سادہ زندگی ایک نعمت ہے

وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے اکثر سانس اور سینے کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔۔۔۔


Shabnam Gul May 01, 2014
[email protected]

سیاست، کھیل، فیشن، مہنگائی کے بعد ہمارے ملک میں بیماریوں پر زیادہ گفتگو کی جاتی ہے۔ خاص طور پر کہا جاتا ہے کہ خواتین کا یہ پسندیدہ موضوع ہے۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو صحت کے حوالے سے بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کو مزید بہتر بنایا جائے۔ حیدرآباد کا موسم کافی عرصے سے خشک چل رہا تھا۔ نزلہ، زکام و بخار کی خبریں تواتر سے مل رہی تھیں۔ حالت یہ تھی کہ گھر کا ایک فرد بہتر ہوتا تو دوسرا بستر پر دراز ہو جاتا، خواتین تیمارداریوں میں مصروف اکثر ایک دوسرے سے اپنی پریشانیوں کا ذکر کرتی دکھائی دیتیں۔ ابھی کل پرسوں ہی کی بات ہے کہ مٹی کے خوب طوفانی جھکڑ چلے اور بارش برسی۔

موسم کی پہلی بارش سحر انگیز ہوتی ہے۔ جمالیاتی ذوق رکھنے والے دوستوں کے موبائل پر سندیسے آنے لگے۔ دوسرے دن جب آفس پہنچے تو بہت سے لوگ چھٹی پر تھے۔ کچھ کھانس رہے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں مٹی و دھول سے الرجی ہوتی ہے۔ آج کل الرجی کا تذکرہ تو سمجھ لیجیے کہ روز مرہ کا معمول ہے جس کی وجوہات میں ٹھنڈی ہوا، موسم کی اچانک تبدیلی، ایکسرسائز یا جذباتی اتار چڑھاؤ آجاتے ہیں خاص طور پر مارچ، اپریل اور مئی کے مہینے میں، پھولوں اور پودوں و درختوں کے زردانے (پولن) کی وجہ سے بھی الرجی کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ الرجی کی ایکیوٹ کنڈیشن میں کھانے سے الرجی، سر درد وغیرہ شروع ہو جاتا ہے جب کہ کرانک کنڈیشن میں کھانسی، دمہ، مستقل نزلہ، آنکھوں میں خارش، چھینکیں، جسم میں خارش، گلے کی خراش، پیٹ کی خرابی، چہرے و ہونٹوں پر سوجن اور جسم پر دھبوں کا پڑ جانا وغیرہ شامل ہے۔

ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ سر راہ پرانی دوست ملی۔ چہرہ دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ میں نے خیریت دریافت کی تو کہنے لگی، سردرد کی دوا لی تھی الرجی کی وجہ سے پورا چہرہ سوج گیا ہے، آج کل لوگوں میں برداشت بھی کم ہو گئی ہے۔ ہر درد کا حل فقط دعا نظر آتی ہے۔ چاہے اس کا خمیازہ ہی کیوں نہ بھگتنا پڑ جائے۔ بہت سی دواؤں کے مضر اثرات سامنے آتے ہیں، جن میں الرجی بھی ایک ہے۔ الرجی سے جسم کی نہ صرف قوت مدافعت کم ہوتی ہے بلکہ اس کا اثر نظام تنفس، نروس سسٹم اور دل پر بھی اپنی علامات ظاہر کر دیتا ہے۔ خاص طور پر گرد آلود ہوا سانس یا غذا کے توسط سے جسم کے اندر داخل ہو کر یہ ذرات الرجی کا باعث بنتے ہیں۔

اور مدافعتی نظام پر حملہ آور ہو جاتے ہیں، جو قوت مدافعت موروثی طور پر کمزور ہوتی ہے، وہ آسانی سے الرجی کا شکار ہو جاتی ہے۔ جیسے ہی موسم تبدیل ہوتا ہے اور نمی کے تناسب میں اضافہ، سانس کی تکلیف کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اور کبھی مستقل نزلے کی وجہ سے ناک بہنے لگتی ہے۔ ہمارے ہاں بیماری لاعلمی اور بداحتیاطی سے جڑ پکڑتی ہے۔ ایک رویہ عام ہے کہ ہم اپنے علاوہ دوسروں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اور بیماری کو جانے بغیر الوداع کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بیماری سے شناسائی بہت ضروری ہے۔ دوسرے مرحلے میں بیماری کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ ذہنی وسعت جہاں رشتوں کو توازن میں رکھتی ہے، وہاں یہ رویہ ذہن و جسم کو صحت مند رکھتا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کی وجہ سے الرجی کی شکایات دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 60 فیصد الرجی سے متصل بیماریاں ہوا کے ذریعے حملہ ور ہوتی ہیں، جب کہ 40 فیصد غذا کے ذریعے پھلتی پھولتی ہیں۔

