جدید سیاسی جماعتیں
سیاسی جماعت میں خاندان کے افراد کو عہدے دینے کی روایت خاصی قدیم ہے
الیکشن کمیشن کے دباؤ پر مسلم لیگ ن میں پارٹی انتخابات کا انعقاد ہوا، تمام امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔
مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے اہم عہدوں پر شریف خاندان کے افراد کو منتخب کیا، یوں میاں نواز شریف سرپرست، میاں شہباز شریف صدر، مریم نواز چیف آرگنائزر اور اسحاق ڈار اوورسیز مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔
سیاسی جماعت میں خاندان کے افراد کو عہدے دینے کی روایت خاصی قدیم ہے۔ پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام، مسلم لیگ ق اور عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ میں اہم عہدے خاندان کے افراد کو ہی دیے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف میں صورتحال تھوڑی مختلف ہے۔
پارٹی کے قیام کے بعد سے ایک ہی شخص مستقل چیئرمین ہے، ان کے بھانجے ایک متحرک کارکن ہیں مگر ان کے پاس ابھی کوئی عہدہ نہیں ہے البتہ خیبر پختون خوا میں پرویز خٹک اور پنجاب میں شاہ محمود قریشی کے قریبی رشتہ دار اپنی آبائی نشستوں پر منتخب ہوتے ہیں۔ صرف بلوچستان کی نیشنل پارٹی میں مقررہ مدت کے بعد صدارت تبدیل ہوتی ہے۔
جماعت اسلامی مذہبی جماعتوں میں واحد جماعت ہے جہاں وراثت میں عہدے نہیں ملتے۔ ملک کی بڑی قومی جماعتوں میں ایک خاندان میں اہم عہدے بانٹنے سے عوام کا اپنی قیادت اور جمہوریت پر اعتماد کمزور ہوتا ہے۔
مسلم لیگ ن بھی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار تھی مگر مسلم لیگ ن کی حکومتیں دو دفعہ توڑ دی گئیں۔ مسلم لیگ ن کو پرویز مشرف اور تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں خطرناک آپریشن سے گزرنا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا۔ میاں نواز شریف، شہباز شریف ان کے صاحبزادے اور مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں کو اٹک قلعہ ، پنجاب کے مختلف تھانوں اور کراچی کی لانڈھی جیل میں اذیتیں برداشت کرنی پڑیں۔
میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پرویز مشرف کے طیارہ کو اغواء کرنے کا مقدمہ قائم ہوا۔ پرویز مشرف نے اس مقدمہ کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت قائم کی۔ استغاثہ کا مطالبہ تھا کہ میاں نواز شریف کو طیارہ اغواء کرنے کی سازش کرنے پر سزائے موت دی جائے مگر میاں صاحب کے قریبی ساتھی ڈٹے رہے۔
تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں نیب نے مسلم لیگ ن کی پوری قیادت کو مختلف مقدمات میں ماخوذ کیا۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں سعودی حکومت نے شریف خاندان کو مشکلات سے نجات دلائی۔ شریف خاندان سعودی عرب چلا گیا۔ پی ٹی آئی کے دورِ اقتدار میں میاں نواز شریف کے جیل میں پلیٹ لیٹس خطرناک سطح تک گر گئے۔
میاں صاحب پھر برطانیہ چلے گئے۔ میاں نواز شریف طویل عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ برطانیہ کی جمہوریت اور انسانی حقوق کے بہترین معیار کی بناء پر صحت مند اور آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے صاحبزادے کاروبار کررہے ہیں اور پوتے، نواسے اور نواسیاں برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی قیادت نے یقینا یہ بات محسوس کی ہوگی کہ برطانیہ کی جمہوریت کی بنیاد وہاں کی سیاسی جماعتیں ہیں۔ برطانیہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی میں وراثتی نظام کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ جماعتیں Grass root level کے کارکنوں کو جمع کرتی ہیں۔ ان کارکنوں کی سیاسی تربیت ہوتی ہے اور انتظامی معاملات سے آگاہی ہوتی ہے۔
کاؤنٹی میں مقامی قیادت ابھرتی ہے اور پھر جن کارکنوں میں قائدانہ صلاحیتیں ہوتی ہیں وہ آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ مختلف رہنما اپنے تعلیمی پس منظر کی بناء پر مختلف موضوعات کے ماہر ہوجاتے ہیں، یوں قیادت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ برطانیہ میں دونوں پارٹیوں میں احتساب کا نظام انتہائی مضبوط ہے۔
