اسلحہ فروش مافیا کی مارکیٹس
جنگ اورقتل وقتال اور ہتھیاروں کااستعمال ہی ہتھیار سازوں کاکاروبار ہے
قدیم ایرانی اساطیرمیں ضحاک نام کے ایک ظالم بادشاہ کا ذکر اکثر آتا ہے، روایات کے مطابق شیطان اہرمن نے اس کے دونوں کاندھوں پر بوسہ دیاتھا جہاں دو سانپ اگ آئے تھے ،ضحاک ان سانپوں کوروزانہ دو آدمیوں کا مغزکھلاتاتھا،کاوہ نام کے لوہار کے دو بیٹے بھی اس کا شکار ہوئے تو اس نے اپنی دھونکنی(درفش) کو جھنڈا بناکر علم بغاوت بلند کیا اورلوگ بھی اس کے ساتھ شامل ہوئے۔
ضحاک کو کیفرکردار تک پہنچادیا گیا اورایک شہزادہ فریدون کو تخت نشین کیاگیا ،اسی روایت کے مطابق آج بھی ایران کے پرچم کو (شاہ ایران کے وقت تک) درفش کاویانی کہاجاتارہا یعنی کاوہ کی دھونکنی۔
لیکن اس کی تاریخی توجیہہ کچھ اورہے، ضحاک دراصل خانہ بدوش اورجنگ جوؤں کاسارا انحصار لوہاروں پر تھا کہ وہ ان کے لیے اسلحہ بناتے تھے اسے تیز کرتے تھے گھوڑوں کی نعلبندی کرتے تھے ،گویا ان جنگ جو گھوڑسواروں کی طاقت کارازلوہارتھے لیکن جب ان کو حکومت ملی تو انھوں نے لوہاروں کو یکسرنظرانداز کر دیا۔
لوہارنہ صرف جنگ جوؤں کے ہتھیاربناتے تھے بلکہ دوسرے پیشہ وروں کے اوزار بھی لوہاروں ہی کے رہین منت ہوتے ہیں چنانچہ لوہاروں کی بغاوت میں دوسرے پیشہ وربھی شامل ہوگئے اورلوہاروں کی یہ اہمیت آج تک قائم ہے ۔
مشہورناول اورفلم گاڈفادرکے مصنف ''ماریو یوزو'' نے انتقال سے پہلے ایک اورناول '' دی فورتھ کے'' لکھاہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ ایسا کیوں ہوتاہے کہ ہرجنگ کے بعد کچھ لوگ پہلے سے زیادہ طاقتور اوردولت مند ہوجاتے ہیں پھر خود ہی اس کاجواب دیتے ہوئے کہاہے کہ ایسا اس لیے ہوتاہے کہ ہتھیاروں کی تجارت اورزیادہ منافع بخش ہوجاتی ہے ۔
لگ بھگ پونے صدی سے تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی جنگ چل رہی ہوتی ہے اوراس میں طرح طرح کے ہتھیار استعمال بلکہ خرچ ہوتے ہیں جس کا منافع اسلحہ ساز سرمایہ داروں کو جاتاہے یایوں کہیے کہ جنگ اورقتل وقتال اور ہتھیاروں کااستعمال ہی ہتھیارسازوں کاکاروبار ہے اب اگر آج ہی دنیا میں جنگ وجدل رک جائے تو یہ اسلحہ سازاپنے مال کا کیا کریں گے کہ ہتھیار نہ کھانے کی چیز ہیں نہ پینے کی نہ پہننے کی اورنہ اوڑھنے بچھونے کی، ان کے لیے تو جنگ ضروری ہے اورہوشیار تاجر کبھی اپنی مارکیٹ خراب نہیں ہونے دیتا بلکہ دنیا کاہرکاروبار کھیت اورمارکیٹ کارہین منت ہوتاہے،مریض نہ ہوں تو دواسازکیاکمائیں گے، ننگے نہ ہوں تو لباس بنانے والے کیاکریں گے، مسائل نہ ہوں تو لیڈر کیاکمائیں گے ۔
بحر ساکن ہوتو تم کوکوئی پوچھے بھی نہیں
ناخدا خیر منا بحر میں طوفانوں کی
مطلب یہ کہ ہرکوئی اپنی پراڈکٹس کے لیے مارکیٹ پیداکرنے کے لیے ہرجتن کرتا ہے اوریہی یہ اسلحہ ساز فیکٹریاں اورکمپنیاں کرتی ہیں، کہیں ملکوں میں اختلاف اوردشمنی ڈال کر کہیں نسلوں اورمذاہب میں تفرقے پیدا کرکے کہیں زبان قوم نسل آزادی وغیرہ کی ہڈیاں پھینک کر۔چنانچہ اس وقت دنیا کی ساری بڑی بڑی سرمایہ دار کمپنیاں اورگروپ کسی نہ کسی ہتھیار ساز کاحصہ ہیں۔