الرجی کی وجوہات جدید دنیا میں جابجا بھری ہیں۔ پہلے زندگی سادہ اور فطری اصولوں کے قریب ہوا کرتی تھی جو وقت کے ساتھ مصنوعیت اور تعیش پرستی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ جدت کے تمام تر لوازمات نے دور جدید کے انسان سے اس کی انمول صحت چھین لی ہے۔ چارپائیوں کی جگہ بیڈ آگئے اور میٹریس مٹی کے کیڑوں کی آماجگاہ بنا۔ فوم کے تکیے استعمال ہونے لگے، کارپٹ اور دبیز پردوں سے گھروں کو آراستہ کیا جانے لگا۔ یوں وہ تمام ذرات جن سے الرجی ہوتی ہے، اے سی کی ہوا سے گزر کر تکیے، فوم کے گدے اور کارپٹ وغیرہ میں گھر کرلیتے ہیں۔ یورپ میں ایئرکنڈیشن کے الرجی کنٹرول فلٹر وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ گرمی کے عذاب سے بچنے کے لیے فقط ٹھنڈی ہوا میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ماحول میں بہت سے مضر اثرات حساس لوگوں کے لیے پائے جاتے ہیں۔ جو غذا سے لے کر روزمرہ کی اشیا میں موجود کیمیکل کی صورت صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ ان محرکات میں مٹی، پھولوں پودوں کے زردانے (پولن) خوشبو، لال بیگ، جانور، پرندے، کیڑے، پھپھوند، جانوروں و پرندوں کے پر وغیرہ شامل ہیں۔ مزید براں سانس کی نالی کا انفیکشن، سگریٹ کا دھواں، گاڑیوں کا دھواں، پرفیوم، ایئر فریشنر، ڈرائی کلیننگ کے اجزا، پینٹ، گوند، واٹر پروف... اسپرے، پیسٹسائیڈ (کیڑے مار دوا) انڈسٹریل کیمیکل، اخبارات کی ڈسٹ بھی اس بیماری کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ کھانوں میں کہا جاتا ہے کہ چار سو سے زیادہ کیمیکل استعمال کیا جاتے ہیں۔ جو پروسیس فوڈ، جوسز، فزی ڈرنکس، بچوں کے کھانے کی اشیا، مصالحہ جات اور فاسٹ فوڈ میں پائی جاتی ہیں۔

ذہنی و جذباتی مسائل بھی دمے کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں۔ جیسے میری دوست کے بیٹے کو امتحان سے پہلے، دمے کے شدید حملے شروع ہوجاتے تھے۔ جس کی وجہ والد کی سختی اور پہلی پوزیشن لینے والی شرط تھی۔ اس مسئلے کو سمجھ کر جب حل نکالا گیا، تو بچے کی صحت میں قدرے بہتری آ گئی۔

کچھ کھانے بھی مرض کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں، جیسے مونگ پھلی،فش، انڈے، گائے کا دودھ اور گندم وغیرہ۔

یہ بیماری کھیتوں میں کام کرنیوالے لوگوں، کارخانے میں آلودہ فضا میں سانس لینے والے مزدوروں کو لاحق ہو جاتی ہے۔ کپاس کی چنائی، پھولوں کی چنائی، اخبار کے دفتر میں کام کرنیوالے حضرات اور وہ تمام تر لوگ جو کاغذ اور فائلز کے درمیان گھرے رہتے ہیں وہ کسی صورت الرجی سے بچ نہیں پاتے۔

الرجی کے سو سے زاید ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ سبب معلوم ہونے کے بعد الرجی شاٹس (ویکسین) انجکشن کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ الرجی کے ویکسین کے لگانے میں احتیاط کی جاتی ہے۔ دل کے مریضوں یا شدید دمے میں یہ ویکسین نہیں لگائے جاتے۔ معدے کی خرابی کی صورت Acid Reflux Disease GERD میں بھی دمے کے حملے ہوتے ہیں۔ رات کو دیر سے کھانا اور مرغن غذاؤں کا استعمال، معدے کی اس بیماری کا سبب بن جاتے ہیں۔

بلڈ پریشر کی دوائیں بھی اس مرض کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ دمے کے وقت سانس کی نالیاں سوج جاتی ہیں اور ان میں میوکس بننے کی وجہ سے تازہ ہوا کو جگہ نہیں مل پاتی اس مقصد کے لیے نمک ملا پانی یا نارمل سلائن ناک میں ڈال کر اوپر کھینچا جائے تو ناک سے سانس لینے کا عمل رواں دواں ہو جاتا ہے۔ قدیم سیانے کہتے ہیں کہ بند ناک عقل پر قفل ڈال دیتی ہے۔ ایسے مریض جب باہر جائیں یا آلودہ ماحول میں بیٹھ کر کام کریں تو انھیں ناک کے اردگرد ویزلین لگانے کو کہا جاتا ہے۔ صفائی اور وزن کو کنٹرول کرنے سے بھی موثر نتائج ملتے ہیں۔

وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے اکثر سانس اور سینے کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ یہ وٹامن ہری سبزی، گاجر، بند گوبی، ٹماٹر، گیہوں، مکئی، کاؤ مچھلی کے جگر، دودھ، مکھن، گوشت، شلجم، میٹھے کدو، آڑو وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سورج مکھی کے بیج، انجیر، خوبانی، پودینے کے پتے، لہسن، ہلدی، ادرک، منقہ، دار چینی، بڑی الائچی ، گڑ، شہد اور ناریل کا متواتر استعمال فائدے مند رہتا ہے۔ خاص طور پر السی کے بیج Flax seed کا استعمال بہت مفید رہتا ہے۔ السی کے پتوں کی چائے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ السی میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ شامل ہے۔ السی کے بیج کینسر، دل کے امراض، ذیابیطس، فالج وغیرہ میں بھی شفا دیتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ فطرت کے اس نایاب خزانے میں ہر مرض کے لیے معجزانہ شفا موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ان نعمتوں کی اہمیت سے کس قدر واقف ہیں۔ سادہ زندگی و ارفع خیالات میں ہی موجودہ دور کے تمام تر مسائل کا حل موجود ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں