عالمی مالی مافیا کے پینترے
اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ اس وقت ساری دنیا کا واحد حکمران یاشہنشاہ عالم یا سپرپاورکون ہے تو آپ کا جواب یقیناً ''امریکا'' ہوگا جو صد فی صد غلط جواب ہوگا کیوں کہ وہ جو اصل حکمران ،شہنشاہ عالم اورسپرپاورہے امریکا بھی اس کے ہاتھ کاکٹھ پتلی ہے۔
اس اصل حکمران اورسپرپاورکا نام ''زر'' یا سرمایہ یاپیسہ ہے ،پرانے سیانوں نے طاقت یا ''شر''کے تین سرچشمے بتائے تھے ، زر، زن اور زمین، لیکن موجودہ وقت میں ''زن اور زمین''بھی زرکی غلام ہوچکی ہیں، کیوں کہ آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ ''زن'' اس زرکے پیچھے کہاں تک پہنچ گئی یاگرگئی ، رہی زمین تو زمین کے حکمران ہی زرکے اسیر ہوچکے ہیں تو زمین کیسے بچ سکتی ہے ۔
یوں تو دنیا میں بہت سارے ممالک ہیں اور ان کے حکمرانوں کے بڑے بڑے نام بھی میڈیا میں مشہورہیں لیکن اصل حکمرانی اس ''عالمی مالی مافیا'' کی ہے، دنیا کے یہ سارے ممالک، لیڈر اورحکمران بظاہرتو آزاد دکھائی دیتے ہیں لیکن اس مالی مافیا کے اسیر ہیں، جسے اگر ہم گینگسٹرزکی طرز پر ''بنکسٹرز''کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا اوراس مافیا میں دنیا کے سارے سرمائے کا اٹھاون فی صد یہودیوں کاہے۔
اس لیے اسے ہم یہودی سرمایہ کاروں کامافیا بھی قرار دے سکتے ہیں ۔ دنیا کے آزاد نظر آنے والے یاخود کہلوانے والے ممالک اورلیڈر یا پارٹیاں یامیڈیا اس قدر آزاد ہیں جس حد تک ان کی ''کیل'' اور رسی اجازت دیتی ہے۔
ان کی مثال اس جانور، بیل گائے، بھیڑ بکری یا گھوڑے بھینس کی ہے جسے مالک نے کھیت میں ایک ''کیل''گاڑ کر اور گلے میں رسی ڈال کر باندھا ہوا ہوتا ہے اور وہ صرف اتنا ''چر'' سکتے ہیں جتنے کی اجازت کیل اور رسی دیتی ہے، باقی کھیت کو یہ صرف دیکھ سکتے ہیں ''چر'' نہیں سکتے۔
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکے پر چھونہ سکے
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانہ کیا
ہم نے ایسے جانوروں کو اکثر دیکھا ہے کہ اپنی کیل اور رسی کے دائرے میں وہ چارے کی جڑیں تک چبا ڈالتے ہیں جیسا کہ ہمارے پاکستان جیسے ممالک میں ہوتا ہے لیکن اپنے دائرے سے ایک انچ بھی باہر نہیں چرسکتے، اکثر جانوراپنے دائرے سے باہرکاچارہ چرنے کے لیے گھٹنوں کے بل لیٹ بھی جاتے ہیں۔
یہ عالمی امدادی اورقرض دینے والے ادارے ہی کیل اور رسی ہیں، آئی ایم ایف اورڈبلیو ٹی او(ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن) جیسے ادارے ان کی کیل اوررسی ہوتے ہیں جو کسی بھی ملک سے اپنی کسی بھی شرائط منواسکتے ہیں وہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں گھماسکتے ہیں اوراپنی مرضی کی پالیسیاں بنوا سکتے ہیں ،اس سے بھی اگر کچھ بچ جاتاہے وہ این جی اوز کے ذریعے کنٹرول کیاجاتاہے جن کا کام اپنے زیرتسلط ممالک کے خاص خاص لوگوں کو کرپٹ بنانا ہوتاہے اورخاص طورپر کام نہ کرنے دیناہوتاہے۔
