میئر کراچی کے لیے نئے چیلنجز
جنرل ضیاء الحق نے 80ء کی دہائی کے آغاز میں، کراچی میں بلدیاتی انتخابات کرائے تھے، اس وقت کی حکومت پیپلز پارٹی کے خلاف آپریشن میں مصروف تھی۔ پیپلز پارٹی کے بیشتر رہنما اور کارکن جیلوں میں بند تھے۔
جماعت اسلامی نے میئر کے لیے عبدالستار افغانی کو نامزد کیا۔ پیپلز پارٹی نے میئر کے لیے عبد الخالق اﷲ والا اور ڈپٹی میئر کے لیے یوسف ڈیڈا ایڈووکیٹ کو ٹکٹ دیا۔ انتخابات سے ایک دن قبل حکومتی حکام نے پیپلز پارٹی کی دو کونسلر خواتین کو گرفتار کر لیا۔ یہ خواتین کونسلر کے ووٹ کا حق استعمال نہ کرسکیں ، عبدالستار افغانی میئر اور پیپلز پارٹی کے یوسف ڈیڈا ایڈووکیٹ ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔
کراچی میں جون 2023 کے انتخابات میں حالات بدل گئے تھے۔ پیپلز پارٹی وفاق اور صوبہ میں حکومت کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہو چکا ہے۔
میئر کے انتخاب والے دن جماعت اسلامی کی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے 30 کونسلر ووٹ ڈالنے نہیں آئے اور جیل سے آنے والے تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا، جن 3ٹاؤنز میں تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کی تھی، ان ٹاؤنز سے پیپلز پارٹی نے اپنے امیدوار دستبردار کر لیے، یوں تین ٹاؤنز میں تحریک انصاف کے امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔
جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم نے غیر منتخب فرد کو میئر کے انتخاب کے لیے اہل قرار دینے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت دائر کی ہوئی ہے، سندھ ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی کی میئر کے انتخابات ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کی تھی، یوں کشیدگی کے اس ماحول میں میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوا۔
پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب 12 ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے۔ مرتضیٰ وہاب کا تعلق ایک ترقی پسند گھرانے سے ہے۔ ان کے والد وہاب صدیقی بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے 70ء کی دہائی کے رہنماؤں میں شامل تھے۔ وہاب صدیقی کا شمار شعلہ بیان مقررین میں ہوتا تھا۔
مرتضیٰ وہاب کی والدہ فوزیہ وہاب کراچی یونیورسٹی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم پروگریسو اسٹوڈنٹس فرنٹ کی رہنما تھیں، بعد ازاں وہ پیپلز پارٹی میں متحرک رہیں۔
سندھ میں گزشتہ 15 برسوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ پیپلز پارٹی 2008سے 2013 تک وفاق میں برسرِ اقتدار رہی، اس وقت وفاق کی مخلوط حکومت کا بھی حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے پہلی دفعہ کراچی کے میئر کی نشست حاصل کی ہے۔
کراچی گزشتہ 15 برسوں سے زبوں حالی کا شکار ہے، شہر کا انفرا اسٹرکچر فرسودہ ہوچکا۔ کراچی شہر کا اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ پبلک ٹرانسپورٹ کا ہے۔
گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں کراچی میں ہونے والی بدامنی کی بناء پر نجی شعبہ نے ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری بہت کم کردی تھی، یوں 308 سے زیادہ روٹس پر چلنے والی بسیں لاپتہ ہوئیں۔
شہریوں کے نصیب میں چین کی تیار کردہ مال بردار موٹر سائیکل چنگچی رہ گئی۔ چنگچی کسی بھی صورت پبلک ٹرانسپورٹ کی تعریف میں نہیں آتی۔ گزشتہ 15برسوں سے ذرایع ابلاغ پر کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل کا ذکر ہوتا رہا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ سال چند روٹس پر بڑی بسیں چلائیں۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے فروری 2016میں کراچی میں گرین لائن بس سروس کا سنگِ بنیاد رکھا۔ گرین لائن کی تعمیر 2021میں مکمل ہوئی۔