بہت ساری دواساز کمپنیاں سب کی سب اسلحہ سازی کے بزنس میں سرمایہ کاری کیے ہوئے ہیں اوراب اس اسلحہ سازی کی صنعت میں ،پستول اور بندوق سے لے کر بموں راکٹوں، میزائلوں، بمبار جہازوں سمیت بہت کچھ شامل ہوچکاہے ،یہ کمپنیاں زیادہ تر یہودیوں کی ہیں جو آج اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں پوری دنیا پر چھاچکے ہیں عالمی معیشت ان کے اشاروں پر چلتی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد انیس سو چھیالیس سے لے کرانیس سو انہتر تک امریکی بلکہ یہودی سرمایہ کاری باسٹھ ارب ڈالر سے بڑھ کر سات سو آٹھ ارب ڈالر ہوگئی تھی ،اب تو شاید یہ دگنا بھی ہوچکی ہوگی گویا پوری دنیا کی مجموعی سرمایہ کاری کا پینسٹھ فی صد حصہ امریکی پلس یہودی کے پاس چلاگیا ہے ۔
غریب اورپسماندہ ممالک کو دی جانے والی امداد کاجو سلسلہ چل نکلاہے یہ کوئی خداترسی اورانسان دوستی نہیں ہے بلکہ ان غریب اور پس ماندہ ممالک میں اپنی مارکیٹس پیداکرنا اور سرمائے کے آکٹوپس کو دنیا پر قابض کرنا ہے ۔
ویسے تو یہ اسلحہ ساز کمپنیاں ساری دنیا کواپنے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں اوراپنے ہتھیاروں کے لیے لوگوں کو لڑا کر مارکیٹ بناتے رہتے ہیں لیکن خاص طورپر مسلمان ممالک میں ان کی سرگرمیاں عروج پر ہیں کیوں کہ ایک تو مسلمان مذہب کے معاملے پرزیادہ جذباتی اورشدت پسند ہوتے ہیں۔
دوسرے ان میں فرقہ بندی کارحجان بہت ہے، چھوٹی چھوٹی فروعی باتوں کو لے کر ایک دوسرے کو مارتے کاٹتے رہتے ہیں، تیسرے یہ کہ خود کو خداکے لاڈلے سمجھ کر اور نرگسیت کاشکار ہوکر ساری دنیا کو غلط سمجھ رہے ہیں بلکہ اسی دنیا اورکائنات کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اورعلاوہ باقی سب کو خداکے سوتیلے بلکہ دشمن سمجھتے ہیں۔
عالم ہے فقط مومن جانبازکی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے
بلکہ کل ملاکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان بہت زیادہ سادہ اوربہت جلد جھانسے میں آکر شکار ہوجاتے ہیں جب کہ دوسری طرف یہ موت کے سوداگر نہایت ہی چالاک اورعیارہوچکے ہیں ان کے پاس ایسے ایسے دماغ اورتھنک ٹینک ہوتے ہیں جو پہلے آنے والے حالات کاادراک کرلیتے ہیں اوراس کے مطابق پالیسیاں بنالیتے ہیں ۔
ٹرمپ جب برسراقتدار آیا تو خدشہ تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ کیاکیادشمنی کرے گا کیوں کہ انتخابات کے دوران اس نے مسلمان دشمنی میں اچھا خاصا نام کمایا تھا لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ اس نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کاکیا اورکہا کہ دنیا میں ''امن''کاسرچشمہ اس زمین سے پھوٹاہے اورنتیجے میں سعودی عرب اورامارات نے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خرید لیا۔
یہ ٹرمپ نہیں بلکہ امریکا کے اصل حکمران ہتھیاروں کے سوداگر تھے جو ایران عرب دشمنی کو کیش کررہے تھے۔
