبیا، دالیں، چنے اور سویا بین شامل ہیں جن میں وٹامن اور آئرن، زنک، میگنیشیئم جیسے اہم معدنیات ہوتے ہیں۔

بچے کے کھانے کی تیاری میں ویجیٹیبل آئل ضرور استعمال کرنا چاہیے، عام استعمال ہونے والے تیل میں زیتون کا تیل کنولا آئل، سورج مکھی، مکئی کا تیل، ناریل کا تیل شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہر سبزی کے تیل میں مختلف نوعیت کے اجزا ہوتے ہیں، ان کے مطابق زیتون کے تیل میں اومیگا تھری، جب کہ سویا بین، کنولا، سورج مکھی تیل میں بھی اومیگا تھری ہوتا ہے۔

پھل بھی بچوں کے لیے ضروری ہیں۔ ایک سے پانچ سال کی عمر تک بچے کو روزانہ پھل کی تین سرونگز دینی چاہیے، بچوں کو پھلوں کا جوس بھی دیا جا سکتا ہے، ایک سال کی عمر کے بعد بچے کو دودھ سے بنی اشیا بھی دی جا سکتی ہیں جو پانچ سال کی عمر تک روزانہ کی بنیاد پر تین سرونگ کے طور پر دیا جانا چاہیے، دودھ، پنیر اور دہی کیلشیئم فراہم کرتے ہیں جو ہڈیوں اور پٹھوں کی نشونما کے لیے ضروری ہیں۔ ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پرائمری درجے کے بعد 65 فی صد بچے تعلیم میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کی ایک وجہ ناقص خوراک بھی ہے۔

بچوں کی صحت اور تعلیم میں متوازن غذا کا کردار بہت اہم ہے، جسے میڈیا کے ذریعے اجاگر کرتے ہوئے والدین کو رہنمائی فراہم کرنی چاہیے۔
Load Next Story