پہلی دفعہ ایک جدید بس کے نظام سے شہریوں کو مستفید ہونے کا موقع ملا۔ حکومت سندھ نے 2سال قبل ریڈ لائن پروجیکٹ پر کام شروع کیا مگر ابھی اس پروجیکٹ کا پہلا مرحلہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ کراچی کو گرین لائن اور ریڈ لائن جیسی بارہ نئی لائنز کی ضرورت ہے۔ کراچی میں انڈر گراؤنڈ ٹرین سرکلر ریلوے، الیکٹرک ٹرام اور بڑی بسوں کے لیے مخصوص ٹریک تعمیر ہونے ضروری ہیں۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت کراچی سرکلر ریلوے کی پٹریوں پر قابض غیر قانونی بستیوں کو منہدم کرنے کا سلسلہ شرو ع ہوا تھا۔ احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے ضلع حکام نے سرکلر ریلوے کے ٹریک پر قائم تجاوزات کو ختم کردیا تھا مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود ابھی تک سرکلر ریلوے دوبارہ شروع نہ ہوسکی۔
نو منتخب میئر کی ذمے داری ہے کہ سرکلر ریلوے کو چلانے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں استعمال کریں۔ کراچی شہر کا اہم مسئلہ پانی کی فراہمی کا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم شہباز شریف کے سامنے یہ شکوہ کرچکے ہیں کہ انھیں بھی ٹینکر سے پانی لینا پڑتا ہے، یعنی شہر کی ایک بڑی آبادی کو پانی نہیں ملتا۔ کراچی کے لیے پانی کی فراہمی کا منصوبہ '' کے فور'' ایک عشرہ سے التواء کا شکار ہے۔ حکومت نے کراچی واٹر بورڈ کارپوریشن بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے، یوں اب واٹر بورڈ تجارتی بنیادوں پر کام کرے گا۔
دنیا کے تمام جدید شہروں کی طرح کراچی کی ہر ریگولر بستی کے ہر گھر کو پانی کی فراہمی کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پانی کی تقسیم کے نظام میں مختلف نوعیت کی مافیاز نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ ان میں کچھ مافیاز سرکاری ہیں جب کہ کچھ غیر سرکاری مافیاز ہیں۔ ان مافیاز کو ختم کیا جائے تو ہر گھر کو پانی مل سکتا ہے۔
کراچی کے سابق کمشنر آصف علی شاہ نے صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''کراچی میں کمی پانی کی نہیں ہے بلکہ تقسیم کا نظام ناکارہ ہے۔'' گزشتہ 15 برسوں سے کراچی میں صفائی کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ حکومت نے سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ بنایا، سیکڑوں افسروں کو کروڑوں روپوں کی تنخواہیں دی جاتی ہیں۔
دنیا کے جدید شہروں میں کوڑے سے بجلی بنتی ہے، اگر کوڑا چوری کرنے والوں کو قابو کیا جائے تو کوڑے سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے زیادہ لگ سکتے ہیں اور یہ کارخانے والے ہر آبادی سے کوڑا خود ہی اٹھائیں گے۔ شہر کا سیوریج کا نظام درہم برہم ہے۔
شہر کے امراء کے علاقے ہوں یا متوسط طبقہ کے ہر طرف سیوریج کا پانی کھڑا نظر آتا ہے۔ غریبوں کی بستیوں کا تو ذکر کرنا بھی بیکار ہے، اگر کونسلر کو با اختیار کیا جائے اور یونین کونسل کی سطح پر سیوریج کے نظام کی تنصیب اور نگرانی کا کام سونپا جائے تو صفائی اور سیوریج کا نظام بہتر ہوسکتا ہے۔
کبھی بلدیہ کراچی کے عباسی شہید اسپتال کا شمار شہر کے بہترین اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ عباسی شہید اسپتال ہر حوالہ سے بربادی کا شکار ہے۔ پھر بلدیہ کو پسماندہ اضلاع میں جدید اسپتالوں کے قیام پر توجہ دینی ہوگی۔ منتخب بلدیاتی ادارے شرح خواندگی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
بلدیہ کراچی کو اپنے اسکولوں میں بچوں کو ناشتہ، کھانا، مفت یونیفارم، کتابوں اور کاپیوں کی فراہمی جیسے اقدامات پر غورکرنا ہوگا۔ شہر میں بلدیہ کراچی کی حدود 33 فیصد کے قریب ہے، باقی علاقوں میں ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور دیگر اداروں کی حدود ہیں۔ بھارت میں کنٹونمنٹ بورڈ ختم کر کے بلدیاتی اداروں کی حدود بڑھا دی گئی ہیں۔ حکومت سندھ اگر کراچی کو جدید شہر میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تو پھر بلدیہ کراچی کی حدود پورے کراچی تک پھیل جانی چاہیے اور پورے شہر میں بلدیہ کی ہی اتھارٹی ہونی چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی شہر کے میئر کے اختیارات دہلی، کلکتہ، لندن اور نیویارک کے میئر کے اختیارات کے برابر ہونے چاہئیں۔ اس وقت آئیڈیل صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا کراچی میں بھی میئر ہے اور صوبائی حکومت بھی اس کی ہے۔ وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی برابر کی شراکت دار ہے۔
سندھ اسمبلی کو بلدیہ کراچی کی حدود پورے شہر تک پھیلانے اور کراچی کے میئر کے اختیارات کو بڑھانے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔ کراچی کے شہریوں کو امید ہے کہ مرتضیٰ وہاب صدیقی کراچی کو جدید شہر بنانے کے چیلنج کو قبول کریں گے۔
