آئی ایم ایف سے دوبارہ مذاکرات نیک شگون
بدعنوانی سے نمٹے بغیر، پاکستان معاشی جمود، سیاسی عدم استحکام اور عوامی اعتماد میں کمی کا سامنا کرتا رہے گا
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جار جیوا کے درمیان نیو گلوبل فنانشل سمٹ کی سائیڈ لائن پر مذاکرات کے بعد حکومت اور عالمی ادارے کے درمیان اسلام آباد میں اسٹاف لیول مذاکرات دوبارہ شروع ہوگئے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مقروض ترقی پذیر ممالک کی مدد وقت کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے عوام کو ریلیف مل سکے۔ اسٹاف لیول مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہونا ایک نیک شگون ہے لیکن ساتھ ہی آئی ایم ایف پالیسی اختلافات دور کرنے کی ضرورت پر زور دے رہا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے تمام '' اگر، مگر'' اور پلان ''بی'' اپنی جگہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ دنیا آئی ایم ایف کی اصلاحات پر عمل کیے بغیر پاکستان کی مالی معاونت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خزانہ ورلڈ اکنامک فورم پر بیان دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں اب اس نے دوست ملکوں کی معاونت کے طریقہ کار کو تبدیل کردیا ہے، وہ براہ راست مالی مدد کے بجائے دوست ملکوں کے ساتھ شراکت داری کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو تیار ہے۔
سعودی سفیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھی اپنے اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنا ہوگا، یعنی پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ نہ صرف عالمی فنڈ بلکہ اس کے ساتھ کثیر الملکی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک بھی پاکستان کو فنڈنگ کرسکیں۔
اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف میں 190 رکن ملک ہیں مگر ہر ملک کا ووٹ دوسرے ملک کے برابر نہیں ہے۔ ہر ملک کے ووٹ کا وزن اس ملک کی معیشت سے لگایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف میں چند مغربی ملکوں جیسا کہ امریکا، مغربی یورپ (یورپی یونین) کے پاس اکثریتی ووٹنگ کا حق ہے۔ اسی لیے امریکا اور یورپ کی جانب سے آئی ایم ایف کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے۔
یورپ اور جی7ملکوں کے پاس آئی ایم ایف کے50فیصد ووٹنگ کے حقوق ہیں جب کہ وسط اور کم آمدنی والے ملک جو کہ دنیا کی آبادی کا 85 فیصد ہیں، ان کے پاس اقلیتی ووٹنگ کے حقوق ہیں، جس کا بنیادی مقصد یورپی اور امریکی بالادستی کو قائم رکھنا ہے۔
دراصل آئی ایم ایف دو چیزوں پر زور دیتا ہے ایک یہ کہ ان لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جائے جو ٹیکس ادا کرسکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔ سبسڈیز کی منصفانہ تقسیم کرتے ہوئے ضرورت مند افراد کو سبسڈی دی جائے اور طبقہ امرا اور اشرافیہ کو سبسڈیز کا فائدہ نہ پہنچے۔ فنڈ پاکستان کے غریب طبقے کا تحفظ بھی چاہتا ہے۔
دوسری جانب حکومت پاکستان نے ملک کی معاشی بحالی کے لیے جامع حکمت عملی '' اکنامک ریوائیول پلان''کے نام سے جاری کر دی ہے۔ وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیے کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں دور کرنے کے اسپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) قائم کر دی گئی ہے۔
معاشی بحالی کے لیے برآمدات بڑھانے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کلیدی اہمیت رکھتی ہے، لہٰذا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اجتماعی سوچ اپناتے ہوئے موثر عمل درآمد کے لیے وفاق اور صوبوں میں شراکت داری کا انداز اپنایا جائے۔ زراعت ایک ایسا شعبہ ہے، جس کی صلاحیت سے ابھی تک بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔
زرعی شعبے میں تحقیق پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے یہ شعبہ اتنا پیداواری اور فائدہ مند ثابت نہیں ہوا جتنا اسے ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے ملک میں فی ایکڑ پیداوار بھی جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔
حالانکہ اس سیکٹر میں اتنا پوٹینشل ہے کہ یہ شعبہ پاکستان کی مشکلات حل کرنے میں بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس کا عملی حل یہ ہے کہ ملک کے اندر ایسی فصلوں کا انتخاب کیا جائے، جن کے اگانے سے ہمارا انحصار درآمدات پر کم سے کم ہو۔ پچھلے مالی سال میں ہم نے تقریبا 3.6 بلین ڈالرز کا صرف خوردنی تیل درآمد کیا۔
لہٰذا زیادہ سے زیادہ تیل دار اجناس اگا کر وطن عزیز کا زر مبادلہ بچایا جاسکتا ہے اور اس کے لیے محکمہ زراعت کے تحقیقاتی اداروں بشمول ذیلی ادارہ توسیع زراعت کو بہتر اور جدید خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے۔ ایگری بزنس پر توجہ کی بھی ضرورت ہے تاکہ فصلوں سے حاصل شدہ خام مال کی ویلیو ایڈیشن کی جاسکے اور اسے بیرون ملک برآمد کیا جاسکے۔
