’’پیا ‘‘ اور سُہاگن
یہ سب محض اقتدارکے لیے تھا، وطن کی محبت تو ایک بہانہ تھا
بہادر شاہ ظفرکی مشہور غزل کے دو شعر ہیں۔
لگتا نہیں ہے دل مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی، فصل بہار میں
یہ دو اشعار آج پی ٹی آئی چیئرمین کا نوشتۂ تقدیر ہیں،کبھی جب ان کی پارٹی کو مقتدرہ وجود میں لا رہی تھی، اسٹیج سجے ہوئے تھے، طاہر القادری بھی جلوہ آراء تھے، کپتان کی انگلی اٹھنے کا انتظار ہو رہا تھا، انگلی اٹھی اور تاج وزارت ان کے سر پر رکھ دیا گیا، وہ شہرت اور اقتدار کے نشے میں چور بہک گئے، سیاستدانوں سے لڑائی مول لے لی کہ کچھ قوتوں نے ان کے سر پر اپنی چھتری کا سایہ کیے رکھا۔
وہ بھول گئے کہ اقتدار کا جو کھیل اس بدنصیب ملک میں پچھتر سال سے کھیلا جا رہا ہے، اس کے قاعدے اور قانون کیا ہیں، یہ طریقۂ حکمرانی صرف طاقت کا کھیل ہے۔ ان کے ساتھ جو ہوا وہ کچھ نیا نہیں بس وہی غالبؔ والی بات:
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
سن 47 میں پاکستان نام کا جو باغ لگا تھا، اس میں طرح طرح کے پودے اور پھول لگے تھے، جیسے ہی ایک پھول گلستان میں نمایاں نظر آنے لگا، سید اکبر کے ذریعے ایک سازش کے تحت اس پھول کو خون میں نہلا دیا گیا، تب سے یہی چلن ہے، بڑے تام جھام سے پودے لگائے جاتے ہیں اور جوں ہی کوئی پودا سر اٹھاتا ہے، چاروں طرف اپنی خوشبو بکھیرتا ہے۔
باغبان کی نظروں میں چبھنے لگتا ہے، جوں جوں وہ خوشنما پودا اپنی صلاحیتوں کی بنا پر لہلہاتا ہے، وہ باغبان کے دل میں کانٹے کی طرح چبھنے لگتا ہے، اور پھر بیک جنبش قلم اسے مٹی میں ملا دیا جاتا ہے، ایک جوان اور بھر پور پودے کو مٹی میں ملا کر، پھر کسی دوسرے پودے کی آبیاری کی جاتی ہے اور اس نئے پودے کو پرانے پودے کے مقابلے میں جلدی جلدی پانی دیا جاتا ہے، لیکن نہ مٹی بدلی جاتی ہے نہ نئی کھاد ڈالی جاتی ہے۔
گلستان کا ایک اصول ہے کہ پودوں کو پنپنے کے لیے نئی کھاد اور نئی زرخیز مٹی کی ضرورت ہوتی ہے، ایک ہی مٹی میں بار بار نئے پھولوں اور پودوں کو زبردستی لگایا جائے تو پودے پنپتے نہیں ہیں،انھیں کیڑا لگ جاتا ہے، نتیجہ یہ کہ پورا چمن تباہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان کے سیاستدانوں نے ملک کی پچھتر سالہ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، شاید اس لیے کہ وہ سیاست دان ہوتے ہیں جب کہ کپتان تو کھلاڑی تھے اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایا کو وہ ابدی سمجھے اور بہت سے غلط فیصلے کر ڈالے، تحریک عدم اعتماد کے بعد بجائے اس کے کہ وہ اپوزیشن کی صفوں میں بیٹھتے اور نئے الیکشن کا انتظار کرتے، انھوں نے جلد بازی دکھائی، جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔
انھیں اپنی مقبولیت پہ ناز تھا، تھوڑا صبر کر لیتے ان کا ووٹر ان کے ساتھ تھا، آرام سے الیکشن جیتتے اور چین کی بنسری بجاتے، مگر انھیں صبر کہاں، جس کے سبب وہ زمان پارک کے قیدی بن گئے اور اب مقدمات کی تلوار ان کے سر پہ لٹک رہی ہے۔
ان کا ووٹر آج بھی ان کے ساتھ ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر اگر الیکشن ہوئے تو ان کا ووٹر گھر سے ہی نہ نکلے گا، اور پھر کچھ دوسرے طاقت سے برسر اقتدار آجائیں گے۔ اس ملک سے کسی کو محبت نہیں ہے۔
روزانہ کی بنیادوں پر نت نئی پارٹیاں بن رہی ہیں، اور شاہ محمود قریشی بھی تحریک انصاف کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے کمربستہ ہیں، مقابلے میں گھاگ سیاستدان ہیں، لیکن کوئی کچھ بھی کرے، مثل وہی صادق آتی ہے کہ ''جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔'' سہاگنیں بدلتی رہتی ہیں لیکن ''پیا '' وہی رہتے ہیں۔
جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے کاش وہ نہ ہوتا، کاش! چیئرمین پی ٹی آئی وطن سے محبت کا ثبوت دیتے، اسمبلیاں نہ توڑتے، انا کے پہاڑ پر نہ کھڑے ہوتے، آج وہ پہاڑ کی اس چوٹی پر کھڑے ہیں جس کے چاروں طرف گہری کھائیاں اور پانی ہے، کئی موقع ایسے آئے جب وہ اپنی انا کی تلوار کو نیام میں رکھ کر گفت و شنید کرسکتے تھے۔
سیاستدانوں سے مذاکرات کرسکتے تھے، ایسا ہی ایک موقعہ تب آیا تھا جب بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر پر امن مذاکرات ہونے تھے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دس دن کے لیے پاکستان آنا تھا۔
مودی کو سابق وزیر اعظم سے مذاکرات کرنے تھے اور مثبت تعلقات کی بنیاد رکھنی تھی۔ لیکن نجانے کس بقراط کے کہنے پر سابق وزیر اعظم اس کے لیے تیار نہ ہوئے، شاید ان کے ''مرشد'' نے منع کردیا ہوگا کہ اگر نریندر مودی کو مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنے پر بلایا گیا تو وہ آیندہ الیکشن ہار جائیں گے جس کے جیتنے کی انھیں پوری امید تھی، ایسا لگتا ہے جیسے اپنے دور وزارت میں سابق وزیر اعظم نے اپنی عقل سے یا اپنے مخلص ساتھیوں کی رائے سے کوئی فیصلہ نہ کیا وہ پیروں فقیروں کے چکر میں خوار ہوئے، ایسا ہوتا ہے، بے نظیر بھی بہت سے باباؤں کے پاس جاتی تھیں۔
بنی گالہ میں بشریٰ بی بی نے اپنا آستانہ جمایا، سنا ہے ،انھوں نے ایک خواب دیکھا کہ اگر چیئرمین پی ٹی آئی کی شادی بشریٰ سے ہو جائے تو یہ پاکستان کے لیے اچھا ہوگا، اس خواب کی بھیانک تعبیر آج سب دیکھ رہے ہیں۔ اصل کہانی کچھ اور تھی۔
یہ سب محض اقتدارکے لیے تھا، وطن کی محبت تو ایک بہانہ تھا، آج تنہائی میں چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت کو کوستے تو ہوں گے جب انھوں نے اعتدال کا راستہ ترک کر کے ضد اور انتہا پسندی کا انتخاب کیا' آج اس کا خمیازہ وہ خود' ان کے پیروکار بھگت رہے ہیں اور اس کے ساتھ پاکستان بھی بھگت رہا ہے۔
لگتا نہیں ہے دل مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی، فصل بہار میں
یہ دو اشعار آج پی ٹی آئی چیئرمین کا نوشتۂ تقدیر ہیں،کبھی جب ان کی پارٹی کو مقتدرہ وجود میں لا رہی تھی، اسٹیج سجے ہوئے تھے، طاہر القادری بھی جلوہ آراء تھے، کپتان کی انگلی اٹھنے کا انتظار ہو رہا تھا، انگلی اٹھی اور تاج وزارت ان کے سر پر رکھ دیا گیا، وہ شہرت اور اقتدار کے نشے میں چور بہک گئے، سیاستدانوں سے لڑائی مول لے لی کہ کچھ قوتوں نے ان کے سر پر اپنی چھتری کا سایہ کیے رکھا۔
وہ بھول گئے کہ اقتدار کا جو کھیل اس بدنصیب ملک میں پچھتر سال سے کھیلا جا رہا ہے، اس کے قاعدے اور قانون کیا ہیں، یہ طریقۂ حکمرانی صرف طاقت کا کھیل ہے۔ ان کے ساتھ جو ہوا وہ کچھ نیا نہیں بس وہی غالبؔ والی بات:
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
سن 47 میں پاکستان نام کا جو باغ لگا تھا، اس میں طرح طرح کے پودے اور پھول لگے تھے، جیسے ہی ایک پھول گلستان میں نمایاں نظر آنے لگا، سید اکبر کے ذریعے ایک سازش کے تحت اس پھول کو خون میں نہلا دیا گیا، تب سے یہی چلن ہے، بڑے تام جھام سے پودے لگائے جاتے ہیں اور جوں ہی کوئی پودا سر اٹھاتا ہے، چاروں طرف اپنی خوشبو بکھیرتا ہے۔
باغبان کی نظروں میں چبھنے لگتا ہے، جوں جوں وہ خوشنما پودا اپنی صلاحیتوں کی بنا پر لہلہاتا ہے، وہ باغبان کے دل میں کانٹے کی طرح چبھنے لگتا ہے، اور پھر بیک جنبش قلم اسے مٹی میں ملا دیا جاتا ہے، ایک جوان اور بھر پور پودے کو مٹی میں ملا کر، پھر کسی دوسرے پودے کی آبیاری کی جاتی ہے اور اس نئے پودے کو پرانے پودے کے مقابلے میں جلدی جلدی پانی دیا جاتا ہے، لیکن نہ مٹی بدلی جاتی ہے نہ نئی کھاد ڈالی جاتی ہے۔