جماعت اسلامی نے میئر کے لیے عبدالستار افغانی کو نامزد کیا۔ پیپلز پارٹی نے میئر کے لیے عبد الخالق اﷲ والا اور ڈپٹی میئر کے لیے یوسف ڈیڈا ایڈووکیٹ کو ٹکٹ دیا۔ انتخابات سے ایک دن قبل حکومتی حکام نے پیپلز پارٹی کی دو کونسلر خواتین کو گرفتار کر لیا۔ یہ خواتین کونسلر کے ووٹ کا حق استعمال نہ کرسکیں ، عبدالستار افغانی میئر اور پیپلز پارٹی کے یوسف ڈیڈا ایڈووکیٹ ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔
کراچی میں جون 2023 کے انتخابات میں حالات بدل گئے تھے۔ پیپلز پارٹی وفاق اور صوبہ میں حکومت کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہو چکا ہے۔
میئر کے انتخاب والے دن جماعت اسلامی کی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے 30 کونسلر ووٹ ڈالنے نہیں آئے اور جیل سے آنے والے تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا، جن 3ٹاؤنز میں تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کی تھی، ان ٹاؤنز سے پیپلز پارٹی نے اپنے امیدوار دستبردار کر لیے، یوں تین ٹاؤنز میں تحریک انصاف کے امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔
جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم نے غیر منتخب فرد کو میئر کے انتخاب کے لیے اہل قرار دینے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت دائر کی ہوئی ہے، سندھ ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی کی میئر کے انتخابات ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کی تھی، یوں کشیدگی کے اس ماحول میں میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوا۔
پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب 12 ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے۔ مرتضیٰ وہاب کا تعلق ایک ترقی پسند گھرانے سے ہے۔ ان کے والد وہاب صدیقی بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے 70ء کی دہائی کے رہنماؤں میں شامل تھے۔ وہاب صدیقی کا شمار شعلہ بیان مقررین میں ہوتا تھا۔
مرتضیٰ وہاب کی والدہ فوزیہ وہاب کراچی یونیورسٹی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم پروگریسو اسٹوڈنٹس فرنٹ کی رہنما تھیں، بعد ازاں وہ پیپلز پارٹی میں متحرک رہیں۔
سندھ میں گزشتہ 15 برسوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ پیپلز پارٹی 2008سے 2013 تک وفاق میں برسرِ اقتدار رہی، اس وقت وفاق کی مخلوط حکومت کا بھی حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے پہلی دفعہ کراچی کے میئر کی نشست حاصل کی ہے۔
کراچی گزشتہ 15 برسوں سے زبوں حالی کا شکار ہے، شہر کا انفرا اسٹرکچر فرسودہ ہوچکا۔ کراچی شہر کا اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ پبلک ٹرانسپورٹ کا ہے۔
گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں کراچی میں ہونے والی بدامنی کی بناء پر نجی شعبہ نے ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری بہت کم کردی تھی، یوں 308 سے زیادہ روٹس پر چلنے والی بسیں لاپتہ ہوئیں۔
شہریوں کے نصیب میں چین کی تیار کردہ مال بردار موٹر سائیکل چنگچی رہ گئی۔ چنگچی کسی بھی صورت پبلک ٹرانسپورٹ کی تعریف میں نہیں آتی۔ گزشتہ 15برسوں سے ذرایع ابلاغ پر کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل کا ذکر ہوتا رہا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ سال چند روٹس پر بڑی بسیں چلائیں۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے فروری 2016میں کراچی میں گرین لائن بس سروس کا سنگِ بنیاد رکھا۔ گرین لائن کی تعمیر 2021میں مکمل ہوئی۔
پہلی دفعہ ایک جدید بس کے نظام سے شہریوں کو مستفید ہونے کا موقع ملا۔ حکومت سندھ نے 2سال قبل ریڈ لائن پروجیکٹ پر کام شروع کیا مگر ابھی اس پروجیکٹ کا پہلا مرحلہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ کراچی کو گرین لائن اور ریڈ لائن جیسی بارہ نئی لائنز کی ضرورت ہے۔ کراچی میں انڈر گراؤنڈ ٹرین سرکلر ریلوے، الیکٹرک ٹرام اور بڑی بسوں کے لیے مخصوص ٹریک تعمیر ہونے ضروری ہیں۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت کراچی سرکلر ریلوے کی پٹریوں پر قابض غیر قانونی بستیوں کو منہدم کرنے کا سلسلہ شرو ع ہوا تھا۔ احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے ضلع حکام نے سرکلر ریلوے کے ٹریک پر قائم تجاوزات کو ختم کردیا تھا مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود ابھی تک سرکلر ریلوے دوبارہ شروع نہ ہوسکی۔
