بحیرہ روم میں موت کا سفر
وہ باہر جانے کے خواہش مند افراد سے ایک بڑی رقم بٹورتے ہیں اور پھر موت کے سفر پر روانہ کر دیتے ہیں
آئے روز یہ جانکاہ خبر کانوں سے ٹکراتی ہے کہ بحیرۂ روم میں کشتی اُلٹنے سے اتنے افراد لقمۂ اجل بن گئے ہیں اور ان میں سے اتنے پاکستانی تھے۔ اسی سال فروری میں لیبیا کے ساحل پر کشتی ڈوبنے سے 14پاکستانی موت کے منہ میں چلے گئے۔
پاکستان سے غیر قانونی طور پرایران سے ترکی اور ترکی سے یونان میں داخلے پر پکڑ دھکڑ یا گولی چلنے سے ہونے والی ہلاکتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ 14جون کو بحیرۂ روم میں انتہائی افسوس ناک سانحہ پیش آیا جس میں آزاد جموں و کشمیر و پنجاب سے بے شمارافراد جان کی بازی ہار گئے۔ کہا گیا ہے کہ جہاز میں سوار پاکستانیوں میں سے 12افراد کو بچا لیا گیا ہے۔
ان حادثات کی سب سے بڑی وجہ ملک کے اندر ہوشربا مہنگائی،غربت ، بڑھتی بے روزگاری اور بے لگام حرص و ہوس ہے۔ملک کے اندر ابتر معاشی صورتحال نے نچلے درمیانے اور نچلے طبقے کی زندگیوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں معاشی اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے لیکن ہمارے ملک کو تو جیسے ہماری اپنی نظر لگ گئی ہے۔ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے اور سینیٹ کے چیئرمین کی مراعات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔کیا ایسی معاشی صورتحال میں پاکستانی خزانے پر یہ بوجھ جائز ہے ۔
عوام نے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہوئے کبھی اس بات کا خیال نہیں کیا کہ وہ فرد جس کو ہم اپنا نمایندہ بنا کر اسمبلی بھیج رہے ہیں اس کا ماضی کیسا ہے،اس کی تعلیمی قابلیت کیا ہے،اس نے عملی زندگی میں کیا کیا ہے۔
اگر وہ پہلے منتخب ہو چکا ہے تو اس کی کارکردگی کیا رہی ہے اور سب سے بڑھ کر اس کا کردار کیسا ہے ۔پچھلی کئی دہائیوں سے ہم ایک کے بعد دوسرے نام نہاد رہنماء کے عشق میں گرفتار ہو تے آئے ہیں اور بلا سوچے سمجھے اس کی تائید و حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
ہم بالکل نہیں خیال کرتے کہ آخر کب تک اپنے پیارے ملک کو اندھیروں میں دھکیلتے رہیں گے۔نا اہل حکمرانوں کو منتخب کرتے کرتے ہم نے ملک کو ایسی معاشی دلدل میں پھنسا دیا ہے کہ اب اس سے نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ شیل اور کئی بیرونی کمپنیاں کاروبار بیچ کر کر پاکستان سے رخصت ہو رہی ہیں جس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔
14 جون 2023کو یونان کی سمندری حدود میں ہونے والے افسوس ناک سانحے میں آزاد کشمیر، گجرات اور اسی طرح منڈی بہاولدین،پھالیہ اور سیالکوٹ کے اضلاع سے درجنوں افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔برطانیہ کے اخبار دی گارڈین کے مطابق ڈوبنے سے چند دن پہلے کشتی کا انجن خراب ہو چکا تھا۔
جہاز میں سوار پاکستانیوں کو زبردستی جہاز کے نچلے حصے میں رکھا گیا تھا۔ایک موقع پر جہاز کا توازن بگڑ گیا اور یہ تیزی سے ایک طرف جھک کر ڈوبنے لگا۔یونانی کوسٹ گارڈ کا جہاز ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
ان کے ہیلی کاپٹر اوپر اُڑ رہے تھے لیکن انھوں نے مسافروں کو ڈوبنے دیا۔پیاس سے نڈھال 6مسافر جہاز ڈوبنے سے پہلے ہی موت کی آغوش میں جا چکے تھے۔یہ مسافر لیبیا سے اپنا اچھا مستقبل بنانے کے لیے غیر قانونی طور پر یونان یا اٹلی کے راستے یورپ میں داخلے کے خواہش مند تھے۔
