بیرون ملک افرادی قوت اور پلان بی
نئے پلان بی ہو یا اصلاحی اقدامات اس میں سب سے اولین ترجیح اسی کو دی جائے
وزیر اعظم شہباز شریف انسانی اسمگلروں کے خلاف بروقت کارروائی نہ کرنے پر برہم ہو گئے۔ اس سلسلے میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے یونان کشتی حادثہ ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے قانون سازی کے لیے تجاویز مرتب کرنے کی ہدایت کی ہے۔
دریں اثناء یونان کے قریب کشتی الٹنے کے واقعہ سے متعلق اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی ہوا۔ اس واقعہ کا جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ اللہ تعالیٰ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آیندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔
بیرون ملک جانے کا سلسلہ کچھ عرصے سے نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی اس کا سلسلہ ملتا ہے۔ جب زیادہ تر افراد لندن کی مسحور کن گلیوں کی آسائشات اور پرتعیش زندگی کے بارے میں باتیں سن کر وہاں جانے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔
ان میں بہت سے افراد کو ویزا مل جایا کرتا تھا اور وہ برطانیہ جا کر آباد ہو جاتے، اسی طرح دوسری جنگ عظیم کی کساد بازاری کے خاتمے کے بعد یورپی ممالک بتدریج ترقی کی منزلیں طے کرتے رہے اور انھیں افرادی قوت کی ضرورت رہی۔ ایسے میں برصغیر پاک و ہند جس میں پہلے بنگلہ دیش بھی شامل تھا یہاں سے لاکھوں افراد نے یورپی ممالک میں ہجرت کی اور وہاں برسر روزگار ہوئے۔
خاص طور پر 1960 کی دہائی میں منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کی تعمیر پر اور آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے یورپ میں روزگار کے دروازے کھلتے رہے اور اس طرح پنجاب کے مختلف علاقوں صوبہ کے پی کے اور صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں سے بھی اور خصوصاً کراچی سے بڑی تعداد میں افراد یورپ کے مختلف ملکوں میں جا کر بس گئے۔ پھر ان میں سے اکثریت اپنے علاقوں، گاؤں دیہاتوں میں واپس آ کر وہاں عالی شان مکانات بناتے رہے۔
پنجاب کے کئی علاقوں میں ان کو کوٹھی کہا جاتا ہے، کراچی میں بنگلے اور کہیں حویلی کے نام سے موسوم ہوتے ہیں اور عمارت کی کشادگی، جدت، نئی طرز تعمیر اس بات کی گواہی دیتے کہ مالک کی مالی حیثیت کافی مضبوط ہے، لیکن جلد ہی یہ المیہ رونما ہونا شروع ہو گیا کہ بڑی بڑی کوٹھیوں، حویلیوں، بنگلوں میں رہنے والے اکثر دو افراد ہوتے تھے۔
جن میں ایک بابا جی کہلاتے اور دوسری بی اماں وغیرہ وغیرہ۔ اور یوں یہ حویلیاں یا بنگلے کئی سال ویران رہنے کے بعد اس وقت بارونق ہو جاتے، یہاں چہل پہل شروع ہو جاتی جب اس کا مالک اپنے بیوی بچوں سمیت چند ہفتوں کے لیے وہاں کے مکین بن جاتے۔
چنانچہ ان لوگوں کے ہاں دولت کی ریل پیل دیکھ کر اور وہ لوگ جوکہ جوان، صحت مند، تندرست و توانا ہوں لیکن اپنے ملک میں انتہائی قلیل تنخواہ پر برسر روزگار ہوں یا پھر بے روزگاری کے مقدر کے ساتھ اپنا سر پھوڑنا ، بھوک و افلاس کی زندگی بسر کرنا، روز جینا روز مرنا ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی فیملی کو سپورٹ کرنے کی خاطر، اپنی بہنوں کے ہاتھوں میں مہندی رچانے کی خاطر، اپنے بوڑھے والدین کے علاج کی خاطر، اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر بہت سے افراد جان بوجھ کر جان کی بازی لگانے پر تل جاتے ہیں اور ہر طرح کے خطرات کے سمندر میں کود جاتے ہیں۔
