آبِ زم زم ایک زندہ معجزہ
’’روئے زمین پر بہترین پانی زم زم ہے جس میں کھانے کی طرح غذائیت بھی ہے اور مرض کے لیے شفاء ہے۔‘‘
تاریخی مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ زم زم کی تاریخ تقریباً پانچ ہزار سال قدیم ہے، حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے گھرانے کے وقت میں اس کا ظہور ہُوا۔
زم زم کا ظہور کیسے ہُوا ؟ ہماری تمام مذہبی کتب کے مصنفین اسی ایک روایت پر متفق ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ اپنی بیوی ہاجرہؓ اور ننھے سے شیر خوار بیٹے اسمٰعیلؑ کو ملک عراق سے مکہ لے آئے حضرت ابراہیمؑ کا وطن عراق کا شہر اُر تھا۔
جب آپؑ نے اپنی زوجہ اور بیٹے کو مکہ کی سرزمین پر عین بیت اﷲ کے سامنے چھوڑا تو ان کے پاس ایک کھجور سے بھرا تھیلا اور پانی سے بھرا ایک مشکیزہ چھوڑ کر جانے لگے تو ہاجرہؓ کہنے لگیں: آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
آپؑ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، تین مرتبہ آپ نے یہی سوال دہرایا اور ہر مرتبہ آپؑ خاموش رہے۔ آخر ہاجرہ ؓ نے خود ہی کہا کیا: آپ ہمیں اﷲ کے سہارے چھوڑے جارہے ہیں۔ تب آپؑ نے فرمایا: ہاں۔ تب وہ صابر اور شاکر خاتون گویا ہوئیں: تو پھر ٹھیک ہے وہی ہماری حفاظت فرمائے گا۔ حضرت ابراہیم ؑ ان دونوں کو اس بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ کر شام کی طرف چلے گئے۔
چند دنوں کے بعد وہ توشہ ختم ہوگیا، شیر خوار اسمٰعیلؑ کا پیاس کے مارے بُرا حال تھا۔ تو ماں ہاجرہؓ بے قراری کے عالم میں صفاء نامی پہاڑی پر چڑھ گئیں، ادھر ادھر پانی تلاش کیا نظر نہ آیا تو مروہ کی جانب دوڑیں وہاں بھی انہیں پانی کہیں دکھائی نہ دیا تو اس طرح وہ پھر صفاء کی جانب پلٹیں پھر مروہ کی جانب اس طرح انہوں نے صفاء سے مروہ کی جانب اضطراب کے عالم میں سات چکر کاٹے مگر پانی نظر نہ آیا ادھر اسمٰعیلؑ بلکتے ہوئے ایڑیاں رگڑتے رہے۔
ان چکروں کے دوران انہیں یہ بھی خدشہ لگا رہا کہ پانی کی تلاش میں، میں تو صفاء و مروہ کی جانب دوڑ رہی ہوں مبادا کہیں کوئی بھیڑیا یا درندہ اسمٰعیلؑ کو کوئی گزند نہ پہنچا دے۔ ساتویں چکر کے بعد بی بی ہاجرہؓ جب بیٹے کے قریب پہنچیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی سعی کو قبول کرتے ہوئے ایڑیوں کی رگڑ کی جگہ ایک ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ جاری کردیا ہے۔
انہوں نے ریت اور پتھروں کی باڑھ باندھی اور منہ سے کہتے جاتی تھیں: زم، زم، یعنی ٹھہر، ٹھہر۔ اسی وجہ سے اس پانی کا نام زم زم مشہور ہوگیا جو ان شاء اﷲ تا قیامت اسی نام سے پکارا بھی جائے گا اور جاری و ساری بھی رہے گا، جو اس کے معجزہ ہونے کی بھی دلیل ہوگی۔ پانی کی دریافت کے بعد حضرت ہاجرہؓ نے اپنی مستقل سکونت یہیں پر اختیار کرلی۔
اسی طرح پرندوں نے بھی اس پانی کی دریافت کرلی تھی چناں چہ ایک مرتبہ وہ غول کی شکل میں وہاں منڈ لا رہے تھے تو عین اسی وقت قبیلۂ بنو جرہم کا ایک قافلہ یمن سے آتے ہوئے یہاں سے گزر رہا تھا انہوں نے جب پرندوں کا غول دیکھا تو اندازہ لگا لیا کہ اس مقام پر ضرور پانی موجود ہے۔
چناں چہ انہوں نے بھی اب اپنا رخ اسی طرف موڑ لیا اور ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ انہوں نے پانی کو پا لیا ہے اور قریب ہی ماں بیٹوں کو بھی بسیرا کرتے دیکھا، چناں چہ قافلے کے سردار نے حضرت ہاجرہؓ سے وہاں سکونت کی اجازت طلب کر لی جو انہیں دے دی گئی مگر اس شرط پر کہ پانی پر اختیار میرا ہوگا یہ شرط انہوں نے قبول کر لی۔ اس طرح یہ مکہ کی پہلی آبادی کہلاتی ہے۔
زم زم کے گرد پہلی تعمیر باڑھ کی شکل میں حضرت ہاجرہ ؓ نے کی اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے اس چشمے کو چاروں جانب سے کھدائی کرکے اسے کنویں کی شکل میں تبدیل کردیا اور اب یہ زمین سے اونچا ہوتے ہوتے اتنا گہرا ہوگیا ہے کہ اس کا پانی اگر دیکھنا چاہیں تو نہیں دیکھ سکتے۔ ایک مقام پر اس کنویں کی گہرائی 14 فٹ لکھی ہے۔
خلیفہ مامون الرشید کے دور میں اس کی صفائی ہوئی تھی اس صفائی کے لیے پہلی بار کوئی انسان اس کنویں میں اترا تو اس نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا کہ اس کنویں کے اندر ایک چٹان موجود ہے جس پر لکھا ہے: ''بہ اذن اﷲ '' یعنی اﷲ کے حکم سے۔ چٹان کے گرد مٹی کی ایک تہہ جمی ہوئی ہے جس سے قدرتی طور پر پانی فلٹر ہوتا رہتا ہے۔
مشہور مؤرخ ارزقی نے لکھا ہے کہ اس صفائی کے دوران میں بھی کنویں میں اترا تھا تو کیا دیکھا کہ اس کنویں میں تین اطراف سے سوتے پھوٹ رہے ہیں، حطیم کی جانب سے، صفاء کی جانب سے اور مروہ کی جانب سے۔ یہ تینوں سوتے کنویں کی گہرائی میں تیزی سے جمع ہوتے رہتے ہیں کہ اگر چوبیس گھنٹے بھی اس کا پانی بہ ذریعہ مشین کھینچتے رہیں تو اس کا پانی نہیں ٹوٹتا۔ 1909 میں اس کنویں کا پانی اس درجہ بڑھ گیا کہ چھلک کر باہر نکل آیا تھا اس لیے اس کے گرد دیوار تعمیر کرنا پڑی اب اس کی سطح 17گز بتائی جاتی ہے۔
محمد حسین ہیکل نے لکھا ہے کہ زم زم کا کنواں مضاض بن عمر و کے زمانے میں بند یا خشک ہُوا تھا مگر اہل عرب کے ذہنوں میں اس کا محل وقوع محفوظ تھا اور کنواں کھودنے کی آرزو ان کے دلوں میں مچلتی رہی حتیٰ کہ حضور اکرم ﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب کو خواب میں کنواں کھولنے کا حکم ہُوا اور یہ حکم تین بار ہوا آخری بار ایک کوّے کو اس مقام پر ٹھونگیں مارتا دکھایا گیا چناں چہ آپ اپنے بیٹے کو لے کر اس مقام پر پہنچ گئے تو دیکھا کہ واقعی ایک کوّا اس وقت بھی زمین پر ٹھونگیں مارکر اصل مقام کی نشان دہی کر رہا تھا، چناں چہ آپ نے ٹھیک اسی مقام سے کھدائی شروع کردی اور کنواں برآمد ہوگیا۔ کنویں کے گرد اینٹوں کی تعمیر کی اس دن سے آج تک یہاں سے پانی جاری ہے قریش نے اس کام کے لیے سقایہ کا منصب اپنے لیے قائم رکھا۔
اس کنویں کو دیکھنے کے لیے اب30 سیڑھیاں نیچے اترنا پڑتا ہے جہاں ایک انجینیر چوبیس گھنٹے متعین رہتا ہے جو ایک شیشے کے کمرے میں بیٹھا پوری صورت حال کو مانیٹر کرتا رہتا ہے۔
اس کنویں کا پانی قدرے نمکین ہے مختلف سائنس دانوں نے آب زم زم کے کیمیائی تجزیے کیے ہیں اور اس میں ان عناصر کی موجودی ظاہر کی ہے، یعنی کیلشیم کاربونیٹ، ہائیڈروجن سلفائیڈ، میگنیشیم سلفیٹ، پوٹاشیم نائیٹریٹ، سوڈیم سلفیٹ اور سوڈیم کلورائیڈ، ان معدنیات کی موجودی میں اطباء لکھتے ہیں کہ یہ پانی زود ہضم ہے، گردے کی پتھری توڑتا ہے، جوڑوں کو مضبوط کرتا ہے، جِلدی امراض دور کرتا ہے، ہیضے کے جراثیم کو مار دیتا ہے۔
پیٹ کی چربی کم کرکے موٹاپے کو ختم کرتا ہے، دل کی بے اعتدال دھڑکن کو اعتدال پر لاتا ہے، ذیابطیس کے لیے اکثیر ہے، پیٹ کا درد دور کرتا ہے، امراض چشم میں مفید ہے، اسے آنکھوں میں ڈالنے سے کئی امراض چشم ختم ہو جاتے ہیں، بخار کو ختم کرتا ہے اور عالم نزع میں مریض کے منہ میں ڈالا جاتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اس پانی میں تین اوصاف ایسے رکھے ہیں جو کسی اور پانی میں نہیں پائے جاتے، زم زم پیاس بجھاتا ہے، غذا کا کام دیتا ہے اور سوائے موت کے ہر بیماری کی شفاء ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں آیا ہے: ''روئے زمین پر بہترین پانی زم زم ہے جس میں کھانے کی طرح غذائیت بھی ہے اور مرض کے لیے شفاء ہے۔'' (طبرانی کبیر)
حدیث میں آیا ہے، مفہوم: ''زم زم کا پانی جس نیّت سے پیا جائے اس سے وہی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔'' (ابن ماجہ)
حضرت جابرؓ نے آنحضورؐ سے روایت کیا ہے، مفہوم: ''آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص آب زم زم کو پینے کا ارادہ کرے اور خوب سیر ہو کر پیے تو اس کی بیماری زائل ہو جاتی ہے۔
آنحضور ﷺ کی نظر میں آب زم زم بہت مقدس اور محترم تھا، اسی لیے آپؐ نے اسے کھڑے ہو کر نوش فرمایا ہے اور پھر یہ دعا مانگی ہے، مفہوم: ''اے اﷲ میں تجھ سے مانگتا ہوں علم نافع رزق کشادہ اور تمام بیماریوں سے شفائ۔''
ہر مسلمان کے لیے یہ پانی بڑا مقدس اور موجب برکت ہے روئے زمین پر اس وقت دو زندہ معجزے موجود ہیں، قرآن حکیم اور آب زم زم ۔ آب زم زم رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے گا۔ ان شاء اﷲ
زم زم کا ظہور کیسے ہُوا ؟ ہماری تمام مذہبی کتب کے مصنفین اسی ایک روایت پر متفق ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ اپنی بیوی ہاجرہؓ اور ننھے سے شیر خوار بیٹے اسمٰعیلؑ کو ملک عراق سے مکہ لے آئے حضرت ابراہیمؑ کا وطن عراق کا شہر اُر تھا۔
جب آپؑ نے اپنی زوجہ اور بیٹے کو مکہ کی سرزمین پر عین بیت اﷲ کے سامنے چھوڑا تو ان کے پاس ایک کھجور سے بھرا تھیلا اور پانی سے بھرا ایک مشکیزہ چھوڑ کر جانے لگے تو ہاجرہؓ کہنے لگیں: آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
آپؑ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، تین مرتبہ آپ نے یہی سوال دہرایا اور ہر مرتبہ آپؑ خاموش رہے۔ آخر ہاجرہ ؓ نے خود ہی کہا کیا: آپ ہمیں اﷲ کے سہارے چھوڑے جارہے ہیں۔ تب آپؑ نے فرمایا: ہاں۔ تب وہ صابر اور شاکر خاتون گویا ہوئیں: تو پھر ٹھیک ہے وہی ہماری حفاظت فرمائے گا۔ حضرت ابراہیم ؑ ان دونوں کو اس بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ کر شام کی طرف چلے گئے۔
چند دنوں کے بعد وہ توشہ ختم ہوگیا، شیر خوار اسمٰعیلؑ کا پیاس کے مارے بُرا حال تھا۔ تو ماں ہاجرہؓ بے قراری کے عالم میں صفاء نامی پہاڑی پر چڑھ گئیں، ادھر ادھر پانی تلاش کیا نظر نہ آیا تو مروہ کی جانب دوڑیں وہاں بھی انہیں پانی کہیں دکھائی نہ دیا تو اس طرح وہ پھر صفاء کی جانب پلٹیں پھر مروہ کی جانب اس طرح انہوں نے صفاء سے مروہ کی جانب اضطراب کے عالم میں سات چکر کاٹے مگر پانی نظر نہ آیا ادھر اسمٰعیلؑ بلکتے ہوئے ایڑیاں رگڑتے رہے۔
ان چکروں کے دوران انہیں یہ بھی خدشہ لگا رہا کہ پانی کی تلاش میں، میں تو صفاء و مروہ کی جانب دوڑ رہی ہوں مبادا کہیں کوئی بھیڑیا یا درندہ اسمٰعیلؑ کو کوئی گزند نہ پہنچا دے۔ ساتویں چکر کے بعد بی بی ہاجرہؓ جب بیٹے کے قریب پہنچیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی سعی کو قبول کرتے ہوئے ایڑیوں کی رگڑ کی جگہ ایک ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ جاری کردیا ہے۔
انہوں نے ریت اور پتھروں کی باڑھ باندھی اور منہ سے کہتے جاتی تھیں: زم، زم، یعنی ٹھہر، ٹھہر۔ اسی وجہ سے اس پانی کا نام زم زم مشہور ہوگیا جو ان شاء اﷲ تا قیامت اسی نام سے پکارا بھی جائے گا اور جاری و ساری بھی رہے گا، جو اس کے معجزہ ہونے کی بھی دلیل ہوگی۔ پانی کی دریافت کے بعد حضرت ہاجرہؓ نے اپنی مستقل سکونت یہیں پر اختیار کرلی۔
اسی طرح پرندوں نے بھی اس پانی کی دریافت کرلی تھی چناں چہ ایک مرتبہ وہ غول کی شکل میں وہاں منڈ لا رہے تھے تو عین اسی وقت قبیلۂ بنو جرہم کا ایک قافلہ یمن سے آتے ہوئے یہاں سے گزر رہا تھا انہوں نے جب پرندوں کا غول دیکھا تو اندازہ لگا لیا کہ اس مقام پر ضرور پانی موجود ہے۔
چناں چہ انہوں نے بھی اب اپنا رخ اسی طرف موڑ لیا اور ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ انہوں نے پانی کو پا لیا ہے اور قریب ہی ماں بیٹوں کو بھی بسیرا کرتے دیکھا، چناں چہ قافلے کے سردار نے حضرت ہاجرہؓ سے وہاں سکونت کی اجازت طلب کر لی جو انہیں دے دی گئی مگر اس شرط پر کہ پانی پر اختیار میرا ہوگا یہ شرط انہوں نے قبول کر لی۔ اس طرح یہ مکہ کی پہلی آبادی کہلاتی ہے۔
زم زم کے گرد پہلی تعمیر باڑھ کی شکل میں حضرت ہاجرہ ؓ نے کی اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے اس چشمے کو چاروں جانب سے کھدائی کرکے اسے کنویں کی شکل میں تبدیل کردیا اور اب یہ زمین سے اونچا ہوتے ہوتے اتنا گہرا ہوگیا ہے کہ اس کا پانی اگر دیکھنا چاہیں تو نہیں دیکھ سکتے۔ ایک مقام پر اس کنویں کی گہرائی 14 فٹ لکھی ہے۔
خلیفہ مامون الرشید کے دور میں اس کی صفائی ہوئی تھی اس صفائی کے لیے پہلی بار کوئی انسان اس کنویں میں اترا تو اس نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا کہ اس کنویں کے اندر ایک چٹان موجود ہے جس پر لکھا ہے: ''بہ اذن اﷲ '' یعنی اﷲ کے حکم سے۔ چٹان کے گرد مٹی کی ایک تہہ جمی ہوئی ہے جس سے قدرتی طور پر پانی فلٹر ہوتا رہتا ہے۔
مشہور مؤرخ ارزقی نے لکھا ہے کہ اس صفائی کے دوران میں بھی کنویں میں اترا تھا تو کیا دیکھا کہ اس کنویں میں تین اطراف سے سوتے پھوٹ رہے ہیں، حطیم کی جانب سے، صفاء کی جانب سے اور مروہ کی جانب سے۔ یہ تینوں سوتے کنویں کی گہرائی میں تیزی سے جمع ہوتے رہتے ہیں کہ اگر چوبیس گھنٹے بھی اس کا پانی بہ ذریعہ مشین کھینچتے رہیں تو اس کا پانی نہیں ٹوٹتا۔ 1909 میں اس کنویں کا پانی اس درجہ بڑھ گیا کہ چھلک کر باہر نکل آیا تھا اس لیے اس کے گرد دیوار تعمیر کرنا پڑی اب اس کی سطح 17گز بتائی جاتی ہے۔