اس افسوس ناک سانحے کو کئی پہلوؤں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ تو کئی دہائیوں پر محیط ہماری معاشی اور اقتصادی پالیسیاں ہیں۔اس کے لیے کسی ایک حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا انصاف نہیں ہو گا۔ہماری ساری حکومتوں نے مل کر ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔حکومتیں خود بخود معرضِ وجود میں نہیں آتیں۔
عوام اپنا ووٹ دے کر حکومتیں بناتے ہیں۔اگر عوام ہی بار بار اچھے فیصلے نہ کریں تو ملک کا یہی حال ہو گا۔ اس لیے سب سے پہلے تو ہم سب اس حادثے کے ذمے دار ہیں۔اس کے بعد ہماری ساری حکومتیں ذمے دار ہیں۔
اگر ملک کی معاشی حالت سدھر جائے،اگر روزگار کے بے شمار مواقع میسر ہوں،اگر عوام کی بہت بڑی اکثریت خطِ غربت سے اوپر اُٹھ کر خوشحالی کی جانب رواں دواں ہو تو کیوں ہمارے لوگ اپنی جانوں پر کھیل کر،پُرخطر سفر کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کریں۔
پچھلے پانچ سال میں مہنگائی نے عام آدمی کو کچل کے رکھ دیا ہے۔اشرافیہ کے علاوہ ہر کوئی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ایسے میں ہمارے نوجوان بھوک سے تنگ آ کر جان پر نہ کھیلیں تو کیا کریں۔ان کو کوئی گائیڈ کرنے والا بھی نہیں کہ باہر جانے کے لیے جو رقم خرچ کرتے ہیں وہی رقم لگا کر چھوٹے کاروبار سے ملک کے اندر ہی شروعات کی جا سکتی ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک عام آدمی جب ٹاک شوز کو دیکھتا ہے یا اخبارات کا مطالعہ کرتا ہے تو بے یقینی اور ناامیدی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا،اس لیے اس کے اندر شدید خواہش پیدا ہوتی ہے کہ یہاں سے بھاگ جائے۔حادثے کی ایک وجہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے اسمگلر ہیں جنھوں نے ایک وسیع نیٹ ورک بچھا رکھا ہے۔
وہ باہر جانے کے خواہش مند افراد سے ایک بڑی رقم بٹورتے ہیں اور پھر موت کے سفر پر روانہ کر دیتے ہیں۔یہ انسانی اسمگلر اتنے بے حِس اور بے رحم ہیں کہ ان کے لیے دوسروں کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔آئے دن یہ سانحات ہو رہے ہیں لیکن یہ اپنے مکروہ دھندے سے باز نہیں آتے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ متعلقہ سرکاری محکموں میں کالا دھندا کرنے والوں کے پارٹنر بیٹھے ہیں جو اپنا حصہ وصول کر کے ہر کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جائز کام کروانا بہت مشکل ہے لیکن پیسے لگائیں تو نا جائز کام بھی بہت سرعت سے ہوتا ہے۔اس سانحے کا ایک سبب ہمارے معاشرے کے اندر دکھاوے کی لعنت ہے۔
پاکستان سے باہر بسنے والا کوئی خوشحال گھرانہ جب اپنی دولت کی نمائش کرتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے کہ محلے کے دوسرے گھروں پر کتنا دباؤ پڑتا ہے۔بعض اوقات اسی دباؤ میں آ کر ہمارے افراد سب کچھ خرچ کر کے بلکہ ادھار لے کر موت کے مسافر بن جاتے ہیں۔ٹی وی اور سوشل میڈیا پر چلنے والے اشتہارات بھی مصنوعی ڈیمانڈ پیدا کرنے میں پیش پیش ہیں۔
میڈیا چینلز کے مطابق کراچی، گجرات، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ سے کئی افراد کو گرفتار کیا گیاہے۔ کراچی سے گرفتار ہونے والے ساجد محمودکے اوپر پہلے بھی لوگوں کو غیر قانونی طور پر لیبیا کشتی حادثے کی ایف آئی آر درج ہے۔اگر وہ پہلے پیسے لگا کر اس دھندے میں واپس آ سکتا ہے تو یہی کچھ اب بھی ہو سکتا ہے۔خدا کرے اس مرتبہ سخت اور حتمی اقدام ہو تاکہ ہمارے لوگ ان کا شکار بننے سے بچ جائیں۔
پاکستان سے غیر قانونی طور پرایران سے ترکی اور ترکی سے یونان میں داخلے پر پکڑ دھکڑ یا گولی چلنے سے ہونے والی ہلاکتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ 14جون کو بحیرۂ روم میں انتہائی افسوس ناک سانحہ پیش آیا جس میں آزاد جموں و کشمیر و پنجاب سے بے شمارافراد جان کی بازی ہار گئے۔ کہا گیا ہے کہ جہاز میں سوار پاکستانیوں میں سے 12افراد کو بچا لیا گیا ہے۔
ان حادثات کی سب سے بڑی وجہ ملک کے اندر ہوشربا مہنگائی،غربت ، بڑھتی بے روزگاری اور بے لگام حرص و ہوس ہے۔ملک کے اندر ابتر معاشی صورتحال نے نچلے درمیانے اور نچلے طبقے کی زندگیوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں معاشی اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے لیکن ہمارے ملک کو تو جیسے ہماری اپنی نظر لگ گئی ہے۔ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے اور سینیٹ کے چیئرمین کی مراعات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔کیا ایسی معاشی صورتحال میں پاکستانی خزانے پر یہ بوجھ جائز ہے ۔
عوام نے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہوئے کبھی اس بات کا خیال نہیں کیا کہ وہ فرد جس کو ہم اپنا نمایندہ بنا کر اسمبلی بھیج رہے ہیں اس کا ماضی کیسا ہے،اس کی تعلیمی قابلیت کیا ہے،اس نے عملی زندگی میں کیا کیا ہے۔
اگر وہ پہلے منتخب ہو چکا ہے تو اس کی کارکردگی کیا رہی ہے اور سب سے بڑھ کر اس کا کردار کیسا ہے ۔پچھلی کئی دہائیوں سے ہم ایک کے بعد دوسرے نام نہاد رہنماء کے عشق میں گرفتار ہو تے آئے ہیں اور بلا سوچے سمجھے اس کی تائید و حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
ہم بالکل نہیں خیال کرتے کہ آخر کب تک اپنے پیارے ملک کو اندھیروں میں دھکیلتے رہیں گے۔نا اہل حکمرانوں کو منتخب کرتے کرتے ہم نے ملک کو ایسی معاشی دلدل میں پھنسا دیا ہے کہ اب اس سے نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ شیل اور کئی بیرونی کمپنیاں کاروبار بیچ کر کر پاکستان سے رخصت ہو رہی ہیں جس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔
14 جون 2023کو یونان کی سمندری حدود میں ہونے والے افسوس ناک سانحے میں آزاد کشمیر، گجرات اور اسی طرح منڈی بہاولدین،پھالیہ اور سیالکوٹ کے اضلاع سے درجنوں افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔برطانیہ کے اخبار دی گارڈین کے مطابق ڈوبنے سے چند دن پہلے کشتی کا انجن خراب ہو چکا تھا۔
جہاز میں سوار پاکستانیوں کو زبردستی جہاز کے نچلے حصے میں رکھا گیا تھا۔ایک موقع پر جہاز کا توازن بگڑ گیا اور یہ تیزی سے ایک طرف جھک کر ڈوبنے لگا۔یونانی کوسٹ گارڈ کا جہاز ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
ان کے ہیلی کاپٹر اوپر اُڑ رہے تھے لیکن انھوں نے مسافروں کو ڈوبنے دیا۔پیاس سے نڈھال 6مسافر جہاز ڈوبنے سے پہلے ہی موت کی آغوش میں جا چکے تھے۔یہ مسافر لیبیا سے اپنا اچھا مستقبل بنانے کے لیے غیر قانونی طور پر یونان یا اٹلی کے راستے یورپ میں داخلے کے خواہش مند تھے۔
