تاکہ سبق سیکھ سکیں
ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کی میڈیا ٹیم نے وزیراعظم کی صحیح سمت میں راہنمائی نہ کرکے اپنے جذبات۔۔۔
لافانی ہیر کے غیر فانی شاعر وارث شاہ نے لکھا: زبان سے ادا کیے گئے الفاظ، کمان سے نکلا ہوا تِیر اور بدن سے نکلی ہوئی روح کبھی واپس نہیں آتے۔
گئی گل زباں تھیں تِیر چُھٹا
گئے روح قلبوت نہ آوندے نیں
دانشمندانِ عالم اور ہمارے مقامی سیانے اسی لیے ہمیشہ نصیحت و تادیب کرتے رہے ہیں کہ زبان قابو میں رہے تو بہت سے مسائل و مصائب سے نجات ملی رہتی ہے۔ یونانی فلاسفر حکیم ایسپ نے اسی لیے تو کہا تھا کہ زبان انسانی جسم کا سب سے بہترین اور سب سے بدترین ٹکڑا ہے۔ یہ افلاک نشین بھی کرتا ہے اور یہی ٹکڑا رزالت و ذلالت کے گڑھے میں بھی پھینک دیتا ہے۔ سب سے بالا اور بڑھ کر اللہ کے آخری نبیؐ، جن پر ہماری جان و مال اور ہماری اولاد قربان ہو، سے منسوب وہ ارشادِ پاک ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے: میری امت میں سے جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی، اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔
لیکن افسوس 19اپریل کی شام کراچی میں ایک صحافی پر حملے کے نتیجے میں وارثان اور متعلقہ ادارے کے ذمے داران نے جو زبان استعمال کی، اس میں احتیاط کا دامن تھاما گیا نہ قومی حرمت کا خیال پیشِ نگاہ رہا۔ نتیجے میں ایک طوفان و طغیان برپا ہوا جو ابھی تک تھما ہے نہ رکا ہے۔ دشمنانِ ملک وقوم نے حملے میں بروئے کار لائی جانے والی تہمت انگیز زبان کو پاکستان کے خلاف اور اپنے مفادات کے لیے پوری طرح استعمال کیا۔ پاکستان کے سب سے محترم و مکرم اور محفوظ و مامون سمجھے جانے والے ادارے کے خلاف جو زبان دانستہ استعمال کی گئی یوں لگا جیسے نجی ٹی وی پر ادا کیے گئے الفاظ کو دشمن نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق پوری طاقت اور شدت سے اُچک لیا ہے اور پھر پاکستان کے خلاف بھارت، امریکا اور مغرب میں طبلِ جنگ بجا دیا گیا۔
بھارتی اور امریکی میڈیا میں افواج پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف، آئی ایس آئی، اس کے سربراہ اور آئی ایس پی آر کے خلاف ایسی گندی، غلیظ اور ناقابل برداشت زبان استعمال کی جانے لگی جسے اس سے قبل ہم نے کبھی سنا نہ دیکھا۔ سب انگشت بدنداں رہ گئے۔ یہ آگ نہ پھیلتی اگر پاکستان کے چیف ایگزیکٹو اور ان کی میڈیا ٹیم بیدار مغزی کا مظاہرہ کرتی۔ مگر وہاں تو دانستہ غفلت کی چادر اوڑھے رکھی گئی، بلکہ آگے بڑھ کر پارٹی بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔ حکومت کے سربراہ ہونے کے ناتے ان کی ذمے داری تھی کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں محض ایک فریق کا ساتھ دینے سے اجتناب کیا جاتا مگر ایسا نہ کیا جاسکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سانحہ کو دو ہفتے گزرنے کے باوجود متاثرہ فریق، جو ظاہر ہے سیکیورٹی فورسز کے علاوہ کوئی اور نہیں، کی ناراضی اور طیش کی شدت وحدت میں کمی نہیں آسکی۔
فطری بات ہے کہ متاثرہ قومی ادارے کی طرف سے پہاڑ ایسی غلطی کرنے والوں کے گناہ پر مٹی نہیں ڈالی جاسکتی ہے۔ دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ صحافت و میڈیا کے متاثرین سے صرف وزیراطلاعات براہ راست رابطہ کرتا ہے، ان کے زخموں پر اندمال رکھتا ہے، ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی سعی کرتا ہے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہا دی گئی۔ وزیراطلاعات کے بجائے ملک کے چیف ایگزیکٹو خود چل کر متاثرہ و مجروح صحافی کے پاس پہنچ گئے اور فریقِ ثانی کو یکسر فراموش ہی نہیں، بری طرح نظر انداز کردیا گیا۔ وزیراعظم کے اس عمل سے پاکستان کی سیکیورٹی کے ذمے داروں کے جذبات بجا طور پر بھڑک اٹھے اور جنھیں اس وقت ان آتشناک حالات پر پانی ڈالنا تھا، یعنی وزیراعظم کی میڈیا ٹیم، وہ غلیل اور دلیل کی بات کرکے مزید تِیلی لگا رہے تھے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کی میڈیا ٹیم نے وزیراعظم کی صحیح سمت میں راہنمائی نہ کرکے اپنے جذبات اور کسی کے ایجنڈے کی آبیاری کی ہے۔ 28اپریل 2014ء کو وزیراعظم نے آئی ایس آئی کی ملکی خدمات کو برسرِ مجلس تسلیم کیا۔ کاش، یہ تعریفی و تحسینی الفاظ پہلے ادا کردیے جاتے۔ اس کے لیے کراچی حادثے کے بعد دس دن کا انتظار نہ کیا جاتا۔ اس تاخیر کی ذمے داری بھی وزیراعظم کے میڈیا مشیروں پر عائد ہوتی ہے۔جناب وزیراعظم، جنھیں ہر روز دیگر ہزاروں ریاستی امور بھی نمٹانے ہوتے ہیں، کی میڈیا ٹیم میں بعض لوگ ایسے ہیں جو ماضی میں کھلم کھلا فوج کو دشنام دیتے رہے ہیں۔ جنہوں نے کبھی مملکتِ خداداد کے اُفق پر سرخ سویرے کے طلوع ہونے کے خواب دیکھے تھے لیکن ناکام رہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ اب یہ لوگ اپنی نظریاتی ناکامیوں کا بدلہ وزیراعظم صاحب کی اوٹ میں چھپ کر افواج پاکستان سے لے رہے ہیں؟ جناب وزیراعظم کو اپنی قریبی صفوں میں چھپے ایسے لوگوں کا جائزہ لے کر مناسب فیصلہ کرنا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کہیں مخصوص عناصر کی وجہ سے سیکیورٹی اداروں سے ان کے تصادم کے امکانات تو پیدا نہیں ہو رہے؟ کراچی میں ایک اخبار نویس کے مجروح ہونے کے پس منظر میں افواج پاکستان کو لتاڑنے اور ان کی ناک زمین سے رگڑنے کی جو قابل مذمت کوشش کی گئی ہے اور وزیراعظم صاحب اپنی میڈیا ٹیم کے اقدامات کی وجہ سے جس دوراہے پر کھڑے ہوچکے ہیں، ہم گزارش کریں گے کہ وزیراعظم کی میڈیا کو وائٹ ہاؤس کے سابقہ ممتاز ترین پریس سیکریٹری مارلن فٹز واٹر (Marlin Fitzwater) کی معرکہ آرا تصنیف Calling the Briefing کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
اگر وہ اس کتاب کی ورق گردانی کریں تو انھیں معلوم ہوگا کہ حکومتی میڈیا ٹیم کو کونسے طور طریقے اپنانے چاہئیں تاکہ حکمران عوام کی نظروں میں بھی سرخرو ہوسکیں اور حکمرانوں کا میڈیا اور سیکیورٹی فورسز سے بھی تصادم نہ ہو۔ یہ کتاب پریس اور پالیٹکس کے باہمی رشتے کو سمجھنے اور اسے مضبوط کرنے کے حوالے سے بے مثال سمجھی جاتی ہے۔ مارلن فٹز واٹر صدر ریگن اور صدر بش کے ترجمان اور ان کی میڈیا ٹیم کے سربراہ رہے، کامل دس برس۔ امریکا کے دو نامور صدور کا مسلسل دس سال تک اعتبار حاصل کیے رہنا اور دونوں حکمرانوں کی میڈیا ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کیے رہنا مارلن فٹز واٹر کی ذہانت و دیانت کا شاندار ثبوت ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے وزیراعظم کی میڈیا ٹیم شاید یہ سبق سیکھ سکے کہ اپنے باس (نواز شریف صاحب) کو خواہ مخواہ کی پریشانیوں سے کیسے نجات دی جاسکتی ہے۔