آخر کس کا تحفظ
غلامی جسمانی مجبوری نہیں ہے بلکہ فکری معذوری ہے اور آج ہمارے حکمران اور منتخب نمایندے انھی لوگوں سے خطرہ محسوس۔۔۔
مسز عائشہ شوکت ایڈووکیٹ ، مسز فائزہ خلیل ایڈووکیٹ، مسز روبینہ جتوئی ایڈووکیٹ WIL Form (ویمن اسلامک لائرز فورم) کی روح رواں ہیں جو کراچی کے وکلاء میں ہر موضوع پر آگاہی فراہم کرنے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی ہیں۔
گزشتہ 22 مارچ کو کراچی بار کے تعاون سے ول لائر فورم نے''پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس 2013ء اور استحکام پاکستان کے عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں ایک مقرر کی حیثیت سے مجھے بھی پیپر پڑھنے کے لیے عائشہ شوکت نے حکم دیا کیونکہ وہ میرے عزیزی دوست اور جونیئر شوکت قائم خانی کی مسز بھی ہیں لہٰذا انکار نہ کر سکا دوسرے مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اتنے حساس موضوع پر جو کہ پاکستان کی سلامتی اور استحکام سے براہ راست پیوستہ ہے کسی تنظیم نے اسے اہمیت دی۔ لہٰذا میں نے فورم کے تمام ممبران کو خصوصی مبارکباد دی کیونکہ اس اہم بل کو جب قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے بحث کے لیے پیش کیا تو میری تحقیق کے مطابق اس پر سنجیدگی سے بحث نہیں کی گئی بہرحال اپنے پیپر اور تحقیق کی چند باتیں اپنے قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں۔
اس قانون کو پیش کرنے کی بڑی وجہ حکومت نے یہ بتائی ہے کہ یہ ایک اصول ہے کہ خاص حالات میں خاص قانون کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وقت ریاست پاکستان کو دہشت گردوں کی طرف سے اس کی سلامتی اور حفاظت کے لیے دھمکی ہے لہٰذا حکومت پاکستان یہ بل قانون سازی کے لیے پیش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور قومی اسمبلی میں ان جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کو خطوط ارسال کیے اس کے باوجود حکومت کو سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی اور قومی اسمبلی کی جس کمیٹی میں یہ بل پیش ہوا وہ اسے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد فروری 2014ء میں اس کا ترمیمی بل پیش کیا گیا اور بالآخر مخالفت کے باوجود اکثریتی جماعت ہونے کے باعث اسے قومی اسمبلی سے اپوزیشن کی موجودگی میں منظور کرا لیا گیا اور اب 3ماہ تک مزید قابل عمل ہے حالانکہ جمہوری معاشروں میں تمام قانون سازی اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کی جاتی ہے۔ اس قانون کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ عام خیال ہے کہ اس قانون کے ذریعے گمشدہ افراد (Missing Persons) کے سلسلے میں جو زیادتیاں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے ہو رہی ہیں ان پر پردہ ڈالنے اور انھیں قانونی جواز بنانے کی کوشش ہے کیونکہ اب اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اس معاملے کو نہایت سختی سے نمٹا جا رہا ہے اور متعلقہ افسران کے خلاف مقدمات درج کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ اس قانون کے ذریعے سیاسی کارکنوں کو بھی نشانہ بنانے کا خطرہ ہے کھلے الفاظ میں یہ کہ اس قانون کے ذریعے ریاست پاکستان اور عوام کو تحفظ حاصل نہیں ہو گا بلکہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو قانونی تحفظ ملے گا جس کے بعد وہ اس کے سائے تلے اپنی من مانی کھل کر کرینگے اور یہ قانون انھی کی ایماء اور فرمائش پر پیش کیا گیا ہے اور درپردہ وہ ہی ہیں اور سیاسی جماعتوں سے نہایت معذرت کے ساتھ کہ اتنا واضح حالات ہونے کے باوجود قوم کے ان منتخب نمایندوں نے پارلیمان کے اندر اس قانون کی مخالفت میں اس طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا پارلیمان سے باہر عوامی احساسات کو گرمانے کے لیے کیا مثلاً میری اپنی تحقیق و معلومات کے مطابق اس قانون پر پارلیمانی کمیٹی کا سب سے بڑا قانونی اعتراض اس کی سیکشن 18 پر کیا جو کہ اپیل سے متعلق ہے جس میں اسپیشل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی مدت 15 دن اور ایلیٹ فورم سپریم کورٹ ہے کہ اس میں 15 دن سے بڑھا کر 30 دن کیا جائے اور ہر آدمی کی اتنی استطاعت نہیں ہوتی کہ وہ سپریم کورٹ کے اخراجات برداشت کر سکے۔