تھوڑی دیر کے لیے فرض کریں اگر پاکستان نہ بنتا اوردونوں ممالک کے درمیان کشمیر کی ہڈی نہ ڈالی جاتی تو آج دونوں ممالک اپنے عوام کاپیٹ کاٹ کاٹ کر اسلحہ کے ڈھیر نہ لگائے ہوئے ہوتے اورپیداواری ممالک ہونے کے باعث آرام سے جیتے اوران کی ساری آمدنی اسلحہ سازوں کے پاس نہ جاتی۔
ضحاک کو کیفرکردار تک پہنچادیا گیا اورایک شہزادہ فریدون کو تخت نشین کیاگیا ،اسی روایت کے مطابق آج بھی ایران کے پرچم کو (شاہ ایران کے وقت تک) درفش کاویانی کہاجاتارہا یعنی کاوہ کی دھونکنی۔
لیکن اس کی تاریخی توجیہہ کچھ اورہے، ضحاک دراصل خانہ بدوش اورجنگ جوؤں کاسارا انحصار لوہاروں پر تھا کہ وہ ان کے لیے اسلحہ بناتے تھے اسے تیز کرتے تھے گھوڑوں کی نعلبندی کرتے تھے ،گویا ان جنگ جو گھوڑسواروں کی طاقت کارازلوہارتھے لیکن جب ان کو حکومت ملی تو انھوں نے لوہاروں کو یکسرنظرانداز کر دیا۔
لوہارنہ صرف جنگ جوؤں کے ہتھیاربناتے تھے بلکہ دوسرے پیشہ وروں کے اوزار بھی لوہاروں ہی کے رہین منت ہوتے ہیں چنانچہ لوہاروں کی بغاوت میں دوسرے پیشہ وربھی شامل ہوگئے اورلوہاروں کی یہ اہمیت آج تک قائم ہے ۔
مشہورناول اورفلم گاڈفادرکے مصنف ''ماریو یوزو'' نے انتقال سے پہلے ایک اورناول '' دی فورتھ کے'' لکھاہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ ایسا کیوں ہوتاہے کہ ہرجنگ کے بعد کچھ لوگ پہلے سے زیادہ طاقتور اوردولت مند ہوجاتے ہیں پھر خود ہی اس کاجواب دیتے ہوئے کہاہے کہ ایسا اس لیے ہوتاہے کہ ہتھیاروں کی تجارت اورزیادہ منافع بخش ہوجاتی ہے ۔
لگ بھگ پونے صدی سے تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی جنگ چل رہی ہوتی ہے اوراس میں طرح طرح کے ہتھیار استعمال بلکہ خرچ ہوتے ہیں جس کا منافع اسلحہ ساز سرمایہ داروں کو جاتاہے یایوں کہیے کہ جنگ اورقتل وقتال اور ہتھیاروں کااستعمال ہی ہتھیارسازوں کاکاروبار ہے اب اگر آج ہی دنیا میں جنگ وجدل رک جائے تو یہ اسلحہ سازاپنے مال کا کیا کریں گے کہ ہتھیار نہ کھانے کی چیز ہیں نہ پینے کی نہ پہننے کی اورنہ اوڑھنے بچھونے کی، ان کے لیے تو جنگ ضروری ہے اورہوشیار تاجر کبھی اپنی مارکیٹ خراب نہیں ہونے دیتا بلکہ دنیا کاہرکاروبار کھیت اورمارکیٹ کارہین منت ہوتاہے،مریض نہ ہوں تو دواسازکیاکمائیں گے، ننگے نہ ہوں تو لباس بنانے والے کیاکریں گے، مسائل نہ ہوں تو لیڈر کیاکمائیں گے ۔
بحر ساکن ہوتو تم کوکوئی پوچھے بھی نہیں
ناخدا خیر منا بحر میں طوفانوں کی
مطلب یہ کہ ہرکوئی اپنی پراڈکٹس کے لیے مارکیٹ پیداکرنے کے لیے ہرجتن کرتا ہے اوریہی یہ اسلحہ ساز فیکٹریاں اورکمپنیاں کرتی ہیں، کہیں ملکوں میں اختلاف اوردشمنی ڈال کر کہیں نسلوں اورمذاہب میں تفرقے پیدا کرکے کہیں زبان قوم نسل آزادی وغیرہ کی ہڈیاں پھینک کر۔چنانچہ اس وقت دنیا کی ساری بڑی بڑی سرمایہ دار کمپنیاں اورگروپ کسی نہ کسی ہتھیار ساز کاحصہ ہیں۔