اور پھر یونان جانے والی کشتی کی طرح کئی حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ 30 لاکھ سے زائد رقم دے کر پہلے دبئی پھر وہاں سے مصر، پھر وہاں سے لیبیا اس کے بعد یونان کسی کشتی میں بیٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ اس طرح دوسرا روٹ پاکستان سے ایران اور ایران سے ترکی کے سرحدی علاقوں کی طرف جہاں ان کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔
ترسیلات زر میں اس مرتبہ 21 فیصد کمی ہوئی ہے لیکن یہ لگ بھگ 30 ارب ڈالر تک وصول ہوئی ہے۔
دوسری اہم بات حکومت آئی ایم ایف کے متبادل کے طور پر معیشت کے لیے مختلف اصلاحی اقدامات پر غور کر رہی ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ دو سے تین ماہ کے دوران اگر کریش پروگرام کے تحت لاکھوں میٹرک، انٹر، گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں کو ان کی ذاتی دلچسپی کے ٹریڈ میں تربیت فراہم کی جائے ، جگہ جگہ حکومتی سرپرستی اور امداد کے تحت فری یعنی بالکل مفت ٹیکنیکل تربیت فراہم کی جائے اس طرح لاکھوں اسکلڈ پرسن تیار کیے جائیں۔
اس دوران مختلف ممالک جن میں برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا، ناروے، ہالینڈ، امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، آئرلینڈ، جاپان، اٹلی، پرتگال اور دیگر بہت سے ممالک جنھیں افرادی قوت کی شدید ضرورت ہے حتیٰ کہ ان اسکلڈ پرسنز جن میں لیبر اور کھیتوں میں کام کرنے والے ورکرز، اسی طرح برطانیہ کو گزشتہ دنوں مختلف شعبوں میں کھپت کی ضرورت تھی جن میں درزی، مستری، کارپینٹر، رنگ ساز، تندورچی، بھیڑ بکریاں چرانے والے اور ہوم کیئر ورکرز اور بہت سے شعبوں میں افرادی قوت کی ضرورت تھی لیکن اس سلسلے میں ایشیا کے دیگر ممالک انڈیا، سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش کے علاوہ فلپائن، ویتنامی اور دیگر کئی ممالک کی حکومتیں فوراً سے پیشتر ان سے رابطہ کر لیتی ہیں اور فوری طور پر اپنے افراد کو ہر طرح کی تربیت سے لیس کرکے یعنی ٹریننگ دینا، زبان سکھا دینا اور دیگر باتوں سے آگاہ کرکے ایک طرح سے اپنے ملک کا سفیر بنا کر وہاں بھیجا جاتا ہے۔
پاکستان اپنے اہم ترین مشکل مالی مسئلے کے حل کے لیے زرمبادلہ کی قلت کے حل کے لیے ترسیلات زر میں یکایک 40 سے 50 فیصد اضافے کی خاطر اپنی بہترین افرادی قوت کی سفارت کاری کو بروئے کار لاتے ہوئے قانونی طریقے سے اپنے افراد کو ضرورت مند ممالک کو بھجوائے، نئے پلان بی ہو یا اصلاحی اقدامات اس میں سب سے اولین ترجیح اسی کو دی جائے۔
اس طرح آیندہ تین سے چار ماہ کے بعد سے پاکستان کو کم ازکم مزید 8 سے 10 ارب ڈالر سالانہ آمدن ہوگی اور پاکستان مالیاتی دباؤ سے باہر نکل آئے گا اور پلان بی کا مقصد ہی یہ ہے کہ پاکستان مالیاتی دباؤ سے باہر نکلے۔ زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ آئے اور ملک کے معاشی حالات درست ہونے لگیں۔