دوسرا اعتراض ملزم کے تفتیشی عرصے پر ہے جہاں ملزم 90 دن تک ان اداروں کی تحویل میں رکھا جا سکتا ہے اور اس دوران اس کے گھر والے حتیٰ کہ وکیل کو بھی اس کی ملاقات سے دور رکھنے کا اختیار ہے۔ باقی فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں کہ کیا یہ کافی ہے؟حالانکہ اس کی سیکشن 17 میں میں صاف لکھا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات 498 ,497,496, 491 ,439-A, 439 374, 435 اور561-A کا اطلاق اس قانون پر نہیں ہوگا یعنی ملزم کی ضمانت بعد از اور قبل از گرفتاری، ہائی کورٹ اور سیشن کورٹ کے اختیارات نگرانی، ہائی کورٹ کی صوابدیدی اختیارات اور حبس بے جا کا اختیار اس قانون پر لاگو نہیں ہو گا گویا اس دوران ملزم کو مکمل قانونی آزادی کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح اس کی سیکشن 19 کے تحت ان سیکیورٹی ایجنسیز کو تحفظ دیا گیا ہے کہ کوئی ملزم ان کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی خصوصاً ہتک عزت اور Damages کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے اور سیکشن 20 میں یہ اختیار و قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ مزید اپنے رولز بنا سکتے ہیں جب کہ مدعی مقدمہ اور گواہان پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
اس قانون پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس میں عدلیہ کے اختیارات انتظامیہ کو دیے گئے ہیں۔ دراصل یہ قانون9/11 کی پالیسیوں کا تسلسل ہے اس لیے قانونی ماہرین اسے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ورنہ اس سے ملتا جلتا قانون Supression of Terreroist Act 1997 موجود ہے لیکن اس پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کرایا گیا حالانکہ اب جو دہشت گردی کے مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ ان میں ATA کی سیکشن 7 کے ساتھ اس آرڈیننس کی 15 PPO کا بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اگر اس آرڈیننس کو اسی حالت میں سینیٹ سے یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاس کر کے ''ایکٹ'' کا درجہ دے دیا گیا تو یہ ایک آئینی قتل(Constitutional Murder) ہو گا۔
دنیا میں خاص حالات میں قوانین بنتے ہیں امریکا میں Patriot Act بنا لیکن اس طرح نہیں کہ انسانی حقوق ہی ختم کر دیے جائیں۔ پاکستان میں اس سے قبل 1952ء میں Secority of Pakistan Act بنا لیکن اس وقت ملک میں کوئی آئین نہیں تھا جب کہ اس کے بعد 1956ء کے آئین میں صرف انسانی حقوق سے متعلق آرٹیکل 3 سے 22 تک 1962ء کے آئین میں آرٹیکل 5 سے 19 تک اور 1973ء کے آئین میں آرٹیکل 8 سے 28 تک صرف انسانی حقوق سے متعلق ہیں اور یہ قانون خاص طور پر آرٹیکل 10 سے مکمل متصادم ہے جب کہ حال ہی میں چیف جسٹس نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ اگر کہیں عوامی حقوق کو نظر انداز کیا گیا تو ہمیں فرض کی ادائیگی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اور ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ امتحان بھی عدلیہ اور عوام ہی دیں گے کیونکہ عوامی نمایندوں نے اس سلسلے میں وہ رول ادا نہیں کیا جو ادا کرنا چاہیے تھا۔ جب میں یہ آرٹیکل لکھ رہا تھا تو مجھے ڈاکٹر رفعت اعوان جو کہ پیس ویلفیئر فائونڈیشن پاکستان کے چیف ہیں فون آیا کہ ہم نے دوسری NGOs کے ساتھ مل کر اس Ordinance پر بحث کے لیے سیمینار کا اہتمام کیا ہے اور آپ اس میں ایک اسپیکر ہیں تو مجھے اس بات پر یقین ہو گیا اور خوشی محسوس ہوئی کہ آج بھی سول سوسائٹی زندہ ہے اورs Fundamental Activist واقعی اس کالے قانون کے خلاف آزاد بلند کر کے دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ انسانی حقوق، آئین اور قانون کی بالادستی کی آواز باہر سے نہیں اندر سے نکلتی ہے کیونکہ غلامی جسمانی مجبوری نہیں ہے بلکہ فکری معذوری ہے اور آج ہمارے حکمران اور منتخب نمایندے انھی لوگوں سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں جن کے درپر انتخاب میں پیدل چل کر گئے تھے۔ وہ آج آئین توڑنے والے کو سیکیورٹی اور آئین کا تحفظ کرنے والوں کو قانون کی راہ میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان کی باشعور عوام جانتی ہے کہ اس قانون کے ذریعے کس کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔
عجب شان ہے ہم غلام ملکوں کی
بیڑیاں پیر میں ہیں اور سر پر تاج