اس مالی مافیا کا زیادہ تر کام مذاہب اور مذہبی تنظیموں میں ہوتاہے کیوں کہ یہی ایک ذریعہ ہے جس میں جذبات کو ابھارا اور برانگیختہ کیاجاسکتاہے اور یہ کام اس ہنرمندی سے کیاجاتاہے کہ ان لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلتاکہ ہم جو کارثواب کررہے ہیں وہ ہم سے کروایا جارہاہے کیوں کہ کٹھ پتلیوں کے جو ''تار''ماسٹر کی انگلیوں سے متحرک ہوتے ہیں وہ دام ہمرنگ زمین کی طرح نادیدہ ہوتے ہیں ۔
اب تو بہت سارے ایسے طریقے نکل آئے ہیں جو بظاہرکارثواب دکھائی دیتے ہیں لیکن درحقیقت مسلمانوں کو فروعی دینی کاموں میں الجھا کر نکمے نکھٹو بنانے کے یہودی منصوبے ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں ایک بہت ہی مشہورمثال وہ خط ہوتاہے جو کسی خادم یا مجاورکے ''خواب'' پر مشتمل ہوتاہے ۔
ایسے خطوں کے آخر میں لکھا جاتاتھا کہ اس خط کو پڑھنے والا اگر اس کی چالیس کاپیاں بناکر آگے تقسیم نہ کرے تو اس پر یہ عذاب نازل ہوگا۔ہم نے خود بھی ایسے خطوں کو آگے پھیلایاہے ۔لیکن ایک مرتبہ ٹی وی کے ایک دینی پروگرام میں ایسے مکتوبات کا ذکر آیا، تو مولانا ولی رازی جو ایک نامی گرامی دینی عالم تھے۔۔
انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ ایسے مکتوبات یہودی لوگ پھیلاتے ہیں تاکہ مسلمان لوگ احساس کمتری میں مبتلا ہوکر اور نیکی کے جنون میں کاردنیا کو تیاگ دیں اور بے تحاشا دین کی طرف راغب ہوکر دنیا سے کنارہ کش ہوجائیں، تاکہ نہ کچھ بن سکیں نہ بنا سکیں اور یہودیوںکی مارکیٹ بنے رہیں۔
اس اصل حکمران اورسپرپاورکا نام ''زر'' یا سرمایہ یاپیسہ ہے ،پرانے سیانوں نے طاقت یا ''شر''کے تین سرچشمے بتائے تھے ، زر، زن اور زمین، لیکن موجودہ وقت میں ''زن اور زمین''بھی زرکی غلام ہوچکی ہیں، کیوں کہ آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ ''زن'' اس زرکے پیچھے کہاں تک پہنچ گئی یاگرگئی ، رہی زمین تو زمین کے حکمران ہی زرکے اسیر ہوچکے ہیں تو زمین کیسے بچ سکتی ہے ۔
یوں تو دنیا میں بہت سارے ممالک ہیں اور ان کے حکمرانوں کے بڑے بڑے نام بھی میڈیا میں مشہورہیں لیکن اصل حکمرانی اس ''عالمی مالی مافیا'' کی ہے، دنیا کے یہ سارے ممالک، لیڈر اورحکمران بظاہرتو آزاد دکھائی دیتے ہیں لیکن اس مالی مافیا کے اسیر ہیں، جسے اگر ہم گینگسٹرزکی طرز پر ''بنکسٹرز''کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا اوراس مافیا میں دنیا کے سارے سرمائے کا اٹھاون فی صد یہودیوں کاہے۔
اس لیے اسے ہم یہودی سرمایہ کاروں کامافیا بھی قرار دے سکتے ہیں ۔ دنیا کے آزاد نظر آنے والے یاخود کہلوانے والے ممالک اورلیڈر یا پارٹیاں یامیڈیا اس قدر آزاد ہیں جس حد تک ان کی ''کیل'' اور رسی اجازت دیتی ہے۔
