پنگا
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی پنگا جنم لیتا ہے
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی پنگا جنم لیتا ہے یا یوں کہیے کہ ہر شخص دوسرے شخص کے ساتھ پنگا لینے سے ذرہ برابر بھی نہیں کتراتا۔
آپ کسی دفتر میں کام کر رہے ہوں یا کوئی کاروبار 'پنگا ہر جگہ نظر آئے گا۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ عام پاکستانی طاقتور پاکستانیوں کوبار بار پنگا لیتے دیکھتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ خود بھی اس عادت بدکا شکار ہو چکے ہیں۔ میرا دوست بڑا شرارتی بھی ہے ' اس نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا 'پنگا پنگا کردی نیں میں آپے پنگا ہوئی۔
ویسے یہ بات اتنی غلط بھی نہیں ہے۔آج ہمارے حکمران طبقے کی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔ شروع شروع میںہمارے حکمران طبقے کو دوسروں سے پنگا لینے میں بڑا مزہ آتا تھا'اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت امریکا 'مغربی یورپ'امیر عرب ممالک' ہماری حکمران اشرافیہ کو ''پنگا بازی'' پر داد بھی دیتے تھے اور ساتھ میں بھاری امداد بھی' آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی پیسے کی کمی نہیں آنے دیتے تھے 'اب وقت بدل گیا ہے 'آج نہ پرانے'' پنگے ''رہے اور نہ ہی امریکا' یورپ ' عرب ممالک اور آئی ایم ایف ویسے دوست رہے۔
وقت نے کیا' کیا حسیں ستم
ہم رہے نہ ہم 'تم رہے نہ تم
آج پاکستان ایک نہیں 'دو نہیں بلکہ بحران در بحران کا شکار ہے۔ معیشت کی حالت سب کے سامنے ہے' کاروباری سرگرمیاں کم ہو رہی ہیں اور سیاسی منظرنامہ گرد آلود ہے' آئینی اور قانونی فیصلوں نے معاشی اور سیاسی بحران کوحل تو کیا کرنا تھا ' اسے مزید سنگین اور خطرناک بنا دیاہے۔
موجودہ حالات سے نکلنے کے لیے ریاست کے سٹیک ہولڈرز میں جس پائے اور معیار کی ذہانت اور تدبر کی ضرورت ہے' وہ ان اوصاف سے محروم ہیں ۔معیشت ہی نہیں' پورا ریاستی ڈھانچہ اپنے ہی وزن سے لڑکھڑا رہا ہے' انتظامیہ مفلوج ہے' ماتحت عدلیہ سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک میں سیاسی نوعیت کے مقدمات اور پٹیشنز کی بھرمار ہے ، عام شہریوں کے مقدمات برسوں سے التوا میں پڑے ہوئے ہیں' ان بیچاروں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔
اعلیٰ عدلیہ تین چار برسوں سے سیاسی پٹیشنز اور مقدمات ترجیحی بنیاد پر سن رہی ہے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ اب تو ایک دن میں کئی کئی سیاسی مقدمات ترجیحی بنیادوں پر سنے جا رہے ہیں۔دور دراز دیہات میں بسنے والوں کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ ' ان' کی اوقات کیا ہے۔''تبدیلی آئی رے'' کے تخلیق کاروں نے جانتے بوجھتے پنگا لیا تھا اور اب یہ پنگا جان ہی نہیں چھوڑ رہا بلکہ ریاست کی جان کو آ گیا ہے۔
پنگا لینے والے اور پنگے سے نمٹنے والے ایک ہی طبقے بلکہ ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔پہلے یہ سب اکٹھے ہو کر کسی سے پنگا لیا کرتے تھے۔اس پنگے کو ملکی مفاد کا نام دیا جاتا تھا لیکن اب یہ ملکی مفاد اپنی تعبیر و تشریح کے اعتبار سے مختلف ہو گیا ہے۔