اس وقت پاکستان کو کمزور جمہوری نظام، حکومت میں بار بار تبدیلیوں اور سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے۔ طویل المدتی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے سیاسی عزم کا فقدان غیر موثر طرز حکمرانی اور سست پیش رفت کا باعث بنا ہے۔
مزید برآں، دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ملک کے عدم استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کے نتیجے میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہے۔ پاکستان میں معاشی چیلنجز بھی ایک اہم تشویش ہے۔غربت میں کمی کے لیے حکومت کی کوششوں کے باوجود، پاکستان میں غربت کی شرح بلند ہے، 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
بے روزگاری ایک اور اہم معاشی چیلنج ہے، جس میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملازمتیں تلاش کرنے سے قاصر ہے۔ افراط زر ایک مستقل مسئلہ رہا ہے، جس میں ضروری اشیاء اور خدمات کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس سے غریبوں کے لیے اپنا پیٹ بھرنا مشکل ہو گیا ہے۔عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطابق پاکستان سے اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر جانے والے نوجوانوں کی شرح7فیصد سے زائد ہے جب کہ بھارت میں یہ شرح2.7فیصد ہے۔
برین ڈرین کی بڑھتی ہوئی شرح کا یہ اثر بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم پر سرمایہ کاری شاید تیز رفتار اقتصادی ترقی میں مددگار ثابت نہ ہو کیونکہ یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑ دیتی ہے، ہمارے یہاں روزگار پیدا کرنے اور اس کی فراہمی جیسے مسائل کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
پاکستانی نوجوانوں کے لیے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقعے توانائی کے بحران، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں کم سرمایہ کاری اور غیر مستحکم سیاسی صورتحال جیسے عناصر کی وجہ سے محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کو درپیش ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ ملک کی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ انتہائی کم آمدنی میں خطرناک اور ناقص حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد معیاری تعلیم اور ہنر تک رسائی سے محروم ہے جو انھیں مسابقتی مارکیٹ میں روزگار فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ رسمی تعلیم اور دوران ملازمت تربیت نوجوان گریجویٹس کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی شعبے کی مدد سے ایک منظم نصاب تیار کرے جو زیادہ سے زیادہ افراد کو روزگار کے حصول کے قابل بنا سکے۔ نئے کاروباروں کی قومی سطح پر حوصلہ افزائی کرکے ملک میں روزگار کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
طلبہ اور گریجویٹس کی کاروباری سرگرمیوں میں منظم طریقے سے ان کے ساتھ تعاون کرنے سے نہ صرف انھیں اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ملازمتیں پیدا کرنے کا موقع ملے گا۔ پاکستان کی64فیصد آبادی30سال سے کم عمر ہے۔ نوجوانوں کا ایک ہجوم ہے جنھیں روزگار نہیں دیا گیا تو اس کے ریاست، معاشرے اور معیشت پر سنگین اثرات ہوسکتے ہیں۔ اس طرح پہلے سے مایوسی کا شکار ہمارے معاشرے میں مزید ناامیدی کے بادل چھائیں گے۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنرمند نوجوان اپنی تعلیم اور ہنر کے مطابق نوکری نہ ملنے کے باعث کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں یونیورسٹی سے گریجویٹ طلبہ میں بیروزگاری کی شرح 31اعشاریہ 2فیصد ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی طلب میں اضافے اور نوکریوں میں کمی کے باعث ملک میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔
یہ تعلیمی اداروں اور لیبر مارکیٹ کے درمیان رابطے کی کمی کی جانب اشارہ ہے، اگر تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل نہیں کیا گیا تو یہ مستقبل میں معاشرتی عدم توازن، نفسیاتی مسائل اور ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں بھی اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔پاکستان میں بدعنوانی ایک وسیع مسئلہ ہے جو معاشرے کے تمام سطحوں کو متاثر کرتا ہے۔
اسے کمزور حکمرانی کے ڈھانچے، سیاسی سرپرستی، اور احتساب کی کمی کی وجہ سے ہوا ملی ہے۔ پاکستان کی معیشت پر بدعنوانی کے اثرات گہرے ہیں، اندازوں کے مطابق اس سے ملک کو ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
اس کے نتیجے میں وسائل کی غلط تقسیم، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور غربت کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں، بدعنوانی نے صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور انفرا اسٹرکچر جیسی عوامی خدمات کے بگاڑ میں بھی حصہ ڈالا ہے۔
بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی اور نجی سیکٹر سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔
بدعنوانی سے نمٹے بغیر، پاکستان معاشی جمود، سیاسی عدم استحکام اور عوامی اعتماد میں کمی کا سامنا کرتا رہے گا۔ اس لیے اس چیلنج سے نمٹنے اور خوشحال اور مستحکم پاکستان کی راہ ہموار کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مقروض ترقی پذیر ممالک کی مدد وقت کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے عوام کو ریلیف مل سکے۔ اسٹاف لیول مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہونا ایک نیک شگون ہے لیکن ساتھ ہی آئی ایم ایف پالیسی اختلافات دور کرنے کی ضرورت پر زور دے رہا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے تمام '' اگر، مگر'' اور پلان ''بی'' اپنی جگہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ دنیا آئی ایم ایف کی اصلاحات پر عمل کیے بغیر پاکستان کی مالی معاونت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خزانہ ورلڈ اکنامک فورم پر بیان دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں اب اس نے دوست ملکوں کی معاونت کے طریقہ کار کو تبدیل کردیا ہے، وہ براہ راست مالی مدد کے بجائے دوست ملکوں کے ساتھ شراکت داری کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو تیار ہے۔
سعودی سفیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھی اپنے اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنا ہوگا، یعنی پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ نہ صرف عالمی فنڈ بلکہ اس کے ساتھ کثیر الملکی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک بھی پاکستان کو فنڈنگ کرسکیں۔
اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف میں 190 رکن ملک ہیں مگر ہر ملک کا ووٹ دوسرے ملک کے برابر نہیں ہے۔ ہر ملک کے ووٹ کا وزن اس ملک کی معیشت سے لگایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف میں چند مغربی ملکوں جیسا کہ امریکا، مغربی یورپ (یورپی یونین) کے پاس اکثریتی ووٹنگ کا حق ہے۔ اسی لیے امریکا اور یورپ کی جانب سے آئی ایم ایف کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے۔
یورپ اور جی7ملکوں کے پاس آئی ایم ایف کے50فیصد ووٹنگ کے حقوق ہیں جب کہ وسط اور کم آمدنی والے ملک جو کہ دنیا کی آبادی کا 85 فیصد ہیں، ان کے پاس اقلیتی ووٹنگ کے حقوق ہیں، جس کا بنیادی مقصد یورپی اور امریکی بالادستی کو قائم رکھنا ہے۔
دراصل آئی ایم ایف دو چیزوں پر زور دیتا ہے ایک یہ کہ ان لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جائے جو ٹیکس ادا کرسکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔ سبسڈیز کی منصفانہ تقسیم کرتے ہوئے ضرورت مند افراد کو سبسڈی دی جائے اور طبقہ امرا اور اشرافیہ کو سبسڈیز کا فائدہ نہ پہنچے۔ فنڈ پاکستان کے غریب طبقے کا تحفظ بھی چاہتا ہے۔
دوسری جانب حکومت پاکستان نے ملک کی معاشی بحالی کے لیے جامع حکمت عملی '' اکنامک ریوائیول پلان''کے نام سے جاری کر دی ہے۔ وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیے کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں دور کرنے کے اسپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) قائم کر دی گئی ہے۔
معاشی بحالی کے لیے برآمدات بڑھانے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کلیدی اہمیت رکھتی ہے، لہٰذا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اجتماعی سوچ اپناتے ہوئے موثر عمل درآمد کے لیے وفاق اور صوبوں میں شراکت داری کا انداز اپنایا جائے۔ زراعت ایک ایسا شعبہ ہے، جس کی صلاحیت سے ابھی تک بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔
زرعی شعبے میں تحقیق پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے یہ شعبہ اتنا پیداواری اور فائدہ مند ثابت نہیں ہوا جتنا اسے ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے ملک میں فی ایکڑ پیداوار بھی جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔
حالانکہ اس سیکٹر میں اتنا پوٹینشل ہے کہ یہ شعبہ پاکستان کی مشکلات حل کرنے میں بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس کا عملی حل یہ ہے کہ ملک کے اندر ایسی فصلوں کا انتخاب کیا جائے، جن کے اگانے سے ہمارا انحصار درآمدات پر کم سے کم ہو۔ پچھلے مالی سال میں ہم نے تقریبا 3.6 بلین ڈالرز کا صرف خوردنی تیل درآمد کیا۔
لہٰذا زیادہ سے زیادہ تیل دار اجناس اگا کر وطن عزیز کا زر مبادلہ بچایا جاسکتا ہے اور اس کے لیے محکمہ زراعت کے تحقیقاتی اداروں بشمول ذیلی ادارہ توسیع زراعت کو بہتر اور جدید خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے۔ ایگری بزنس پر توجہ کی بھی ضرورت ہے تاکہ فصلوں سے حاصل شدہ خام مال کی ویلیو ایڈیشن کی جاسکے اور اسے بیرون ملک برآمد کیا جاسکے۔
اس وقت پاکستان کو کمزور جمہوری نظام، حکومت میں بار بار تبدیلیوں اور سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے۔ طویل المدتی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے سیاسی عزم کا فقدان غیر موثر طرز حکمرانی اور سست پیش رفت کا باعث بنا ہے۔