ان کی مثال اس جانور، بیل گائے، بھیڑ بکری یا گھوڑے بھینس کی ہے جسے مالک نے کھیت میں ایک ''کیل''گاڑ کر اور گلے میں رسی ڈال کر باندھا ہوا ہوتا ہے اور وہ صرف اتنا ''چر'' سکتے ہیں جتنے کی اجازت کیل اور رسی دیتی ہے، باقی کھیت کو یہ صرف دیکھ سکتے ہیں ''چر'' نہیں سکتے۔
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکے پر چھونہ سکے
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانہ کیا
ہم نے ایسے جانوروں کو اکثر دیکھا ہے کہ اپنی کیل اور رسی کے دائرے میں وہ چارے کی جڑیں تک چبا ڈالتے ہیں جیسا کہ ہمارے پاکستان جیسے ممالک میں ہوتا ہے لیکن اپنے دائرے سے ایک انچ بھی باہر نہیں چرسکتے، اکثر جانوراپنے دائرے سے باہرکاچارہ چرنے کے لیے گھٹنوں کے بل لیٹ بھی جاتے ہیں۔
یہ عالمی امدادی اورقرض دینے والے ادارے ہی کیل اور رسی ہیں، آئی ایم ایف اورڈبلیو ٹی او(ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن) جیسے ادارے ان کی کیل اوررسی ہوتے ہیں جو کسی بھی ملک سے اپنی کسی بھی شرائط منواسکتے ہیں وہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں گھماسکتے ہیں اوراپنی مرضی کی پالیسیاں بنوا سکتے ہیں ،اس سے بھی اگر کچھ بچ جاتاہے وہ این جی اوز کے ذریعے کنٹرول کیاجاتاہے جن کا کام اپنے زیرتسلط ممالک کے خاص خاص لوگوں کو کرپٹ بنانا ہوتاہے اورخاص طورپر کام نہ کرنے دیناہوتاہے۔
اس مالی مافیا کا زیادہ تر کام مذاہب اور مذہبی تنظیموں میں ہوتاہے کیوں کہ یہی ایک ذریعہ ہے جس میں جذبات کو ابھارا اور برانگیختہ کیاجاسکتاہے اور یہ کام اس ہنرمندی سے کیاجاتاہے کہ ان لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلتاکہ ہم جو کارثواب کررہے ہیں وہ ہم سے کروایا جارہاہے کیوں کہ کٹھ پتلیوں کے جو ''تار''ماسٹر کی انگلیوں سے متحرک ہوتے ہیں وہ دام ہمرنگ زمین کی طرح نادیدہ ہوتے ہیں ۔
اب تو بہت سارے ایسے طریقے نکل آئے ہیں جو بظاہرکارثواب دکھائی دیتے ہیں لیکن درحقیقت مسلمانوں کو فروعی دینی کاموں میں الجھا کر نکمے نکھٹو بنانے کے یہودی منصوبے ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں ایک بہت ہی مشہورمثال وہ خط ہوتاہے جو کسی خادم یا مجاورکے ''خواب'' پر مشتمل ہوتاہے ۔
ایسے خطوں کے آخر میں لکھا جاتاتھا کہ اس خط کو پڑھنے والا اگر اس کی چالیس کاپیاں بناکر آگے تقسیم نہ کرے تو اس پر یہ عذاب نازل ہوگا۔ہم نے خود بھی ایسے خطوں کو آگے پھیلایاہے ۔لیکن ایک مرتبہ ٹی وی کے ایک دینی پروگرام میں ایسے مکتوبات کا ذکر آیا، تو مولانا ولی رازی جو ایک نامی گرامی دینی عالم تھے۔۔
انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ ایسے مکتوبات یہودی لوگ پھیلاتے ہیں تاکہ مسلمان لوگ احساس کمتری میں مبتلا ہوکر اور نیکی کے جنون میں کاردنیا کو تیاگ دیں اور بے تحاشا دین کی طرف راغب ہوکر دنیا سے کنارہ کش ہوجائیں، تاکہ نہ کچھ بن سکیں نہ بنا سکیں اور یہودیوںکی مارکیٹ بنے رہیں۔