بہت ساری دواساز کمپنیاں سب کی سب اسلحہ سازی کے بزنس میں سرمایہ کاری کیے ہوئے ہیں اوراب اس اسلحہ سازی کی صنعت میں ،پستول اور بندوق سے لے کر بموں راکٹوں، میزائلوں، بمبار جہازوں سمیت بہت کچھ شامل ہوچکاہے ،یہ کمپنیاں زیادہ تر یہودیوں کی ہیں جو آج اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں پوری دنیا پر چھاچکے ہیں عالمی معیشت ان کے اشاروں پر چلتی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد انیس سو چھیالیس سے لے کرانیس سو انہتر تک امریکی بلکہ یہودی سرمایہ کاری باسٹھ ارب ڈالر سے بڑھ کر سات سو آٹھ ارب ڈالر ہوگئی تھی ،اب تو شاید یہ دگنا بھی ہوچکی ہوگی گویا پوری دنیا کی مجموعی سرمایہ کاری کا پینسٹھ فی صد حصہ امریکی پلس یہودی کے پاس چلاگیا ہے ۔
غریب اورپسماندہ ممالک کو دی جانے والی امداد کاجو سلسلہ چل نکلاہے یہ کوئی خداترسی اورانسان دوستی نہیں ہے بلکہ ان غریب اور پس ماندہ ممالک میں اپنی مارکیٹس پیداکرنا اور سرمائے کے آکٹوپس کو دنیا پر قابض کرنا ہے ۔
ویسے تو یہ اسلحہ ساز کمپنیاں ساری دنیا کواپنے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں اوراپنے ہتھیاروں کے لیے لوگوں کو لڑا کر مارکیٹ بناتے رہتے ہیں لیکن خاص طورپر مسلمان ممالک میں ان کی سرگرمیاں عروج پر ہیں کیوں کہ ایک تو مسلمان مذہب کے معاملے پرزیادہ جذباتی اورشدت پسند ہوتے ہیں۔
دوسرے ان میں فرقہ بندی کارحجان بہت ہے، چھوٹی چھوٹی فروعی باتوں کو لے کر ایک دوسرے کو مارتے کاٹتے رہتے ہیں، تیسرے یہ کہ خود کو خداکے لاڈلے سمجھ کر اور نرگسیت کاشکار ہوکر ساری دنیا کو غلط سمجھ رہے ہیں بلکہ اسی دنیا اورکائنات کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اورعلاوہ باقی سب کو خداکے سوتیلے بلکہ دشمن سمجھتے ہیں۔
عالم ہے فقط مومن جانبازکی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے
بلکہ کل ملاکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان بہت زیادہ سادہ اوربہت جلد جھانسے میں آکر شکار ہوجاتے ہیں جب کہ دوسری طرف یہ موت کے سوداگر نہایت ہی چالاک اورعیارہوچکے ہیں ان کے پاس ایسے ایسے دماغ اورتھنک ٹینک ہوتے ہیں جو پہلے آنے والے حالات کاادراک کرلیتے ہیں اوراس کے مطابق پالیسیاں بنالیتے ہیں ۔
ٹرمپ جب برسراقتدار آیا تو خدشہ تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ کیاکیادشمنی کرے گا کیوں کہ انتخابات کے دوران اس نے مسلمان دشمنی میں اچھا خاصا نام کمایا تھا لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ اس نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کاکیا اورکہا کہ دنیا میں ''امن''کاسرچشمہ اس زمین سے پھوٹاہے اورنتیجے میں سعودی عرب اورامارات نے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خرید لیا۔
یہ ٹرمپ نہیں بلکہ امریکا کے اصل حکمران ہتھیاروں کے سوداگر تھے جو ایران عرب دشمنی کو کیش کررہے تھے۔
تھوڑی دیر کے لیے فرض کریں اگر پاکستان نہ بنتا اوردونوں ممالک کے درمیان کشمیر کی ہڈی نہ ڈالی جاتی تو آج دونوں ممالک اپنے عوام کاپیٹ کاٹ کاٹ کر اسلحہ کے ڈھیر نہ لگائے ہوئے ہوتے اورپیداواری ممالک ہونے کے باعث آرام سے جیتے اوران کی ساری آمدنی اسلحہ سازوں کے پاس نہ جاتی۔