گلستان کا ایک اصول ہے کہ پودوں کو پنپنے کے لیے نئی کھاد اور نئی زرخیز مٹی کی ضرورت ہوتی ہے، ایک ہی مٹی میں بار بار نئے پھولوں اور پودوں کو زبردستی لگایا جائے تو پودے پنپتے نہیں ہیں،انھیں کیڑا لگ جاتا ہے، نتیجہ یہ کہ پورا چمن تباہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان کے سیاستدانوں نے ملک کی پچھتر سالہ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، شاید اس لیے کہ وہ سیاست دان ہوتے ہیں جب کہ کپتان تو کھلاڑی تھے اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایا کو وہ ابدی سمجھے اور بہت سے غلط فیصلے کر ڈالے، تحریک عدم اعتماد کے بعد بجائے اس کے کہ وہ اپوزیشن کی صفوں میں بیٹھتے اور نئے الیکشن کا انتظار کرتے، انھوں نے جلد بازی دکھائی، جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔
انھیں اپنی مقبولیت پہ ناز تھا، تھوڑا صبر کر لیتے ان کا ووٹر ان کے ساتھ تھا، آرام سے الیکشن جیتتے اور چین کی بنسری بجاتے، مگر انھیں صبر کہاں، جس کے سبب وہ زمان پارک کے قیدی بن گئے اور اب مقدمات کی تلوار ان کے سر پہ لٹک رہی ہے۔
ان کا ووٹر آج بھی ان کے ساتھ ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر اگر الیکشن ہوئے تو ان کا ووٹر گھر سے ہی نہ نکلے گا، اور پھر کچھ دوسرے طاقت سے برسر اقتدار آجائیں گے۔ اس ملک سے کسی کو محبت نہیں ہے۔
روزانہ کی بنیادوں پر نت نئی پارٹیاں بن رہی ہیں، اور شاہ محمود قریشی بھی تحریک انصاف کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے کمربستہ ہیں، مقابلے میں گھاگ سیاستدان ہیں، لیکن کوئی کچھ بھی کرے، مثل وہی صادق آتی ہے کہ ''جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔'' سہاگنیں بدلتی رہتی ہیں لیکن ''پیا '' وہی رہتے ہیں۔
جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے کاش وہ نہ ہوتا، کاش! چیئرمین پی ٹی آئی وطن سے محبت کا ثبوت دیتے، اسمبلیاں نہ توڑتے، انا کے پہاڑ پر نہ کھڑے ہوتے، آج وہ پہاڑ کی اس چوٹی پر کھڑے ہیں جس کے چاروں طرف گہری کھائیاں اور پانی ہے، کئی موقع ایسے آئے جب وہ اپنی انا کی تلوار کو نیام میں رکھ کر گفت و شنید کرسکتے تھے۔
سیاستدانوں سے مذاکرات کرسکتے تھے، ایسا ہی ایک موقعہ تب آیا تھا جب بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر پر امن مذاکرات ہونے تھے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دس دن کے لیے پاکستان آنا تھا۔
مودی کو سابق وزیر اعظم سے مذاکرات کرنے تھے اور مثبت تعلقات کی بنیاد رکھنی تھی۔ لیکن نجانے کس بقراط کے کہنے پر سابق وزیر اعظم اس کے لیے تیار نہ ہوئے، شاید ان کے ''مرشد'' نے منع کردیا ہوگا کہ اگر نریندر مودی کو مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنے پر بلایا گیا تو وہ آیندہ الیکشن ہار جائیں گے جس کے جیتنے کی انھیں پوری امید تھی، ایسا لگتا ہے جیسے اپنے دور وزارت میں سابق وزیر اعظم نے اپنی عقل سے یا اپنے مخلص ساتھیوں کی رائے سے کوئی فیصلہ نہ کیا وہ پیروں فقیروں کے چکر میں خوار ہوئے، ایسا ہوتا ہے، بے نظیر بھی بہت سے باباؤں کے پاس جاتی تھیں۔
بنی گالہ میں بشریٰ بی بی نے اپنا آستانہ جمایا، سنا ہے ،انھوں نے ایک خواب دیکھا کہ اگر چیئرمین پی ٹی آئی کی شادی بشریٰ سے ہو جائے تو یہ پاکستان کے لیے اچھا ہوگا، اس خواب کی بھیانک تعبیر آج سب دیکھ رہے ہیں۔ اصل کہانی کچھ اور تھی۔
یہ سب محض اقتدارکے لیے تھا، وطن کی محبت تو ایک بہانہ تھا، آج تنہائی میں چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت کو کوستے تو ہوں گے جب انھوں نے اعتدال کا راستہ ترک کر کے ضد اور انتہا پسندی کا انتخاب کیا' آج اس کا خمیازہ وہ خود' ان کے پیروکار بھگت رہے ہیں اور اس کے ساتھ پاکستان بھی بھگت رہا ہے۔