اس افسوس ناک سانحے کو کئی پہلوؤں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ تو کئی دہائیوں پر محیط ہماری معاشی اور اقتصادی پالیسیاں ہیں۔اس کے لیے کسی ایک حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا انصاف نہیں ہو گا۔ہماری ساری حکومتوں نے مل کر ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔حکومتیں خود بخود معرضِ وجود میں نہیں آتیں۔
عوام اپنا ووٹ دے کر حکومتیں بناتے ہیں۔اگر عوام ہی بار بار اچھے فیصلے نہ کریں تو ملک کا یہی حال ہو گا۔ اس لیے سب سے پہلے تو ہم سب اس حادثے کے ذمے دار ہیں۔اس کے بعد ہماری ساری حکومتیں ذمے دار ہیں۔
اگر ملک کی معاشی حالت سدھر جائے،اگر روزگار کے بے شمار مواقع میسر ہوں،اگر عوام کی بہت بڑی اکثریت خطِ غربت سے اوپر اُٹھ کر خوشحالی کی جانب رواں دواں ہو تو کیوں ہمارے لوگ اپنی جانوں پر کھیل کر،پُرخطر سفر کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کریں۔
پچھلے پانچ سال میں مہنگائی نے عام آدمی کو کچل کے رکھ دیا ہے۔اشرافیہ کے علاوہ ہر کوئی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ایسے میں ہمارے نوجوان بھوک سے تنگ آ کر جان پر نہ کھیلیں تو کیا کریں۔ان کو کوئی گائیڈ کرنے والا بھی نہیں کہ باہر جانے کے لیے جو رقم خرچ کرتے ہیں وہی رقم لگا کر چھوٹے کاروبار سے ملک کے اندر ہی شروعات کی جا سکتی ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک عام آدمی جب ٹاک شوز کو دیکھتا ہے یا اخبارات کا مطالعہ کرتا ہے تو بے یقینی اور ناامیدی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا،اس لیے اس کے اندر شدید خواہش پیدا ہوتی ہے کہ یہاں سے بھاگ جائے۔حادثے کی ایک وجہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے اسمگلر ہیں جنھوں نے ایک وسیع نیٹ ورک بچھا رکھا ہے۔
وہ باہر جانے کے خواہش مند افراد سے ایک بڑی رقم بٹورتے ہیں اور پھر موت کے سفر پر روانہ کر دیتے ہیں۔یہ انسانی اسمگلر اتنے بے حِس اور بے رحم ہیں کہ ان کے لیے دوسروں کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔آئے دن یہ سانحات ہو رہے ہیں لیکن یہ اپنے مکروہ دھندے سے باز نہیں آتے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ متعلقہ سرکاری محکموں میں کالا دھندا کرنے والوں کے پارٹنر بیٹھے ہیں جو اپنا حصہ وصول کر کے ہر کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جائز کام کروانا بہت مشکل ہے لیکن پیسے لگائیں تو نا جائز کام بھی بہت سرعت سے ہوتا ہے۔اس سانحے کا ایک سبب ہمارے معاشرے کے اندر دکھاوے کی لعنت ہے۔
پاکستان سے باہر بسنے والا کوئی خوشحال گھرانہ جب اپنی دولت کی نمائش کرتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے کہ محلے کے دوسرے گھروں پر کتنا دباؤ پڑتا ہے۔بعض اوقات اسی دباؤ میں آ کر ہمارے افراد سب کچھ خرچ کر کے بلکہ ادھار لے کر موت کے مسافر بن جاتے ہیں۔ٹی وی اور سوشل میڈیا پر چلنے والے اشتہارات بھی مصنوعی ڈیمانڈ پیدا کرنے میں پیش پیش ہیں۔
میڈیا چینلز کے مطابق کراچی، گجرات، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ سے کئی افراد کو گرفتار کیا گیاہے۔ کراچی سے گرفتار ہونے والے ساجد محمودکے اوپر پہلے بھی لوگوں کو غیر قانونی طور پر لیبیا کشتی حادثے کی ایف آئی آر درج ہے۔اگر وہ پہلے پیسے لگا کر اس دھندے میں واپس آ سکتا ہے تو یہی کچھ اب بھی ہو سکتا ہے۔خدا کرے اس مرتبہ سخت اور حتمی اقدام ہو تاکہ ہمارے لوگ ان کا شکار بننے سے بچ جائیں۔