بورس جانسن برطانیہ کے سابق وزیر اعظم تھے، جب برطانیہ میں کورونا کی بناء پر تمام قسم کی پارٹیوں کے انعقاد پر پابندی تھی تو وزیر اعظم کی قیام گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ایک گارڈن میں پارٹی منعقد ہوئی، اگرچہ وزیر اعظم بورس جانسن اس گارڈن پارٹی میں موجود نہیں تھے مگر ان پر شدید تنقید ہوئی، آخرکار بورس جانسن نے ایک تحقیقاتی رپورٹ کے شایع ہونے پر پارلیمنٹ سے استعفیٰ دیا اور دوبارہ وہ صحافی ہوگئے اور ڈیلی میل میں اپنا کالم دوبارہ لکھنا شروع کردیا۔
ایسی ہی صورتحال پیپلز پارٹی کی ہے، بلاول بھٹو زرداری نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ اپنے نانا کے اس نعرہ '' عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں'' کے امین ہیں مگر اپنی جماعت کو جدید سیاسی جماعت بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں کیا بلاول بھٹو زرداری نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کے حق میں نہیں ہیں۔
بھٹو خاندان ہی مختلف عہدوں پر تعینات ہے۔ آصف زرداری نے تو ایک وقت میں اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کو صوبہ پنجاب میں پارٹی کا انچارج بنادیا تھا۔
جمعیت علماء اسلام ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت جمعیت علماء ہند کی وارث ہے۔ جمعیت علماء ہند میں کبھی وراثت کی بنیاد پر قیادت منتقل نہیں ہوئی ۔
مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود ابتدائی دور میں جمعیت علماء ہند کے کارکن تھے مگر یہاں بھی حکومت کے سارے عہدے اپنے بھائیوں اور رشتے داروں میں بانٹ دیے گئے ہیں ، وہ خواتین کی پارلیمنٹ میں نمایندگی کے حق میں بھی نہیں تھے مگر اس بارے میں قانون سازی کی بناء پر اپنی قریبی رشتے دار خواتین کو قومی اسمبلی، سینیٹ اور خیبر پختون خوا اسمبلی کا رکن بنایا۔
خدائی خدمت گار عبد الغفار خان نے ساری عمر فرسودہ روایات کے خلاف جدوجہد کی۔ ان کے پوتے اسفندیار ولی نے اپنے دادا کی روایات کو نظراندازکیا اور اپنے بیٹے کو قیادت سونپ دی۔ و قربانی دینے والے رہنماؤں میاں افتخار حسین اور بلور خاندان کو بھی قیادت کے لیے مناسب نہیں سمجھا گیا ۔
جماعت اسلامی کے قائد مولانا مودودی کے بڑے صاحبزادہ فاروق مودودی کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے اپنے بیٹوں کو اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی تھی مگر جماعت اسلامی میں ایک محدود جمہوریت کے تحت قیادت کے انتخاب کا طریقہ کار رائج ہے۔ مذہبی جماعتوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ مخصوص فرقوں کی نمایندگی کرتی ہیں، یوں کبھی عوامی پارٹی نہیں بن سکیں۔
مسلم لیگ ن کے ایک ہی خاندان کے افراد کو عہدے دینے کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں، جب حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا تو ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق احتجاج کرنے والوں میں شامل تھے۔
جب اسحق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا گیا تو سب سے پہلے آواز اٹھانے والو ں میں شاہد خاقان عباسی اور ڈاکٹر مفتاح اسماعیل شامل تھے۔ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، شاہ محمد شاہ اور ظفر جھگڑا جیسے پرانے کارکن اب مسلم لیگ ن سے دور ہوگئے ہیں۔
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ان جماعتوں کی بری طرزِ حکومت کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف کو قائم و منظم کیا گیا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین نے پنجاب اورخیبر پختون خوا کے نوجوانوں کو خاص طور پر اپنا گرویدہ بنایا۔ فوری طور پر تو مختلف وجوہات کی بناء پر تحریک انصاف کو میدان سے باہر کیا گیا ہے ۔
ایک منصوبہ کے تحت فرقہ پرست جماعتوں کو عوام میں اپنی جڑیں قائم کرنے کے کھلے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی بہت پہلے پنجاب اور خیبر پختون خوا سے رخصت ہوچکی ہے۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہ جماعتیں جدید سیاسی جماعتوں میں تبدیل ہوجائیں۔ یوں عوام میں یہ اپنی مقبولیت حاصل کرسکیں گی اور جمہوری نظام مستحکم ہوگا۔