ایک کا پنگا دوسرے کے لیے دغا بازی 'عیاری اور شرپسندی ہے۔ دوسرا فریق اپنے پنگے کو ملکی مفاد قرار دیتا ہے جب کہ پہلے والا اسے امپورٹڈ سازش قرار دیتا ہے۔اب آپ ہی بتائیں! اس متحارب پنگے بازی میں میرا اور آپ کا مفاد کہاں ہے؟ اس پر میرے دوست نے بولا کہ جناب والا آپ نے تجزیہ تو بڑا اچھا کر لیا ہے لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ جرنلسٹ بھی اس'' حکمرانی پنگا بازی ''کے بینیفشری ہیں۔
میں نے اپنے دوست کو کھا جانے والی نظروںسے دیکھا اورجواب دیا '' دیکھا نہ!تم بھی پنگا لینے سے باز نہیں آئے''۔وہ میری بات کا جواب دینے کے لیے منہ کھولنے ہی والا تھا کہ میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اوراس کے کان میںسرگوشی کی 'ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔
جن کا تم ذکر فرما رہے ہو 'وہ جرنلسٹ نہیں بلکہ پنگا باز حکمران طبقے کے طبلچی ہیں اور ان کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔یہ تو مجھے پتہ نہیں کہ میرا دوست میرے جواب کو سچ سمجھا یا اسے بھی پنگے کے معنی میں ہی لیا لیکن میری بات سننے کے بعد وہ خاموش ضرور ہوگیا۔
ریاست نے اپنے عام اور غریب شہریوں کو کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو لیکن پنگے باز حکمران اشرافیہ کو سب کچھ دیا ہے۔پاکستان کے وسائل حکمران اشرافیہ کے لیے باپ دادا کی وراثتی جائیداد میں تبدیل ہو گئے۔اقتدار ہو 'اعلیٰ سرکاری عہدے ہوں' کاروبار ہوں' سفارتکاریاں ہوں' کارخانے ہوں'سب کچھ انھی کا تو ہے۔لیکن پاکستان سے سب کچھ لینے کے باوجود حکمران طبقے نے ریاست کواور اس کے عام شہریوں کو سوائے دکھوں کے کچھ نہیں دیا۔
آج پاکستان کے ریاستی اداروں کے سربراہان اور افسران لا محدود اختیارات استعمال کر رہے ہیں ' قومی خزانے سے انھیںبھاری تنخواہیں' سرکاری رہائش گاہیں'گھرکے کام کے لیے ملازمین بھی سرکاری ' علاج و معالجہ مفت 'پٹرول' بجلی' گیس مفت ملتا ہے۔ لیکن یہ لوگ اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں' شاید انھیں معلوم نہیںکہ وہ اپنی بربادی کا سامان اکٹھا کر رہے ہیں۔
عام آدمی نے نہ تو امریکا اور یورپ میں پناہ لینی ہے اور نہ ہی اسے پروٹوکول اور اختیارات کی تمنا ہے'ملک میںانتشار ہو' بدامنی ہو یا خانہ جنگی عام آدمی کے پاس اپنی جان کے سوا گنوانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے لیے گنوانے کے لیے سب کچھ ہے۔
ملک کی معیشت بیٹھ جائے تو نہ کوئی ادارہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ ہی کسی طاقتور کے پاس کوئی پروٹوکول' استحقاق اور اختیار باقی بچے گا۔
آج حکمران طبقے کی محفلیں پاکستان کی وجہ سے آباد ہیں ' امریکا' کینیڈا 'آسٹریلیا اور یورپ میں ان کی جائیداد اور کاروباربھی پاکستان کی بدولت چل رہے ہیں۔ خاکم بدہن'پاکستان کو کچھ ہوتا ہے توسب سے زیادہ ذلت حکمران طبقے کے نونہالوں کو اٹھانی پڑے گی۔