نو منتخب میئر کی ذمے داری ہے کہ سرکلر ریلوے کو چلانے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں استعمال کریں۔ کراچی شہر کا اہم مسئلہ پانی کی فراہمی کا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم شہباز شریف کے سامنے یہ شکوہ کرچکے ہیں کہ انھیں بھی ٹینکر سے پانی لینا پڑتا ہے، یعنی شہر کی ایک بڑی آبادی کو پانی نہیں ملتا۔ کراچی کے لیے پانی کی فراہمی کا منصوبہ '' کے فور'' ایک عشرہ سے التواء کا شکار ہے۔ حکومت نے کراچی واٹر بورڈ کارپوریشن بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے، یوں اب واٹر بورڈ تجارتی بنیادوں پر کام کرے گا۔
دنیا کے تمام جدید شہروں کی طرح کراچی کی ہر ریگولر بستی کے ہر گھر کو پانی کی فراہمی کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پانی کی تقسیم کے نظام میں مختلف نوعیت کی مافیاز نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ ان میں کچھ مافیاز سرکاری ہیں جب کہ کچھ غیر سرکاری مافیاز ہیں۔ ان مافیاز کو ختم کیا جائے تو ہر گھر کو پانی مل سکتا ہے۔
کراچی کے سابق کمشنر آصف علی شاہ نے صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''کراچی میں کمی پانی کی نہیں ہے بلکہ تقسیم کا نظام ناکارہ ہے۔'' گزشتہ 15 برسوں سے کراچی میں صفائی کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ حکومت نے سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ بنایا، سیکڑوں افسروں کو کروڑوں روپوں کی تنخواہیں دی جاتی ہیں۔
دنیا کے جدید شہروں میں کوڑے سے بجلی بنتی ہے، اگر کوڑا چوری کرنے والوں کو قابو کیا جائے تو کوڑے سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے زیادہ لگ سکتے ہیں اور یہ کارخانے والے ہر آبادی سے کوڑا خود ہی اٹھائیں گے۔ شہر کا سیوریج کا نظام درہم برہم ہے۔
شہر کے امراء کے علاقے ہوں یا متوسط طبقہ کے ہر طرف سیوریج کا پانی کھڑا نظر آتا ہے۔ غریبوں کی بستیوں کا تو ذکر کرنا بھی بیکار ہے، اگر کونسلر کو با اختیار کیا جائے اور یونین کونسل کی سطح پر سیوریج کے نظام کی تنصیب اور نگرانی کا کام سونپا جائے تو صفائی اور سیوریج کا نظام بہتر ہوسکتا ہے۔
کبھی بلدیہ کراچی کے عباسی شہید اسپتال کا شمار شہر کے بہترین اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ عباسی شہید اسپتال ہر حوالہ سے بربادی کا شکار ہے۔ پھر بلدیہ کو پسماندہ اضلاع میں جدید اسپتالوں کے قیام پر توجہ دینی ہوگی۔ منتخب بلدیاتی ادارے شرح خواندگی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
بلدیہ کراچی کو اپنے اسکولوں میں بچوں کو ناشتہ، کھانا، مفت یونیفارم، کتابوں اور کاپیوں کی فراہمی جیسے اقدامات پر غورکرنا ہوگا۔ شہر میں بلدیہ کراچی کی حدود 33 فیصد کے قریب ہے، باقی علاقوں میں ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور دیگر اداروں کی حدود ہیں۔ بھارت میں کنٹونمنٹ بورڈ ختم کر کے بلدیاتی اداروں کی حدود بڑھا دی گئی ہیں۔ حکومت سندھ اگر کراچی کو جدید شہر میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تو پھر بلدیہ کراچی کی حدود پورے کراچی تک پھیل جانی چاہیے اور پورے شہر میں بلدیہ کی ہی اتھارٹی ہونی چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی شہر کے میئر کے اختیارات دہلی، کلکتہ، لندن اور نیویارک کے میئر کے اختیارات کے برابر ہونے چاہئیں۔ اس وقت آئیڈیل صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا کراچی میں بھی میئر ہے اور صوبائی حکومت بھی اس کی ہے۔ وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی برابر کی شراکت دار ہے۔
سندھ اسمبلی کو بلدیہ کراچی کی حدود پورے شہر تک پھیلانے اور کراچی کے میئر کے اختیارات کو بڑھانے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔ کراچی کے شہریوں کو امید ہے کہ مرتضیٰ وہاب صدیقی کراچی کو جدید شہر بنانے کے چیلنج کو قبول کریں گے۔