مزید برآں، دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ملک کے عدم استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کے نتیجے میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہے۔ پاکستان میں معاشی چیلنجز بھی ایک اہم تشویش ہے۔غربت میں کمی کے لیے حکومت کی کوششوں کے باوجود، پاکستان میں غربت کی شرح بلند ہے، 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
بے روزگاری ایک اور اہم معاشی چیلنج ہے، جس میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملازمتیں تلاش کرنے سے قاصر ہے۔ افراط زر ایک مستقل مسئلہ رہا ہے، جس میں ضروری اشیاء اور خدمات کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس سے غریبوں کے لیے اپنا پیٹ بھرنا مشکل ہو گیا ہے۔عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطابق پاکستان سے اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر جانے والے نوجوانوں کی شرح7فیصد سے زائد ہے جب کہ بھارت میں یہ شرح2.7فیصد ہے۔
برین ڈرین کی بڑھتی ہوئی شرح کا یہ اثر بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم پر سرمایہ کاری شاید تیز رفتار اقتصادی ترقی میں مددگار ثابت نہ ہو کیونکہ یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑ دیتی ہے، ہمارے یہاں روزگار پیدا کرنے اور اس کی فراہمی جیسے مسائل کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
پاکستانی نوجوانوں کے لیے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقعے توانائی کے بحران، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں کم سرمایہ کاری اور غیر مستحکم سیاسی صورتحال جیسے عناصر کی وجہ سے محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کو درپیش ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ ملک کی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ انتہائی کم آمدنی میں خطرناک اور ناقص حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد معیاری تعلیم اور ہنر تک رسائی سے محروم ہے جو انھیں مسابقتی مارکیٹ میں روزگار فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ رسمی تعلیم اور دوران ملازمت تربیت نوجوان گریجویٹس کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی شعبے کی مدد سے ایک منظم نصاب تیار کرے جو زیادہ سے زیادہ افراد کو روزگار کے حصول کے قابل بنا سکے۔ نئے کاروباروں کی قومی سطح پر حوصلہ افزائی کرکے ملک میں روزگار کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
طلبہ اور گریجویٹس کی کاروباری سرگرمیوں میں منظم طریقے سے ان کے ساتھ تعاون کرنے سے نہ صرف انھیں اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ملازمتیں پیدا کرنے کا موقع ملے گا۔ پاکستان کی64فیصد آبادی30سال سے کم عمر ہے۔ نوجوانوں کا ایک ہجوم ہے جنھیں روزگار نہیں دیا گیا تو اس کے ریاست، معاشرے اور معیشت پر سنگین اثرات ہوسکتے ہیں۔ اس طرح پہلے سے مایوسی کا شکار ہمارے معاشرے میں مزید ناامیدی کے بادل چھائیں گے۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنرمند نوجوان اپنی تعلیم اور ہنر کے مطابق نوکری نہ ملنے کے باعث کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں یونیورسٹی سے گریجویٹ طلبہ میں بیروزگاری کی شرح 31اعشاریہ 2فیصد ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی طلب میں اضافے اور نوکریوں میں کمی کے باعث ملک میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔
یہ تعلیمی اداروں اور لیبر مارکیٹ کے درمیان رابطے کی کمی کی جانب اشارہ ہے، اگر تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل نہیں کیا گیا تو یہ مستقبل میں معاشرتی عدم توازن، نفسیاتی مسائل اور ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں بھی اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔پاکستان میں بدعنوانی ایک وسیع مسئلہ ہے جو معاشرے کے تمام سطحوں کو متاثر کرتا ہے۔
اسے کمزور حکمرانی کے ڈھانچے، سیاسی سرپرستی، اور احتساب کی کمی کی وجہ سے ہوا ملی ہے۔ پاکستان کی معیشت پر بدعنوانی کے اثرات گہرے ہیں، اندازوں کے مطابق اس سے ملک کو ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
اس کے نتیجے میں وسائل کی غلط تقسیم، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور غربت کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں، بدعنوانی نے صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور انفرا اسٹرکچر جیسی عوامی خدمات کے بگاڑ میں بھی حصہ ڈالا ہے۔
بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی اور نجی سیکٹر سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔
بدعنوانی سے نمٹے بغیر، پاکستان معاشی جمود، سیاسی عدم استحکام اور عوامی اعتماد میں کمی کا سامنا کرتا رہے گا۔ اس لیے اس چیلنج سے نمٹنے اور خوشحال اور مستحکم پاکستان کی راہ ہموار کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