بے وطن امراء دیار غیر میں بے حیثیت رہتے ہیں۔ حیدر آباد دکن کے نظام اور ان کے خاندان کی کسمپرسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یوگنڈا کا عیدی امین بے وطن ہوا تو عبرت کا نشان بن گیا۔
میں کچھ زیادہ سیریس نہیں ہو گیا 'میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میرا دوست 'بھی اکتا کر جمائیاں لے رہا ہے۔ مجھے تو وہ بھینس لگ رہا ہے 'جس کے سامنے میں گھنٹے بھر سے بین بجا رہا ہوں۔لیکن کیا کریں کوئی نہ کوئی بات تو کرنی پڑتی ہے۔ چاہے کسی سے پنگا لینے کے لیے ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ ویسے پنگا بازی ہماری عالمی شناخت بن گئی ہے۔
پنگا ایسا لفظ ہے جس کی جامع تعریف ممکن نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ پنجابی ڈکشنری مرتب ہو رہی تھی 'مرتبین کے سامنے ''پنگا'' کالفظ آیا'سب سرجوڑ کر بیٹھ گئے لیکن اس کامتبادل لفظ نہ مل سکا۔تھک ہار کر اہل علم کا وہ وفد ایک دیہاتی بزرگ کے پاس گیا اور اس سے لفظ پنگا کا درست متبادل اور معنی پوچھے۔دیہاتی بزرگ نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بڑی سنجیدگی سے بولا 'دوستو !لفظ پنگا کا کوئی متبادل نہیں اور نہ ہی یک لفظی معنی ہے۔آپ یہ لکھ دیں کہ پنگے کا مطلب معلوم نہیں لیکن پنگا لینا ہر کسی نے ہوتا ہے۔
میری بھی یہی کیفیت ہے 'مجھے بھی لفظ پنگے کا حقیقی متبادل معلوم نہیں لیکن پھر بھی میں نے لکھنے کا پنگا ضرور لیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ سمجھانے کا پنگا بھی لیا ہے۔ اب پتہ نہیں کسی کو سمجھ آئی یا نہیں آئی...لیکن میں بھی پاکستانی ہوں 'پنگا لینے سے باز نہیں آتا۔خدا حافظ۔
آپ کسی دفتر میں کام کر رہے ہوں یا کوئی کاروبار 'پنگا ہر جگہ نظر آئے گا۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ عام پاکستانی طاقتور پاکستانیوں کوبار بار پنگا لیتے دیکھتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ خود بھی اس عادت بدکا شکار ہو چکے ہیں۔ میرا دوست بڑا شرارتی بھی ہے ' اس نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا 'پنگا پنگا کردی نیں میں آپے پنگا ہوئی۔
ویسے یہ بات اتنی غلط بھی نہیں ہے۔آج ہمارے حکمران طبقے کی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔ شروع شروع میںہمارے حکمران طبقے کو دوسروں سے پنگا لینے میں بڑا مزہ آتا تھا'اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت امریکا 'مغربی یورپ'امیر عرب ممالک' ہماری حکمران اشرافیہ کو ''پنگا بازی'' پر داد بھی دیتے تھے اور ساتھ میں بھاری امداد بھی' آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی پیسے کی کمی نہیں آنے دیتے تھے 'اب وقت بدل گیا ہے 'آج نہ پرانے'' پنگے ''رہے اور نہ ہی امریکا' یورپ ' عرب ممالک اور آئی ایم ایف ویسے دوست رہے۔
وقت نے کیا' کیا حسیں ستم
ہم رہے نہ ہم 'تم رہے نہ تم
آج پاکستان ایک نہیں 'دو نہیں بلکہ بحران در بحران کا شکار ہے۔ معیشت کی حالت سب کے سامنے ہے' کاروباری سرگرمیاں کم ہو رہی ہیں اور سیاسی منظرنامہ گرد آلود ہے' آئینی اور قانونی فیصلوں نے معاشی اور سیاسی بحران کوحل تو کیا کرنا تھا ' اسے مزید سنگین اور خطرناک بنا دیاہے۔
موجودہ حالات سے نکلنے کے لیے ریاست کے سٹیک ہولڈرز میں جس پائے اور معیار کی ذہانت اور تدبر کی ضرورت ہے' وہ ان اوصاف سے محروم ہیں ۔معیشت ہی نہیں' پورا ریاستی ڈھانچہ اپنے ہی وزن سے لڑکھڑا رہا ہے' انتظامیہ مفلوج ہے' ماتحت عدلیہ سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک میں سیاسی نوعیت کے مقدمات اور پٹیشنز کی بھرمار ہے ، عام شہریوں کے مقدمات برسوں سے التوا میں پڑے ہوئے ہیں' ان بیچاروں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔
اعلیٰ عدلیہ تین چار برسوں سے سیاسی پٹیشنز اور مقدمات ترجیحی بنیاد پر سن رہی ہے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ اب تو ایک دن میں کئی کئی سیاسی مقدمات ترجیحی بنیادوں پر سنے جا رہے ہیں۔دور دراز دیہات میں بسنے والوں کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ ' ان' کی اوقات کیا ہے۔''تبدیلی آئی رے'' کے تخلیق کاروں نے جانتے بوجھتے پنگا لیا تھا اور اب یہ پنگا جان ہی نہیں چھوڑ رہا بلکہ ریاست کی جان کو آ گیا ہے۔
پنگا لینے والے اور پنگے سے نمٹنے والے ایک ہی طبقے بلکہ ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔پہلے یہ سب اکٹھے ہو کر کسی سے پنگا لیا کرتے تھے۔اس پنگے کو ملکی مفاد کا نام دیا جاتا تھا لیکن اب یہ ملکی مفاد اپنی تعبیر و تشریح کے اعتبار سے مختلف ہو گیا ہے۔
ایک کا پنگا دوسرے کے لیے دغا بازی 'عیاری اور شرپسندی ہے۔ دوسرا فریق اپنے پنگے کو ملکی مفاد قرار دیتا ہے جب کہ پہلے والا اسے امپورٹڈ سازش قرار دیتا ہے۔اب آپ ہی بتائیں! اس متحارب پنگے بازی میں میرا اور آپ کا مفاد کہاں ہے؟ اس پر میرے دوست نے بولا کہ جناب والا آپ نے تجزیہ تو بڑا اچھا کر لیا ہے لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ جرنلسٹ بھی اس'' حکمرانی پنگا بازی ''کے بینیفشری ہیں۔
میں نے اپنے دوست کو کھا جانے والی نظروںسے دیکھا اورجواب دیا '' دیکھا نہ!تم بھی پنگا لینے سے باز نہیں آئے''۔وہ میری بات کا جواب دینے کے لیے منہ کھولنے ہی والا تھا کہ میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اوراس کے کان میںسرگوشی کی 'ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔
جن کا تم ذکر فرما رہے ہو 'وہ جرنلسٹ نہیں بلکہ پنگا باز حکمران طبقے کے طبلچی ہیں اور ان کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔یہ تو مجھے پتہ نہیں کہ میرا دوست میرے جواب کو سچ سمجھا یا اسے بھی پنگے کے معنی میں ہی لیا لیکن میری بات سننے کے بعد وہ خاموش ضرور ہوگیا۔
ریاست نے اپنے عام اور غریب شہریوں کو کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو لیکن پنگے باز حکمران اشرافیہ کو سب کچھ دیا ہے۔پاکستان کے وسائل حکمران اشرافیہ کے لیے باپ دادا کی وراثتی جائیداد میں تبدیل ہو گئے۔اقتدار ہو 'اعلیٰ سرکاری عہدے ہوں' کاروبار ہوں' سفارتکاریاں ہوں' کارخانے ہوں'سب کچھ انھی کا تو ہے۔لیکن پاکستان سے سب کچھ لینے کے باوجود حکمران طبقے نے ریاست کواور اس کے عام شہریوں کو سوائے دکھوں کے کچھ نہیں دیا۔
