اللہ شافی اللہ کافی
گستاخی معاف ڈاکٹروں اور دواساز کمپنیوں نے اپنے گٹھ جوڑ سے اِسے ایک مافیا بنا دیا ہے
پرانے وقتوں میں دیہات میں علاج معالجہ کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ زیادہ تر لوگ اور بالخصوص خواتین اپنے تجربہ سے علاج کیا کرتی تھیں۔
مثال کے طور پر اگرکسی بچے کو ٹھنڈ لگ جاتی تو ہلکا سا گرم سرسوں کا تیل پان کے پتے پر لگا کر بچے کے سینے پر رکھ دیا جاتا جس سے شفا ہوجاتی۔ اگر کسی کو نزلہ یا زکام ہو جاتا تھا تو وہ لسوڑے کے پتے اُبال کر اور اس میں شَکر ملا کر پینے کے رضائی اوڑھ کر سونے سے ٹھیک ہوجاتا تھا۔
ڈاکٹروں کا اُس وقت نام و نشان تک بھی نہ تھا۔ بڑے قصبوں میں حکیم اور وید ہوا کرتے تھے جو یونانی طب اور ہندوانی طریقہ علاج سے مریضوں کی شِفایابی کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ دونوں ہی طریقوں میں جڑی بوٹیاں استعمال کی جاتی تھیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مرض کی تشخیص کے لیے لیبارٹری کا نام و نشان تو کُجا تصور بھی موجود نہ تھا۔ اطبا مریض کے قارورہ یعنی پیشاب کی رنگت دیکھ کر ہی تشخیص کرلیا کرتے تھے۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ طبیب مریض کی نبض پر انگلیاں رکھ کر ہی بیماری کا سراغ لگا لیتے تھے جسے نبض شناسی کہا جاتا تھا۔
یونانی طب کی تعلیم و تربیت کے لیے باقاعدہ ادارے قائم تھے، مثلاً طبیہ کالج دہلی۔ اِس ادارے سے بڑے بڑے حکماء فارغ التحصیل ہوکر نکلے ہیں۔یونانی طریقہ علاج مریضوں کی شفایابی کے حوالے سے سب سے مشہورومعروف دہلی کے حکیم اجمل خان کا ہے۔
اِس کے علاوہ بعض دیگر بڑے ناموں میں مرحوم حکیم عبدالمجید، بانی ہمدرد دواخانہ اور مرحوم حکیم عبدالحمید اور اُن کے چھوٹے بھائی حکیم محمد سعید شہید کے اسماء گرامی شامل ہیں۔برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ اِن تمام حکماء گرامی نے علاج معالجہ کو عبادت کا درجہ دیا تھا اور اِسے تجارت نہیں بنایا تھا۔ یہ اللہ والے لوگ تھے جو راتوں کو اٹھ کر اپنے مریضوں کی جلد از جلد شفایابی کے لیے باری تعالٰی سے دعائیں بھی کیا کرتے تھے۔
آیورویدک طریقہ علاج کے سلسلہ میں ہمیں ایک واقعہ آج تک یاد ہے۔ ہوا یوں کہ ہم اپنی والدہ صاحبہ کے علاج کے سلسلہ میں دہلی کے ایک ماہر وید کے پاس گئے۔ کچھ دنوں بعد ہماری والدہ صاحبہ اپنی ہمشیرہ کو بھی جو بیمار تھیں اپنے ہمراہ لے کر وید صاحب کے دواخانہ گئیں۔
واضح رہے کہ دونوں خواتین پرانے زمانہ کے شٹل کاک برقعہ میں ڈھکی ہوئی تھیں اور میری والدہ نے وید صاحب کی قابلیت کو جانچنے کے لیے تعارف کے طور پر اپنی ہمشیرہ کے بارے میں کہا کہ یہ میری پڑوسن ہے اور آپ اِنہیں دیکھ لیجیے۔
وید جی نے کہا کہ بہن نبض دکھائیں اور میری خالہ نے برقعہ سے ہاتھ نکال کر وید جی کے آگے کردیا۔ نبض دیکھنے کے تھوڑی دیر بعد وید صاحب نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا کہ یہ آپ کی بہن کیا آپ کے پڑوس میں رہتی ہیں اور اِسی لیے آپ اِنہیں اپنی پڑوسن کہہ رہی ہیں۔
آج جب میں بڑے بڑے کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کو دیکھتا ہوں جو لیبارٹریوں میں مریضوں کے مہنگے مہنگے ٹیسٹ کرانے اور بھاری بھاری فیسیں مریضوں سے وصول کرنے کے باوجود مرض کی تشخیص کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو مجھے وید جی یاد آجاتے ہیں۔
حکیم عبدالحمید صاحب مرحوم اور حکیم محمد سعید شہید کے بارے میں میرا ذاتی تجربہ قریب قریب ایسا ہی ہے۔ اللہ تعالٰی اِن دونوں کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے۔(آمین۔)اِن دونوں حکماء کو اِس بات کا کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ اِنہوں نے طبِ یونانی کو فارماسوٹیکل کے جدید معیار سے ہم آہنگ کردیا اور یونانی دوا سازی کے معیار کو بلند کر دیا۔
گستاخی معاف ڈاکٹروں اور دواساز کمپنیوں نے اپنے گٹھ جوڑ سے اِسے ایک مافیا بنا دیا ہے۔ دوا ساز کمپنیاں بڑے بڑے ڈاکٹرز کو طرح طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔
شنید ہے کہ بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں مشہور و معروف ڈاکٹروں کو طرح طرح کی رعایات اور سہولیات فراہم کرتی ہیں جن میں بیرونی ممالک کے تفریحی دورے بھی شامل ہیں۔اِس کے علاوہ دوا ساز کمپنیاں اپنی مرضی سے روز بروز ادویات کی قیمتیں بڑھا رہی ہیں اور وزارتِ صحت کی طرف سے اُنہیں لگام دینے والا کوئی نہیں ہے۔
جان بچانے والی دواؤں کی قیمت میں آئے دن اضافہ کیا جا رہا ہے جو انسانیت کے خلاف ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
ایک اور طریقہ علاج ہومیوپیتھی ہے۔ یہ طریقہ علاج جرمنی سے ہمارے ہاں آیا ہے۔ اِس طریقہ علاج کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہ ایلوپیتھک طریقہ علاج سے قطعی مختلف ہے۔ ایلوپیتھک طریقہ علاج میں جو دوائیں استعمال ہوتی ہیں اُن کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہر دوا کے منفی اثرات ہوتے ہیں جنھیں سائیڈ اِفیکٹ کہا جاتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایک دوا ایک مرض کا علاج کرتی ہے اُس کے کئی سائیڈ اِفیکٹس ہوتے ہیں۔ہومیوپیتھک دوا کی خوبی یہ ہے کہ اُس کے کوئی مضر اثرات نہیں ہوتے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس مرض کا علاج کیا جاتا ہے وہ جڑ سے ختم ہو جاتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اِس طریقہ علاج کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کی وجہ سے اِسے وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جو ہونا چاہیے تھا۔ ہومیوپیتھک طریقہ علاج ایلوپیتھک علاج کے مقابلہ میں قدرے سَستا بھی ہے۔ ہمارا اور ہمارے چند احباب کا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج تیر بہدف ہوتا ہے۔
بھارت کے ایک شہر گورکھ پور میں ایک مشہور ہومیوپیتھ ہوا کرتے تھے جو بہت مشہور تھے۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ میں خاک معالج ہوں کیونکہ میرے پاس موت کی کوئی دوا نہیں ہے۔ اِسی طرح دہلی میں ایک ماہر ہومیوپیتھ ڈاکٹر نعیم ہوا کرتے تھے جو اپنا کلینک رات کے بارہ بجے کھولتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب زیادہ تر اُمراء کا علاج کیا کرتے تھے اور صرف بڑے بڑے سیٹھ ہی اُن کا علاج افورڈ کرسکتے تھے کیونکہ وہ علاج کے لیے سونے کی اشرفیاں طلب کرتے تھے۔وطنِ عزیز پاکستان میں بھی بڑے بڑے کامیاب ہومیو پیتھ گزرے ہیں اور موجود ہیں لیکن سچ پوچھیے تو شفا نہ دوا میں ہے اور نہ کسی معالج کے ہاتھ میں۔
اللہ شافی اللہ کافی!