انسانی اسمگلنگ اور حکومتی ذمے داری
1912 میں ٹائی ٹینک نامی جہاز بحر اوقیانوس میں غرق ہوگیا تھا۔ اس جہاز پر بننے والی فلم اور کچھ تاریخی کتب نے تاحال لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس جہاز کے سمندر میں رہ جانے والی باقیات کو دیکھنے کا شوق پانچ امیر ترین شخصیات کو بحراقیانوس کی لہروں میں لے گیا۔ یہ افراد سیاحتی آبدوز میں سوار ہوکر سمندر میں چلے گئے اور یہ سیاحتی سفر دنیا کے مہنگے ترین تفریحی سفر میں سے ایک تھا۔ اس سیاحتی سفر میں پاکستان کا ایک بڑا بزنس مین اور ان کا بیٹا بھی شامل تھا۔
ان افراد کو سمندر کی گہرائیوں کی سیر کرانے والی آبدوز ٹائٹین کے متعلق جب یہ خبر آئی کہ وہ لاپتہ ہوگئی ہے تو دنیا بھر میں کہرام مچ گیا۔ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن یہ کوشش بالکل ایسے ہی تھی جیسے سمندر میں سوئی کو تلاش کرنا۔ لیکن یہ تلاش لاحاصل ثابت ہوئی اور امریکی کمپنی نے آبدوز میں موجود تمام افراد کی ہلاکت کا اعلان کردیا۔ دنیا کہ یہ امیر ترین افراد اپنے خواب کو آنکھوں میں سجائے دنیا سے چلے گئے۔
دوسری طرف کچھ دن قبل دل کو دہلا دینے والی یہ خبر بھی سامنے آئی کہ انسانی اسمگلر جس کشتی میں سیکڑوں تارکین وطن کو سوار کرکے یورپ پہنچانے کی کوشش کررہے تھے وہ سمندر میں ڈوب گئی۔ ماہی گیری کےلیے استعمال ہونے والی اس کشتی کو جنوبی یونان میں حادثہ پیش آیا، جس کے باعث کشتی میں موجود بیشتر افراد ہلاک ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق اس کشتی میں 700 سے زائد افراد سوار تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
خبر رساں ایجنسیوں کو موصول ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق سے کشتی میں 209 پاکستانی شامل تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں بھی پاکستانی شہری شامل ہیں۔ ریسکیو کیے جانے والے لوگوں میں بھی 12 پاکستانی ہیں۔ ریسکیو کیے جانے والے افراد اور متاثرین کے اہل خانہ نے یورپ جانے کا خواب دیکھنے والے ان افراد پر ہونے والے مظالم کی جو داستانیں سنائی ہیں انہیں لکھتے ہوئے بھی دل کانپ جاتا ہے۔ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں سوار افراد کئی کئی دن کے بھوکے تھے، ان افراد پر تشدد بھی کیا گیا اور پھر ان بدنصیب افراد کو بھیڑ بکریوں کی طرح کشتی میں لاد کر سمندر کے حوالے کردیا گیا۔
یہ واقعہ ایک المیہ اور سانحہ ہے۔ اس بدنصیب کشتی میں ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے کئی ملکوں کے افراد شامل تھے۔ ایک لمحے کو سوچیں کہ ایسا کیا ہے کہ لوگ سب کچھ جاننے کے بعد بھی لاکھوں روپے ان انسانی اسمگلروں کو دے کر خود کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔
انسانی اسمگلروں کی مدد سے بیرون ملک جانے کی کوشش کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ایسا کئی دہائیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں میں موجود یہ تاثر ہے کہ کسی طرح بیرون ملک چلے جائیں تو زندگی سنور جائے گی۔ حالات کے ستائے افراد اپنا سب کچھ گروی رکھوا کر یا بیچ کر خود کو اس مشکل میں ڈالتے ہیں۔ جنوبی پنجاب اور کشمیر کے رہنے والوں میں بیرون ملک سفر کرنے کا رجحان زیادہ ہے۔
حکومت انسانی اسمگلروں کے خلاف منظم کارروائی کرے اور اس جرم میں ملوث افراد کو نشان عبرت بنائے تاکہ ایسے واقعات کو روکا جاسکے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے۔ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جاکر زندگی گزارنا جس قدر مشکل اور مہنگا ہے اگر اس کی آدھی مشکلات اور پیسہ لگا کر پاکستان میں ہی کام شروع کیا جائے تو زندگی آسانی سے گزر سکتی ہے۔
بیرون ملک جانے والے افراد ملکی معیشت کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں اہم یہ ہے کہ حکومت گلی محلوں میں موجود ایجنٹس کے کالے دھندوں کا خاتمہ کرے۔ کسی بھی پاکستانی کو بیرون ملک بھیجنے کا پورا عمل حکومت کے ذمے ہو اور حکومت ان تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد کو جنہیں ملک میں روزگار میسر نہ ہو، خود بیرون ملک بھیجنے کی کوشش کرے۔ دوسرے ممالک میں آنے والی ملازمتوں کا اعلان حکومتی ویب سائٹس پر کیا جائے۔
انسانی اسمگلنگ کے واقعات کو روکنے کےلیے تو سخت سے سخت قانونی کارروائیاں کرنا ہی ہوں گی لیکن حکومت پرائیویٹ ایجنٹس کو لائسنس دینے کے بجائے اگر دوسرے ملکوں سے رابطہ کرکے اپنے افراد کو اپنی نگرانی میں بیرون ملک بھیجنے کا انتظام کرے تو اس سے ملازمتوں کے مواقعوں میں اضافہ ہوگا اور معصوم شہری ان انسان دشمن افراد کے چنگل میں پھنسنے سے بچ جائیں گے۔
وطن عزیز اس وقت جس معاشی بحران کا شکار ہے اس میں روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے افراد ایسے واقعات کے سامنے آنے کے بعد بھی انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں اپنی جان گنوا سکتے ہیں۔ حکومت کو سنجیدگی سے ان واقعات کی روک تھام کےلیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ملک میں چھوٹے کاروباری افراد کو سپورٹ کیے بغیر، ملازمت کے مواقعے فراہم کیے بغیر، کیریئر کاؤنسلنگ اور نوجوانوں کو ہنرمند بنائے بغیر ان واقعات کو روکنا ناممکن ہے۔ ہمیں اپنے نظام میں اب تبدیلیاں لانی ہوں گی، پالیسیاں بدلنا ہوں گی، لوگ اب زندگی سے پریشان ہیں۔
حکومت کو اپنے جھگڑوں سے نکل کر اب عوام کو روزگار فراہم کرنے کی جانب توجہ دینا ہوگی۔ حکومت کو اسکولوں میں تکنیکی تعلیم کو فروغ دینا ہوگا جس سے ملازمت کے مواقع پیدا ہوں۔ کیریئر کونسلنگ ایک اہم شعبہ ہے جسے وطن عزیز میں یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کیریئر کونسلنگ کی مدد سے طلبا کی رہنمائی بھی حکومتی سطح پر کی جانی چاہیے کہ انہیں کس شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ ملازمت کے حصول میں آسانی ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