آج پاکستان کے ریاستی اداروں کے سربراہان اور افسران لا محدود اختیارات استعمال کر رہے ہیں ' قومی خزانے سے انھیںبھاری تنخواہیں' سرکاری رہائش گاہیں'گھرکے کام کے لیے ملازمین بھی سرکاری ' علاج و معالجہ مفت 'پٹرول' بجلی' گیس مفت ملتا ہے۔ لیکن یہ لوگ اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں' شاید انھیں معلوم نہیںکہ وہ اپنی بربادی کا سامان اکٹھا کر رہے ہیں۔
عام آدمی نے نہ تو امریکا اور یورپ میں پناہ لینی ہے اور نہ ہی اسے پروٹوکول اور اختیارات کی تمنا ہے'ملک میںانتشار ہو' بدامنی ہو یا خانہ جنگی عام آدمی کے پاس اپنی جان کے سوا گنوانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے لیے گنوانے کے لیے سب کچھ ہے۔
ملک کی معیشت بیٹھ جائے تو نہ کوئی ادارہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ ہی کسی طاقتور کے پاس کوئی پروٹوکول' استحقاق اور اختیار باقی بچے گا۔
آج حکمران طبقے کی محفلیں پاکستان کی وجہ سے آباد ہیں ' امریکا' کینیڈا 'آسٹریلیا اور یورپ میں ان کی جائیداد اور کاروباربھی پاکستان کی بدولت چل رہے ہیں۔ خاکم بدہن'پاکستان کو کچھ ہوتا ہے توسب سے زیادہ ذلت حکمران طبقے کے نونہالوں کو اٹھانی پڑے گی۔
بے وطن امراء دیار غیر میں بے حیثیت رہتے ہیں۔ حیدر آباد دکن کے نظام اور ان کے خاندان کی کسمپرسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یوگنڈا کا عیدی امین بے وطن ہوا تو عبرت کا نشان بن گیا۔
میں کچھ زیادہ سیریس نہیں ہو گیا 'میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میرا دوست 'بھی اکتا کر جمائیاں لے رہا ہے۔ مجھے تو وہ بھینس لگ رہا ہے 'جس کے سامنے میں گھنٹے بھر سے بین بجا رہا ہوں۔لیکن کیا کریں کوئی نہ کوئی بات تو کرنی پڑتی ہے۔ چاہے کسی سے پنگا لینے کے لیے ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ ویسے پنگا بازی ہماری عالمی شناخت بن گئی ہے۔
پنگا ایسا لفظ ہے جس کی جامع تعریف ممکن نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ پنجابی ڈکشنری مرتب ہو رہی تھی 'مرتبین کے سامنے ''پنگا'' کالفظ آیا'سب سرجوڑ کر بیٹھ گئے لیکن اس کامتبادل لفظ نہ مل سکا۔تھک ہار کر اہل علم کا وہ وفد ایک دیہاتی بزرگ کے پاس گیا اور اس سے لفظ پنگا کا درست متبادل اور معنی پوچھے۔دیہاتی بزرگ نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بڑی سنجیدگی سے بولا 'دوستو !لفظ پنگا کا کوئی متبادل نہیں اور نہ ہی یک لفظی معنی ہے۔آپ یہ لکھ دیں کہ پنگے کا مطلب معلوم نہیں لیکن پنگا لینا ہر کسی نے ہوتا ہے۔
میری بھی یہی کیفیت ہے 'مجھے بھی لفظ پنگے کا حقیقی متبادل معلوم نہیں لیکن پھر بھی میں نے لکھنے کا پنگا ضرور لیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ سمجھانے کا پنگا بھی لیا ہے۔ اب پتہ نہیں کسی کو سمجھ آئی یا نہیں آئی...لیکن میں بھی پاکستانی ہوں 'پنگا لینے سے باز نہیں آتا۔خدا حافظ۔