آئی ایم ایف اور پاکستان

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کے اجرا میں غیر معمولی تاخیر ہو رہی ہے، مگر چین کے ساتھ سعودی عرب اور قطر تاحال پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ پاکستان اپنے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، اور پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کے لیے تمام شرائط پوری کردی ہیں لیکن آئی ایم ایف لیت و لعل سے کام لے رہا ہے حالانکہ پاکستان آئی ایم ایف کا باقاعدہ رکن ملک ہے، لیکن اس کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔

وہ اس عالمی مالیاتی ادارے کے چارٹر سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، آئی ایم ایف کو اپنے رکن ملک کی معاشی و اقتصادی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے تھوڑی لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے، تاکہ پاکستان میں معیشت کی بحالی کا عمل شروع ہوسکے۔

آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاملات طے نہ ہو پانے سے متعلق معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ بہت کچھ پس پردہ چل رہا ہے، جس پر عمل پاکستان کے لیے مشکل ہو رہا ہے، اگر آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہوئی تو پاکستان کے لیے مشکل ہوگی اور ملک کی معیشت جمود کا شکار رہے گی۔

پاکستان اپنے قرضوں کی ادائیگیاں اس وقت کر سکے گا جب وہ آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہوگا۔ دوست ممالک بھی پاکستان کو اس وقت فنڈز فراہم کریں گے جب آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوگا، اس وقت پاکستان درآمدات کے لیے جو چھوٹی موٹی ادائیگیاں کر رہا ہے۔

وہ کمرشل بینکوں سے قرض کے طور پر حاصل کی جا رہی ہیں،اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہوا تو معاشی بحران میں مزید اضافہ ہونے کے خطرات ہیں۔ خاص طور پر جب بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا وقت آئے گا جن کا حجم بہت زیادہ ہے، تو حکومت کی مشکلات بڑھ جائیں گی کیونکہ اتنی رقم کمرشل بینکس تو ادا نہیں کر سکتے۔

پی ڈی ایم کی حکومت آئی ایم ایف کے معطل شدہ پروگرام کو دوبارہ جاری کرانے کے لیے جتن کر رہی ہے، چند روز قبل وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے بیانات میں آئی ایم ایف کی پالیسی اور شرائط کا ذکر کیا ، ان کے اس بیان میں گفتنی اور نا گفتنی دونوں باتیں پوشیدہ ہیں۔ گفتنی باتیں تو عوام کے سامنے آچکی ہیں مگر نا گفتنی باتیں ابھی تک پوری طرح آشکار نہیں ہوئیں اور مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں ۔

اب یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک کے مالیاتی ہتھیار ہیں جن کے ذریعے وہ دنیا کے مالیاتی نظام کو کنٹرول کرتے ہیں، یہ دونوں مالیاتی ادارے ان کی معاشی اور سیکیورٹی پالیسی کا حصہ ہیں۔ یہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک ان اداروں کو اپنے عالمی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

معاشی محاذ پر ملک کو کمر توڑ افراطِ زر، روپے کی قدر میں کمی اور خطرناک حد تک کم ذخائرِ زرمبادلہ کا سامنا ہے۔ پاکستان کی معاشی بدحالی نے بحران کی وجوہات کے بارے میں ایک بحث کو جنم دیا ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی کہ آیا بیرونی شراکت دار ایک بار پھر پیسوں کی تنگی کے شکار پاکستان کو اس بحران سے باہر نکال سکتے ہیں یا نہیں۔

امریکا خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، اگرچہ پاکستانی حکمران چین کے بڑے کردار اور سرمایہ کاری کے بارے میں بظاہر پرامید نظر آتے ہیں، لیکن انھیں امریکا ، یورپی یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ ایک متوازن پالیسی اختیار کرنے میں مشکلات نظر آرہی ہیں ۔

امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار چولٹ ڈیرک نے پاکستان پر چین کے قرضوں اور ان کے دوطرفہ تعلقات کو لاحق ''خطرات '' پر واشنگٹن کی تشویش کا اظہارکیا تھا۔ جواباً چین کی وزارت خارجہ نے امریکا پر ڈھکا چھپا طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کی معاشی مشکلات کے پیچھے، مغربی غلبے والے 'مالیاتی ساہو کاروں اور ایک مخصوص ترقی یافتہ ملک' کی مالیاتی پالیسیاں ہیں۔

چین نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیڈ لاک کے دوران پاکستان کو اضافی قرضے دینے کا اعلان کیا ہے۔ چین سی پیک بطور اپنے فلیگ شپ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) منصوبے کے ذریعے کئی بلین فراہم کرکے پاکستان کا اہم اقتصادی شراکت دار رہا ہے تاہم غیرملکی قرضوں نے پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔


جیسے جیسے امریکا اور چین کے درمیان مسابقت میں اضافہ ہو رہا ہے، بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پاکستان کی داخلی سیاست میں ایک بڑا مسئلہ بن رہے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران سی پیک پر پیش رفت سست روی کا شکار رہی ہے جب کہ امریکا کے ساتھ تعلقات ، جو سابقہ حکومت میں سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے، وہ سرد مہری بھی ختم ہوئی اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بطور فرنٹ لائن ریاست، پاکستان کے کردار کی وجہ سے سی پیک کے تحت اہم اقتصادی منصوبوں کو دشمن گروہوں کی جانب سے شدید سیکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔

حکومت کے حالیہ تخمینے کے مطابق مالی سال 2023 میں معاشی نمو 0.29 فیصد رہی ہے لیکن غیر جانبدار تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ معاشی نمو 2 تا 3 فیصد سکڑ سکتی ہے۔ مرکزی بینک کے پاس 4 ارب ڈالر سے کم کے ذخائر رہ گئے ہیں، آئی ایم ایف کے مطالبے پر پالیسی ریٹ 21 فیصد کی تاریخی بُلند شرح مقرر کی گئی، درآمدات کو محدود کیا گیا جس کی وجہ سے معیشت لڑکھڑا گئی اور ملک کو 38 فیصد مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا جب کہ لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے۔

پاکستان کے مالیاتی آپشنز غیر یقینی کا شکار ہیں ، اسے اگلے مالی سال میں بڑی غیر ملکی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔ پاکستان میں مالیاتی شعبے کا خیال ہے کہ بیل آؤٹ پیکیج کی ناکامی سے ملک کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کو 30 جون 2023 تک قرضوں اور سود کی ادائیگی کی مد میں بھی بھاری ادائیگی کرنی ہے، جب کہ آیندہ مالی سال کے دوران پاکستان کو ڈالرز درکار ہیں ۔

بہرحال پاکستان اور آئی ایم ایف کا 23 واں قرض پروگرام جون 2023 میں مکمل ہوگا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب 95 کروڑ ڈالرز کی تین اقساط ادا کرنی ہیں اور مالی سال 2023-24 کے دوران پاکستان کو 25 سے 27 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔

پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت نے 1991 میں آئی ایم ایف سے صرف ایک بار قرضہ لیا تھا پھر اس کے بعد بھارت کو قرضہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ قرضہ لینا کوئی بری بات نہیں ہے البتہ یہ خطرناک اس وقت بن جاتی ہے جب قرضوں کو ترقیاتی کاموں پر خرچ کرنے کے بجائے قرضوں کی قسط ادا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے اور ان کو سرکاری اہلکاروں اور حکمران اشرافیہ کی عیش و عشرت پر خرچ کردیا جائے۔

1958 میں جنرل ایوب خان نے جو قرض لیے تھے ان کو تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کی تعمیر پر خرچ کیا گیا تھا جن سے آج تک پاکستان کو آمدن ہورہی ہے۔

پاکستان قرضوں کو ایسے منصوبوں پر خرچ کر رہا ہے جن سے اس کو کوئی آمدن نہیں ہو رہی، جب تک پارلیمنٹ منظوری نہ دے کسی حکومت کو بیرونی قرضے لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ پالیسی انتہائی تشویشناک اور افسوسناک ہے کہ بیرونی قرضے امیروں پر خرچ کیے جاتے ہیں جب کہ ان کا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جاتا ہے۔

پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ سیاسی انتشار اور عدم استحکام، معاشی جمود، دہشت گردی اور انتہاپسندی کا غلبہ جیسے ایشوز ایسے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان حالات میں حکمران اشرافیہ کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ انداز حکومت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی معیشت کا علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اصلاحات کی جائیں، حکومتی اخراجات کم کیے جائیں، وزرا اور بیوروکریسی کو گاڑیاں اور پلاٹس نہ دیے جائیں، سبسڈیز کم کی جائیں۔

آئی ایم ایف معاہدہ ہو بھی جائے تب بھی پاکستان کے پالیسی سازوں کو سخت مالیاتی ڈسپلن اختیار کرنا ہوگا، پاکستان میں بلیک اکانومی کا حجم بہت بڑا ہوچکا ہے، یہی بلیک اکانومی ریاست کے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج برباد کررہی ہے۔

بلیک اکانومی کے حجم کو مارجنلائز کرنا انتہائی ضروری ہے۔موجودہ ٹیکس گزاروں پر ہی اضافی ٹیکسز لگا دینے سے کچھ نہیں ہوگا، اصل کام بلیک اکانومی اور اس کے ہنڈلرز کو قانون کی گرفت میں لانا ہے۔ اندرونی اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ ایک ہی طریقے سے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان معاشی طور پر اپنے پاؤں پرکھڑا ہو جائے، آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضہ لینے کے بجائے اپنے اخراجات میں واضح کمی کرے، ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگار بنائے، زراعت اور صنعت کی پیداوار میں اضافے کے لیے گھریلو صنعتوں کا جال بچھایا جائے۔

پاکستان ایسی اشیاء تیار کرے جو برآمد کی جا سکیں ،حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر کو بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
Load Next Story