محمد حسین ہیکل نے لکھا ہے کہ زم زم کا کنواں مضاض بن عمر و کے زمانے میں بند یا خشک ہُوا تھا مگر اہل عرب کے ذہنوں میں اس کا محل وقوع محفوظ تھا اور کنواں کھودنے کی آرزو ان کے دلوں میں مچلتی رہی حتیٰ کہ حضور اکرم ﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب کو خواب میں کنواں کھولنے کا حکم ہُوا اور یہ حکم تین بار ہوا آخری بار ایک کوّے کو اس مقام پر ٹھونگیں مارتا دکھایا گیا چناں چہ آپ اپنے بیٹے کو لے کر اس مقام پر پہنچ گئے تو دیکھا کہ واقعی ایک کوّا اس وقت بھی زمین پر ٹھونگیں مارکر اصل مقام کی نشان دہی کر رہا تھا، چناں چہ آپ نے ٹھیک اسی مقام سے کھدائی شروع کردی اور کنواں برآمد ہوگیا۔ کنویں کے گرد اینٹوں کی تعمیر کی اس دن سے آج تک یہاں سے پانی جاری ہے قریش نے اس کام کے لیے سقایہ کا منصب اپنے لیے قائم رکھا۔
اس کنویں کو دیکھنے کے لیے اب30 سیڑھیاں نیچے اترنا پڑتا ہے جہاں ایک انجینیر چوبیس گھنٹے متعین رہتا ہے جو ایک شیشے کے کمرے میں بیٹھا پوری صورت حال کو مانیٹر کرتا رہتا ہے۔
اس کنویں کا پانی قدرے نمکین ہے مختلف سائنس دانوں نے آب زم زم کے کیمیائی تجزیے کیے ہیں اور اس میں ان عناصر کی موجودی ظاہر کی ہے، یعنی کیلشیم کاربونیٹ، ہائیڈروجن سلفائیڈ، میگنیشیم سلفیٹ، پوٹاشیم نائیٹریٹ، سوڈیم سلفیٹ اور سوڈیم کلورائیڈ، ان معدنیات کی موجودی میں اطباء لکھتے ہیں کہ یہ پانی زود ہضم ہے، گردے کی پتھری توڑتا ہے، جوڑوں کو مضبوط کرتا ہے، جِلدی امراض دور کرتا ہے، ہیضے کے جراثیم کو مار دیتا ہے۔
پیٹ کی چربی کم کرکے موٹاپے کو ختم کرتا ہے، دل کی بے اعتدال دھڑکن کو اعتدال پر لاتا ہے، ذیابطیس کے لیے اکثیر ہے، پیٹ کا درد دور کرتا ہے، امراض چشم میں مفید ہے، اسے آنکھوں میں ڈالنے سے کئی امراض چشم ختم ہو جاتے ہیں، بخار کو ختم کرتا ہے اور عالم نزع میں مریض کے منہ میں ڈالا جاتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اس پانی میں تین اوصاف ایسے رکھے ہیں جو کسی اور پانی میں نہیں پائے جاتے، زم زم پیاس بجھاتا ہے، غذا کا کام دیتا ہے اور سوائے موت کے ہر بیماری کی شفاء ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں آیا ہے: ''روئے زمین پر بہترین پانی زم زم ہے جس میں کھانے کی طرح غذائیت بھی ہے اور مرض کے لیے شفاء ہے۔'' (طبرانی کبیر)
حدیث میں آیا ہے، مفہوم: ''زم زم کا پانی جس نیّت سے پیا جائے اس سے وہی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔'' (ابن ماجہ)
حضرت جابرؓ نے آنحضورؐ سے روایت کیا ہے، مفہوم: ''آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص آب زم زم کو پینے کا ارادہ کرے اور خوب سیر ہو کر پیے تو اس کی بیماری زائل ہو جاتی ہے۔
آنحضور ﷺ کی نظر میں آب زم زم بہت مقدس اور محترم تھا، اسی لیے آپؐ نے اسے کھڑے ہو کر نوش فرمایا ہے اور پھر یہ دعا مانگی ہے، مفہوم: ''اے اﷲ میں تجھ سے مانگتا ہوں علم نافع رزق کشادہ اور تمام بیماریوں سے شفائ۔''
ہر مسلمان کے لیے یہ پانی بڑا مقدس اور موجب برکت ہے روئے زمین پر اس وقت دو زندہ معجزے موجود ہیں، قرآن حکیم اور آب زم زم ۔ آب زم زم رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے گا۔ ان شاء اﷲ